مفتی محمد جعفر صاحب ملی رحمانی
صدر دار الافتاء-جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا
سوال: مسئلہ یہ ہے کہ تقریباً دس سال سے بھی زیادہ وقت پہلے ایک زمین کا سودا کیا تھا، جس کی پوری رقم مقررہ وقت پر ادا کردی گئی تھی۔ زمین کے خریدنے کے بعد سے آج تک جو سرکاری اور غیر سرکاری خرچ ہوئے، وہ مالک ہونے کے ناطے میں (خریدار) نے ہی ادا کیے، کسی وجہ سے اور سرکاری غلطی کی وجہ سے بھی بہت لمبا عرصہ نکل گیا، مگر رجسٹری نہیں پائی، لیکن جیسے ہی سب ٹھیک ہوا، سرکاری غلطی کا سدھار اور میرے حالات تو میں (خریدار) نے رجسٹری کرنے کی پہل کی اور بیچوال سے ملا اور رجسٹری کی گزارش کی، ان دونوں پارٹنر نے شرط رکھی کہ کسی بھی طرح کا انکم ٹیکس یا سرکاری پینالٹی (Penalty )یا جرمانہ وہ (بیچوال) نہیں دینے والے، تو میں (خریدار) نے ان کی بات کو قبول کیا اور سارے جرمانہ یا ٹیکس کی ذمہ داری بھی میں (خریدار) نے ہی لی، باوجود ان سب کے ایک پارٹنر کی نیت خراب ہوگئی اور وہ بولنے لگا زیادہ پیسے واپس لے لو، اور رجسٹری نہیں ہوئی تو سودا بھی مکمل نہیں ہوا، تو میں سودا رد کرتا ہوں، تو کیا اسے اختیار ہے کہ وہ سودا کینسل کرسکے یا مجھ سے زیادہ پیسے کی مانگ کرسکے؟
نوٹ: جتنی رقم میں سودا ہوا تھا، اتنی رقم میں نے بیچوال کو مقررہ وقت پر ادا کردی تھی اور بیچوال(دونوں پارٹنر) نے زمین کی رجسٹری کے کاغذات اور مالکانہ حق میرے (خریدار) سپرد کردیے تھے۔
الجواب وباللہ التوفیق
صورتِ مسئولہ میں جب زمین کی بیع کا معاملہ مکمل ہوگیا اور مقررہ وقت پر مکمل قیمت بھی ادا کردی گئی، نیز زمین کی رجسٹری کے کاغذات اور مالکانہ حق بھی خریدار کے سپرد کردیے گئے، تو محض رجسٹری میں نام منتقل نہ ہونے کی وجہ سے معاملہ میں کوئی کمی نہیں رہی، بل کہ بیع (سودا) شرعاً مکمل ہوگئی ہے(۱) لہٰذا اب بائع (بیچنے والے) کو یک طرفہ طور پر بیع(سودا)رد کرنے کا اختیار نہیں ہے(۲) اور زیادہ رقم کا مطالبہ کرنا بھی شرعاً درست نہیں ہے۔(۳)
والحجة علی ما قلنا
(۱) مافي ”الہدایة“: البیع ینعقد بالإیجاب والقبول…وإذا حصل الإیجاب والقبول لزم البیع ولا خیار لواحد منہما إلا من عیب أو عدم رویة۔ (۳/۱۸/۲۰/ کتاب البیوع)
مافي ”البحر الرائق“: البیع یلزم بایجاب وقبول أی حکم البیع یلزم بہما۔(۵/۴۳۹)
مافي ”مجمع الأنہر“: وإذا وجد الإیجاب والقبول لزم البیع۔ فیہ اشارة إلی أن البیع یتم بہما ولا یحتاج إلی القبض۔ (۳/۱۰/ کتاب البیوع)
(۲) مافي ”البحر الرائق“: وأما أحکامہ فالاصلی لہ الملک في البدلین لکل منہما في بدل۔ وأما صفة ذلک الحکم فاللزوم عند عدم خیار فلیس لاحدہما فسخہ فالبیع عند عدم الخیار من العقود اللازمة۔ (۵/۴۳۸/ کتاب البیع)
مافي ”التبیین الحقائق“: ولنا أن العقد تم من الجانبین ودخل المبیع في ملک المشتری والفسخ بعدہ لا یکون الا بالتراضي لما فیہ من الاضرار بالآخر بابطال حقہ کسائر العقود۔ (۴/۲۷۷/ کتاب البیوع)
مافي ”الہدایة“: لأن أحد المتعاقدین لا یتفرد بالفسخ کما لا یتفرد بالعقد۔ (۳/۱۴۷/ کتاب ادب القاضي، مسائل شتی من کتاب القضاء)
(۳) مافي ”رد المحتار“: لا یجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعي۔ (۶/۱۰۶/ کتاب الحدود، باب التعزیر، مطلب في التعزیر باخذ المال)
(البحر الرائق: ۵/۶۸/ کتاب الحدود، فصل في التعزیر)
(الفتاوی الہندیة: ۲/۱۶۷/ کتاب الحدود، فصل في التعزیر)
(فتاوی محمودیہ: ۲۴/۴۵-فتاوی دارالعلوم زکریا:۵/۹۰- فتاوی دارالعلوم دیوبند: ۱۴/۳۴۳) فقط
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ العبد: محمد جعفر ملی رحمانی
۴/۸/۱۴۴۲ھ
فتوی نمبر:۱۱۰۷