مفتی محمد جعفر صاحب ملی رحمانی
صدر دار الافتاء-جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا
مرنے کے بعد مردے کو کس طرح لٹانا چاہیے ؟
مردے کو کس سمت میں لٹاکر غسل دینا چاہیے ؟
قبرستان لے جاتے وقت مردے کے پیر کس طرف ہونے چاہیے ؟
ٍٰسوال: (۱) مرنے کے بعد مردے کو لٹا نے کی کیا حیثیت ہونی چاہیے ؟
(۲) مردے کو کس سمت میں لٹاکر غسل دینا چاہیے ؟
(۳) قبرستان لے جاتے وقت مردے کے پیر کس طرف ہونا چاہیے ؟
جواب : ۱/ انتقال سے پہلے موت کے آثار شروع ہوجائیں، تو اس وقت اس کا سر شمال کی طرف اور پیر جنوب کی طرف، اور رخ قبلہ کی طرف کردیا جائے ،یہی افضل اور سنت طریقہ ہے۔(۱)
۲/ غسل کے وقت میت کو شمالاً جنوباًلٹایا جائے ، جس طرح قبر میں لٹایا جاتا ہے، اگر اس میں سہولت نہ ہو اور دوسری طرح لٹانے میں سہولت ہو، تو اسی طرح لٹایا جائے، اور اگر غسل کے وقت قبلہ کی طرف پاوٴں کرکے سر اونچا کردیا جائے تاکہ منہ قبلہ کی طرف ہو تو اس طرح بھی درست ہے۔(۲)
۳/ قبرستان لے جاتے وقت بس اتنا لحاظ رکھیں کہ میت کا سر آگے کی جانب ہو ۔(۳)
والحجة علی ما قلنا :
(۱) ما في ” مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح “ : ویسن توجیہ المحتضر، أي من قرب من الموت علی یمینہ ، لأنہ السنة ، وجاز الاستلقاء علی ظہرہ لأنہ أیسر لمعالجتہ، ولکن یرفع رأسہ قلیلاً لیصیر وجہہ إلی القبلة دون السماء ۔ (ص:۵۵۸، با ب أحکام الجنائز)
ما في ” رد المحتار علی الدر المختار “ :(ویوضع کما مات کما تیسر) فی الأصح (علی سریر مجمر وتراً ) ۔ ” الدرالمختار “۔ قولہ : (فی الأصح) وقیل : یوضع إلی القبلة طولاً، وقیل عرضاً ، کما فی قبرہ ۔ (۳/ ۸۴،۸۵ ،کتاب الصلاة ، باب صلاة الجنائز)
(۲) ما في ” رد المحتار علی الدر المختار “ : یوجہ المحتضر ۔۔۔۔۔ القبلة علی یمینہ ہو السنة (وجاز الاستلقاء ) علی ظہرہ وقدماہ إلیہا وہو المعتاد فی زماننا، ولکن یرفع رأسہ قلیلاً لیتوجہ إلی القبلة ۔ (۳/۷۷، کتاب الجنائز، باب صلاة الجنازة)
ما في ” حلبی کبیر“ :یوضع علی التخت طولاً إلی القبلة کما فی صلاة المریض بالإیماء ۔
(ص: ۵۷۷، فصل فی الجنائز)
(۳) ما في ” الفتاوی الہندیة “ : وفی حالة المشي بالجنازة یقدم الرأس۔ (۱/ ۱۶۲، الفصل الرابع فی حمل الجنازة ، الباب الحادی والعشرون فی الجنائز) فقط
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ العبد: محمد جعفر ملی رحمانی ۔۲۵/۵/۱۴۲۹ھ
(فتویٰ نمبر: ۸۲۔رج:۱)
اپنی ذاتی زمین میں دفنانے کی وصیت کرنا
سوال: ایک صاحب (مرحوم) وفات سے پہلے یہ وصیت کر گئے ہیں کہ جب میری موت ہوجائے ،تو مجھے اپنی ملکی زمین ہی میں دفن کرنا، غور طلب امر یہ ہے کہ آیا مرحوم کی اس وصیت پر عمل کرنا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟ یعنی انہیں ان کی وصیت کے مطابق اس زمین میں جو ان کی ملکیت میں ہے دفن کرسکتے ہیں یانہیں؟
جواب: مرحوم کی ایسی وصیت کہ مجھے میری ہی زمین میں دفن کیا جائے ، خلاف ِشرع ہونے کی وجہ سے باطل ہے ،اس پر عمل نہیں کیا جائے گا، بلکہ انہیں عام مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیاجائے گا۔(۱)
والحجة علی ما قلنا :
(۱) ما في ” رد المحتار علی الدر المختار “ : ولا ینبغي أن یدفن المیت فی الدار ولو کان صغیراً لاختصاص ہذہ السنة بالأنبیاء ۔”درمختار“۔ قولہ :(فی الدار) کذا فی الحلیة عن منیة المفتی وغیرھا ، وہو أعم من قول الفتح ، ولا یدفن صغیر ولا کبیر فی البیت الذی مات فیہ ، فإن ذلک خاص بالأنبیاء بل ینقل إلی مقابر المسلمین ، ومقتضاہ أنہ لا یدفن فی مدفن خاص کما یفعلہ من یبنی مدرسة ونحوہا ، ویبنی لہ بقربہا مدفناً، تأمل ۔
(۳/۱۴۰، با ب صلاة الجنازة، مطلب فی دفن المیت ، دار الکتب العلمیة بیروت)
ما فی ” الدر المختار مع رد المحتار“ : وینبغی أن یکون القول ببطلان الوصیة بالتطیین مبنیاً علی القول بالکراہة لأنہا حینئذ وصیة بالمکروہ، قالہ المصنف ۔”درمختار “۔
(۱۰/۳۹۵ ، کتاب الوصایا، باب العتق فی المرض، قبیل باب الوصیة بالخدمة ، إمداد الفتاوی:۴/ ۳۲۹، أحسن الفتاوی: ۴/۲۱۵) فقط
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ العبد : محمد جعفر ملی رحمانی ۔۱۹/۴/۱۴۲۹ھ
الجواب صحیح: عبد القیوم اشاعتی ۔۱۹/۴/۱۴۲۹ھ
(فتویٰ نمبر: ۶۹۔رج:۱)