فقہ وفتاویٰ

مفتی محمد جعفر صاحب ملیرحمانی

صدر دار الافتاء-جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا

اسلام میں چھَٹی، منگنی اور مزاروں پر غیر شرعی اعمال کا حکم

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیانِ عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ:

 ۱- بچہ کی پیدائش کے چھٹے روز بچے کی چھَٹی مناتے ہیں (اس دن کھانے وغیرہ کااہتمام کرتے ہیں) چھَٹی منانا مذہبِ اسلام میں کیسا ہے؟

۲- رجب المرجب کے مہینے میں ہر سال مختلف مقامات پر لوگ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کی چھٹی مناتے ہیں، اس دن خوب ڈیگ پکاتے اور قوالیاں بجاتے ہیں،کھانے وغیرہ پکاتے ہیں، اسلامی شریعت کی رو سے یہ سب کیسا ہے؟

۳- ہمارے شہر” اچل پور“ میں ایک بزرگ کا مزار ہے، جن کا نام شاہ دولہا عبد الرحمان غازیہے، لوگ ہر سال ان کی منگنی کرتے ہیں، چادر وغیرہ اور کچھ سامان لیکر اس دن ان کے مزار پر جاتے ہیں اور چڑھاتے ہیں اور یہ سب کام لوگوں سے چندہ کر کے کرتے ہیں۔

 سوال یہ ہے کہ یہ حضرات اللہ والے ہیں، بڑے بزرگ ہیں تو ان کی چھٹی منانا اور منگنی کرنا کیسا ہے؟ ان میں شرکت کرنے والوں اور چندہ دینے والوں کا کیا حکم ہے؟ کیا ان کو ثواب ملے گا؟ یاوہ گنہ گار ہوں گے؟

دلائل کے ساتھ تسلی بخش جواب سے نوازیں، بڑی مہربانی ہوگی؟

الجواب وباللہ التوفیق

ا- بچے کی پیدائش کے چھٹے روز چھٹی منانا ایک ہندوانہ رسم ہے، جس سے مسلمانوں کو اجتناب کرنا ضروری ہے (۱)، شریعت مقدسہ نے ساتویں روز عقیقہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ مسلمانوں کو اس کا اہتمام کرنا چاہیے ۔(۲)

 ۲- ۶/رجب المرجب حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمة اللہ علیہ کا یومِ وفات ہے،اس لیے ہر سال ۶/ رجب المرجب کو لوگ ان کی چھٹی مناتے ہیں، قوالیاں بجاتے ہیں، کھانے پکاتے ہیں، مردوں اور عورتوں کا اجتماع و اختلاط ہوتا ہے اور فاتحہ خوانی کی جاتی ہے۔اس طرح دن متعین کر کے فاتحہ خوانی اور ایصالِ ثواب قرونِ مشہود لہا بالخیر سے ثابت نہیں ہے،اس لیے یہ بدعت اور ممنوع ہے۔ (۳)

۳- بزرگ کی مزار پر چادر اور دیگر سامان لے کر جانا اور اسے چڑھانا، ان کی چھٹی منانا اور منگنی کرنا بدعت اور نا جائز ہے (۴)، ایسی محفلوں کے لیے چندہ دینا اور شرکت کرنا دونوں امر غیر شرعی و نا جائز ہیں ۔(۵)

والحجة علی ما قلنا

(۱) ما فی ”صحیح البخاری“: عن ابن عباس أن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: أبغض الناس إلی اللّٰہ ثلثة ملحد فی الحرم ومبتغ فی الإسلام سنة الجاہلیة ومطلب دم امریء بغیر حق لیرہق دمہ۔ (۲/۱۰۱۶/ کتاب الدیانات، باب من طلب دم امریءٍ بغیر حق)

 ما في ”فتح الباري“: قولہ: ”ومبتغ فی الإسلام سنة الجاہلیة “ قیل: المراد من یرید بقاء سیرة الجاہلیة أو اشاعتہا أو تنفیذہا۔(۱۲/۲۶۲/ تحت رقم الحدیث: ۶۸۸۲)

مافي ”سنن أبی داود“: عن ابن عمر قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ”من تشبہ بقوم فہو منہم۔“ (ص: ۵۵۹/ کتاب اللباس، باب في لبس الشہرة)

ما في ”بذل المجہود في حل سنن أبي داوٴد“: قال القاری: من تشبہ نفسہ بالکفارمثلاً في اللباس وغیرہ أو بالفساق أو الفجار أو باہل التصوف والصلحاء والابرار فہو منہم أی فی الإثم أو الخیر عند اللہ تعالی۔ (۱۲/۵۹- مرقاة المفاتیح: ۸/۲۲۲/ کتاب اللباس والزینة)

 مافي ”شرح الطیبی“: قولہ: ”من تشبہ بقوم“ ہذا عام فی الخلق والخلق والشعار۔ (۸/۲۳۲/

 (۲) ما في ”جامع الترمذي“: عن سمرة بن جندب رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:الغلام مرتہن بعقیقتہ یذبح عنہ یوم السابع ویسمی ویحلق رأسہ۔ (۱/۲۷۸/ ابواب الأضاحی، باب ما جاء فی العقیقة)

(سنن النساتی: ۲/۱۶۷/ کتاب العقیقة، متی یعق- سنن أبي داوٴد، ص: ۳۹۲)

 ما في ”رد المحتار“: یستحب لمن ولد لہ ولد أن یسمیہ یوم أسبوعہ ویحلق رأسہ ویتصدق عند الأئمة الثلاثة بزنة شعرہ فضة أو ذہبا ثم یعق عند الحلق عقیقة اباحة علی ما في جامع المحبوبی، أو تطوعا علی مافی شرح الطحاوی۔ (۹/۸۵ قبیل: کتاب الحظر والاباحة)

مافي ”الفتاویٰ الہندیة“: العقیقة عن الغلام وعن الجاریة وہی ذبح شاة فی سابع الولادة وضیافة الناس وحلق شعرة مباحة لاسنة ولا واجبة کذا فی الوجیز الکردری۔ (۵/۳۶۲/ کتاب الکراہیة، الباب الثانی والعشرون فی تسمیة الأولاد وکناہم والعقیقة- کفایت المفتی مع اضافات جدیدہ: ۲/۱۰۶/ ط: جامعہ فاروقیہ کراچی)

ما في ”صحیح البخاري“: عن عائشة رضی اللہ عنہا قالت قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہورد۔ (۱/۳۷۱/ کتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا علی صلح الخ)

 (صحیح مسلم:۲/۷۷/ کتاب الأقضیة – سنن أبي داوٴد، ص: ۶۳۵/ کتاب السنة، باب فی لزوم السنة)

ما في ”تفسیر المظہری“: لا یجوز ما یفعلہ الجہال بقبور الأولیاء والشہداء من السجود والطواف حولہا واتخاذ السرج والمساجد علیہا ومن الاجتماع بعد الحول کالاعیاد و یسمونہ عرسا۔(۲/۶۸/ سورة آل عمران، تحت رقم الآیة:۶۴)

ما في ”العقود الدریة فی تنقیح الفتاوی الحامدیة“: وضع الستور والعمائم والثیاب علی قبور الصالحین الأولیاء کرہہ الفقہاء حتی قال فی فتاوی الحجة: وتکرہ الستور علی القبور۔ (۲/۵۶۱/ کتاب الفرائض، مسائل وفوائد شتی من الحظر والاباحة وغیر ذلک)

 ما في ”حاشیة الطحطاوی علی مراقی الفلاح“: وأما الرقص والتصفیق والصریخ وضرب الاوتاروالصنج والبوق الذی یفعلہ بعض من یدعی التصوف فإنہ حرام بالإجماع لأنہا زی الکفار کما فی سکب الأنہر۔

(ص:۳۱۹/ کتاب الصلاة، فصل فی صفة الأذکار)=

……………………………………………………………

= ما في ”تبلیغ الحق“: قلت وعلی ہذا فیجب أن یحذر مما یعملون علی رأس السنة عن موتہ ویسمونہ حولاً فیدعون الاکابر والأصاغر ویعدون ذلک قربة وہی بدعة ضلالة لأن التصدق لم یختص بیوم دون یوم ولا تصح الا علی الفقراء والمحتاجین وقد زاد بعضہم فی جہلہ وہم المشایخ الذین لیس لہم إلاجمع حطام الدنیا بانہم یجمعون بعض احوال المیت فی کتاب ویسمونہ مناقب ثم إذا حضر الناس المدعوون جئی برجل حسن الصوت فہو یاخذ تلک النسخة فی یدہ وقرأ ہا قراء ة مثل قرائة المولود وقد ورد النہی عن مثل ہذا صراحة ثم یختمون القرآن ویمد لہم سماط ولیس ہذا إلا بدعة ضلالة لم یفعلہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ علم ولا اصحابہ من بعدہ ولا اتباعہم من بعدہم بل لم یوجد لذلک أثر إلی القرن الثامن کما یظہر علی من تتبع کتب القوم وہذہ خصوصیة المشایخ فانہم یعتقدون أن ہذا رجل من اولیاء اللہ وبذکرہ تنزل الرحمة ولو سلم أنہ من اولیاء اللہ فہل ذکر الولی بہذہ الکیفیة یستوجب نزول الرحمة حاشا فان الرحمة لا تنزل الا باتباع السنة السنیة وأما البدع فہی تنزل الغضب والنقمة عافانا اللہ وإیاکم من غضبہ وسخطہ ولو کان ہذہ الخرافات تنزل بہا الرحمات لما غفل عنہا اکابر المتقدمین من الأئمة الأعلام ولکن لیس غرض ہولاء المتصوفة إلا طلب الشہرة والافتخار بابائہم واجدادہم انہم کانوا علی ہذہ المراتب وإن لہم کرامات عظیمة وکذا وکذا حتی إن السامع یعتقد فیہم فیدخل فی سلکہم ومتی دخل طریقتہم افقروہ فاصبح ممن خسر الدنیا والآخرة وہذا الحول یسمونہ أہل الہند عرسا، و ما عرفت لہ اصلاً فان العرس انما یکون فی الزواج ومع ذلک فہذہ الاحوال والأعراس لا تکاد تخلو عن ارتکاب المحرمات فضلاً عن المکروہات۔ فإن أہل الہند لہم الید الطولی فی ذلک قاتلہم اللہ فانہم یطوفون بقبر الولی الذین یعتقدون فیہ ویظنون أنہ ہو المتصرف فی الکون وإن الانسان إذا تمسک بہذا فلا حاجة لہ بالصلاة والصیام واکثر ماغفلوا فی ذلک اتباع سیدنا عبد القادر الجیلانی رضی اللہ عنہ ونفعنا ببرکاتہ فانہ معاذ اللہ انی یرضی بتلک الکفریات التی یعتقدونھا۔ (ص: ۷-۸ بحوالہ: فتاوی محمودیہ: ۵/۴۳۶/۴۳۷/۴۴۸، ط: میرٹھ)

( کفایت المفتی مع اضافات جدیدہ: ۲/۲۶۵-۲۶۷- فتاوی دار العلوم دیوبند: ۸۱/۵۱۴)

 (۵) ما فی ”القرآن الکریم“: ﴿وتعاونوا علی البر والتقوی ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان ﴾(سورة المائدة:۲)

مافي ”مختصر تفسیر ابن کثیر“: یأمر تعالی عبادہ المؤمنین بالمعاونة علی فعل الخیرات وہو البر، وترک المنکرات وہو التقوی، وینہاہم عن التناصر علی الباطل والتعاون علی المآثم والمحارم ۔ (۱/۴۷۸/ ط: دار القرآن الکریم دمشق)

ما فی ”الدر المختار“: وکل ما أدی إلی ما لا یجوز لا یجوز۔ (۹/۲۶۹/ کتاب الحظر والاباحة، فصل فی اللبس – کفایت المفتی جدید: ۲/۲۶۹) فقط

واللہ أعلم بالصواب

کتبہ العبد: محمد جعفر ملی رحمانی

۱۹/۷/۱۴۴۳ھ

فتوی نمبر :۱۱۵۴

سرکاری تالاب کو مٹی سے بھر کر جنازہ گاہ بنانے کا شرعی حکم

            کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرعِ متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ

            سرکاری تالاب کو بھر کر یعنی مٹی ڈال کر برابر کر دیا جائے اور اسی قطعہٴ اراضی کو جنازہ گاہ بنا لیا جائے، تاکہ اسی میں نمازِ جنازہ ادا کی جائے، تو کیا ایسا کرنا جائز ہوگا؟

             از روئے شرع بیان فرما کر شکریہ کا موقع فراہم کیا جائے، کیوں کہ ہماری آبادی میں دوسری کوئی ایسی جگہ مقرر نہیں ہے، جہاں بلا روک ٹوک نمازِ جنازہ ادا کی جائے، عام طور پر جہاں خالی جگہ ملی وہیں نمازِ جنازہ ادا کر لیا۔ شاید ماضی قریب و بعید میں لوگوں کا ذہن اس طرف نہیں گیا کہ نمازِ جنازہ کے لیے بھی کوئی جگہ مقرر ہونی چاہیے۔

الجواب وباللہ التوفیق

            سرکاری تالاب کو مٹی سے بھر کر اس پر جنازہ گاہ بنانا شرعاً جائز نہیں ہے۔ گاؤں والوں کو چاہیے کہ باہم تعاون اور چندہ وغیرہ سے کوئی زمین خرید کر اس پر جنازہ گاہ بنائیں۔

والحجة علی ما قلنا

            ما في ”رد المحتار“: قولہ: (وارض مغصوبة أو للغیر)…تکرہ في أرض الغیر……بنی مسجدا علی سور المدینة لا ینبغی أن یصلی فیہ لأنہ حق العامة فلم یخلص للہ تعالیٰ کالمبنی فی أرض مغصوبة۔ (۲/۴۴،۴۵/ کتاب الصلاة، مطلب فی الصلاة فی ارض المغصوبة الخ)

            (الفتاوی الہندیة: ۱/۱۱۰/ کتاب الصلاة، الباب السابع، الفصل الثانی فیما یکرہ في الصلاة الخ)

            ما في ”حاشیة الطحطاوی علی المراقی“: وتکرہ فی أرض الغیر بلا رضاہ۔ (ص: ۳۵۸/ کتاب الصلاة، فصل فی المکروہات) فقط

واللہ أعلم بالصواب

کتبہ العبد: محمد جعفر ملی رحمانی

۵/۱/۱۴۴۴ھ

فتوی نمبر :۱۱۶۹

 وکیل بالبیع و الشرا ء کا شرعی حکم

            حضرت مفتی صاحب امید ہے کہ مزاج بخیر و عافیت ہوں گے !

            بعدہ عرض ایں کہ زید کی دکان ہے ، جو پہلے سے چل رہی ہے۔ اب زید صاحبِ دکان کو کچھ رقم کی ضرورت ہے، جو اس نے سلیم سے طلب کی ہے ، جس کی شکل یوں طے کی جارہی ہے کہ زید صاحبِ دکان، سلیم سے دس لاکھ روپئے لے گا اور اس رقم سے نقد خریدی کرے گا اور مال کے دکان پہنچنے تک ضروری مصارف مثلاً سفر اور ٹرانسپورٹ وغیرہ کے تمام اخراجات صاحب ِرقم سلیم کے ذمہ ہوں گے۔

            اب گویا کہ زید صاحبِ دکان اس مال کو صاحبِ رقم سلیم سے چار ماہ کی مدت کے لیے ادھار خریدے گا، اب جتنی رقم مال کی خریدی میں صرف ہوگی دس پرسینٹ ( ۱۰%)کے اعتبار سے صاحب دکان زید، صاحبِ رقم سلیم کو اسی چار ماہ کی مدت کے بعد (خریدی کے مصارف وضع کرے کے) نفع دے گا۔

تو کیا اس طرح کا معاملہ کرنا شرعاً درست ہوگا یا اس طرح معاملہ کرنے کی اور کوئی بہتر شکل ہوسکتی ہے۔

            جواب مرحمت فرماکر عند اللہ ماجور ہوں۔

الجواب وباللہ التوفیق

            زید کا اوّلاً سلیم کی جانب سے خریداری کا وکیل بن کر اس کی رقم سے مال خریدنا، پھر اس مال کے سلیم کے قبضہ میں جانے سے پہلے سلیم سے چار مہینے کی مدت پر زائد از قیمت ادھار خرید ناشر عا جائز و درست نہیں ہے، کیوں کہ اس صورت میں ایک ہی شخص بیک وقت بائع (بیچنے والا) اور مشتری (خرید نے والا) دونوں بن رہا ہے جو صحیح نہیں ہے،البتہ اس کی جائز صورت یہ ہو سکتی ہے کہ زید سلیم کا خریداری کا وکیل بن کر اوّلاً یہ مال سلیم کی رقم سے خرید لے، پھر یہ مال سلیم یا اس کے وکیل کے قبضہ میں دیدے اور پھر سلیم یا اس کے وکیل سے چار مہینے کی مدت پر زائد از قیمت میں ادھار خریدلے۔

والحجة علی ما قلنا

             ما في ”بدائع الصنائع“: الوکیل بالشراء لا یملک الشراء من نفسہ لأن الحقوق فی باب الشراء ترجع إلی الوکیل فیؤدی إلی الإحالة: وہو أن یکون الشخص الواحد فی زمان واحد مسلمًا و متسلما مطالِبًا ومُطالَبًا، ولأنہ متہم فی الشراء من نفسہ، ولو أمرہ الموکل بذلک لا یصح۔ (۷/۴۴۸/ کتاب الوکالة)=

زندگی میں جائیداد پر اختیار اور اولاد کے مطالبہ کا شرعی حکم

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین مسئلہ ذیل میں کہ

میرا نام محمد اقبال یوسف ٹیمول ہے، عمر ۷۱/ سال ہے، میری اہلیہ حیات ہے، ان کی عمر ۶۷/ سال ہے، ایک لڑکی سب سے بڑی ہے اور اس سے چھوٹے دو لڑکے ہیں، تینوں بچے حیات ہیں، بڑا لڑکا چار سال سے الگ رہتا ہے اور اس سے میری بات چیت بند ہے اور وہ میری جائیداد سے حصہ مانگ رہا ہے۔

اب اس معاملہ میں کچھ باتیں معلوم کرنا ہے، قرآن و حدیث اور شریعت کی روشنی میں مجھے اس کا حل بتائیں!

۱- میری ملکیت یہ ہے: ایک پولٹری فارم ہے جو پونے پانچ ایکڑ میں ہے، جس میں ۳۸/ ہزار مرغیاں انڈے والی ہیں اور فیڈ فیکٹری ہے اور رہنے کا مکان ہے۔ یہ سب میں نے اللہ کے فضل سے اور میری محنت سے ساجھا کیا ہے، وراثت کا اس میں کچھ نہیں ہے۔=

            = ما في ”رد المحتار“: الوکیل بالبیع لا یملک شرائہ لنفسہ، لان الواحد لا یکون مشتریا و بائعا فیبیعہ من غیرہ ثم یشتریہ منہ۔(۸/۲۲۲/ کتاب الوکالة، باب الوکالة بالبیع والشراء)

            ما في ”المحیط البرہاني في اللفقہ النعمانی“: الواحد لا یصلح عاقدا من الجانبین فی عقود المعاوضات لما فیہ من رجوع الحقوق المضادة والأحکام المتنافیة إلی الواحد، فان البیع یوجب ضد ما یوجبہ الشراء من الأحکام، قالوا الواحد إذا صار بائعا ومشتریا یرجع إلیہ أحکام متضادة، الا تری أنہ یصیر مطالِبًا و مطالَبًا مسلِما ومتسلما مستزیدًا ومستنقصًا، وأنہ ممتنع بحال، ولأن المعاوضة توجب حقًا لکل واحد من المتعاقدین علی صاحبہ، فالواحد إذا صار بائعا و مشتریا وجب الحق لہ علی نفسہ وہو ممتنع۔(۸/۱۳۷/ کتاب البیع، الفصل الثامن عشر فی بیع الاب والوصی والقاضی الخ)

            (الفتاوی الہندیة: ۳/۵۸۹/ کتاب الوکالة، الباب الثالث فی الوکالة بالبیع)

            ( الموسوعة الفقہیة:۴۵/۵۱/الوکالة، اطلاقة الوکالة بالشراء، شراء الوکیل لموکلہ الخ)

            ( درر الحکام شرح مجلة الأحکام: ۳/۵۹۹/ المادة: ۱۴۸۷)

            (موسوعة القواعد الفقہیة: ۱۲/۱۵۲/ القاعدة السابعة والعشرون، العاقد من الجانبین) فقط

واللہ أعلم بالصواب

کتبہ العبد: محمد جعفر ملی رحمانی

۴/۵/۱۴۴۴ھ

فتوی نمبر :۱۱۷۱

=۲- میری ملکیت کی کل قیمت اگر سو روپئے ہے تو میرے اوپر بینک کا قرض تیس روپئے ہے۔

۳- میں میری اہلیہ اور بڑی بہن جو اپاہج ہے چھوٹے بیٹے کے ساتھ رہتے ہیں اور ہمارا پورا خرچ چھوٹا بیٹا ہی اٹھاتا ہے۔

۴- میں خود پولٹری چلاتا ہوں، لیکن حال میں پولٹری کا کاروبار منافع والا نہیں ہے، لون کی قسط تو بھری جاتی ہے مگر بچت نہیں ہوپاتی۔

۵- بڑا لڑکا ہمارے ساتھ رہا اور اس وقت اس نے اپنی والدہ اور چھوٹے بھائی کی مدد سے کاروبار شروع کیا تھا اور اب وہ اپنے کاروبار کے ساتھ الگ ہے۔

۶- میرا بڑا لڑکا ہم سے زیادہ مال دار ہے، ہمارا یہ کہنا ہے کہ وہ پورا لون چکادے، اس کے بعد میں حصہ کردوں گا، تو میرا بولنا جائز ہے یا نہیں؟

۷- میرے بڑے لڑکے کا یہ کہنا ہے کہ دونوں بھائی آدھا آدھا لون چکائیں گے، لیکن میرا چھوٹا لڑکا اتنا پیسے والا نہیں ہے کہ وہ آدھا لون بھی چکا سکے۔

۸- لہٰذ۱ میں ابھی ملکیت کا بٹوارہ نہ کروں تو چلے گا کیا؟

۹- ابھی پولٹری کا کاروبار منافع والا نہیں ہے، اگر ایسا ہی رہا یا پھر قدرتی آفت آئی یا یوں ہی مندی رہی یا میرے کسی غلط فیصلے کی وجہ سے کھوٹ گئی اور قرض بڑھ گیا اور مجھے پولٹری بیچنی پڑی، تو کیا میں ایسا اقدام کر سکتا ہوں؟ کیا مجھے اس معاملے میں اپنے بچوں سے پوچھنا ضروری ہے؟ یا ان کو جواب دینا ضروری ہے یا میں اپنی ملکیت میں اپنی مرضی سے کچھ بھی کرسکتا ہوں؟

الجواب وباللہ التوفیق

شرعاً آپ اپنی زندگی میں اپنی پوری مملوکہ جائیداد کے تن تنہا مالک ہیں، آپ کی زندگی میں کسی اولاد کا آپ کی ملکیت میں کوئی حق نہیں ہے (۱)، اس لیے آپ کے لڑکے کا آپ سے آپ کی جائیداد میں حصہ طلب کرنا جائز و درست نہیں ہے (۲) اور نہ آپ پر اپنی زندگی میں اپنی ملکیت کو تقسیم کرنا لازم وضروری ہے (۳ )۔=

=ضرورت کے موقع پر آپ اپنی ملکیت بیچ کر اپنی ضرورت پوری کرسکتے ہیں، بیچنے سے پہلے کسی لڑکے سے پوچھنا اور اس کی اجازت لینا ضروری نہیں ہے(۴)، البتہ بالغ اولاد سے مشورہ کرلینا بہتر ہے (۵)، تاکہ گھر میں کسی قسم کا کوئی تناوٴ وکشیدگی نہ ہو اور لڑکوں کو بھی چاہیے کہ وہ والدین کی خبر گیری اور مدد کرتے رہیں(۶)۔

والحجة علی ما قلنا

(۱،۳،۴) ما في ”التفسیر للبیضاوی“: المالک ہو المتصرف في الأعیان المملوکة کیف شاء من الملک۔(ص:۷/ سورة الفاتحہ)

ما في ”معجم المصطلحات والالفاظ الفقہیة“: الملک التام في اصطلاح الفقہاء: ہو الذي یخول صاحبہ حق التصرف المطلق فی الشیء الذی یملکہ فیسوغ لہ أن یتصرف فیہ بالبیع والہبة۔ (۳/۳۵۱/ مادة: الملک)

(۲) ما في ”البحر الرائق“: وأما بیان الوقت الذی یجری فیہ الإرث فنقول ہذا فصل اختلف المشائخ فیہ قال مشائخ العراق الإرث یثبت في آخر جزء من اجزاء حیاة المورث، وقال مشائخ بلخ الإرث یثبت بعد موت المورث اھ۔ (۹/۳۶۴/ کتاب الفرائض، دار الکتاب، دیوبند)

ما في ”رد المحتار“: وشروطہ ثلاثة: موت مورث حقیقة أو حکمًا کمفقود أو تقدیرًا کجنین فیہ غرة، ووجود وارثہ عند موتہ حیًا حقیقةً أو تقدیرًا کالحمل والعلم بجہة إرثہ۔ (۱۰/۴۹۱/ کتاب الفرائض، بیروت)

 (مجمع الأنہر: ۴/۴۹۴/ کتاب الفرائض – الموسوعة الفقہیة: ۳/۲۲/ إرث)

(۵) ما في ”الجامع لاحکام القرآن للقرطبی“: قولہ تعالیٰ: ﴿وأمرہم شوری بینہم﴾ أی یتشاورون فی الأمور – فکانت الأنصار قبل قدوم النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم إلیہم إذا أرادوا أمرا تشاوروا فیہ ثم عملوا علیہ فمد حہم اللّٰہ تعالی بہ…وقال ابن العربی: الشوریٰ ألفة للجماعة ومسبار للعقول وسبب إلی الصواب، وما تشاور قوم قط الا ہدوا۔ (۱۶/۳۶/۳۷- سورة الشوری، تحت رقم الآیة: ۳۸)

 (۶) ما في ”القرآن الکریم“: ﴿وقضی ربک ان لاتعبدوا إلا ایاہ وبالوالدین احسٰنًا إما یبلغن عندک الکبر احدہما أو کلاہما فلا تقل لہما اف ولا تنہرہما وقل لہما قولاً کریما، واخفص لہما جناح الذل من الرحمة وقل رب ارحمہما کما ربیانی صغیرا﴾ (سورة الإسراء: ۲۳،۲۴)

ما في ”تفسیر الطبری“: وقولہ: ﴿وبالوالدین إحسٰنا﴾ یقول: وامرکم بالوالدین إحسانا أن تحسنوا إلیہما وتبر وہما۔ (۱۴/۳،۵/ سورة الاسراء)

 ما فی ”جامع الترمذی“: عن عبد اللّٰہ بن عمرو عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: رضا الرب فی رضا الوالد وسخط الرب فی سخط الوالد۔ (۲/۱۲/ابواب البر والصلة، باب ما جاء من الفضل فی رضا الوالدین ) فقط

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ العبد: محمد جعفر ملی رحمانی

۱۹/۷/۱۴۴۴ھ

 فتوی نمبر :۱۱۸۲

غیر شرعی اعمال کا ارتکاب اور فسخِ نکاح

            کیا فر ماتے ہیں مفتیانِ کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ:

            ایک عبداللہ نامی شخص طویل عرصہ سے نماز، روزہ اور دیگر فرائض،واجبات و نوافل بالکل بھی ادا نہیں کرتا ہے، صرف کبھی کبھی رمضان میں تراویح میں شرکت کر لیتا ہے اور طویل مدت سے سیاسی نام و نمود کی خاطر غیر مسلموں سے ہر طرح کے مذہبی تعلقات رکھتا ہے، ان کی مذہبی رسومات میں مالی معاونت بھی کرتا ہے، ان کے ساتھ مندروں میں ہر طرح کے عمل میں شرکت بھی کرتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ شرڈی والے بابا پر میرا عقیدہ ہے۔ ان تمام باتوں کو لوگوں کے سامنے بطور فخر بیان بھی کرتا ہے اور اپنے گھر والوں سے یہ کہتا رہتا ہے کہ تم کو میری قسم تم اپنے نانیہال والوں اور دیگر رشتہ داروں سے بات نہیں کرو گے اور تم فلاں کام نہیں کرو گے وغیرہ۔

             بیوی کے منع کرنے اور بیوی کے نیک کام کرنے کا کہنے پر اس کو مارتا پیٹتا ہے، اس کو اور اس کے گھر والوں کو فحش گالیاں دیتا ہے اور برے الفاظ سے پکارتا ہے اور یہ اس کا روز کا معمول ہے ۔

            تو دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا مذکورہ شخص دائرہٴ اسلام سے خارج ہے یا نہیں؟ اگر دائرہ اسلام سے خارج ہے تو اس کی منکوحہ کے فسخ نکاح کے لیے قضائے قاضی ضروری ہے یا نہیں؟

             کیا اس کی زوجہ کو اس کے نکاح میں رہنا چا ہیے یا نہیں؟ کیا اس کی دی ہوئی قسموں کا گھر والوں پر پورا کرنا لازم ہے یا نہیں؟ اور کیا اس طرح قسمیں دلانا درست ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا

الجواب وباللہ التوفیق

            بشرط صحتِ سوال شخصِ مذکور کا غیر مسلموں سے مذہبی تعلقات، ان کی رسومات میں مالی معاونت کرنا، ان کے ساتھ مندروں میں جا کر ان کے مشرکانہ افعال میں شرکت کرنا، اسی طرح یہ کہنا کہ شرڈی والے بابا پرمیرا عقیدہ ہے اور ان تمام باتوں کو لوگوں کے سامنے بطور فخر بیان کرنا، ان اعمال کی وجہ سے مذکورہ شخص دائرہٴ اسلام سے خارج ہے(۱) اور چوں کہ اس نے یہ افعال خوشی اور رضامندی سے کیے ہیں اور رضا بالکفر بھی کفر ہے(۲) اور اس کی منکوحہ کا نکاح بغیر قضائے قاضی کے فسخ ہو چکا ہے(۳)، لہٰذا مذکورہ شخص پر تجدید ِایمان اور تجدید ِنکاح ضروری ہے۔=

            = اگر توقع نہ ہو کہ شخصِ مذکور مشرکانہ عقائد و اعمال کو چھوڑ کر اسلامی عقائد و اعمال اختیار کرے گا اور اس کی صحبت ومعاشرت سے اپنے عقائد کی خرابی کا اندیشہ ہو تو اہلِ خانہ کا اس سے علیحدہ رہنا ضروری ہے (۴)۔

             شخصِ مذکور کا اپنے گھر والوں کو سوال میں مذکور قسمیں دلانا شرعاً ناجائز وحرام ہے اور اس کی دی ہوئی قسموں کو پوری کرنا ضروری نہیں ہے(۵)۔

الحجة علی ما قلنا

            (۱) ما فی ”القرآن الکریم “: ﴿یایہا الذین امنوا لا تتخذوا الیہود والنصری أولیاء بعضہم أولیاء بعض ومن یتولہم منکم فإنہ منہم إن اللّٰہ لا یہدی القوم الظلمین﴾(سورة المائدة: (۵۱)

            ما فی ”سنن أبی داود“: عن ابن عمر رضی اللّٰہ تعالی عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تشبہ بقوم فہو منہم۔ (۲/۵۵۹/ کتاب اللباس، باب فی لبس الشہرة، قدیمی)

            ما فی ”شرح العقائد النسفیة“: کما فرضنا أن أحدا صدق بجمیع ما جاء بہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم، وسلمہ وأقربہ وعمل مع ذلک شد الزنار بالإختیار أو سجد للصنم بالإختیار نجعلہ کافرًا لما أن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم جعل ذلک علامة التکذیب والإنکار۔(۱۱۹/ قدیمی)

            ما فی ”الفتاوی الہندیة“: یکفر بوضع قلنسوة علی رأسہ علی الصحیح…وبشد الزنار في وسطہ……وبخروجہ إلی نیروز المجوس لموافقتہ معہم فیما یفعلون فی ذلک الیوم، وبشرائہ یوم النیروز شیئا لم یکن یشتریہ قبل ذلک تعظیما للنیروز…… وبإہدائہ ذلک الیوم للمشرکین ولو بیضة تعظیما لذلک…وبتحسین امر الکفار اتفاقا…فہو کافر۔(۲/۲۸۷/ کتاب السیر، موجبات الکفر أنواع، ومنہا ما یتعلق بتلقین الکفر، والأمر بالإرتداد، زکریا)

            ما فی ”الفتاوی الہندیة“:و من أتی بلفظة الکفر وہو لم یعلم أنہا، إلا أنہ أتی بہا عن إختیار یکفر عند عامة العلماء …ولا یعذر بالجہل، کذا فی الخلاصة۔

            الہازل أو المستہزئ إذا تکلم بکفر استخفافا واستہزاءً ومزاحا، یکون کفرا عند الکل، وإن کان اعتقادہ خلاف ذلک۔ (۲/۲۸۷/ کتاب السیر، موجبات الکفر أنواع، منہا ما یتعلق بتلقین الکفر، والأمر بالإرتداد وتعلیمہ…زکریا)

            (۲) ما فی ”الفتاوی الہندیة“: ومن یرضی بکفر نفسہ فقد کفر۔(۲/۲۷/ کتاب السیر، موجبات الکفر أنواع: منہا ما یتعلق بالإیمان والإسلام، زکریا)

            (۳) ما في”الدر المختار“: وارتداد أحدہما أی الزوجین فسخ عاجل بلا قضاء۔(۱/۲۱۰/ کتاب النکاح، باب نکاح الکافر)=

……………………………………………………………

……………………………………………………………

……………………………………………………………

……………………………………………………………

……………………………………………………………

……………………………………………………………

……………………………………………………………

……………………………………………………………

……………………………………………………………

            =ما فی ”الفتاوی التاتارخانیة“: إذا ارتد أحد الزوجین وقعت الفرقة بینہما فی ظاہر الروایة فی الحال، ولا یتوقف علی قضاء القاضی، سواء کانت المرأة مدخول بہا أو لم تکن۔وفی الخانیة: وأجمع أصحابنا علی أن الردة تبطل عصمة النکاح وتقع الفرقة بینہما بنفس الردة۔ (۷/۳۷۵/ کتاب أحکام المرتد ین، الفصل التاسع والعشرون: فی الإرجاء وفی معناہ، زکریا )

            (۴) ما فی ”مرقاة المفاتیح“: أجمع العلماء علی أن من خاف من مکالمة أحد وصلتہ ما یفسد علیہ دینہ او بدخل مضرة فی دنیاہ یجوز لہ مجانبتہ و بعد ہ، ورب صرم جمیل خیرمن مخالطة توٴذیہ……فأن ہجرة أہل الہواء والبدع واجبة علی مر الأوقات مالم یظہرمنہ التوبة والرجوع إلی الحق۔(۹/۲۳۰/ کتاب الآداب، باب ما ینہی عنہ من التہاجر والتقاطع، الفصل الأول، رقم الحدیث: ۵۰۲۷، أشرفیة)

            (۵) ما فی ”صحیح البخاری“: عن ثابت ابن الضحاک قال: قال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من حلف بغیر ملة الإسلام فہو کما قال۔(۲ /۹۸۴/ کتاب الأیمان والنذور، باب من حلف بملة سوی الإسلام، قد یمی)

            ما فی ”الصحیح لمسلم“: عن أبی ہریرة رضی اللّٰہ تعالی عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من حلف منکم، فقال فی حلفہ: باللات، فلیقل:لا إلہ إلا اللہ۔(۲/۴۶/ کتاب الأیمان، باب النہی عن الحلف بغیر اللّٰہ، قدیمی)

             (فتاوی محمودیہ: ۲/۳۲۴-۳۲۵، کفایت المفتی: ۱/۶۰۳) فقط

واللہ الموفق

کتبہ العبد: محمد جعفر ملی رحمانی

۲۲/۷/۱۴۴۴ھ- فتوی نمبر :۱۱۸۴