فقہ وفتاویٰ

مفتی محمد جعفر صاحب ملی رحمانی

صدر دار الافتاء-جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا

معذورین کہاں صف بندی کریں؟

            سوال:     ۱- اقامت کے ختم یا رکعت اولیٰ کے ختم تک صف مکمل نہ ہو تو معذورین صف کے ساتھ مل کر بیٹھیں یا صف کے کنا رے پر ہی بیٹھیں؟

            ۲- کیا درمیان صف میں بیٹھنے والے معذورین لعنت کے مستحق ہوں گے؟

            ۳-کیا درمیان صف میں بیٹھنے والے معذورین کی وجہ سے صف نا مکمل ہوگی؟ اور نمازیوں کی نماز خراب ہوگی؟

            ۴- اگر کوئی شخص قیام اور رکوع اور سجدہ پر قادر ہو، اور قعدہ پر قادر نہ ہو مگر قعدہ گھوڑا بن کر یا پیر پھیلا کر بیٹھ سکتا ہو تو ایسے شخص کے پیچھے نماز درست ہے یا نہیں؟

الجواب وباللہ التوفیق:

            ۱-معذورین کے صف کے ساتھ مل کر بیٹھنے میں اگر نمازیوں کو تکلیف نہ ہوتی ہو، تو وہ صف کے ساتھ مل کر بیٹھیں(۱) اور اگر معذورین کا صف کے ساتھ مل کر بیٹھنا نمازیوں کے لیے تکلیف کا باعث ہو تو صف کے کنارے پر ہی بیٹھیں،ان شاء اللہ انھیں صف میں شامل ہوکر نماز پڑھنے کا ثواب ملے گا۔(۲)

            ۲-درمیان صف میں بیٹھنے والے معذوریں لعنت کے مستحق نہیں ہوں گے۔ (۳)

            ۳-معذورین اگر درمیان صف میں نماز ادا کریں تو سب کی نماز ہوجائے گی،معذورین اور غیر معذورین کے نماز میں کوئی خرابی لازم نہیں آئے گی،اور صف بھی مکمل شمار ہوگی(۴) لیکن اگر معذورین درمیان صف میں بیٹھنے کی صورت میں زیادہ جگہ روک لیتے ہوں تو ان کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ صف کے کنارے پر بیٹھیں ، ان شاء اللہ انھیں پورا پورا ثواب ملے گا۔(۵)

            ۴-اگر کوئی شخص قیام رکوع اور سجدہ پر قادر ہومگر کسی عذر کی وجہ سے قعدئہ مسنونہ پرقادر نہ ہو تو جس ہیئت پربیٹھ سکتا ہے بیٹھنا بلاکراہت درست ہے(۶) اور اس کا امام بن کر نماز پڑھانا اور لوگوں کا اس کے پیچھے نماز پڑھنا بھی بلاکراہت درست ہے۔(۷)

والحجة علی ماقلنا:

            (۱-۴) مافی” رد المحتار“:فلوشرعوا فی الصف الأول فرجة لہ خرق الصفوف۔

(۲/۳۱۰، کتاب الصلاة، باب الإمامة، مطلب فی کراہة قیام الإمام فی غیر المحراب)

            (۲-۵) مافی” المعجم الأوسط للطبرانی“:عن ابن عباس قال:قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:” من ترک الصف الأول مخافة أن یوذی أحدا أضعف اللہ لہ أجر الصف الأول۔

(۱/۱۶۵، رقم الحدیث: ۵۳۷، من اسمہ أحمد)

(مجمع الزوائد: ۲/۲۱۱، کتاب الصلاة ، باب من ترک الصف الأول مخافة أن یوذی غیرہ)

            مافی” رد المحتار“:قال فی المعراج: الأفضل أن یقف فی الصف الأخر إذا خاف إیذاء أحد، قال علیہ الصلاة والسلام:” من ترک الصف الأول مخافة أن یوذی مسلما أضعف لہ أجر الصف الأول“ وبہ أخذ أبوحنیفة ومحمد۔ (۲/۳۱۰، کتاب الصلاة،باب الإمامة، مطلب ف

ی کراہة قیام الإمام فی غیر المحراب)

            (إعلاء السنن: ۴/۳۴۲، کتاب الصلاة، أبواب الإمامة، باب کراہة التأخر عن الصف المقدم بلاوجہ شرعی، تحت رقم الحدیث:۱۳۳۵)

            (المسائل المہمة فیما ابتلت بہ العامة: ۱۱/۶۸،۶۹، معذور آدمی کہاں کھڑا رہے)

            (نماز کے مسائل کا انسائیکلو پیڈیا: ۴/۱۰۲،۱۰۳، معذور صف میں کہاں کھڑا رہے)

            (فتاوی محمودیہ:۱۱/۶۳۷، معذور کے لیے صف کے کنارے پر ہونا ضروری نہیں، مطبہ: میرٹھ)

            (۳)(اغلاط العوام:ص/۶۷، جماعت وامامت کے اغلاط)

            (۶) مافی”التنویر مع الدر والرد“:من تعذر علیہ القیام لمرض۔۔۔ صلی قاعدا کیف شاء علی المذہب، لأن المرض أسقط عنہ الأرکان فالہیئات أولی۔(التنویر مع الدر) قال الشامی رحمہ اللہ تعالی:قولہ: (کیف شاء) أی کیف تیسرلہ بغیر ضرر من تربع أوغیرہ۔۔۔ إن کان جلوسہ کما یجلس للتشہد أیسر علیہ من غیرہ أو مساویا لغیرہ کان أولی، وإلا اختار الأیسر فی جمیع الحالات۔(۲/۵۶۴ تا ۵۶۷، کتاب الصلاة ، باب صلاة المریض)

            (بدائع الصنائع:۲۸۶۱، کتاب الصلاة ، صلاة المریض)

            (مراقی الفلاح مع حاشیة الطحطاوی: ص/ ۴۳۱، باب صلاة المریض)

            (۷) مافی”الفتاوی الہندیة“: ویصح اقتداء القائم بالقاعد الذی یرکع ویسجد۔۔۔ ولو کان لقدم الإمام عوج وقام علی بعضہا یجوز وغیرہ أولی کذا فی التبیین۔

(۱/۸۵، کتاب الصلاة، الباب الخامس، الفصل الثالث فی بیان من یصلح إماما لغیرہ)

            مافی”التنویر مع الدر والرد“: وصح اقتداء متوضیء بمتیمم ، وقائم بقاعد وقائم بأحدب وإن بلغ حد بہ الرکوع علی المعتمد، وکذا بأعرج وغیرہ أولی۔

(۲/۳۳۶، ۳۳۸، کتاب الصلاة ، باب الإمامة، مطلب القیاس بعد عصر الأربعة مأة الخ)

(فتاوی قاسمیہ: ۶/۳۶۵، امداد الفتاوی:۱/۳۱۷، بعذر اکڑوبیٹھنے والے کی امامت)فقط

واللہ أعلم بالصواب

کتبہ العبد: محمد جعفر ملی رحمانی

۳۰/۷/۱۴۴۰

مسجد سے متصل راستے کا مسجد کے کاموں میں استعمال کرنا

            سوال: ہمار ی مسجد ” مسجد بلال“ زیر تعمیر ہے دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ اس مسجد سے لگ کر جو راستہ ہے اس راستہ کا کچھ حصہ مسجد میں یا مسجد سے متعلق ضروریات مثلا:(وضوخانہ وغیرہ) میں استعمال کرسکتے ہیں یا نہیں؟

            نوٹ:      اس زیر تعمیر مسجد کے پڑوسی کے مکانات بھی اس راستہ میں توسیع ہوچکے ہیں۔

الجواب وباللہ التوفیق:

            ہمارا ملک ہندوستان جمہور ی ملک ہے۔شہروں اور گاؤں میں حکومتی مِلک کی وہ زمینیں، جو عام لوگوں کے استعمال اور رفاہی اغراض ومقاصد کے لیے خالی چھوڑدی جاتی ہیں، ان سے بلاتفریق ِمذہب وملت ، شہروں اور گاؤں کے تمام افراد فائدہ اٹھانے کے مجاز ہوتے ہیں۔ کسی خاص قوم و ملت کا ان زمینوں کو اپنی تحویل میں لے لینا، دوسری اقوام وملل کو ان کے حقِ انتفاع سے محروم کردینے کے مترادف ہے، جس کی شرع اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے، لہذا عام راستہ پر اَتی کرمن کر کے اس کے کسی حصہ کو مسجد یا اس کے متعلقات میں شامل کرنا شرعا جائز ودرست نہیں ہے۔(۱)

            نیز ایسا کرنے کی صورت میں آئندہ فتنہ وفساد کا بھی اندیشہ ہے، کہ آئندہ جب اتی کرمن ہٹایا جائے گا،اور راستہ پر بنے حصے کو منہدم کیا جائے گا(۲)، تو شہر کے مسلمانوں میں یہی شور بپا ہو گا کہ مسجد کے ایک حصہ کو منہدم کردیاگیا، حالاں کہ حقیقتًا نہ تو وہ مسجد ِشرعی کا حصہ ہے ، اور نہ ہی مسجدکی ملک ہے، اور عقل وشرع ہمیں ہر اس کام سے منع کرتی ہے ، جو فتنہ وفساد کا سبب بنے۔(۳)

والحجة علی ماقلنا:

            (۱) مافی” درر الحکام شرح مجلة الأحکام“: ولیس لأحد بلاإذن ولی الأمر وضع شیء فی الطریق العام وإحداث أِشیاء فیہا والمیزاب والجرصن أی الغرفة البارزة علی السوق، وإذا حاول إحداث ذلک یمنع عند الإمام الأعظم ومحمد ولکل من أہل المرور حق منعہ۔

(۲/۶۲۳، الفصل الثالث فیما یحدث فی الطریق العام)

            (۲) مافی ” شرح المجلة للبنانی“: کل یتصرف فی ملکہ کیف شاء۔(ص/۶۵۴، رقم المادة: ۱۱۹۲)

            مافی” درر الحکام شرح مجلة الأحکام“: ترفع الأشیاء المضرة بالمارین ضررا فاحشا ولوکانت قدیمة کالبروز الوطیء وکذا الغرفة الدانیة۔۔۔ لأن الطریق العام قدیم أیضا والحق فیہ لایتغیر بأی سبب من الأسباب۔

(۳/۲۳۲،الفصل الثالث فی الطرق، رقم المادة: ۱۲۱۴)

            مافی” رد المحتار“: ماکان سببا لمحظور فہو محظور۔

(۹/۵۰۴، کتاب الحظر والإباحة)

            مافی” قواعد الفقہ“:درء المفاسد أولی من جلب المنافع۔(ص/۸۱)

            ( الأشباہ والنظائر لابن نجیم :ص/۳۲۲ – جمہرة القواعد الفقہیة: ۲/۷۳۳)

            (ترتیب اللآلی فی سلک الأمالی:ص/ ۶۹۱ –

             القواعد الکلیة والضوابط الفقہیة: ص/ ۱۸۲)فقط

واللہ أعلم بالصواب

کتبہ العبد: محمد جعفر ملی رحمانی

۱/۸/۱۴۳۹ھ

فتوی نمبر :۱۰۲۶

ٹیکس سے بچنے کے لیے لون لینا

            سوال:     میں سورت مارکیٹ میں ہول سیل تاجر ہوں اور اس وقت ٹیکس وغیرہ کے مسائل ہم پر مسلط ہیں، جس سے کاروبار پر بھی بڑا اثر پڑرہاہے، اچھے تاجروں سے اچھا مال لینے اور اچھے تاجروں کو اچھا مال فروخت کرنے یہ تمام کاروبار ایک بک نمبر میں کرنا پڑرہا ہے، جس پر ٹیکس لگتاہے، تو کیا میں اس صورت میں ٹیکس سے بچنے اور اچھے مال کی خریدوفروخت کرنے کے لیے مجبوری میں لون لے سکتاہوں؟ جب کہ میرے پاس اتنا سرمایہ بشکل مکان ونقد موجود بھی ہے، بس(GST) سے بچنے کے لیے لون لینا چاہتاہوں تاکہ ٹیکس وصول کرنے والوں کی نظر میں، میں مقروض رہوں اور ٹیکس سے بچ جاؤں، توکیا اس کی اجازت ہے، یا اور کوئی بہتر شکل ہو تو آں جناب رہبری فرمائیں۔عین نوازش ہوگی۔

الجواب وباللہ التوفیق:

            اچھے تاجروں سے اچھے مال خریدوفروخت کرنے کی صورت میں لگنے والے ٹیکس سے بچنے کے لیے،آپ لون لینا چاہ رہے ہیں،تو ٹیکس میں چوری کرکے جو رقم بچے گی، وہ سود میں چلی جائے گی، فرق صرف اتنا ہے کہ سود والی صورت اپنی اختیار کردہ ہے، یعنی اپنی مرضی سے سود دینے کے لیے آمادگی ہوگی۔ اور ٹیکس وصولی صورت اضطراری یعنی غیر اختیاری ہے، جس کی وجہ سے اس کا وبال خود پر نہیں آئے گا۔لہٰذا لون سے بہتر ٹیکس ادا کرنا ہے(۱) لیکن اگر انکم ٹیکس ناقابل برداشت ہو، اور سودی قرض لینے کے سوا اس سے بچنے کی کوئی صورت نہ ہو،تو ایسی صورت میں سودی قرض لینا ایک قانونی مجبوری اور ضرورت کا درجہ اختیار کرلے گی، اور فقہاء نے ضرورت اور مجبوری کے وقت سودی قرض لینے کی اجازت دی ہے(۲)۔لہٰذا ایسی صورت میں اس قدر لون لینے کی گنجائش ہوگی،جس کی ذریعے اپنے آپ کو قانونی گرفت سے بچا سکیں(۳)۔

والحجة علی ماقلنا:

(۱) مافی”القرآن الکریم“: وأحل اللہ البیع وحرم الربوا۔(سورة البقرة: ۲۷۵)

مافی”صحیح مسلم“: عن جابر قال: لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٰکل الربوا وموکلہ وکاتبہ وشاہدیہ۔

(۲/۲۷، کتاب المساقاة والمزارعة، باب لعن أکل الربا وموکلہ)

(سنن ابن ماجہ:ص/۱۶۵،أبواب التجارات، باب التغلیظ فی الربا)

(مستفاد از محمود الفتاوی: ۳/۶۶، مکتبہٴ أنور، ڈابھیل)

(۲) مافی” البحر الرائق“: وفی القنیة من الکراہیة: یجوز للمحتاج الاستقراض بالربح۔۔(۶/۲۱۱، کتاب البیع، باب الربوا)

(الأشباہ والنظائر لابن نجیم: ۱/۳۲۷،قبیل القاعدة السادسة، العادة محکمة)

(مافی”قواعد الفقہ“: الضرورات تقدر بقدرہا۔(ص:۸۹، رقم القاعدة/۱۷۱)

(کتاب الفتاوی:۵/۳۱۴- فتاوی دار العلوم زکریا افریقہ:۵/۵۱۸)فقط

واللہ أعلم بالصواب

کتبہ العبد: محمد جعفر ملی رحمانی

۶/۶/۱۴۴۰ھ

فتوی نمبر:۱۰۵۳

 صدقہ کی رقم سے برادری کے جماعت خانہ کے لیے زمین خریدنا

            سوال: ہماری براردری(کھتری)کے تاجر لوگ اپنی دکان یاسیل میں روزانہ حسب حیثیت کچھ رقم بطورِ صدقہ نکالتے ہیں۔پھر موقع بموقع ضرورت مند(مدارس۔غریب رشتہ دار وغیرہ، یا ان کی شادی بیاہ یاعلاج معالجہ واپریشن کے لیے) خرچ کرتے رہتے ہیں۔

            اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا اس صدقہ کی رقم سے برادری کے جماعت خانہ کے لیے زمین خریدی جاسکتی ہے، اسی طرح اس کی تعمیر پر خرچ کیا جاسکتاہے۔؟

الجواب وباللہ التوفیق:

            دکان یا سیل میں روزانہ حسب ِحیثیت بطور صدقہ نکالی جانے والی رقم صدقہٴ نافلہ ہے، اورصدقہٴ نافلہ کا حکم صدقہٴ واجبہ کی طرح نہیں ہے، یعنی وہ غسالة الناس نہ ہونے کی وجہ سے خبیث ( گندگی) نہیں ہے، بل کہ وہ طیب اور پاکیزہ ہے ، اور وہ غنی و فقیر دونوں کے لیے حلال ہے، نیز اسے مسجدو مدرسہ اور دیگر فلاحی تعمیرات میں صرف کرنا بھی جائز ہے۔ لہذا صورت مسئولہ میں صدقہ نافلہ کی رقم سے برادری کے جماعت خانہ کے لیے زمین خریدنا اور اس کی تعمیر کرنا ہردو کام جائز ہے۔

والحجة علی ماقلنا:

            مافی” بدائع الصنائع“: وقول النبی صلی اللہ علیہ وسلم:” لاتحل الصدقةلغنی“ ولأن الصدقة مال تمکن فیہ الخبث لکونہ غسالة الناس لحصول الطہارة لہم بہ من الذنوب، ولایجوز الانتفاع بالخبیث إلا عند الحاجة والحاجة للفقیر تجری مجری الہبة۔(۲/۴۷۶، کتاب الزکاة، فصل فی الذی یرجع إلی الموٴدی إلیہ)

            (البحر الرائق: ۲/۴۲۷، کتاب الزکاة، باب المصرف)

            (الفتاوی الہندیة: ۱/۱۸۹، الباب السابع فی المصارف)

            مافی”الموسوعة الفقہیة“: الأصل أن الصدقة تعطی للفقراء والمحتاجین وہذا ہو الأفضل کما صرح بہ فقہاء وذلک لقولہ تعالی”: أومسکینا ذا متربة“ واتفقوا علی أنہا تحل للغنی، لأن صدقة التطوع کالہبة، فتصح للغنی والفقیر، قال السرخسی: ثم التصدق علی الغنی یکون قربة یستحق بہا الثواب۔

(۲۶/۳۳۲،صدقة، التصدق علی الفقراء والأغنیاء)فقط

واللہ أعلم بالصواب

کتبہ العبد: محمد جعفر ملی رحمانی

۲۹/ ۱/۱۴۴۱ھ

بنا کسی کرایہ کے مکان میں رہنے سے مکان میں شرکت کا دعویٰ کرنا

            سوال: زید آبائی وطن سے دور پیشہٴ مدرسی سے منسلک ہے، ۲۰۰۲ء میں اپنے چھوٹے بھائی فرید سے بطورمدد (۴۰۰۰۰) چالیس ہزار روپے لیے، اور وطن میں دوکمروں والا مکان (۲۰*۱۲فٹ) خریدا، زید تو اپنے وطن تعطیلات پرہی آتا تھا مگر فرید کو سر چھپانے کو جگہ نہ تھی، اس لیے زید نے مزید قرض لے کر اس مکان کو رہنے کے قابل بنایا(سیفٹی ٹینک+بیت الخلا+نل اور پیچھے کی جانب ایک دیوار+ مکان کا پرانا لائٹ بل وغیرہ) اب اس مکان کی قیمت(۱۸۰۰۰۰) ایک لاکھ اسی ہزار روپے تقریبا ہوگی۔زید نے یہ مکان بنا کسی کرایہ کے فرید اور اس کی فیملی کو رہنے کے لئے دے دیا، زید اس مکان میں دیوالی، مئی اور عید کی تعطیلات پر فرید کے ساتھ ہی رہتاہے، دونوں بھائیوں کے بچے بڑے ہوئے اور جگہ کی تنگی ہونے لگی، مگر دونوں ہنسی خوشی گذاراکرتے رہے۔

            ۲۰۰۹ء میں زید کی بیوی کو میکے سے (۱۰۰۰۰۰) ایک لاکھ روپے ملے، اس میں سے مکان میں ایک کمرہ کا اضافہ کیا گیااور کمپاوٴنڈ وال بھی بنائی گئی، تقریبا(۳۵۰۰۰) پینتیس ہزار روپے خرچ ہوئے۔فرید اپنی خود کی میڈیکل بھی ڈال رہا تھا اس لیے اسے اس کے (۴۰۰۰۰) روپے زید نے بڑی بہن کے ہاتھوں ادا کردیے، تاکہ وقت پر اس کی بھی مدد ہوجائے، زید نے بہن سے بھی کہا کہ وہ جس طرح گھر میں رہتاتھا ویسے ہی رہے، اسے ہم(زید) نکالیں گے نہیں، کیوں کہ زید اپنی فیملی کے ساتھ ابھی بھی ویسے ہی ہے،چھٹیوں میں آتا تھا۔مکان کی قیمت (۲۱۵۰۰۰)دولاکھ پندرہ ہزار ہوگئی۔

            فروری دوہزار انیس (۲۰۱۹ء) کو زید نے فرید کوفون پر کہا کہ اب وہ ملازمت سے سبکدوش ہوکر وطن میں اسی گھر میں رہنے آرہا ہے اس لیے وہ(فرید) اپنے مکان (جو اس نے دوسال قبل تعمیر کیا تھا) میں چلاجائے۔

            زید اور فرید کے بھائیوں کے علاوہ تین افراد نے بیٹھ کر یہ حل نکالا کہ فرید کو زید مزید (۱۷۵۰۰۰) پونے دولاکھ دے گا، تب فرید ۳۱/ جولائی کو مکان خالی کردے گا۔ مگر افسوس فرید اس بات سے ہٹ کر زائد روپوں کی مانگ کرنے لگا، زید شرعی طور پر شراکت کی بنا پر رقم دینے کو تیار تھا۔

            اب آپ حضرات اس کی روشنی میں پیدا شدہ سوالوں کے جواب عنایت فرمائیں۔

            (الف) مکان مذکورہ کی قمیت:۲۱۵۰۰۰ / سمجھی جائے تو زید – فرید اور زید کی بیوی تینوں کی شراکت داری کیسی اور کتنی ہوگی؟

            (ب) کیا ۲۰۰۹ء سے زید کی بیوی کی شراکت داری سمجھی جائے اور فرید کی ختم سمجھی جائے؟

            (ج) ۲۰۰۹ء میں وال کمپاؤنڈ اور نئے کمرہ کی تعمیر سے قبل مکان کی قیمت ِفروخت ۴/ لاکھ سے بھی کم تھی، تو فرید کی شراکت کی قیمت اس وقت کے حساب سے دی جائے؟

            (د) اگر آج مکان کی قیمت فروخت ۱۲/ لاکھ تسلیم کی جائے تو زید- زید کی بیوی اور فرید کو کس طرح کتنی رقم دی جائے؟

الجواب وباللہ التوفیق:

             صورت مسئولہ میں زید تنہا(۲۰x۱۲) زمین ومکان کا مالک ہے ، بھائی فرید یا زید کی بیوی کی اس میں کوئی شرکت نہیں ہے،بھائی فرید اس لیے شریک نہیں کہ زید نے اس سے جو رقم لیا تھا وہ بطور شرکت نہیں لیا تھا، بل کہ بطور مدد یعنی قرض کے طور پر لیا تھا؛ جس کی تائید فرید کے عمل سے بھی ہوئی، کہ جب زید نے اسے وہ رقم لوٹائی تو فرید نے بلاچوں وچرا لے لیا، شرکت کی کوئی بات نہیں کی، نیز محض قرض دینے سے یا بلاکرایہ مکان میں رہنے سے شرعاً فرید مکان میں شریک نہیں ہوگا(۱) لہٰذا فرید پر لازم ہے کہ زید کے مکان کو خالی کردے، اور مکان خالی کرنے کے عوض کسی بھی بڑی یا چھوٹی رقم وغیرہ کا مطالبہ نہ کرے، شرعاً یہ ناجائزوحرام ہے(۲) نیز زید اور فرید کے بھائیوں کے علاوہ تین افراد کا یہ حل نکالنا کہ زید مزید(۱۷۵۰۰۰) پونے دو لاکھ فرید کو ادا کرے، تب فرید مکان خالی کرے گا، شرعاً یہ بھی درست نہیں ہے۔(۳)اسی طرح زید کی بیوی کو میکے سے ملے ہوئے روپیوں سے جو کمرہ اور وال کمپاؤنڈ تعمیر کیاگیا، اور اس میں سے فرید کے قرض کو ادا کرتے وقت بیوی کے ساتھ شرکت کا کوئی معاملہ نہیں کیا تو وہ بھی شریک نہیں ہوئی(۴) البتہ خرچ کردہ رقم اگر بیوی سے بطور قرض لیا تھا، تو لی ہوئی اس رقم کے بقدر رقم واپس کرنا ضروری ہے۔(۵)

والحجة علی ماقلنا:

            (۱-۴) مافي” التنویر مع الدر والرد“: ہي لغة الخلط وشرعا عبارة عن عقد بین المتشارکین في الأصل والربح ورکنہا في شرکة العین اختلاطہما وفي العقد اللفظ المقید لہ(التنویر مع الدر)قال الشامي رحمہ اللہ تعالی:قولہ:(اللفظ المقید لہ) أی لعقدالشرکة وہو الإیجاب والقبول۔(۶/۳۶۲/۳۶۳، کتاب الشرکة)

            مافي” تبیین الحقائق“: شرکة الملک أن یملک اثنان عینا إرثا أو شراء وکذا استیلاء أواتہابا أووصیة۔۔۔وشرکة العقد أن یقول أحدہما: شارکتک في کذا ویقبل الآخر لأنہ عقد من العقود فلابد من الإتیان برکنہ وہو الإیجاب والقبول۔(۴/۲۳۴،۲۳۵، کتاب الشرکة)

            مافي”القرآن الکریم“: ولاتاکلوا أموالکم بینکم بالباطل۔(سورة البقرة:۱۸۸)

مافي” مشکاة المصابیح“: عن أبی حرة الرقاشی عن عمہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ألالا تظلموا لا یحل مال امریء إلا بطیب نفس منہ۔

(ص: ۲۵۵، کتاب البیوع، باب الغصب والعاریة)

            (۳) مافي” فیض القدیر للمناوی“: عن علي رضي اللہ تعالی عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کل قرض جر منفعة فہو ربا۔(۵/۲۸، رقم الحدیث: ۶۳۳۶)

( کنز العمال: ۶/۱۹۹، کتاب الدین والسلم، فصل في لواحق کتاب الدین)

مافي” الدر المختار مع رد المحتار“: وفي الخلاصة:القرض بالشرط حرام والشرط لغو۔۔۔ وفي الأشباہ: کل قرض جر نفعا حرام۔ (۷/۳۹۴،۳۹۵،کتاب البیوع، باب المرابحة والتولیة، مطلب کل قرض الخ)

            (۵) مافي” رد المحتار“: إن الدیون تقضی بأمثالہا علی معنی أن المقبوض مضمون علی القابض، لأن قبضہ بنفسہ علی وجہ التملک ولرب الدین علی المدیون مثلہ۔ (۶/۶۷۵، کتاب الأیمان، باب الیمین في الضرب والقتل وغیر ذلک، مطلب : الدیون تقضی بأمثالہا)

            (الأشباہ والنظائر لابن نجیم: ص/۲۲۵، الفن الثالث، کتاب المداینات)فقط

واللہ أعلم بالصواب

کتبہ العبد: محمد جعفر ملی رحمانی

۴/۵/۱۴۴۱ھ

مسجد میں مجلس نکاح کے انعقاد پر مسجد کی بجلی اور نکاح کے رجسٹر کے استعمال پر مناسب معاوضہ وصول کرنا

سوال: ہمارے یہاں الحمدللہ مجلس نکاح مسجد میں منعقد کی جاتی ہے، اسی طرح نکاح پڑھانے والے دو حضرات متعین ہے، اور نکاح کا رجسٹر مسجد کا ہے۔ نیز نکاح پڑھانے کے ایک ہزار(۱۰۰۰/) روپئے لڑکے والوں سے وصول کیے جاتے ہیں اور یہ ہزار روپئے نکاح پڑھانے والے دونوں حضرات اور موٴذن صاحب آپس میں تقسیم کرلیتے ہیں۔

            اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ لڑکے والے یا لڑکی والے نکاح پڑھانے کے لیے کسی بزرگ عالم دین کو لاتے ہیں، تاہم لڑکے والوں سے ایک ہزار روپئے وصول کرکے یہ متعین حضرات اور موٴذن صاحب آپس میں تقسیم کرتے ہیں۔

            مندرجہ بالا وضاحت کے بعد حضرت مفتی صاحب سے حل طلب مسئلہ یہ ہے کہ

            ۱- مسجد میں نکاح کی مجلس منعقد ہوتی ہے، جس میں مسجد کی لائٹ، پنکھے وغیرہ استعمال ہوتے ہیں، تو کیا مسجد کمیٹی نکاح والوں سے کچھ رقم وصول کرسکتی ہے جب کہ نکاح کا رجسٹر بھی مسجد کا ہے؟

            ۲- نکاح پڑھانے کے لیے بزرگ عالمِ دین تشریف لاتے ہیں، تو کیا یہ ایک ہزار روپئے یہ متعینہ حضرات لے سکتے ہیں؟

۳- نکاح متعینہ حضرات پڑھائے یا بزرگ عالم دین، ان دونوں صورتوں میں نکاح پڑھانے کا معاوضہ لے سکتے ہیں یا نہیں؟

قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب دے کر عند اللہ ماجور ہوں۔

الجواب وباللہ التوفیق:

۱- مسجد میں مجلس نکاح منعقد ہونے پر، مسجد کی بجلی کے استعمال اور نکاح کے رجسٹر کا مناسب معاوضہ وصول کرنے کی گنجائش ہے۔(۱)

            ۲- جو نکاح پڑھائے وہ نکاح خوانی کا حقدار ہے، (۲) پھر نکاح خواں اپنی خوشی سے وہ رقم جس کو چاہے دے سکتا ہے۔ (۳)

۳- نکاح پڑھانے کی اجرت لینے کی فی نفسہ گنجائش ہے ۔(۴)

والحجة علی ما قلنا

(۱) مافي ”الفتاوی الہندیة“: لا بأس بالجلوس في المسجد لغیر الصلوة لکن لو تلف بہ شئ یضمن۔ (۱/۱۱۰/ قبیل الباب الثامن في صلوة الوتر)

(الفتاوی الخانیة علی ہامش الہندیة: ۱/۶۶/ کتاب الطہارة، باب التیمم، فصل في المسجد)

(فتاوی رحیمیہ: ۹/۱۱۱/ ۱۶۷- کتاب النوازل: ۱۳/۵۷۲)

(۲) مافي ”رد المحتار“: الأجرة إنما تکون في مقابلة العمل۔

(۴/۳۰۷/ کتاب النکاح، باب المہر، مطلب أنفق علی معتدة الغیر)

مافي ”الموسوعة الفقہیة“: إذا کانت الإجارة، صحیحة ترتب علیہا حکمہا الأصلي، وہو ثبوت الملک في المنفعة للمستاجر وفي الأجرة المسماة للموٴجر۔

(۱/۲۶۵/ اجارة، الفصل الثالث، المطلب الأول)

(۳) مافي ”التفسیر للبیضاوي “: المالک ہو المتصرف في الأعیان المملوکة کیف شاء من الملک۔ (ص: ۷/ سورة الفاتحة)

مافي ”معجم المصطلحات والألفاظ الفقہیة“: الملک التام في اصطلاح الفقہاء: ہو الذي یخول صاحبہ حق التصرف المطلق في الشئ الذي یملکہ فیسوغ لہ أن یتصرفیہ بالبیع والہبة والوقف۔ (۳/۳۵۱/ الملک)

(فتاوی محمودیہ: ۲۵/ ۲۴۱- فتاوی دار العلوم دیوبند: ۱۵/۲۹۸-کتاب النوازل: ۱۲/۲۵۴)

(۴) مافي ”البحر الرائق“: ولو تولی نکاح صغیرة لا یحل لہ أخذ شئ لأنہ واجب علیہ لا یجوز اخذ الأجرة علیہ۔ وما لایجب علیہ یجوز أخذ الأجر۔ (۵/۴۰۸/ کتاب الوقف، قبیل فصل في أحکام المسجد)

مافي ”الفتاوی الہندیة“: وکل نکاح باشرہ القاضي وقد وجبت مباشرتہ علیہ کنکاح الصغار والصغائر فلا یحل لہ أخذ الأجرة علیہ ومالم تجب مباشرتہ علیہ حل لہ أخذ الأجرة علیہ کذا في المحیط۔ (۳/۳۴۵/ کتاب أدب القاضي، الباب الخامس عشر في أقوال القاضي الخ)

(خلاصة الفتاوی: ۴/۸۴/ کتاب القضاء، الفصل العاشر في الحظر والإباحة)

(فتاوی محمودیہ: ۲۵/۲۴۱- فتاوی دار العلوم دیوبند: ۱۵/۲۹۶)

(فتاوی حقانیة: ۶/۲۴۹- کتاب النوازل: ۱۲/۴۵۳)فقط

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ العبد: محمد جعفر ملی رحمانی

۱/۱۲/۱۴۴۲ھ

مسجد کے منبر میں زینے کا حکم

سوال:     ایک مسئلہ ہے کہ ہمارے گاوٴں کی مسجد بن رہی ہے، اس میں جومنبر بنارہے ہیں، اس کا زینہ پیچھے کی جانب سے دے رہے ہیں، جس طرح کورٹ کچہری میں رہتے ہیں، کیا پیچھے سے زینہ رکھنا درست ہے؟ جس طرح عام طور پر سعودی میں رہتے ہیں۔

            آپ حضرات سے امید ہے کہ مدلل جواب دیں گے۔

الجواب وباللہ التوفیق:

            منبر کے سلسلے میں سنت طریقہ یہ رہا ہے کہ اس کا زینہ سامنے سے ہو، اور اس پر کھڑے ہوکر خطیب خطبہ دے۔ آپ اپنی مسجد میں جو منبر بنارہے ہیں اس حال میں کہ اس کا زینہ پیچھے کی جانب سے ہوگا، طریقہ مسنونہ کے خلاف ہونے کی وجہ سے بہتر نہیں ہے۔ تاہم اگر منبر اونچا ہی بنانا ہو، اور زینہ پیچھے کی جانب سے رکھنا ہو، تو اس اونچے منبر کی سطح پر تین زینوں والا لکڑی کا منبر اس طرح رکھ دیا جائے کہ اس کا زینہ سامنے کی جانب سے ہو اور خطیب اس پر کھڑا ہوکر خطبہ دے، تاکہ سنت کے مطابق ہوسکے۔

الحجة علی ما قلنا

            مافي ”سنن ابن ماجہ“: عن الطفیل بن ابی کعب عن أبیہ قال: کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یصلی إلی جذع إذ کان المسجد عریشاً وکان یخطب إلی ذلک الجدع ، فقال رجل من أصحابہ ہل لک أن نجعل لک شیئاً تقوم علیہ یوم الجمعة حتی یراک الناس وتسمعہم خطبتک قال نعم فصنع لہ ثلاث درجات فہی التي علی المنبر، الحدیث۔(ص: ۱۰۲/ کتاب الصلاة، ما جاء في بدء شان المنبر)

            مافي ”دلائل النبوة للبیہقي“: عن أنس بن مالک قال: کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقوم مسنداً ظہرہ إلی جذع منصوب في المسجد یوم الجمعة فخطب الناس فجاء ہ رومي فقال یارسول اللہ! ألا أصنع لک شیئاً تقعد علیہ کأنک قائم، فصنع لہ منبراً درجتین ویقعد علی الثالثة، الحدیث۔ (۲/۵۵۸، باب ذکر المنبر الذي اتخذ لرسول اللہ الخ)

            مافي ”عمدة القاري شرح صحیح البخاري“: ثم اعلم ان المنبر لم یزل علی حالہ ثلاث درجات حتی زادہ مروان في خلافة معاویة ست درجات من أسلفہ، وکان سبب ذلک ما حکاہ الزبیر بن بکار في (أخبار المدینة) باسنادہ إلی حمید بن عبد الرحمن بن عوف، قال: بعث معاویة إلی مروان وہو عاملہ علی المدینة…فخرج مروان فخطب فقال: إنما أمرني أمیر الموٴمنین أن أرفعہ، فدعا نجارا وکان ثلاث درجات فزاد فیہ الزیادة التي ہو علیہا الیوم۔ (۶/۳۱۱/ کتاب الجمعة، باب الخطبہ علی المنبر)

            (فتح الباري شرح صحیح البخاري: ۲/۵۱۳، باب الخطبة علی المنبر)

            (مجمع الزوائد: ۲/۳۳۳/ کتاب الصلاة، باب في المنبر)

            (جدید فقہی مسائل: ۱/۱۴۵/ المسائل المہمة فیما ابتلت بہ العامة: ۵/۱۵۸) فقط

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ العبد: محمد جعفر ملی رحمانی

۲۱/۴/۱۴۴۲ھ

#…#…#