فقہ وفتاویٰ

مفتی محمد جعفر صاحب ملی ؔرحمانیؔ     

صدر دار الافتاء-جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا

کنویں میں کچھوا گر کر مرجائے تو کتنا پانی نکالا جائے گا؟

سوال:   ہمارے گاؤں میں ایک کنویں میں ایک کچھوا گر کر مر گیا ہے، جس کی وجہ سے پانی بد بودار ہوگیا ہے، نیز پورا پانی نکالنا ممکن نہیں ہے، حاصل طلب امر یہ ہے کہ کیا کیا جائے؟ براہِ کرم جلد از جلد حل تحریر فرماکر ثوابِ دارین حاصل کریں۔

الجواب وباللہ التوفیق :  کچھوے کے کنویں میں گر کر مرجانے، اور ریزہ ریزہ ہوکر پانی میں مل جانے، اور پانی کے بدبودار ہونے کے باوجود پانی پاک ہے ، لیکن اس کا پینا اور اس سے کھانا پکانا درست نہیں، کیوں کہ کچھوے کے گوشت کے اَجزاء اس میں موجود ہیں، اور وہ حرام ہیں، البتہ وضو اور غسل اس سے کرسکتے ہیں، ہاں! جب یہ بدبو ختم ہوجائے اور اس کے اجزاء پانی میں باقی نہ رہیں، تب اس پانی سے کھانا پکانا بھی درست ہوگا ۔(۱)

والحجۃ علی ما قلنا :

(۱) ما في ’’ رد المحتار علی الدر المختار ‘‘ : (ومائي مولد) ولو کلب الماء وخنزیر (کسمک وسرطانٍ) وضفدع إلا بریا لہ دم سائل وہو ما لا سترۃ لہ بین أصابعہ فیفسد في الأصح ،کحیۃ بریۃ إن لہا دم وإلا لا ۔۔۔۔۔ فلو تفتت فیہ نحو ضفدعٍ جاز الوضوء بہ لا شربہ لحرمۃ لحمہ ۔ ’’ در مختار ‘‘ ۔ وفي الشامیۃ : قولہ : (ومائي مولد) عطف علی قولہ : ’’ غیر دمویٍ ‘‘ ، أي ما یکون توالدہ ومثواہ في الماء ، سواء کانت لہ نفس سائلۃ أو لا في ظاہر الروایۃ ، بحر عن السراج ، أي لأن ذلک لیس بدم حقیقۃ ، وعرف في الخلاصۃ : المائي بما لو استخرج من الماء یموت لساعتہ ، وإن کان یعیش فہو مائي وبري ، فجعل بین المائي والبري قسماً آخر وہو ما یکون مائیاً وبریاً ، ولکن لم یذکر لہ حکماً علی حدۃ والصحیح أنہ ملحق بالمائي لعدم الدمویۃ ، شرح المنیۃ ۔ أقول : والمراد بہذا القسم الآخر ما یکون توالدہ في الماء ، لایموت من ساعتہ لو أخرج منہ کالسرطان والضفدع ۔۔۔۔۔ قولہ : (کحیۃ بریۃ) أما المائیۃ فلا تفسد مطلقاً کما علم مما مر ۔۔۔۔۔ قولہ : (لحرمۃ لحمہ) لأنہ قد صارت أجزاء ہ في الماء فیکرہ الشرب تحریمًا کما في البحر ۔ (۱/۳۳۰، ۳۳۱، کتاب الطہارۃ ، باب المیاہ)

ما في ’’ البحر الرائق ‘‘ : وروي عن محمد إذا تفتت الضفدع في الماء کرہت شربہ لا للنجاسۃ بل لحرمۃ لحمہ وقد صارت أجزاء ہ في الماء ، وہذا التصریح بأن کراہۃ شربہ تحریمیۃ ، وبہ صرح في التجنیس : فقال یحرم شربہ ۔

(۱/۱۶۲، کتاب الطہارۃ ، ط : دار الکتب العلمیۃ بیروت ، الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ : ۵/۱۳۰، أطعمۃ ، ط : وزارۃالأوقاف والشؤون الإسلامیۃ کویت ، فتاوی دار العلوم دیوبند :۱/۲۰۸، کتاب الطہارۃ ، فتاوی عثمانی :۱/۳۲۷ ، کتاب الطہارۃ، عمدۃ الفقہ : ۱/۲۰۲، کتاب الطہارۃ) فقط

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ العبد: محمد جعفر ملی رحمانی۔۱۶/۶/۱۴۲۹ھ

(فتویٰ نمبر: ۹۵۔رج:۱)