فلسطین کی تحریکِ مزاحمت کو سب سے زیادہ نقصان عرب ممالک نے پہنچایا :

                بالعموم فلسطینی تحریک انقلاب کواپنے عرب برادرملکوںکی طرف سے بڑی مخالفت کاسامنارہا،جس کی وجہ سے اس کی توانائیوںکاضیاع ہوتارہااورعربی حکومتوںکے ساتھ خون ریز تصادم کی وجہ سے،جانی خسارے سے بھی دوچارہوناپڑا۔اِن عربی حکومتوںنے تحریکِ انقلاب کوسِدھانے ،اپنے کنٹرول میں لینے،بہ جبراس کاترجمان بننے اوراس کے کندھے پربندوق رکھ کراس کوچلانے کی کوشش کی۔

                اکتوبر۱۹۷۳ء کی جنگ کے بعد،جس میں مصراورسیریاکے حق میں بہت سی معنوی کام یابیاںبہ روئے کارآئیںاور۱۹۷۴ء میں تنظیم آزادی فلسطین کو،فلسطینیوںکی واحدقانونی نمایندہ تنظیم مان لیے جانے کے بعد،فلسطین کے تعلق سے عربوںکااحساسِ ذمے داری کم زورپڑنے لگا۔ستمبر۱۹۷۸ء میںمصرکی طرف صہیونی وجودکے ساتھ تنہا’’کیمپ ڈیوڈمعاہدے‘‘پردستخط کردینے کے بعد،عربی صہیونی کش مکش سے ،سب سے بڑی عربی طاقت دست کش ہوگئی۔

                ۱۹۸۰تا۱۹۸۸ء جاری رہنے والی عراق ایران جنگ کی وجہ سے تیل کی قیمتوں میں زبردست گراوٹ آگئی،جس کے نتیجے میں فلسطینی تحریک انقلاب کی مالی مددبہت محدودرہ گئی۔۱۹۹۰ء میں کویت پرعراق کے حملے کی وجہ سے جو خلیجی جنگ پر منتج ہوئی اورجس کی وجہ سے عربی اسلامی صفوں میں ایسا انتشار رونماہوا،جس کی نظیر ماضی میں نہیں ملتی،نیز سوویت یونین کے زوال اورمشرقی بلاد کی شکست کے بعد،ایک قطبی دنیا میں جو تباہ کن حالات وواقعات رونماہونے کی وجہ سے فلسطینی مزاحمت کی رہی سہی طاقت بھی بکھر گئی اور تنظیم آزادی فلسطین صلح وامن اورمعاہدوں کی راہ پر چل پڑی۔ بالآخر اس کی سرگرمیاں’’سیاسی امکان ‘‘کے دائرے میں سمٹ کررہ گئیں ۔یہ اس لیے بھی ہوا کہ تنظیم کی قیادت میں اپنی بقا اورفلسطینیوںکی نمایندگی زمام اپنے ہاتھ میں لیے رہنے کے لیے،اپنے بعض ٹھوس اصولوں سے دست برداری کار جحان پیداہوگیا تھا۔

صہیونی ریاست کے ساتھ امن پسندانہ سمجھوتہ:

                تنظیم آزادی فلسطین کی کم زوری میں اضافے کے ساتھ ساتھ صہیونی ریاست کے ساتھ امن پسندانہ صلح صفائی کا رجحان رکھنے والے دھڑے کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا،یہاں تک کہ نومبر۱۹۸۸ء میں تنظیم نے،اقوام متحدہ کی قرار داد(۱۸۱) کوتسلیم کرلیا،جس میں فلسطین کو عربوں اوریہودیوںکے درمیان تقسیم کردیے جانے کی بات کہی گئی ہے۔نیز تنظیم نے اقوام متحدہ کی قرار داد(۲۴۲) جاری کردہ نومبر ۱۹۶۷ء کو مان لیا،جس میں قضیہ فلسطین کو محض پناہ گزینوں کا قضیہ باورکرایا گیاہے اوراس قضیے کو امن پسندانہ راہوں سے حل کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔

                اکتوبر ۱۹۹۱ء میں تنظیم اورعرب ممالک نے صہیونی ریاست کے ساتھ’’مڈریڈ‘‘میں براہ راست صلح وامن کے مذاکرات تک کاسلسلہ شروع کیا۔ تقریباً دوسالہ مذاکرات کے نتیجے میں تنظیم ،ریاست اسرائیل کے ساتھ،کسی معاہدے کے نتیجے تک نہیں پہنچ سکی۔ ہاں دسمبر ۱۹۹۲ء میں رازدارانہ مذاکراتی چینل کے ذریعے،بند کچھ کھلتی نظر آئی،جس کے نتیجے میں ’’اوسلو’’ معاہدہ‘‘یا’’پہلے غزہ۔اریحامعاہدہ‘‘عمل میں آیاجوناروے کے شہر’’اوسلو میں بروئے کارلایاگیا،جس تنظیم نے سرکاری طور پرصہیونی ریاست کے ساتھ واشنگٹن میں ۱۳/ستمبر ۱۹۹۳ء میں دستخظ کیے۔

                غزہ ۔اریحا‘‘معاہدے کی رو سے تنظیم نے اسرائیل کے وجود کے حق کو تسلیم کرلیا،یہ ہی نہیں بل کہ ارض ِفلسطین کے ۷۷ فیصد حصے پراس کے قبضے اورملکیت کے جواز کو بھی سندِتسلیم عطا کردی۔ساتھ ہی تنظیم نے مسلح مزاحمت اورانتفاضے سے دست برداری کا اپنے کو پابند عہدکرلیااورسارے فلسطین کی آزادی کے سارے دعووں سے دست کش ہوجانے اوراپنے قومی چارٹرسے ،صہیونی ریاست کی تباہی اور اس کو مٹا ڈالنے کی بات کی مکمل منسوخی کااعلان کرتے ہوے سارے مسائل کو پر امن راہوں سے حل کرنے کا پابند رہنے کی یقین دہانی کرادی۔

                تنظیم کو اس کے بدلے میں اسرائیل سے جوکچھ ملاوہ یہ کہ اس کو فلسطینیوںکا واحد قانونی نمایندہ مان لیا گیااورغزہ پٹی اور مغربی کنارے کے کچھ ٹکڑوں پر،اس کو نام نہاد خو مختار حکومت قائم کرنے کا اختیار دیا گیااور یہ کہ دیگر بنیادی مسائل آیندہ۵ سالوں کے دوران حل کرلیے جائیں گے۔

غزہ ۔اریحامعاہدے کے تعلق سے اہم ریمارکس اوراشارے:

                فلسطینیوں کی طرف سے اس معاہدے کو کتنا تسلیم کیا گیاتھا،اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتاہے کہ اس کوصرف تنظیم کی قیادت کرنے والی تحریک’’فتح‘‘اوردو چھوٹے فلسطینی دھڑوں نے مانا تھا،جن کاعوام میں کوئی وزن نہ تھایعنی’’فدا‘‘محاذ اور’’محاذقومی جدوجہد‘‘خود’’فتح‘‘کے اندر بہت سے دھڑوں نے اس معاہدے اوراس کی اساس پرہونے والے دیگر معاہدوںکی شدید مخالفت کی۔جیسے ’’فاروق قدومی‘‘’’ہانی حسن‘‘’’خالد حسن‘‘اور’’محمودغنیم‘‘وغیرہم نے۔

                فلسطینیوں کی اکثر تحریکیںاورمزاحمتی گروہ ،اس کے با لکل مخالف تھے اورہیں،جن میں تحریک ’’حماس‘‘سرفہرست ہے۔دیگر باوزن طاقتوںاورتحریکوںنے بھی اس کو بالکل مسترد کردیا تھا،جیسے ’’عوامی محاذ‘‘’’جہادِ اسلامی‘‘اوردیگر سات تنظیمیں۔

                معاہدے کایہ منصوبہ ہی درحقیقت ازاول تا آخرصہیونی ہے،جس کامقصد گھنیری فلسطینی آبادی والے علاقوں کے بوجھ سے گلوخلاصی حاصل کرناتھا،جہاںبہت سے اقتصادی اورسیکورٹی کے مسائل ہیں۔اسرائیل عرصے سے غزہ پٹی سے پلوجھاڑنا چاہتاتھا،کیوں کہ یہ دنیا میں زبردست گھنیری آبادی والے خطوں میں سے ایک ہے، بل کہ کئی بار اس نے یہ علاقہ مصر کے حوالے کرنے کی پیش کش کی ،لیکن مصراس کے لیے کسی طرح تیار نہ ہوا۔

                اس معاہدے کے لیے ،تنظیم نے عوام سے کوئی رائے نہیں لی،بل کہ ازخود یہ معاہدہ تنِ تنہاکرلیا۔

                اس معاہدے کی روسے عملی طور پرفلسطینیوں کو، صہیونی ریاست کے زیرِ نگرانی اس کے بہ راہِ راست کنٹرول کے تحت،محدود اختیارات والی’’خودمختار حکومت‘‘کے قیام کاحق دیا گیاہے۔جاے حکومت پر بھی فلسطینیوںکو اقتدارِاعلی اورمکمل خودمختاری حاصل نہیں ہوگی،ان کی حکومت قانون سازی میں بھی صہیونی ریاست سے ،رابطے اورہم آہنگی کی پابند ہوگی۔

                اس معاہدے میں بنیادی مسائل کے تئیںالتوا کی پالیسی اپنائی گئی ہے ۔ فلسطینیوں کی آزادی پر منتج ہونے والی کسی صورتِ حال کا وعدہ نہیں کیا گیاہے اور نہ مغربی کنارے اورغزہ پٹی سے اسرائیل کے انخلا کی کوئی بات کہی گئی ہے۔یہودی بستیوں کو ختم کرنے یامشرقی قدس کو فلسطینیوں کے حوالے کرنے کے تعلق سے بھی مکمل خاموشی برتی گئی ہے۔

                یاد رہے کہ مشرقی قدس میں ہی مسجد اقصیٰ واقع ہے،فلسطینیوں کی اپنے وطن کوواپسی کی بات بھی لپیٹ دی گئی ہے۔مذاکرات کے سال ہاسال  بعدبھی اب تک کوئی مرکزی مسئلہ حل نہیں ہوا،نہ اس کی دور دور تک کوئی امید ہے،بل کہ صہیونی ریاست کی طرف سے مقبوضہ اراضی کو یہودیانے کے تعلق سے ریس جاری ہے،اس کو کسی معاہدے سے عالمی فیصلے اورعالمی برادری کی کسی مانگ کا کوئی پاس نہ تھانہ آیند ہ ہوگا۔فلسطینی مقتدرہ کو مغربی کنارے کی اراضی میں سے انتظامی طور پر صرف ۴۲ فیصد پر کنٹرول دیا گیاہے۔

                صہیونی ریاست کے خلاف کسی طرح کی فلسطینی جدو جہد ،مسلح کارروائی اور انتفاضے کے تحت کیے جانے والے کسی بھی عمل کو کچل دینا،فلسطینی مقتدرہ کی مجبوری ہے،بل کہ اپنے ’’خلوص‘‘اورنیک نیتی کو ثابت کرنے کے لیے،فلسطینی تنظیموںکے مجاہدین اورانتفاضہ کاروں کو گرفتارکرنا،جیل میں ڈالنا،سزادینا،یااسرائیل کے حوالے کردینا،فلسطینی مقتدرہ کی ذمہ داری ہے ،تاکہ یہ اندازہ ہوسکے کہ اس کو امن اورصلح سے دل چسپی ہے، اس نے ۹/سیکورٹی ادارے قائم کیے ہیں ،جن کے ذریعے فلسطینی مسلمانوں کی سانسیں گنی جارہی ہیں ،اور ان کی مصیبتوں سے بوجھل زندگی کو اوربوجھل بنایاجارہاہے۔لائق عبرت ہے کہ فلسطینی مقتدرہ اقتصادی،سیاسی اوراجتماعی میدانوں میں یکسر ناکام رہی ہے،حال آں کہ انھیں میدانوں میں اصلاً اس کو اپنی کارکردگی ثابت کرنی چاہیے تھی۔اس کے سارے ادارے بدعنوانیوں کی مثال بن گئے ہیں۔

                اس معاہدے کی وجہ سے ،دیگر اسلامی اورعربی ملکوں کے لیے صہیو نی ریاست کے ساتھ معاہدوں اورتعلقات کے قیام کے دروازے چوپٹ کھل گئے ہیں،اورسارے عربی علاقوں میں اس کی درآمد،اقتصادی رسوخ،بل کہ معاشی اقتداراورقومی اسلامی علاقوں پر ضرب لگانے کی راہ وا ہوگئی ہے۔

                اس معاہدے کی وجہ سے تنظیمِ آزادیِ فلسطین ،اپنی ذات ،اپنے اہداف اوراپنے چارٹرکو یکسر مسترد کرتے ہوئے مسلح جدوجہد سے کنارہ کشی کی پابند ہوگئی ہے جس کو اب دہشت گر دی کانام دے دیا گیا ہے۔اسرائیل میں اسی دن سے جشن کاسماں ہے کہ تنظیم نے جو فلسطینیوں کی واحد نمایندہ جماعت تھی، فلسطینیوں کی اراضی غصب کرتے رہنے، فلسطینیوں کو دربدرکردینے اوران کے حقوق کو سلب کرلینے کی واضح طور پرمنظوری دے دی ہے۔

                صہیونی ریاست کے ساتھ،امن معاہدے کے تعلق سے،قابلِ اعتمادتمام علمائے عرب ومسلمین نے عدم جواز کافتویٰ دیا ہے۔غصب کردہ فلسطینی اراضی کی باز یابی اور اسلام کے جھنڈے تلے ان کی واپسی کے لیے مقدس جہاد کو لازمی قراردیا ہے۔انھوں نے عربوں کی اسرائیل کے ساتھ کش مکش کو حق وباطل کا تصادم مانا ہے،جو نسل درنسل مسلمانوں کو وراثت میں ملتا رہے گا،تا آں کہ اللہ جل شانہ اپنی قدرتِ کاملہ سے مسلمانوںکو فتح وغلبہ سے ہم کنا رکرے گا۔                 مسلمانوں کے کسی نسل کو،جو ضعف اورتوانائی اور بے سروسامانی سے دوچار ہو،آیندہ مسلمان نسلوں کوجہاد کے مقدس فریضے سے محروم کردینے اور اس کی راہ روک دینے کا حق حاصل نہیں۔ پیش ِنظر رہے کہ قضیہ فلسطین روئے زمین کے سارے مسلمانوں کاقضیہ ہے،جو اس سے کسی طرح بھی دست بردار ہونے کو تیار نہیں،خواہ ا س کے حل میں طویل زمانے لگ جائیں۔ یعنی یہ قضیہ صرف فلسطینیوںکا بھی قضیہ نہیںچہ جائے کہ تنظیم آزادیِ فلسطین اس کواپنا ذاتی مسئلہ تصور کرلے اور اس کے جو جی میں آئے کرے