مفتی محمد جعفر صاحب ملی ؔرحمانیؔ
صدر دار الافتاء-جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا
کوئی بھی آدمی صاحبِ ترتیب کب ہوگا؟
صاحبِ ترتیب فوت شدہ نمازکے یا د ہوتے ہوئے وقتی فرض کو پڑھ لے تو کیاحکم ہے؟
ایک بار ترتیب ساقط ہوجائے تو کیا وہ دوبارہ لوٹ سکتی ہے؟
کیا سقوطِ ترتیب کے بعد آدمی دوبارہ صاحبِ ترتیب ہوسکتا ہے ؟
سوال: (۱) کوئی بھی آدمی صاحبِ ترتیب کب ہوگا؟
(۲) اگر صاحب ترتیب فوت شدہ نماز کی قضا یا د ہوتے ہوئے وقتی فرض کو پڑھ لے، تو کیا اس کا یہ فرض صحیح ہوگا ؟
(۳) ایک بار ترتیب ساقط ہو تو کیا دوبارہ وہ لوٹ آئے گی ؟
(۴) کیا سقوطِ ترتیب کے بعد آدمی صاحبِ ترتیب ہوسکتا ہے ؟
الجواب وباللہ التوفیق: ۱؍ جس آدمی کے ذمہ محض چھ نمازوں سے کم یعنی پانچ ،چار، تین ، دو یا ایک نماز کی قضا باقی ہو وہ صاحبِ ترتیب ہے ، یعنی جب وہ ان نمازوں کی قضا کرے گا،تو خود ان نمازوں کے درمیان ترتیب لازم ہوگی، مثلاً پہلے ظہر،بعد میں عصر ،پھر مغرب ،پھر عشاء، پھر فجر کی نماز قضا کرے گا، جس طرح ان فوت شدہ نمازوں کی قضا میں ترتیب لازم ہے، اسی طرح ان قضا نمازوں اور وقتی نماز (مثال میں ظہر کی نماز ہوسکتی ہے) کے درمیان ترتیب لازم ہے ، یعنی پہلے ان نمازوں کی قضا کرے بعد میں وقتی نماز پڑھے ۔
۲؍ فوت شدہ نماز کے یاد ہوتے ہوئے وقتی نماز یعنی ظہر کی نماز پڑھتا ہے، تو اس کی ظہر کی نماز موقوف طور پر فاسد ہوگی، یعنی آئندہ دن کی فجر کی نماز بھی پڑھ لی، اور فجر کا وقت نکل گیا، اور فوت شدہ نماز کی قضا نہیں کی، تو یہ پانچوں نمازیں صحیح ہوں گی، اور اگر فجر کا وقت نکلنے سے پہلے فوت شدہ نماز کی قضا کی تویہ پانچوں نمازیں نفل بن جائیں گی۔
۳؍ جب ترتیب ساقط ہوگئی، تو اب دوبارہ نہیں لوٹے گی ، مثلاً اوپر کی صورت میں جب پانچویں نماز کا وقت نکل گیا اور شخص مذکور نے اپنے ذمہ فوت شدہ نماز کی قضا نہیں کی، تو یہ پانچوں نمازیں صحیح ہونگی، اب اس پر ترتیب لازم نہیں ہوگی ، مثا ل کے طور پر اس کے ذمہ صرف ایک نماز کی قضا باقی رہ گئی تھی، اس کی قضا نہ کرتے ہوئے وقتی نماز پڑھ لی، تو وہ بلاتوقف صحیح ہوگی، کیوں کہ اب اس پر ترتیب لازم نہیں ، کیونکہ قاعدہ ہے : ’’ الساقط لا یعود‘‘ جیسے ماء قلیل جب ناپاک ہو اور اس میں ماء جاری داخل ہونے کی وجہ سے وہ کثیر ہو، تو وہ پاک ہوجاتا ہے، اب جب دوبارہ وہ اپنی حالتِ اولیٰ، یعنی قلیل کی طرف لوٹ آئے، تو اس کی نا پاکی لوٹ کر نہیں آئے گی۔
۴ ؍ علامہ شامیؒ فرماتے ہیں: جب تما م نمازیں قضا کرلی، تو مفتیٰ بہ قول یہ ہے کہ اب اس پر از سرِ نو ترتیب لازم ہوگی (یعنی دوبارہ صاحبِ ترتیب بنے گا)، مگر اس دوبارہ صاحبِ ترتیب بننے کی وجہ سے یہ نہیں کہا جائے گاکہ جو ترتیب ساقط ہوئی تھی وہ دوبارہ لوٹ آئی۔ (۱)
والحجۃ علی ما قلنا :
(۱) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : لا یعود لزوم الترتیب بعد سقوطہ أي الفوائت بعود الفوائت إلی القلۃ بسبب القضاء لبعضہا علی المعتمد ؛ لأن الساقط لا یعود۔۔۔۔۔۔ قولہ : (لأن الساقط لا یعود) وأما إذا قضی الکل فالظاہر أنہ یلزمہ ترتیب جدید ، فلا یقال إنہ عاد۔ (۲/ ۵۲۹ ، کتاب الصلاۃ ، باب قضاء الفوائت ، مطلب في تعریف الإعادۃ ، ط : دار الکتب العلمیۃ بیروت) فقط
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ العبد: محمد جعفر ملی رحمانی ۔۱۴/۴/۱۴۲۹ھ
(فتویٰ نمبر:۵۷۔رج: ۱)
سجدۂ تلاوت کے بعد سورۂ فاتحہ پڑھ دے تو سجدۂ سہو لازم ہوگا یا نہیں؟
سوال: اگر کوئی شخص سجدۂ تلاوت سے فارغ ہوکر سورۂ فاتحہ پڑھنا شروع کردے ،تو کیا اس پر سجدۂ سہو لازم ہوگا ؟
الجواب وباللہ التوفیق : اس صورت میں سجدۂ سہو واجب نہیں، اگر’’ الحمد‘‘ دو دفعہ مسلسل پڑھتا، یعنی درمیان میں کسی اور سورت کی قرأت سے فصل نہ ہوتا، تب سجدۂ سہو واجب ہوتا ۔(۱)
والحجۃ علی ما قلنا :
(۱) ما في ’’ الجوہرۃ النیرۃ ‘‘ : ولو قرأ الفاتحۃ مرتین في الأولیین فعلیہ السہو لأنہ أخر السورۃ ، ولو قرأ فیہما الفاتحۃ ثم السورۃ ثم الفاتحۃ ساہیاً لم یجب علیہ سہو وصار کأنہ قرأ سورۃ طویلۃ ۔
(۱/۲۰۰، مطلب في موجبان سجود السہو)
ما في ’’ فتاوی قاضي خان علی ہامش الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : وإذا ترک الفاتحۃ في الأولیین أو أحدہما أو ترک السورۃ في الأولیین أو أحدہما یلزمہ السہو ، منہا إذا قرأ في الأولیین أو في أحدہما الفاتحۃ ثم السورۃ ، ولو قرأ الفاتحۃ ثم السورۃ ثم الفاتحۃ لا سہو علیہ ۔ (۱/۱۲۱)
ما في ’’ رد المحتار علی الدر المختار ‘‘ : أما لو قرأہا قبل السورۃ مرۃ وبعدہا مرۃ فلا یجب ۔ (۲/۱۳۵، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب کل شفع في النفل صلاۃ ، البحر الرائق:۲/۱۶۶، کتاب الصلاۃ ، باب سجود السہو) فقط
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ العبد: محمد جعفر ملی رحمانی ۔۲۶/۶/۱۴۲۹ھ
(فتوی نمبر: ۲۴۰۔رج:۳)