مفتی محمد جعفر صاحب ملی رحمانی
صدر دارالافتاء- جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا
معذورین صف میں کہاں بیٹھیں؟
درمیانِ صف میں بیٹھنے والے معذورین لعنت کے مستحق ہیں؟
معذورین کا درمیانِ صف نماز ادا کرنا،معذور شخص کے پیچھے نماز !
سوال: ۱- اقامت کے ختم یا رکعت اولی کے ختم تک صف مکمل نہ ہو تو معذورین صف کے ساتھ مل کر بیٹھیں یا صف کے کنا رے پر ہی بیٹھیں؟
۲-کیا درمیان صف میں بیٹھنے والے معذورین لعنت کے مستحق ہوں گے؟
۳- کیا درمیان صف میں بیٹھنے والے معذورین کی وجہ سے صف نا مکمل ہوگی؟ اور نمازیوں کی نماز خراب ہوگی؟
۴- اگر کوئی شخص قیام اور رکوع اور سجدہ پر قادر ہو، اور قعدہ پر قادر نہ ہو مگر قعدہ میں گھوڑا بن کر یا پیر پھیلا کر بیٹھ سکتا ہو تو ایسے شخص کے پیچھے نماز درست ہے یا نہیں؟
جواب : ۱- معذورین کے صف کے ساتھ مل کر بیٹھنے میں اگر نمازیوں کو تکلیف نہ ہوتی ہو، تو وہ صف کے ساتھ مل کر بیٹھیں(۱) اور اگر معذورین کا صف کے ساتھ مل کر بیٹھنا نمازیوں کے لیے تکلیف کا باعث ہو تو صف کے کنارے پر ہی بیٹھیں۔ ان شاء اللہ انھیں صف میں شامل ہوکر نماز پڑھنے کا ثواب ملے گا(۲)۔
۲- درمیان صف میں بیٹھنے والے معذوریں لعنت کے مستحق نہیں ہوں گے۔(۳)
۳- معذورین اگر درمیان صف میں نماز ادا کریں تو سب کی نماز ہوجائے گی۔معذورین اور غیر معذورین کے نماز میں کوئی خرابی لازم نہیں آئے گی۔اور صف بھی مکمل شمار ہوگی(۴) لیکن اگر معذورین درمیان صف میں بیٹھنے کی صورت میں زیادہ جگہ روک لیتے ہوں تو ان کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ صف کے کنارے پر بیٹھیں ، ان شاء اللہ انھیں پورا پورا ثواب ملے گا۔(۵)
۴- اگر کوئی شخص قیام، رکوع اور سجدہ پر قادر ہومگر کسی عذر کی وجہ سے قعدئہ مسنونہ پرقادر نہ ہو تو جس ہیئت پربیٹھ سکتا ہو بلاکراہت بیٹھنادرست ہے(۶) اور اس کا امام بن کر نماز پڑھانا اور لوگوں کا اس کے پیچھے
نماز پڑھنا بھی بلاکراہت درست ہے۔(۷)
الحجة علی ماقلنا:
(۱/۴) مافي” رد المحتار“:فلوشرعوا وفي الصف الأول فرجة لہ خرق الصفوف۔(۲/۳۱۰، کتاب الصلاة، باب الإمامة، مطلب في کراہة قیام الإمام في غیر المحراب)
(۲/۵) مافي” المعجم الأوسط للطبراني“:عن ابن عباس قال:قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:” من ترک الصف الأول مخافة أن یوذي أحدا أضعف اللہ لہ أجر الصف الأول۔(۱/۱۶۵، رقم الحدیث: ۵۳۷، من اسمہ أحمد)(مجمع الزوائد: ۲/۲۱۱، کتاب الصلاة ، باب من ترک الصف الأول مخافة أن یوذي غیرہ)
مافي” رد المحتار“:قال في المعراج: الأفضل أن یقف في الصف الأخر إذا خاف إیذاء أحد، قال علیہ الصلاة والسلام:” من ترک الصف الأول مخافة أن یوذي مسلما أضعف لہ أجر الصف الأول“ وبہ أخذ أبوحنیفة ومحمد۔(۲/۳۱۰، کتاب الصلاة، باب الإمامة، مطلب في کراہة قیام الإمام في غیر المحراب)
(إعلاء السنن: ۴/۳۴۲، کتاب الصلاة، أبواب الإمامة، باب کراہة التأخر عن الصف المقدم بلاوجہ شرعي، تحت رقم الحدیث:۱۳۳۵)
(المسائل المہمة فیما ابتلت بہ العامة: ۱۱/۶۸،۶۹، معذور آدمی کہاں کھڑا رہے)
(نماز کے مسائل کا انسائیکلو پیڈیا: ۴/۱۰۲،۱۰۳، معذور صف میں کہاں کھڑا رہے)
(فتاویٰ محمودیہ:۱۱/۶۳۷، معذور کے لیے صف کے کنارے پر ہونا ضروری نہیں، ط: میرٹھ)
(۳)(اغلاط العوام:ص/۶۷، جماعت وامامت کے اغلاط)
(۶) مافي”التنویر مع الدر والرد“:من تعذر علیہ القیام لمرض۔۔۔ صلی قاعدا کیف شاء علی المذہب، لأن المرض أسقط عنہ الأرکان فالہیئات أولی۔(التنویر مع الدر والرد) قال الشامي رحمہ اللہ تعالی:قولہ: (کیف شاء) أي کیف تیسرلہ بغیر ضرر من تربع أوغیرہ۔۔۔ إن کان جلوسہ کما یجلس للتشہد أیسر علیہ من غیرہ أو مساویا لغیرہ کان أولی، وإلا اختار الأیسر في جمیع الحالات۔(۲/۵۶۴ تا ۵۶۷، کتاب الصلاة ، باب صلاة المریض)
(بدائع الصنائع:۱/۲۸۶، کتاب الصلاة ، صلاة المریض)
(مراقي الفلاح مع حاشیة الطحطاوي: ص/ ۴۳۱، باب صلاة المریض)
(۷) مافي”الفتاوی الہندیة“: ویصح اقتداء القائم بالقاعد الذي یرکع ویسجد۔۔۔ ولو کان لقدم الإمام عوج وقام علی بعضہا یجوز وغیرہ أولی کذا في التبیین۔
(۱/۸۵، کتاب الصلاة، الباب الخامس، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماما لغیرہ)
مافي”التنویر مع الدر والرد“: وصح اقتداء متوضيء بمتیمم ، وقائم بقاعد وقائم بأحدب وإن بلغ حدبہ الرکوع علی المعتمد، وکذا بأعرج وغیرہ أولی۔
(۲/۳۳۶، ۳۳۸، کتاب الصلاة ، باب الإمامة، مطلب القیاس بعد عصر الأربعة مأة الخ)
(فتاویٰ قاسمیہ: ۶/۳۶۵)(امداد الفتاویٰ:۱/۳۱۷، بعذر اکڑوبیٹھنے والے کی امامت)فقط
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ العبد: محمد جعفر ملی رحمانی
۳۰/۷/۱۴۴۰
فتوی نمبر:۱۰۷۸