مفتی محمد جعفر صاحب ملی #رحمانی#
صدر دار الافتاء-جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا
منھ بولے بچے کے حقیقی والد کے نام کی جگہ دوسرے کا نام
سوال: گود لیے ہوئے بچے کا نکاح ہوا ، نکاح میں اس کے حقیقی والد کے نام کے بجائے جس شخص نے اسے گود لیا اس کا نام لگایا گیا ، تو کیا نکاح صحیح ہوگیا ؟
الجواب وباللہ التوفیق : نکاح کے وقت اگر دولہے کے حقیقی والد کی جگہ گود لیے ہوئے شخص کا نام لیا گیا ، لیکن دولہا مجلسِ نکاح میں موجود ہے اور اس کی طرف اشارہ کرکے نکاح پڑھایا گیا ،اور لڑکی یا اس کے وکیل اس کو جانتے ہوں، تو اس غلط ولدیت سے نکاح میں کوئی خرابی نہیں آئی ، اور نکاح صحیح ودرست ہوگیا(۱)، البتہ قصداً غلط ولدیت بیان کرنا سخت گنا ہ کی بات ہے، جس سے بچنا ضروری ہے۔(۲)
والحجة علی ما قلنا :
(۱) ما في ” الفتاوی التاتار خانیة “ : قال الشیخ محمد بن الفضل : إذا ذکروا في النکاح اسم رجل وکنیة أبیہ ولم یذکروا اسم أبیہ إن کان الرجل حاضرا مشارا إلیہ جاز ۔
(۴/۹۰ ، کتاب النکاح ، الباب الأول ، الفصل الأول)
ما في ” رد المحتار “ : ففي الخانیة : قال الإمام ابن الفضل : إن کان الزوج حاضرا مشار إلیہ جاز ؛ لأن المقصود من التسمیة التعریف وقد حصل ، وأقرہ في الفتح والبحر ۔
(۴/۹۰ ، کتاب النکاح ، مطلب الخصاف کبیر في العلم یجوز الاقتداء بہ ، فتاوی قاضي خان : ۱/۱۵۲ ، کتاب النکاح ، الباب الأول ، الفصل الأول)
(۲) ما في ” القرآن الکریم “ : ﴿ادعوہم لاٰباء ہم ہو اقسط عند اللّٰہ﴾ ۔ (سورة الأحزاب : ۵)
ما في ” روح المعاني “ : ویعلم من الآیة أنہ لا یجوز انتساب الشخص إلی غیر أبیہ ، وعد ذلک بعضہم من الکبائر لما أخرج الشیخان ۔ (۱۲/۲۲۶ ، الجزء الحادي والعشرون)
ما في ” صحیح البخاري “ : عن سعد بن أبي وقاص قال : سمعت النبي ﷺ یقول : ” من ادعی إلی غیر أبیہ وہو یعلم أنہ غیر أبیہ فالجنة علیہ حرام “ ۔
وعن أبي ہریرة ، عن النبي ﷺ قال : ” لا ترغبوا عن آبائکم ، فمن رغب عن أبیہ فہو کفر “ ۔
(۲/۱۰۰۱ ، کتاب الفرائض ، صحیح مسلم : ۱/۵۷ ، کتاب الإیمان)
ما في ” سنن أبي داود “ : عن أنس بن مالک قال : سمعت رسول اللّٰہ ﷺ یقول : ” من ادعی إلی غیر أبیہ أو انتمی إلی غیر موالیہ فعلیہ لعنة اللّٰہ المتتابعة إلی یوم القیامة “ ۔
(ص/۶۹۷ ، کتاب الأدب ، باب في الرجل ینتمي إلی غیر موالیہ)
ما في ” مرقاة المفاتیح شرح مشکوة المصابیح “ : والادعاء إلی غیر الأب مع العلم بہ حرام ، فمن اعتقد إباحتہ کفر لمخالفة الإجماع ، ومن لم یعتقد إباحتہ فمعنی کفر وجہان : أحدہما أنہ قد أشبہ فعلہ فعل الکفار ۔ والثاني أنہ کافر نعمة الإسلام ۔
(۶/۴۳۶ ، کتاب النکاح ، باب اللعان ، قبیل الفصل الثاني)
(فتاویٰ محمودیہ : ۱۶/۱۱۵ ، فتاویٰ عثمانی : ۲/۲۷۷) فقط
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ العبد : محمد جعفرملی رحمانی ۔۲۳/۲/۱۴۳۷ ھ
(فتویٰ نمبر :۸۹۱ – رج :۹)
رضاعی بھائی سے نکاح حرام ہے
سوال: ایک لڑکا جس لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے ، اس لڑکی کو اس لڑکے کی ماں نے دودھ پلایا ہے، اور دودھ ایسے حالات میں پلایا ہے کہ لڑکی کی ماں کو دودھ پلانے والے راستے میں زخم ہوگیا تھا ، جس کی وجہ سے وہ دودھ نہیں پلاسکتی تھی ، اور اس وقت وہ لڑکی کھانا کھاتی تھی ،اور اس کی عمر اس وقت لگ بھگ ایک سال تھی، عمر کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ اس وقت اس کی عمر کیا تھی ، لڑکی کی ماں کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت لگ بھگ ایک سال کی تھی، لہٰذا آپ یہ بتلادیں کہ وہ لڑکا اس لڑکی سے شادی کر سکتا ہے یا نہیں ؟
الجواب وباللہ التوفیق : اگر لڑکی نے ڈھائی سال سے کم عمر کے اندر اس لڑکے کی ماں کا دودھ پیا ہے ، تو اب لڑکے کی ماں اس لڑکی کی رضاعی ماں ہوگئی ، اور اس عورت کی اولاد لڑکی کے رضاعی بھائی بہن بن گئے (۱) ،اور جس طرح نسبتی بھائی سے شادی کرنا حرام ہے، اسی طرح رضاعی بھائی سے شادی کرنابھی حرام ہے(۲)، لہٰذا اس لڑکی کا نکاح اس عورت کے کسی بھی لڑکے کے ساتھ نہیں کیا جاسکتا۔(۳)
والحجة علی ما قلنا :
(۱) ما في ” تنویر الأبصار مع الدر والرد “ : الرضاع (ہو مص من ثدي آدمیة في وقت مخصوص) ہو (حولان ونصف عندہ حولان) فقط (عندہما وہو الأصح) ۔ فتح ۔ وبہ یفتی ۔ کما في تصحیح القدوري عن العون ، لکن في الجوہرة أنہ في الحولین ونصف ولو بعد الفطام محرم ۔ وعلیہ الفتوی ۔ (تنویر مع الدر) وفي الشامیة : قال الشامي رحمہ اللّٰہ تعالیٰ : وحاصلہ أنہما قولان أفتی بکل منہما ۔ (۴/۳۸۹ ، کتاب النکاح ، باب الرضاع)
ما في ” التصحیح والترجیح علی القدوري “ : والرضاع یحرم في المدتین علی القولین ۔
(ص/۳۳۵ ، کتاب الرضاع)
ما في ” سنن أبي داود “ : عن عائشة زوج النبي ﷺ أن النبي ﷺ قال : ” یحرم من الرضاعة ما یحرم من الولادة “ ۔ (ص/۲۸ ، کتاب النکاح ، باب یحرم من الرضاعة إلخ)
ما في ” جامع الترمذي “ : عن علي رضي اللّٰہ عنہ قال : قال رسول اللّٰہ ﷺ : ” إن اللّٰہ حرم من الرضاع ما حرم من النسب “ ۔ (۱/۲۱۷ ، کتاب الرضاع ، باب ما جاء یحرم من الرضاع إلخ)
(۳) ما في ” تنویر الأبصار مع الدر والرد “ : (ولا یحل بین رضیعي امرأة) لکونہما أخوین ، وإن اختلف الزمن والأب ، (ولا) حل (بین الرضیعة وولد مرضعتہا) أي التي أرضعتہا ۔
(۴/۴۱۰ ، کتاب النکاح ، باب الرضاع ، البحر الرائق : ۳/۳۹۶ ، کتاب الرضاع)
ما في ” بدائع الصنائع “ : والأصل في ذلک أن کل اثنین اجتمعا علی ثدي واحد صار أخوین أو أختین أو أخاً وأختاً من الرضاعة ، فلا یجوز لأحدہما أن یتزوج بالآخر ولا بولدہ کما في النسب ۔ (۵/۶۵ ، کتاب الرضاع ، الہدایة شرح البدایة : ۲/۳۵۱ ، کتاب الرضاع)
(فتاویٰ عثمانی : ۲/۲۳۷،۲۴۵) فقط
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ العبد : محمد جعفرملی رحمانی ۔یکم/جمادی الاخری/۱۴۳۶ ھ
(فتویٰ نمبر :۸۴۸ – رج :۹)
خالہ زاد بھائی کی لڑکی سے نکاح
سوال: زید اپنے خا لہ زا د بھا ئی کی لڑ کی سے شا د ی کر نا چا ہتا ہے ، تو کیا اس کا اس لڑ کی سے شا دی کر نا در ست ہے؟ بر ائے مہر با نی جوا ب عنا یت فر ما ئیں !
الجواب وباللہ التوفیق : زید کے لیے اپنی خا لہ کے لڑ کے کی لڑ کی سے نکا ح کر نا جا ئز و در ست ہے۔ (۱)
والحجة علی ما قلنا :
(۱) ما في ” أحکام القرآن للجصاص “ : قولہ تعالیٰ : ﴿وخالٰتکم ﴾ ۔۔۔۔۔ وخص تعالی العمات والخالات بالتحریم دون أولادہن ، ولا خلاف في جواز نکاح بنت العمة وبنت الخالة ۔ (۲/۱۵۶ ، باب ما یحرم من النساء ، مطلب في مناظرة جرت بین الإمام الشافعي مع بعض الناس إلخ)
ما في ” الدر المختار مع الشامیة “ : وأما عمة عمة أمہ وخالة خالة أبیہ فحلال کبنت عمہ وعمتہ وخالہ وخالتہ لقولہ تعالیٰ : ﴿واحل لکم ما ورآء ذلکم﴾ ۔ (۴/۸۳ ، فصل في المحرمات)
ما في ” بدائع الصنائع “ : وتحل لہ بنت العمة والخالة وبنت العم والخال ؛ لأن اللّٰہ تعالیٰ ذکر المحرمات في آیة التحریم ، ثم أخبر سبحانہ وتعالیٰ انہ أحل ما وراء ذلک بقولہ : ﴿واحل لکم ما ورآء ذلکم﴾ ۔۔۔۔۔۔۔ وکذا عمومات النکاح لا توجب الفصل ، ثم خص عنہا المحرمات المذکورات في آیة التحریم فبقي غیرہن تحت العموم ۔
(۲/۵۳۱ ، کتاب النکاح ، فصل ومنہا أن تکون المرأة محللة)
ما في ” الموسوعة الفقہیة “ : وأما بنات الأعمام والأخوال ، وبنات العمات والخالات ، وفروعہن ، فیجوز التزوج بہن ، لعدم ذکرہن في المحرمات لقولہ تعالیٰ : ﴿واحل لکم ما ورآء ذلکم﴾ ۔ (۳۶/۲۱۲ ، محرمات النکاح ، المحرمات بسبب القرابة)
(فتاوی رحیمیہ : ۸/۲۱۳) فقط
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ العبد : محمد جعفرملی رحمانی ۔۲۹/۱۱/۱۴۳۳ ھ
(فتویٰ نمبر :۶۳۵- رج :۷)