فقہ وفتاویٰ

مفتی محمد جعفر صاحب ملیؔ رحمانیؔ     

صدر دار الافتاء-جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کو

استنجا کے بعد قطرات محسوس ہوں

استنجا میں پانی کے ساتھ ڈھیلے کا استعمال

سوال:     بند ہ کا فی د نو ں سے طہا ر ت و پا کی کے تعلق سے تذ بذُ ب کا شکا ر ہے ، کیو ں کہ پیشا ب کے قطر ا ت ،حد در جہ احتیا ط کے با و جو د نکل آ تے ہیں، جس سے نما ز و ں میں دل نہیں لگتا ، اور تذبذب کی وجہ سے بعض مر تبہ نما ز یں چھو ٹ بھی جا تی ہیں۔ اسی طرح دو سر ی عبا د ا ت بھی نہیں ہوپاتی ہیں۔

آپ سے گز ا ر ش ہے کہ اس پر یشا نی سے متعلق مند ر جہ ذ یل دو مسا ئل کا حل مر حمت فر ما ئیں، عین نواز ش ہوگی۔

۱-         استنجاء یا بیت الخلاء سے فا ر غ ہو نے کے فو راً، یا کچھ منٹو ں کے بعدکھا نسنے ، جھکنے، تیز قدم چلنے پر پیشاب کے قطرات محسوس ہوتے ہیں، تو کیا ایسی صورت میں کپڑے بدلنے ہوں گے ؟ اور اگر کپڑے بدلنا ممکن نہ ہو تو کیا کیا جائے ؟

۲-         اگر کوئی شخص پانی موجود ہونے کے باوجود، استنجاء کے بعد ڈھیلے کا استعمال اس لیے کرتاہے کہ اسے پانی سے حاصل شدہ پاکی سے زیادہ اطمینان ڈھیلے سے رہتاہے،اور پیشاب کے قطرات محسوس نہیںہوتے، توکیا اس کا یہ عمل (صرف ڈھیـلے کااستعمال ) صحیح ہے؟

الجواب وباللہ التوفیق :         ۱-         ایسی صورت میںکپڑے بدلنا ضرو ری نہیں، جتنی جگہ آلودہ ہوئی اتنی جگہ کا دھولینا کافی ہے۔(۱)

۲-         اگر نجاست مخرج (نکلنے کی جگہ)سے ایک درہم کی مقدار سے زیادہ تجاوز کرجائے،تو طہارت کے لیے محض ڈھیلوں کااستعمال کافی نہیںہے،بلکہ پانی کے ذریعہ اسے دور کرنا لازم ہے، البتہ اگر نجاست مخرج سے بالکل تجاوُز نہ کرے، یا مقدارِ درہم سے کم تجاوُز کرے ، تو طہارت کے لیے ڈھیلوں کا استعمال بھی کافی ہے، جب کہ ڈھیلوں اورپانی، دونوں کا استعمال سنت ہے،تاکہ صفائی میں مبالَغہ ہو۔(۲)


والحجۃ علی ما قلنا :

(۱) ما في ’’ المحیط البرہاني ‘‘ : وإن کانت غیر مرئیۃ کالبول والخمر ذکر في ’’ الأصل ‘‘ ، وقال : یغسلہا ثلاث مرات ، ویعصر في کل مرۃ ، فقد شرط الغسل ثلاث مرات ، وشرط العصر في کل مرۃ ، وعن محمد رحمہ اللّٰہ في غیر روایۃ الأصول : أنہ إذا غسل ثلاث مرات وعصر في المرۃ الثالثۃ تطہر ۔ (۱/۲۲۱ ، کتاب الطہارات ، الفصل السابع في النجاسات وأحکامہا ، الفتاوی الہندیۃ :۱/۴۲ ، کتاب الطہارۃ ، الفصل السابع في النجاسۃ وأحکامہا ، الفصل الأول)

(فتاویٰ محمودیہ: ۸/۳۱۷،کپڑوں کی پاکی اور ناپاکی، ط: مکتبہ محمودیہ میرٹھ یوپی)

(۲) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : ثم اعلم أن الجمع بین الماء والحجر أفضل ویلیہ في الفضل الاقتصار علی الماء ویلیہ الاقتصار علی الحجر وتحصل السنۃ بالکل وإن تفاوت الفضل کما أفادہ في  الإمداد  ۔۔۔۔۔۔ في المجتبی : لا یجب الغسل بالماء إلا إذا تجاوز ما علی نفس المخرج وما حولہ من موضع الشرج ، وکان المجاوز أکثر من قدر الدرہم ۔۔۔۔۔ ففي ’’ التاتارخانیۃ ‘‘ : وإذا أصاب طرف الإحلیل من البول أکثر من الدرہم یجب غسلہ ، ہو الصحیح ۔

(۱/۴۷۶ ، کتاب الطہارۃ ، باب الأنجاس ، فصل الاستنجاء)

ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : ثم الاستنجاء بالأحجار إنما یجوز علی أن ما جاوز موضع الشرج من النجاسۃ إذا کانت أکثر من قدر الدرہم یفترض غسلہا بالماء ، ولا یکفیہا الإزالۃ بالأحجار، وکذلک إذا أصاب طرف الإحلیل من البول أکثر من قدر الدرہم یجب غسلہ ، وإن کان ما جاوز موضع الشرج أقل من قدر الدرہم أو قدر الدرہم إلا إذا ضم إلیہ موضع الشرج کان أکثر من قدر الدرہم فأزالہا بالحجر ولم یغسلہا بالماء ، یجوز عند أبي حنیفۃ وأبي یوسف رحمہما اللّٰہ تعالی ولا یکرہ ۔ کذا في الذخیرۃ ۔ وہو الصحیح ۔ کذا في الزاد ۔ (۱/۴۸ ، کتاب الطہارۃ ، الباب السابع في النجاسۃ وأحکامہا ، الفصل الثالث في الاستنجاء ، حلبي کبیر :ص/۲۹ ، مطلب في آداب الوضوء ، مجمع الأنہر :۱/۹۹ ، کتاب الطہارۃ ، باب الأنجاس)

(أحسن الفتاویٰ: ۲/۱۰۷، فصل فی الاستنجاء ، صرف ڈھیلے سے استنجا پر اکتفا کرنا) فقط

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ العبد : محمد جعفرملی رحمانی ۔۲۸/۵/۱۴۳۴ ھ

(فتویٰ نمبر :۶۶۹- رج /۷)