فلسطین کے سقوط کی کہانی بالتفصیل :

                عالمی صہیونی تنظیم سوئزر لینڈکے پال شہرمیں۱۸۹۷ء میںٹیوڈارہرزیل (Tuder Herzel)(۱۸۶۰-۱۹۰۴ء)کی قیادت میں،معرض وجودمیںآئی۔یہ شخص یہودی مجری رائٹرتھا۔اس تحریک کاواحدمقصدمغربی استعماری منصوبے کوبہ روئے کارلاناتھا۔پہلی جنگِ عظیم کے اختتام تک،اس کوکوئی خاطرخواہ کام یابی نہ مل سکی۔یہ خالص نسلی تحریک ہے ،جومذہبی قومی یہودی میراث کے پس منظروںاورپیش منظروںکی اساس پرقائم ہوئی تھی۔اس کام یابی کی واحدضمانت ،فلسطین میںعرب مسلمانوںکے وطنی حقوق کوسلب کرکے،ان کی جگہ یہودیوںکولابسانے میںکام یابی کاحصول ہے ۔

                صہیونی نظریے کی روح کے اعتبار سے، یہودیوںکے مختلف سیکولر،اشتراکی،مذہبی،ثقافتی،سیاسی اورلیبرل دھڑوںمیںکوئی فرق نہیں،سارے یہودی بالآخرصہیونی ہیں،جن کا واحدمقصد’’بلندتراہداف‘‘کاحصول ہے،یعنی فلسطین میںصہیونی ریاست کے تحت، سارے یہودیوںکاازدحام اورعربی فلسطینیوںکی خانمابربادی۔

برطانوی کرداراورصہیونی قبضہ:

                برطانوی سامراج نے ہی،صہیونی منصوبے کوبرپاکرنے کی ذمے داری اپنے سرلی تھی،اسی نے ۱۹۱۷ء میںوعدۂ بالفور(آرثر جیمسArthur James Balfour۱۸۴۸-۱۹۳۰ء برطانوی سیاست داں جوبرطانیہ کاوزیراعظم اوروزیرخارجہ رہاتھا)کااجراکیااورفلسطین میںیہودیوںکے لیے ،ایک قومی وطن کی تعمیرکااپنے آپ کوپابندعہدکیا،۱۹۱۸ء میں برطانوی سامراج کافلسطین پرقبضہ ہوا،اس وقت وہ اپنے اس وعدے کاپابندنہیں رہاکہ شریف حسین آزادومختارہوںگے اوریہاںانھی کاعمل دخل رہے گا،چناںچہ برطانوی سامراج نے مئی۱۹۱۶ء کے’’سایکس بیکو‘‘معاہدے کے تحت شام وعراق کواپنے اورفرانس کے درمیان تقسیم کرلیا،جس کی روسے برطانیہ نے فلسطین کوعالمی خطہ قراردینے کامنصوبہ بنایا،پھراس نے فلسطین کواپریل ۱۹۲۰ء کے ’’سان ریمو‘‘معاہدے کے تحت اپنے لیے خاص کرلیا۔فلسطین پراپنے اقتدارکے تحت اس نے وعدۂ ’’بالفور‘‘کوعملی جامہ پہنانے کی سوچی،جس کی قراردادلیگ آف نیشنس نے ۱۹۲۲ء میںپاس کردی۔

                فلسطین پراپنے قبضے کے عرصے(۱۹۱۸-۱۹۴۸ء) میں برطانیہ نے فلسطین کی طرف پوری دنیاسے یہودیوںکے ترک وطن کرکے آبسنے کے درورازے چوپٹ کھول دیے ۔چناںچہ ۱۹۱۸ء میںیہودیوںکی جوتعداد۵۵؍ہزارتھی وہ بڑھ کر۱۹۴۸ء میں۶؍ لاکھ ۳۰؍ ہزارہوگئی،یعنی کل آبادی ۸ ؍فی صدکے تناسب سے بڑھ کر۳۱؍فی صدکے تناسب تک پہنچ گئی۔

                برطانیہ نے فلسطین کی زمین میں بھی ان کے حصے میں اضافہ کردیا۔پہلے انہیں فلسطین کی زمین کا۲؍فی صدحصہ ملاہواتھااب ـ۷,۶فی صدحصہ مل گیا۔یہ زمینیں یہودیوںکوبرطانوی حکومت کی طرف سے ملی تھیں،یاغیرفلسطینی ہاتھوںسے حاصل ہوئی تھیں۔۳۰؍سال کی طویل مدت تک فلسطینی مسلمان حالات کی ساری ستم ظریفیوںکے باوجود،اپنی مٹی پرڈٹے رہے،وہی یہاںکی غالب اکثریت رہے،یعنی ان کاتناسب ۶۹؍ فی صدرہااوروہ زمین کے اکثرحصے۳, ۹۳ فی صدکے مالک رہے ؛لیکن برطانوی استعمارکی تاییدوحمایت سے یہودیوںنے اپنے اقتصادی ،سیاسی،تعلیمی،عسکری اوراجتماعی اداروںکوخوب مستحکم کرلیا۔۱۹۴۸ء تک وہ ۲۹۲کالونیاںتعمیرکرچکے تھے۔۷۰ہزارسپاہیوںپرمشتمل اپنی عسکری طاقت ترتیب دے کر،اپنی ریاست کے اعلان کی پوزیشن میں آچکے تھے۔

فلسطینیوں کی مزاحمت کا آغاز:

                باوجودے کہ فلسطین کے خلاف سازش،فلسطینی عوام کی صلاحیتوںسے کہیںزیادہ بڑھی ہوئی تھی؛ ـلیکن فلسطینیوںنے برطانوی قبضے اورصہیونی منصوبے کویکسر مستردکرتے ہوئے آزادی کامطالبہ کیا۔الحاج امین الحسینیؒ ۱۳۱۱ھ۱۸۹۳ء-۱۳۹۴ھ۱۹۷۴ء کی سربراہی میںقومی وطنی دھارے یک جٹ ہوکرعوامی،سیاسی تحریکات اورزبردست انقلابی مساعی میں تبدیل ہوگئے؛چناںچہ ۱۹۲۰ء میں’’براق‘‘انقلابی مظاہرے اور۱۹۳۳ء میںاحتجاجی مظاہرے برپاہوئے ،نیزمجاہدکبیرعزالدین قسّام ۱۳۰۰ھ/۱۸۸۲ء -۱۳۵۴ھ/۱۹۳۵ء کی قیادت میںجہادی تحریک کاآغازہوااورکفِّ احضر(سبزہتھیلی) اورجہادِمقدس کی تنظیم کی اساس پڑی۔

                ۱۹۳۶-۱۹۳۹ء کی زبردست انقلابی تحریک کے نتیجے میں،برطانیہ کواپنے کتابِ ابیض (وہائٹ پیپر)بابت مئی ۱۹۳۹ء میںدس سال کے اندرفلسطینی ریاست کے قیام اورپانچ سال بعدفلسطین کی زمینوںکویہودیوںکے ہاتھوںبیچنے،نیزفلسطین کی طرف یہودیوںکی مہاجرت کوروک دینے کاوعدہ کرناپڑا۔

بر طانیہ کی وعدہ خلافی :

                لیکن ۱۹۴۵ء کے اواخرمیںبرطانیہ اپنے وعدے پرقائم نہ رہ سکااورامریکہ کی سرپرستی میںصہیونی منصوبہ،پھربہ روئے کارآنے لگا۔

اقوام ِمتحدہ کی ظالمانہ قرار داد اورفلسطین کی تقسیم کا اعلان :

                نومبر۱۹۴۷ء میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے،فلسطین کودوریاستوںعربی اوریہودی میںتقسیم کردیے جانے کی قراردادنمبر(۱۸۱) پاس کی۔یہودی ریاست کوفلسطین کی ۵۴ فی صداراضی،جب کہ عربی ریاست کو۴۵ فی صداراضی دیے جانے اورایک فی صداراضی،یعنی بیت المقدس کے خطے کووقتی طورپر،عالمی خطہ قراردیے جانے کی تجویز پاس کی گئی۔

                جنرل اسمبلی کی قراردادیں،اقوام متحدہ کے چارٹرکی روسے بھی،عالمی برادری کے لیے واجب العمل نہیںہوتیں،علاوہ ازیںیہ قراردادتواُس اصول کے بھی خلاف ہے،جس پراقوام متحدہ کی بنیادہے،یعنی یہ کہ اقوام ِعالم کوآزادی وخودمختاری کامکمل حق ہوگا،نیز فلسطینی قوم سے،جس کااس مسئلے سے راست تعلق تھا،کسی طرح کامشورہ کیاگیااورنہ اس سے رائے لی گئی۔

                یہ قرارداد،اس لیے بھی ظالمانہ اورطرف دارانہ تھی کہ اس کی روسے،آفاقی یہودی اقلیت کو،جودوسری جگہوںسے ترکِ وطن کرکے فلسطین میںزبردستی آبسی تھی،فلسطین کی زمین کابڑااوربہترحصہ دے دیاگیاتھااوراصل مکینوں،یعنی فلسطینیوںکوفلسطین کاچھوٹااوراس کی زمین کااکثرناقص حصہ دیاجاناتجویزکیاگیاتھا۔

غاصب اورناجائز ریاست کے قیام کااعلان(۱)، فلسطین پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے :

                ۱۴؍ مئی ۱۹۴۸ء کوصہیونیوںنے اپنی ریاست’’اسرائیل‘‘کے قیام کااعلان کردیا۔اس موقع سے برسرتصادم عربی افواج کوانھوںنے شکست دے دی؛کیوںکہ یہ فوجیںبدنظمی،ناتجربہ کاری اورقیادت کی ناکامی کااعلیٰ نمونہ تھیں۔ان میںسے کچھ افواج استعمارکے زیراثرتھیںاوراس کے افکاروخیالات کی مؤید۔صہیونی فلسطین کی ۷۷ فی صداراضی پرقابض ہوگئے ۔انھوںنے ۸ـلاکھ فلسطینیوںکو،ان کے گھروںسے کھدیڑدیااور۹لاکھ ۲۵ہزاریہودیوںپرمشتمل اپنی ریاست ،فلسطینیوںسے چھینی گئی زمین پرقائم کرلی۔مقبوضہ علاقے میںموجود۵۸۵ فلسطینی گاؤںکوصفحۂ ہستی سے مٹادیااور۳۴ مقتل انھوںنے قائم کیے،جہاں فلسطینیوںکوبھیڑبکریوںکی طرح ذبح کیاگیا۔فلسطین کی باقی ماندہ زمین،یعنی مغربی کنارے کی ۵۸۷۸ مربع کلومیٹر کی زمین کواردن نے باقاعدہ اپنی ریاست کاحصہ بنالیا،جب کہ غزہ پٹی کی ۳۶۳ مربع کلومیٹرکی زمین کومصرنے اپنے زیرانتظام کرلیا۔


(۱)دردر کی ٹھوکریں کھاتے رہنے کے بعدیہودیوں نے اورمسلمان دشمن مختلف النظریات والمذاہب قوموں اورافراد کے تعاون سے،جو اُنھوں نے (یہودیوں) اپنی چال بازی،مکاری،عیاری اورجوڑ توڑ کی بھیانک اورمجرمانہ صلاحیتوںکے ذریعے حاصل کی،کس طرح فلسطین میں زبر دستی اورظلم وجبروناانصافی کے کے تاریخ عالم کے تمام ریگارڈوں کو توڑتے ہوئے،اپنی جگہ بنالی اورپھر اپنی غاصبانہ ریاست قائم کرلی اوربالآ خر فلسطین پر قبضہ کرکے،اصل مکینوںیعنی فلسطینیوںکو،اجنبی غریب الدیاربنادیااور لاکھوں کو دیس سے نکال کراوروہاں رہنے پر اصرارکرنے والوںپر،کس طرح ظلم کے پہاڑ توڑنے کی راہ ہم وار ؟ان حقائق کے تسلسل کومختصرا جاننے کے لئے،ذیل کی سطریںپڑھناکافی ہے،توقع ہے کہ اس متن میں ذکر کردہ تفصیل کا اختصارقاری کے ذہن میں آسانی سے سمٹ آئے گا۔

                حال آںکہ یہودونصاری میں تاریخ کے اکثر ادوار میں باہم نہ صرف فکری،بل کہ ہر سطح پر تصادم کی کیفیت جاری رہی،لیکن مسلمانوں سے چو ںکہ یہودیوں کو دیرینہ پرخاش رہی تھی،اس لئے صلیبی جنگوں میں ،یہودیوں نے کھل کرعیسائیں کا ساتھ دیااورمسلمانوں

کے خلاف ،عیسائیں کے شانہ بشانہ لڑتے رہے،لیکن شیر اسلام حضرت صلاح الدین ایوبی ؒنے عیسائیں ،رومیوں اوریہودیوںکوعبرتناک شکست سے دوچار کیااوریہودیوں کو بھی عرب ممالک سے نکلنا پڑا،اوریہ روس، جرمن، ہالینڈ،انگلینڈاورفرانس منتقل ہوگئے۔ان کی اکثریت خصوصا امیر یہودی بر طانیہ میںمقیم ہوئے اوروہاں کی اقتصادیات،نائٹو،ڈیوکی محلاتی سیاست میں دخیل ہوئے،تاہم عوام کے غم وغصہ کی تاب نہ لاتے ہوئی۱۲۹۰ء میں برطانیہ سے بدرہوئے۔

………………………………


                فرانس پہنچے وہاں سے ۱۳۰۶ء میں نکالے گئے۔بلجیم میں جمع ہوئے تو ۱۳۷۰ء میںچلتا کیے گئے، اس کے بعد انہیں کہیں مستقل ٹھکانہ میسر نہ آیا۔ چناں چہ چیکوسلواکیہ سے ۱۳۸۰ء، ہالینڈ سے ۱۴۹۴ء، روس سے ۱۵۱۰ء، اٹلی سے ۱۵۴۰ء اور جرمنی سے بھی ۱۵۵۱ء میں دیس نکالا ملا۔ یہ صدیوں خانہ بدوشوں کی طرح اِدھر اُدھر پھرتے رہے آخرکیوں؟ صرف اورصرف اِس لیے کہ یہ خود کو دنیا کی افضل ترین قوم سمجھتے تھے، دیگر معاشروں میں ضم ہونا انہیں منظور نہ تھا۔ مسلمانوں کے تو یہ ازلی دشمن تھے اور چوں کہ اس دور میں عرب ایک ترقی یافتہ، بہادر اور فاتح قوم تھے، اِس لیے ان کو خوف سے کوئی بھی ملک انہیں ٹکنے نہیں دیتا تھا۔ لیکن جوں ہی مسلمانوں کا زوال شروع ہوا یہودی برطانیہ، فرانس، روس اور امریکہ میں قدم جماتے گئے۔

                صہیونی تنظیم کے قیام کا پہلا قدم ’’روم اور یروشلم‘‘ نامی کتاب کو قرار دیا جانا چاہیے، جسے ایک یہودی منصف موسیٰ ھیس نے ۱۸۶۲ء میں لکھا اور میں بھٹکتے یہودیوں کی قومیت کا احساس دلایا، انہیں مجتمع کرنے اور دوسری اقوام کے ساتھ مل جل کر رہنے کی ترغیب دی۔ دوسرا قدم یقینا روسی یہودی منصف لیوپنسکر کی کتاب ’’خود کارنجات‘‘ کا ہے جو ۱۸۸۲ء میں شائع ہوئی ۔ اس روسی یہودی نے اِسی پر اکتفا نہیں کیا؛ بل کہ اپنی بھرپور کاوشوں سے ۱۸۸۴ء میں جرمنی میں یہودی نیشنل کانفرنس منعقد کی، جس میں الگ وطن کے لیے متعدد ضابطے ترتیب دیے گئے۔ ان ضابطوں میں دوسرے معاشروں میں مل جل کر رہنا، نئی نسل کو سائنسی تعلیم اور حکومتوں میں اچھی اسامیاں حاصل کرنا اور باعزت مقام پیدا کرنے پر زور دیا گیا۔ اِس کانفرنس کے نتیجے میں ہر ملک، ہر شہر، جہاں یہودی آباد تھے جماعتیں اور لیگیں بننے لگیں۔ روس میں ۱۸۸۷ء میں ’’صہیون محبان‘‘ پارٹی وجود میں آئی، اس کا تو پیغام ہی یہ تھا کہ یہودی زیادہ سے زیادہ فلسطین میں آباد ہوں؛ تاکہ وہاں مستقبل میں اپنا وطن قائم کیا ہے۔ اس کے تقریباً ۹ برس بعد ۱۸۹۶ء میں تھیوڈورہرزل نامی یہودی نے ’’یہودی ریاست‘‘ کے عنوان سے کتاب لکھی جیسے روس، امریکہ اور یورپ میں اس قدر مقبولیت حاصل ہوئی کہ اس کے کئی ایڈیشن نکلے اور تھیوڈورہرزل کو عظیم رہنما اور بڑے بڑے القاب سے نوازا گیا۔ حقیقتاً یہی وہ پہلا شخص تھا جس نے یہودی ریاست کا واضح خاکہ پیش کیا ور تمام عواقب وعوامل پر تفصیلاً بحث کی۔ جب تھیوڈورہرزل کو انتہائی پذیرائی ملی، تو اس نے یہودیوں کے بین الاقوامی کنونشن کے لیے راہ ہموار کی اور بالآخر ۱۸۹۷ء میں سوئٹزرلینڈ کے شہر ’’باسل‘‘ میں یہودیوں کی پہلی عالمی کانفرنس کے متعدد اجلاس ہوئے جس میں یہودیوں کی ایک بین الاقومی تنظیم تشکیل دی گئی جس کا نام یروشلم کے نزدیک ایک پہاڑی صہیون کے نام پر ’’صہیونیت‘‘ تجویز کیا گیا۔ صہیونیت کے بانی تھیوڈورہرزل نے اس تنظیم کے لیے بہت سے پروٹوکول بھی بنائے، ایک فنڈ قائم کیا گیا جس کا نگراں یورپ کا بہت بڑا یہودی بینک  کار لارڈ روئس چائلڈ مقرر ہوا۔ چائلڈ نے ہر یہودی پہ اپنی آمدنی کا ۲ فی صد یہودی بینکوں میں جمع کرانا لازم ٹھہرایا۔ بینکوں نے سود کا چکر چلایا اور یوں چند سالوں میں ہی صہیونیت کا فنڈاربوں میں جا پہنچا۔

                صہیونیت کو خطیر رقم میسر آئی، تو اسے وطن خریدنے کی سوجھی چناں چہ ۱۹۰۲ء میں ہرزل کی سربراہی میں ایک وفد سلطان عبد الحمید سے فلسطین میں اسرائیلی ریاست قائم کرنے کے لیے ترکی پہنچا؛ لیکن سلطان نے ان کی ہر بڑی سے بڑی پیش کش کو ٹھکرادیا۔ تاہم یہ فتنہ گر آرام سے نہیں بیٹھے، انہوں نے عربوں اور ترکوں کو باہم ٹکرانے اور برطانیہ سے مدد کا منصوبہ تیار کیا۔ پہلی جنگِ عظیم میں ترکی نے جرمی کا ساتھ دیا؛لیکن لارنس نے عربوں کو جھوٹے وعدوں کے ذریعہ برطانیہ کی مدد پہ آمادہ کرلیا۔ ایک عیاریہودی کیمسٹ ڈاکٹر ویزمین نے اپنی بارودی دریافت کے بعد بدلے برطانیہ کو زیراحسان کیا، جس کے نتیجے میں ’’اعلان بالفور‘‘ مرتب ہوا، جس کی توثیق فروری ۱۹۱۸ء میں فرانس، مئی ۱۹۱۸ء میں اٹلی اور ۱۸۲۲ء میں امریکہ نے کردی۔اِس طرح گویا پوری مغربی دنیا، یہود کی پشت پناہ بن گئی اور یہی وہ دور ہے جب یہودیوں کے ایک خفیہ اجلاس میں باقاعدہ قرار داد کے ذریعے، یہ طے پایا کہ ’’چوں کہ یہ دنیا اور اس کی ہرشے خدا کی ہے اور خدا صرف بنی اسرائیل کا ہے، اس لیے اس دنیامیں صرف ہم کو حکم رانی کا حق ہے۔‘‘

……………………………………………………………………………


                یہاں ذرا لمحہ بھر کے لیے ضرور رُکیے اور سوچئے کہ ایک ایسی خانہ بہ دوش قوم جس کا کوئی مالک ہی نہ تھا، وہ اس وقت کی مضبوط ترین اقوام کی موجودگی میں دنیا پہ حکم رانی کی قرار داد پاس کررہی ہے۔ مزید یہ کہ اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے چند’’خودکار اسکیمیں‘‘ بھی بنائی گئیں۔ مثلاً عالمی بینک کاری پر مکمل کنٹرول؛ ذرائع نشر واشاعت، صحافت پر قبضہ؛ اپنی مرضی کی خبریں دینا اورمن پسند لٹریچر کی تشہیر؛ مذاہب کے برعکس نئے تخریبی فرقوں کی تشکیل؛ جہاد کو جنگل کا قانون اور انسان دشمن جذبہ قرار دیا؛ کلیدی عہدوں پر فائز ہونا اور صنعت وتجارت پہ اپنی مکمل اجارہ داری ۔ اگر چہ یہ قرار دادیں ۱۹۰۱ئء اور ۱۹۰۳ء میں تیار ہوئیں، تاہم تقریباً پندرہ سال بعد ۱۹۱۷ء میں منظرعام پر آئیں جب روس میں سرخ انقلاب آیا۔جس کی قیادت لینن اور ٹرائیگی نے جو دونوں یہودی تھے۔ صرف یہی نہیں کارل مارکس بھی کٹر یہودی تھا اور اسٹالن بھی یہود نواز تھا۔ ان سب نے مل کر کمیونزم کی آڑ میں، جس طرح روسی مسلمانوں پر مظالم ڈھائے، اس کی مثال نہیں ملتی۔ عالمی بساط پہ یہود ونصاریٰ ، روس اور اُن کے حواری جھوٹ، مکر وفرویب اور انسانیت کی تذلیل کا کھیل کھیلتے رہے اور بالآخر جنرل اسمبلی میں ۱۴؍ مئی ۱۹۴۸ء کو چھ بک کر گیارہ منٹ پر امریکی اعلان کردیا۔ اِس کے فورًا بعد روس نے بھی تسلیم کرلیا اور یوں فلسطین کے قلب میں ایک سفید جھنڈا اُبھرا، جس پر چھ کونوں والا نیلا تارا بنا ہوا تھا۔ بے شک یہ عالمی صہونیت کی پروپیگنڈہ مشینری کا کارنامہ تھا، جس میں دنیا کے ہرملک، ہر شہر مین ہر یہودی مردوزن نے عیاریوں، مکاریوں اور انسانیت سے بعید ترین مکروہ کردار اداکیا، تب ہی تو اسرائیل وجود میں آیا۔ اسرائیل کا یہ شجر خبیث سامراجیوں کی شہ پہ جب سے لگا ہے تب سے اب تک ، لاکھوں عربوں کا خون پی چکا ہے۔ طرفہ تماشا یہ کہ یہودی ۱۹۴۸ء والے اسرائیل پہ بھی قانع نہیں؛ بل کہ وہ تو دنیا پہ حکم رانی کے پہلے مرحلے کے لیے، عظیم تراسرائیل کے مجوزہ خاکے کے مطابق، صحراے سینا،، نہر سویز کے دونوں کناری بہ شمول پورٹ سعید، قاہرہ، خلیج سویز اور بحیرہ احمر کا کچھ حصہ شمالی حجاز، نجد مع مدینہ ، کویت، عراق، اردن، شام، لبنان اور ترکی کے جنوبی حصے، کوہِ ارارات پر نیلاتارا چمکانا چاہتے ہیں۔

                خود کو مہذب دنیا کی مہذب اقوام کہلانے والوں نے، فلسطین کو تقسیم کرنے اور اسرائیل قائم کرنے میں جس عجلت، ڈھٹائی اور بے انصافیوں کا مظاہرہ کیا، یقینا قیامت تک ایسی مثال ملناناممکن رہے گا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے فیصلے، خود اس کے دستور کے مطابق ان کا نفاذ لازم نہیں آتا، جب کہ اس مخصوص فیصلے میں تو حالت یہ تھی کہ خود اس ادارے کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی کی گئی اور عوام سے ان کی آزادی اور خود اختیاری کا حق چھین لیا گیا۔ اس غیر منصفانہ فیصلے کے مطابق، فلسطینیوں کی اکثریت کو نظر انداز کرکے یہودی اقلیت کو زمین کا۵۴ فی صد حصہ عطا کیا گیا، جب کہ ان کے پاس اس وقت محض ۶؍۵ فی صد زمین تھی اور وہ کل آبادی پر ۳۱؍ فی صد تھے۔تقسیم فلسطین کے اعلان کے ساتھ ہی، جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے۔ قلیل تعداد میں خود ساختہ ’’جیش الانقاذ‘‘ اور فلسطینی فوج ’’الجہاد للقدس‘‘ نے پہلے چھ ماہ بہت کامیابیاں حاصل کیں اور عرب ممالک کی طرف سے دیے گئے ناقص اسلحے کے باوجود، ۸۲ فی صد رقبہ بچا لیا۔ صرف مصرکی جماعت ’’الاخوان المسلمون‘‘ نے ہی فلسطین کے تحفظ  کے لیے بہترین کوشش کی۔ ان کے رہنما مرشد حسن البناء نے اکتوبر ۱۹۴۸ء میں ہزاروں جاں بازوں کا دستہ روانہ کیا، ان میں سے گنتی کے مجاہدین مصری حکومت کی پابندیوں سے بچ کر پہنچے اور میدان جنگ میں انتہائی بہادری سے لڑے۔ سیکولر مصری حکومت نے لڑائی کے دوران ہی ، بہت سے مجاہدین کو گرفتار کرکے، جیلوں میں ڈال اور اخوان المسلمون پر سخت پابندی لگادی اور۱۹۴۸ء میں اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کے شرم ناک معاہدے سے ، چندروز پہلے قائداخوان حسن البناء کو شہید کردیا۔ فرعونوں کی سرزمین میں فرعونیت سے نسبت جوڑنے والوں سے، نہ تب خیر کی امید تھی نہ اب ہے۔ (اسحاق طور: فلسطین اور قبلۂ اول کی آزادی ، سہ روزہ دعوت، نئی دہلی، شمارہ ۸۴، جلد ۵۵)

اقوام متحدہ کا ایک اور گھناؤنا کردار، اسرائیل کی رکنیت تسلیم کرنا :

                دوسری طرف اقوامِ متحدہ نے اس شرط کے ساتھ،اسرائیل کواقوام متحدہ کارکن تسلیم کرلیاکہ وہ خانمابربادفلسطینیوںکودوبارہ اپنے اپنے گھروںکوواپس آجانے کی اجازت دے دے گا؛ لیکن اسرائیل کویہ بات نہ مانناتھی اس نے نہ مانی۔

جمال عبد الناصر کی مجرمانہ خاموشی :

                ۱۹۴۸-۱۹۶۷ء کے درمیان کاعرصہ’’جنگ کی قومیت‘‘اور’’اتحادہی راہ آزادی ہے‘‘کاعرصہ رہا۔جمال عبدالناصر(۱۹۱۸-۱۹۷۰ء) کی قیادت میںعربی حکومتوںنے اسرائیل سے تصادم کی طرف پیش رفت کی،قومی فلسطینی قیادت کاکرداراس اثنامیںپس گردی کاشکاررہا۔عربی حکومتوںکے ہاں مؤثرطریقۂ کار،سنجیدگی اوراسرائیل سے فیصلہ کن جنگ لڑنے کے تعلق سے،سچے ارادے اورپکی عزیمت کی کمی تھی۔حکمت ِعملی اورمرحلہ پسندی کے تحت،فلسطینی مزاحمت بھی شکست وریخت کاشکارتھی،چناںچہ اس کے پاس کوئی جامع منصوبہ اورحکمتِ عملی نہ تھی،اس نے صرف عوامی جذبات کوبھڑکانے کاکام کیااوراسی میںتمام ترانہماک کی وجہ سے،اس نے جنگ کی کسی تیاری کی بھی نہ سوچی۔جب کہ نوخیزاسرائیلی ریاست ،اپنے دست وبازوکومسلسل مضبوط کیے جارہی تھی۔

عوامی مزاحمت اورتنظیم آزادی فلسطین:

                ۱۹۶۴ء میں،احمدشقیری کی صدارت میںتنظیمِ آزادی فلسطین کی بنیادپڑی۔اس کی اساس گزاری میںجمال عبدالناصر نے بہ راہ راست مدددی تھی؛ کیوںکہ انھیںیہ اندیشہ تھاکہ قضیۂ فلسطین کی زمام اب ان کے ہاتھ سے نکلی جارہی ہے؛ کیوںکہ فلسطین میںان دنوںخفیہ تحریکوںاورسرگرم تنظیموںکی باڑھ سی آئی تھی،خصوصاً ’’فتح ‘‘تحریک کابڑازورتھا،جو۱۹۵۷ء میںمعرضِ وجودمیںآئی تھی۔تنظیمِ آزادی فلسطین کااصل ہدف ۱۹۴۸ء میںصہیونیوںکے ذریعے قبضہ کردہ زمین کی بازیابی تھی۔

                اس کے چارٹرمیںآزادی کی واحدراہ کے طورپر،مسلح جدوجہدپرہی زوردیاگیاتھا۔فلسطینیوںنے عام طورپراس تنظیم کوخوش آمدیدکہا؛کیوںکہ عرصے کے بعدیہ قومی فلسطینی وجودکے دورِافق پر،امیدکی ایک کرن بن کرطلوع ہوئی تھی۔۱۹۶۸ء میںساری رضاکارانہ فلسطینی تنظیمیں،جن میں سرِفہرست’’فتح‘‘تحریک تھی،تنظیم آزادی فلسطین میں ضم ہوگئیں۔’’فتح‘‘کے سربراہ یاسرعرفات نے فروری ۱۹۶۹ء سے تنظیم کی قیادت کی۔۱۹۷۴ء میںعربی حکومتوںنے اس تنظیم کوفلسطینیوںکی واحدقانونی نمایندہ تنظیم تسلیم کرلیا۔اسی سال اقوام متحدہ میں،اس کونگراںرکن کے طورپرنمایندگی دی گئی۔

                جون ۱۹۶۷ء کی عرب اسرائیل جنگ میں عربی حکومتوںکوزبردست ہزیمت سے دوچارہوناپڑا۔چندہی روزمیںفلسطین کے باقی ماندہ حصوںپربھی اسرائیل نے قبضہ کرلیا۔مغربی کنارہ جس میں قدس شریف داخل ہے،نیزغزہ پٹی،دونوںاسرائیل کے قبضے میںآگئے۔۳لاکھ۳۰ہزارفلسطینی خانمابربادہوگئے،نہ صرف یہ ہوا؛ بل کہ سیریاکے جنگی اہمیت کے حامل علاقہ گولان کی پہاڑی پربھی اسرائیل نے قبضہ کرلیا،جس کارقبہ ۱۱۵۰ مربع کلومیٹرپرپھیلاہواہے،اسی طرح مصرکے اہم خطے،صحرائے سیناپرقبضہ کرلیا،جس کارقبہ ۶۱۱۹۸مربع کلومیٹرپرمحیط ہے ۔

فلسطین کی یہودی کاری اورفلسطینی پناہ گزینوںکامسئلہ:

                صہیونی ریاست نے فلسطینی زمینوںکوبہت زوروشورسے یہودیانے کاعمل نہ صرف جاری رکھا؛بل کہ فلسطین کی اسلامی پہچان اوراس کے تہذیبی نقوش کومکمل طورپرمٹادینے کی کوشش کی،چناںچہ اس نے ۱۹۴۸ء میںغصب کردہ زمینوںمیں ۹۷ فی صداراضی کوہتھیالیا،جن میںملک بدرکردیے جانے والے فلسطینوںکی جایدادواملاک اوراسلامی اوقاف کی املاک کے ساتھ وہاں رہ رہے اکثرعربوںکی جایدادبھی شامل تھی۔جب کہ ۱۹۶۷ء میں قبضہ کردہ زمینوںمیں سے مغربی کنارے کی ۶۰ فی صدزمینوںکواسرائیل نے ضبط کرکے وہاں۱۹۲کالونیاںبناڈالیں،اسی طرح غزہ پٹی کی ۳۰فی صداراضی کوہتھیاکراس پر۱۴کالونیاںتعمیرکرلیں۔صہیونی ریاست نے جہاںخانمابربادپناہ گزیںفلسطینیوںپر،فلسطین واپسی کادروازہ یکسربندرکھا،وہیںدنیاکے کونے کونے سے یہودیوںکونہ صرف فلسطین میںآبسنے کی ترغیب دی؛ بل کہ ہرطرح کی سہولتیںبہم پہنچائیں۔چناںچہ ۱۹۴۹ء اور۲۰۰۰ء کے عرصے میں ۲۸لاکھ یہودیوںنے فلسطین کومہاجرت کی،جس سے ریاست اسرائیل میںیہودیوںکی آبادی تقریباً ۵۰لاکھ ہوگئی۔

القدس شہر میں یہود کی اکثریت:

                صہیونیوںنے شہرقدس کی یہودی کاری پرپورازورصرف کیا،چناںچہ انھوںنے اس کے ۸۶فی صدحصے کوہتھیاکراس کویہودی مہاجرین سے پاٹ دیا۔۲۰۰۰ء کی مردم شماری کے مطابق،شہرقدس میںصرف ۲لاکھ فلسطینی ہیں،جب کہ یہودیوںکی تعداد۴لاکھ۵۰ہزارہے ۔مسجداقصیٰ کے علاقے میں،یعنی مشرقی شہرقدس میںتقریباً۲ لاکھ یہودیوںکوبساکر،اس کویہودی کالونیوںسے گھیردیاہے،اس طرح یہ خطہ اسلامی عربی دائرے سے بالکلیہ الگ تھلگ ہوگیاہے ۔یہودیوںنے شہرقدس کوصہیونی ریاست کادائمی دارالحکومت اعلان کردیاہے۔ صہیونی یہودیوںکی مسجداقصیٰ پرقبضہ کرنے کی بھی کوشش رہی،چناںچہ دیوار برّاق کے نام سے موسوم مسجداقصیٰ کی مغربی دیوارکوانھوںنے اپنے قبضے میں کرلیاہے،اس کے متصل’’مغاربہ‘‘محلے کومٹاکراس کی اراضی کوضبط کرکے،اب تک وہاں پرمسجداقصیٰ کے نیچے کھدائی کے دس مرحلے،انھوںنے مکمل کرلیے ہیں۔چارایسی سرنگیں زیرمسجداقصیٰ کھودڈالی ہیں،جن کی وجہ سے کسی بھی لمحہ مسجدکے منہدم ہوجانے کاخطرہ پیداہوگیاہے۔۲۵یہودی تنظیمیںمسجداقصیٰ کومسمارکرکے،اس کی جگہ پریہودی معبدتعمیرکرنے کے لیے،سرگرم عمل ہیں۔۱۹۶۷ء سے ۱۹۹۸ء کے عرصے میںمسجداقصیٰ کونقصان پہنچانے والی۱۱۲سے زیادہ کارروائیاںصہیونیوںنے انجام دی ہیں،جن میں سے ۷۲ کارروائیاں۱۹۹۳ء کے معاہدۂ اُوسلوکے زیرعمل لائی گئی ہیں۔مشہورترین ظالمانہ کارروائی جومسجداقصیٰ کے خلاف یہودیوںنے انجام دی،وہ ۲۱؍اگست ۱۹۶۹ء کی کارروائی تھی۔

فلسطینی پناہ گزینوں کے ساتھ ظلم وزیادتی :

                فلسطینی پناہ گزینوںکوبیرونِ فلسطین کسی اورملک یاملکوںمیں بسانے کے حوالے سے ،اب تک کے ۲۴۳ منصوبوںکومستردکرتے ہوئے،انھوںنے اپنے وطن واپس آکردوبارہ بودوباش اختیارکرنے کے،اپنے جائز حق پرجمے رہنے کے پختہ اورغیرمتزلزل عزم کامسلسل اظہارکیاہے ۔لائق ذکرہے کہ اقوام متحدہ نے ۱۱۰ سے زائدقراردادیں،فلسطینیوںکی اپنے وطن کوواپسی کے حق کے تعلق پاس کی ہیں؛لیکن صہیونیوںنے ان میں سے ہرایک کوپائے حقارت سے ٹھکرادیاہے؛کیوںکہ بڑے ممالک نے اس سلسلے میںکوئی سنجیدگی دکھائی نہ عالمی برادری نے صہیونی ریاست کواس حوالے سے مجبورکیاکہ اس کوانھیں ماننے کے سواکوئی چارۂ کار نہ ہو۔

                تقریباً ۵۰لاکھ فلسطینی پناہ گزینی،کس مپرسی اورفقروفاقے کی زندگی گزاررہے ہیں۔یہ تعدادان ۱۰لاکھ باشندگانِ مغربی کنارہ اورغزہ پٹی کے علاوہ ہے،جنھیں اپنے گھروںکو،اسرائیل کی طرف سے لوٹنے کی اجازت نہیں۔یادرہے کہ فلسطینی پناہ گزینوںکی اپنے گھروںکوواپسی بیسویں صدی اوراب اکیسویں صدی کا سب سے دیرینہ ،درازاورتکلیف دہ انسانی مسئلہ ہے،جس سے انسانی برادری بڑے بڑے خوش نمادعووںکے باوجود،چپ سادھے اورآنکھیںموندے بیٹھی ہوئی ہے ۔

                ۱۹۴۹ء سے بیسویں صدی کی ساتویں دہائی تک اقوام متحدہ ،مسئلہ فلسطین کو،پناہ گزینوںکامسئلہ باورکرتی رہی ہے اوراسی حیثیت سے اس سے نمٹتی رہی ہے ۔۱۹۷۴ء سے اس نے اپنی جنرل اسمبلی سے بھاری اکثریت سے قراردادیں پاس کیں،جن میں فلسطینیوںکوخودمختاری کاحق دیاگیاہے اورغصب کردہ حقوق کی بازیابی کے لیے مسلح جدوجہدکے قانونی جوازکوتسلیم کرتے ہوئے،صہیونیت کونسلی امتیازکی صورتوںمیں سے ایک صورت تسلیم کیاگیاہے ۔ساتھ ہی فلسطینیوںکی اپنے وطن کوواپسی کے حق کو،ناقابل تبدیل حق ماناگیاہے؛لیکن ریاست ہائے متحدہ امریکہ اِن قراردادوںکی معنویت کوختم کردینے ،ان سے اسرائیل کی طرف سے پیہم چشم پوشی کیے رہنے اوران میں سے ہرایک کوویٹوپاورکے ذریعے برپانہ ہونے دینے کی،راہ پرچلتاہے۔دوسری طرف ریاست ہائے متحدہ اورعالمی برادری،نہ صرف صہیونی ریاست کے قیام؛ بل کہ اس کے استحکام کے لیے،ہرطرح کاقانونی جتن کرتی رہتی ہے ،جس سے عالمی برادری کے دوہرے پن اورامریکہ کے نفاق اوردوغلے پن کابہ خوبی اندازہ ہوتاہے۔

فلسطینی مسلمانوں کی مزاحمت کو کچلنے کا مرحلہ وار آغاز:

                ۱۹۶۷ء تا۱۹۷۰ء کاعرصہ رضاکارانہ عمل اورفلسطینی مزاحمت کے تعلق سے سنہرادورتھا؛ ـلیکن ۱۹۷۰ء سے فلسطینی مزاحمت کواردن کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں رہی۔اس کے بعدصرف لبنان کے ذریعے اپنی کارروائیاں انجام دینے کی راہ اُس کے لیے کھلی رہ گئی تھی؛لیکن ۱۹۷۵ تا۱۹۹۰ء کی مدت میں لبنان کی خانہ جنگی کے دوران،فلسطینی مزاحمت کووہاں بھی لوہے کے چنے چبانے پڑے تھے؛کیوںکہ اس کوباربارنشانہ بنایاگیااوراس کی بیخ کنی کی پیہم کوششیں کی گئیں۔                 ۱۹۷۸ء میںصہیونی ریاست کی طرف سے جنوبی لبنان پرحملے اورقبضے،پھر۱۹۸۲ء میں اس کی طرف سے کارندہ سیکورٹی پٹی کے قیام کی وجہ سے،مزاحمت کااسٹرکچربری طرح تباہ ہوگیا،بالآخرتنظیم آزادی فلسطین کولبنان سے اپنے سپاہیوںکونکال لیناپڑا۔اس طرح پہلی باریہ ہواکہ فلسطینی مزاحمت کے لیے ساری صہیونی سرحدیں مسدودہوگئیں