مولانا ناظم ملی تونڈا پوری(استاذ جامعہ اکل کوا)
اس میں کوئی دو رائے نہیں ،کہ اسلام کی آمد ِسعید دنیا جہاں کے لیے خیر ہی خیر اور برکت ہی برکت ثابت ہوئی۔یاد کیجئے!دنیا کی اس وقت کی حالت کو جب دنیا خیر اور بھلائیوں سے کوسوں د ورتھی اور ہر طرح کے شر سے اس کی طبیعت کا میلان میل کھارہاتھا۔ نقشہ بڑاہی دردناک اور گھناوٴنا تھا۔خیر وشر کی انسانیت کے نزدیک کوئی میزان ہی قائم نہیں تھی ،کسی نے عکاسی کرتے ہوئے لکھاہے۔
چلن ان کے جتنے تھے سب و حشیانہ
ہر ایک لوٹ مار میں تھایگانہ
فسادوں میں کٹتاتھا ان کا زمانہ
نہ تھا کوئی قانون کا تازیانہ
وہ تھے قتل وغارت میں چالاک ایسے
درندے ہوں جنگل میں بیباک جیسے
جو ّا،ان کی دن رات کی دل لگی تھی
شراب ان کی گھٹی میں گویا پڑی تھی
تعیش تھا،غفلت تھی،دیوانگی تھی
غرض ہر طرح ان کی عادت بُری تھی
یہ حالات صرف عرب ہی نہیں ،دنیا کا اکثر وبیشتر حصہ ایسے ہی حالات وکوائف سے جُوج رہاتھا۔پھر رحمت ِخدا وندی کا دریائے رحمت موجزن ہوا،اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے برائیوں کا شبستان و جودنبوت ِمحمد یﷺ کے سپیدہٴ سحر سے لرزاٹھا،یہاں تک کے صبائے خوش خرام اور نورانی فضاوٴں نے شعور ووجدان اور احساس وادراک کے دیئے روشن کئے۔اور ایک جہاں بدلا،اور ایسا بدلا کہ جس کی مثال تاحین ِقیامت نہیں مل سکتی۔
توقارئین! آیئے ہم بھی اسی صبائے خوش خرام اور نورانی فضاوٴں سے اپنارشتہ مضبوط کرتے ہیں؛تاکہ ہماری زندگی کے اجڑے گلستاں میں بہار آئے،اور ہم بھی امن وامان اور اطمینان کے ساتھ زندگی بسر کریں۔
حضرت جندب بن عبداللہ بڑے مقام و مرتبے کے صحابی ہیں، فرماتے ہیں کہ: ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت (ساتھ)کا ایسی حالت میں شرف حاصل رہا کہ ہم طاقتور جوان تھے،ہم نے قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرنے سے پہلے ایمان سیکھا،پھر جو ہم نے قرآن سیکھا تو ہمارا ایمان بڑھتا رہا۔
قارئین!اس پُر فتن دور میں ایمان کی کشتی میں سوار ہونا ہی انسانوں کو ہلاکت اور بربادی سے بچاسکتاہے؛ ورنہ اس دجالی دور میں انسانوں کے ایمان ویقین کے خاتمہ کے لیے کیا کچھ نہیں کیاجارہاہے،مادیات نے حلال وحرام کی تمیز اور فرق کو ہی مخدوش کردیاہے،خیرالقرون میں مسلمانوں کا ہتھیار جس سے انہوں نے ہر طرح کے معرکے سر کئے،یہی ایمان اور اس کی روحانی طاقت تھی۔
ہم ذیل میں ،ایمان کے فضائل اور حفاظت ِایمان کے طریقے اور اسی سے متعلق آیات ِمبارکہ ، احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلاف کے اقوالِ زرین اور ارشادات پیش کریں گے، جس سے ہمارے ایمان میں تازگی بہار اورجِلا آئیں۔
فضائل ایمان کی ضرورت :
خدائے پاک رحمن ورحیم نے جس طرح حیات ِدنیویہ کیلئے بے شمار وسائل عطافرمائے،وہی انسان کی اخروی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بھی اَن گنت وسائل عطافرمائے ہیں۔انہیں وسائل میں سے ایک اہم ذریعہ دینی کتب بھی ہیں،جن سے انسان روشنی ورہنمائی حاصل کرکے اپنے زندگی کے رخ کو صحیح سمت اور نہج پر قائم کرسکتاہے۔مگر باوجود ان کتب رسائل اور ماہناموں کے ،انسانی زندگی بے راہ روی پر گامزن ہے۔
بل کہ نفسانی خواہشات کو ہی قبلہ وکعبہ بنا کر احکامات ِالٰہی سے روگردانی کی جارہی ہے،کہیں ایسا نہ ہو کہ وقت ِموعود آجائے اور ہم مجرمانہ زندگی کے ساتھ دربارِالٰہی میں پہنچ جائیں۔
چاہیے تو یہ تھا کہ ہم ان کتب سے بھر پور استفادہ کرتے،دنیا میں حق وباطل اور کھرے کھوٹے میں امتیاز کرتے حق کا ساتھ دیتے ،حق پر چلتے،اپنی زندگی سنوارتے،مگر ایسا بہت کم ہے،شاید ان دینی کتب رسائل اور ماہناموں اور جرائد کو ہم نے ناولوں اور افسانوں کی طرح تفریح ِطبع کا ذریعہ بنالیا،یا رسمی طور پر جنرل نالج میں اضافہ کا ذریعہ ،لیکن خوب یاد رکھئے!فضائل ِایمان کی ضروت اور مقصد محض دینی معلومات کو بڑھانا نہیں یا تفریح ِطبع اور قصہ خوانی نہیں، بل کہ اس کاوش کا مقصد انتہائی دلسوزی کے ساتھ ہمدردی کے جذبات میں ڈوب کر بھولی ہوئی انسانیت کو اللہ رب العالمین کی طرف متوجہ کرنا اور خواہشات نفسانی کے چنگل میں پھنسے ہوئے،دنیوی لذات کے خوگر انسان کو اخروی نعمتوں کی عظمت ورفعت کا احساس دلانا،پُرفتن دور میں دنیا وآخرت کی سب سے قیمتی متاع”متاع ایمان“کی حفاظت کا گر سکھلاناہے۔
”فضائل ایمان“کا ایک ایک باب اور ایک ایک صفحہ گویا”حی علی الفلاح“کہ آوٴ بھلائی اور کامیابی کی طرف!!کی صدا لگارہاہے،جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے:
”مثل الذین حملوا التورٰة ثم لم یحملوھا کمثل الحمار یحمل اسفارا“۔
سورة الجمعة)
”جن لوگوں کو تورات پر عمل کرنے کاحکم دیا گیا ،پھرانہوں نے اس پر عمل نہیں کیا،ان کی حالت اس گدھے کی سی ہے، جو بہت سی کتابیں لادے ہوئے ہے“۔(معارف القرآن)
دیکھئے اللہ رب العالمین نے یہود کو گدھے کے ساتھ تشبیہ دے کر ان کی مذمت کی ؛حالاں کہ اللہ نے ان کو توریت جیسی مقدس کتاب سے نوازاتھا،تا کہ وہ اللہ جل شانہ کی ذات پر مستحکم ایمان لاکر اپنی مذہبی کتاب کی روشنی میں احکام ِخداوندی بجالاتے ،مگر انہوں نے جہاں مقصد کتاب سے بے اعتنائی کرتے ہوئے عقائد کے معاملے میں فکری کجروی اختیار کی اور ظاہری اعمال میں تساہل وتغافل کو اختیار کیا ؛وہاں اللہ کی کتاب میں تحریف وتبدیل کا مکروہ فعل بھی انجام دیا،خدا ہمیں اس یہودی روش سے محفوظ رکھے۔اور ہم حضور سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کا عملی نمونہ بن جائیں۔آمین۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ:اس علم اور ہدایت کی مثال جسے خدا نے مجھ کو دیکر بھیجا ہے۔ موسلادھار بارش کی طرح ہے،جو زمین پر برستی ہے؛چناں چہ زمین کے اچھے اور زرخیز ٹکڑے نے اسے قبول کرلیا( یعنی:جذب کرلیا)اس کے نتیجے میں بہت زیادہ خشک اور ہری گھاس پیدا ہوئی اور زمین کا ایک ٹکڑا ایسا سخت تھا کہ اس کے اوپر پانی جمع ہو گیا اللہ تعالیٰ نے اس سے بھی لوگوں کو نفع پہنچایا،لوگوں نے اس سے خودبھی پیا اور دوسروں کو بھی پلایا اور کھیتی کو سیراب کیا ،نیز بارش کا یہ پانی زمین کے ا یسے ٹکڑے پر بھی پہنچا، جو میدان تھا نہ اس نے پانی روکا نہ گھاس اگایا۔
مذکورہ حدیث کے بموجب ایک شخص تو وہ ہے، جس نے خدا کے دین کو اور جو چیز اللہ نے میرے ذریعہ بھیجی تھی ،اس نے خود اس سے نفع اٹھایا پس اس نے خود بھی سیکھا دوسروں کو بھی سکھایا اور ایک ایسا شخص جس نے اللہ کے دین کو سمجھنے کے لیے(تکبر ونخوت کی وجہ سے)سر نہیں جھکایا اور اللہ تعالیٰ کی ھدایت کو جو میرے ذریعے بھیجی گئی تھی قبول نہیں کیا۔
دین اسلام میں وسعت وسہولت!
اس میں ذرا تردد نہیں،کہ ”ایمان“دنیاو آخرت کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے، جس کا اندازہ آنے والے ابو اب سے بخوبی ہوسکے گا،یہ بات جتنی اہم ہے اسی قدر آسان بھی ہے کہ محض ذرا سے تأمل سے بات سمجھ میں آجائے گی، اس سرمایہ کو حاصل کرنے کے لیے بہت زیادہ کدو کاوش اور ہاتھ پیر مارنے کی ضرورت نہیں،نہ کہیں چل کرجانے کی ضرورت ہے،ناہی بھوکا پیاسارہنے کی ضرورت ہے،ناہی بدنی ومالی مشقت برداشت کرنے کی ضرورت ہے،اگر سو فیصد ذہنی قوت کو اس پر جمالیا جائے اور یقین کی کیفیت پیدا کرلی جائے،جوایمان کیلئے ضروری ہے،تو یہ دولت عظمیٰ حاصل ہوجاتی ہے۔انصاف سے بتلائیے!کہ اس بات کا یقین کرلینے میں کہ اللہ تعالیٰ موجود ہیں، جو اکیلے ہیں،ان کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے۔حضرت محمد صلی علیہ وسلم اس کے سچے رسول ہیں وغیرہ وغیرہ کون سی مشقت اٹھانا پڑی؟کون سی اجرت ادا کرنی پڑی؟اعضائے ظاہرہ کو ذار سی بھی تو حرکت نہیں دینی پڑی۔
ایمان سے محرومی کیوں؟
یہاں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ دین ِاسلام میں اس قدر آسانی،وسعت،حقانیت وحفاظت کے باوجود آخریہ لوگ ایمان کیوں نہیں لائے؟اس دین ِحق کو اپنا حرز ِجان کیوں نہیں بنالیا؟جو فطری تقاضوں کے مطابق بھی ہے اور عقلی اصولوں کے بھی ،جس کا اندازہ اسلامی تعلیمات کا بنظر ِانصاف گہرا مطالعہ کرنے سے ہو سکتاہے،جب ہم قرآن ِمجید کی آیات کی روشنی میں اس سوال(ایمان سے محرومی کیوں؟) پر غور کرتے ہیں تو کئی وجوہات ہمارے سامنے آتی ہیں۔
پہلی وجہ:
جن رسوم کی آغوش میں انہوں نے پرورش پائی ان کے اپنے آباء واجداد کو انہوں نے جس مذہب اور جس طریقہ پر پایا، اس کے علاوہ کسی اور چیز کی طرف دیکھتے نہ اس کو اختیار کرنے کی طرف مائل ہوئے؛حالاں کہ وہ دنیوی معاملات میں آبائی رسومات اور تقلید سے ہٹ کر کئی جدید راہوں کو انہوں نے اپنا لیا،اور نئی تہذیبوں کے وہ اسیر ہوگئے،پھر اس نقطہٴ نظر سے بھی تو غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا محض آبائی دین ہونے کی وجہ سے وہ برحق ہوگیا!دلائل کی کسوٹی پر پرکھنا نہیں چاہیے اور کیا ایک صحیح العقل اور عقل ودانش رکھنے والے سے اس بات کی امید رکھی جاسکتی ہے کہ اپنے معاملے میں آباء واجداد کی اندھی تقلید کو جائز رکھیں گے۔
قرآن مجیدمیں متعدد مواقع پر اللہ تعالیٰ نے سابقہ امتوں کے اہل باطل کے اس جواب کا ذکر کرکے رد کیا ہے،جس کو حضرات ِانبیاء علیھم السلام کی دعوت الی الحق کے مقابلے میں وہ پیش کرتے تھے۔
” واذا قیل لھم تعالوا الی ما أنزل اللہ والی الرسول قالوا حسبنا ما وجدنا علیہ آباء نا اولو کان آباء ھم لا یعلمون شیئا ولا یھتدون “( المآئدة)
(جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو احکامات نازل فرمائے ہیں، ان کی طرف اور رسول صلیاللہ علیہ وسلم کی طرف جن پر وہ احکام نازل ہوئے)رجوع کرو(جو امر حق ثابت ہوحق سمجھو اور جو باطل ہو باطل سمجھو)تو کہتے ہیں کہ ہم کو (ان احکام اور رسول کی ضرورت نہیں )وہی (طریقہ)کافی ہے ،جس پر ہم نے اپنے بڑوں کو دیکھا ہے(حق تعالیٰ فرماتے ہیں)کیا (وہ طریقہ ان کے لیے ہر حال میں کافی ہے)اگرچہ ان کے بڑے (دین حق)کی نہ کچھ سمجھ رکھتے ہو اور نہ کسی آسمانی کتاب کی)ہدایت رکھتے ہوں“۔
(معارف القرآن۔)
دوسری وجہ!
ایمان سے محرومی کی دوسری وجہ عموماً تکبر اور حب ِجاہ ہوتی ہے،جو شخص اپنے کو بڑا سمجھنے کی برائی میں مبتلا ہو،وہ اس بات سے عار محسوس کرتاہے کہ کسی دوسرے کی اتباع و اقتداء کرے۔ابلیس لعین،نمرود،فرعون،ابوجہل،ابو لہب وغیرہ کے تکبر کی وجہ سے اسلام جیسی عظیم نعمت سے محروم رہے؛چناں چہ دنیا میں بھی ذلیل وخوار ہوئے اور آخرت میں بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تباہ وبرباد،ان کا مال وجان عہدہ ومنصب ان کو ذلت ورسوائی سے نہ بچا سکا۔
اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے:
” ویل لکل افاک اثیم ،یسمع آیٰت اللہ تتلی علیہ ثم یصر مستکبرا کان لم یسمعھا فبشرہ بعذاب الیم“۔(الجاثیة)
بڑی خرابی ہوگی ہر ایسے شخص کے لیے جو(عقائد سے متعلق اقوال میں)جھوٹا ہو۔(اور اعمال میں)نافرمان ہو۔جو(باوجود یہ کہ خدا کی آیتوں کو سنتا (بھی)ہے؛جب کہ وہ اس کے روبرو پڑھی جاتی ہیں۔(اور )پھر بھی وہ تکبر کرتاہو(اپنے کفر پر)اس طرح اڑا رہتاہے جیسے:اس نے ان (آیتوں)کو سنا ہی نہیں سو ایسے شخص کو ایک دردناک عذاب کی خبر سنا دیجئے۔(معارف القرآن)
چناں چہ تکبر کے خمار میں بعض لوگ غرباء سے میل جول کو بھی اپنی بے عزتی رسوائی محسوس کرتے ہیں اور ادھر تو اسلام اور ماقبل اسلام تمام مذاہب ِصادقہ کی یہی خصوصیت رہی کہ اول اول اس کے ماننے والے کمزور اور سماج کا غریب طبقہ رہاہے اور یہ گھمنڈی محض، اسی لیے اللہ کے احکامات کے سامنے بھی سر ِتسلیم خم نہیں کرتے؛ بل کہ اس میں عار اور گھٹن محسوس کرتے ہیں۔
چناں چہ ارشاد ربانی ہے:
” فقال الملأ الذین کفروا من قومہ ما نرٰک الا بشر مثلنا وما نرٰک اتبعک الا الذین ھم ارا ذلنا بادی الرأی ِوما نرٰی لکم علینا من فضل بل نظنکم کٰذبین“۔
جب نوح نے اپنی قوم کوایمان کی دعوت دی،تو ان کی قوم میں جو کافر سردار تھے ،وہ (جواب میں)کہنے لگے کہ (جو تم نبوت کا دعوی کرتے ہو تو یہ بات ہمارے جی کو نہیں لگتی)کیوں کہ ہم تم کو اپنے ہی جیسا آدمی دیکھتے ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ تمہارا اتباع انہی لوگوں نے کیا ہے کہ جو ہم میں بالکل رذیل ہیں(جن کی عقل اکثر خفیف ہوتی ہے پھر)وہ (اتباع)بھی محض سرسری رائے سے(ہوا ہے)ہم تم لوگوں میں کوئی بات اپنے سے زیادہ نہیں پائے ، بل کہ ہم تم کو جھوٹا سمجھتے ہیں۔(مختصر از معارف القرآن)
اہل ایمان کے لیے لمحہٴ فکر یہ!
اللہ کا ایک نہیں ہزار بار شکر ہے کہ اس نے بغیر کسی محنت ومجاہدہ کے ایمان کی دولت گھر بیٹھے عطاکردی۔چاہتے تو ہمیں ایمان ہی نہ دیتے،اور ہم یونہی کفر وشرک کی وادیوں میں بھٹکتے، سعادت کے بجائے شقاوت ہمارا مقدر ہوتی،مگر انہوں نے رحم کا معاملہ فرمایا اور اہل ِایمان میں شامل فرمایا اور دائمی ہلاکت سے بچالیا۔
مگر یہی ایک دکھ کی بات ہے کہ جب ہم اپنے معاشرے پر ایک نظر ڈالتے ہیں تو بہت سے حضرات ایسے نظر آتے ہیں ،جو مسلمان گھرانوں میں پیدا ہوئے،اور دل میں دولت ایمان رکھتے ہیں ،مگر اعمال واخلاق اور ظاہری صورت وسیرت سے ان کے چھپے ہوئے جو ہرِ ایمان کا اندازہ مشکل ہوجاتاہے،مریض کو اپنی بیماری کا احساس ہوتا اور علاج کی فکر ہوتی تو بھی غنیمت تھا، کہ شفا کی امید بجا ہے یہ لوگ ایسے ہی مریض کی طرح اپنی کامیابی وکامرانی کے زعم میں مبتلا ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی رحمت کی امید دلاکر شیطان نے انھیں دن رات اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر کمر بستہ کررکھاہے؛لیکن خوب سمجھ لینا چاہیے۔رحمت ِالٰہی اہل ایمان کے لیے وسیع ہے ،مگر مسلسل ڈھٹائی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے اس ایمان کو نا قابل ِتلافی نقصان پہنچ سکتاہے جو کہ رحمت ِخداوندی کا مورد بننے کے لیے شرطِ اول ہے جب اللہ تعالیٰ اپنی عنایات اور انعامات کامسلسل مورد بنارہے ہیں، تو ہمیں بھی اللہ کے حضور مسلسل عبدیت اور دائمی اطاعت کے ذریعہ شکر بجالانا چاہیے،اور ہماری حالت یہ ہونی چاہیے۔
”انماالموٴمنوں الذین اذا ذکر اللہ وجلت قلوبھم واذا تلیت علیھم آیٰتہ زادتھم ایمانا وعلی ربھم یتوکلون“۔
بس ایمان والے تو وہی لوگ ہوتے ہیں کہ جب (ان کے سامنے)اللہ کا ذکر آتاہے(تو اس کی عظمت کے استحضار سے)ان کے دل ڈر جاتے ہیں،اور جب اللہ کی آیتیں ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ آیتیں ان کے ایمان کو اور ز یادہ مضبوط کردیتی ہیں اور وہ لوگ اپنے رب پر تو کل کرتے ہیں۔
(معارف القرآن)
اللہ پاک ایسے ہی نیک اور نیک سیرت ایمان والا ہمیں بھی بنائے آمین۔
ہمارا ایمان اور اس کی تجدید:
عن عبداللہ بن عمرورضی اللہ عنھم قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ان الایمان لیخلق فی جوف احدکم کما یخلق الثوب فسلوا اللہ تعالیٰ ان یجدد الایمان فی قلوبکم“۔
ترجمہ:حضرت عبداللہ ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ تمہارے دلوں میں ایمان ایسا ہی پرانا ہو جاتا ہے؛ جیسا کہ کپڑا پرانا ہوجاتا ہے،لہذا تم اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ تمہارے دلوں میں ایمان کو تروتازہ کردیں۔
اسی طرح ایک اورحدیث میں ارشاد فرمایا:
عن ابی ھریرة رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: جددوا ایمانکم،قیل یا رسول اللہ وکیف نجدد ایماننا؟قال واکثروا من قول لا الہ الا اللہ۔
حضرت ابو ہریرة سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم اپنے ایمان کی تجدید کرتے رہاکرو،کسی(صحابی)نے عرض کیا،اے اللہ کے رسول!ہم اپنے ایمان کی تجدید کس طرح کریں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ لا الہ الا اللہ کا ذکر بہت زیادہ کیا کرو(اس سے ایمان میں تازگی آجاتی ہے)۔
ان ارشادات سے جہاں ایمان کی اہمیت کا علم ہوتاہے ٹھیک اسی طرح اس کی تازگی کے لیے بھی ایک نسخہ اکسیر ملتا ہے۔
اسی وجہ سے صوفیائے کرام اور اولیائے عظام،لاالہ الا اللہ کے ذکر کی بہت تاکید فرماتے ہیں۔
یہ ذہین نشین رہے کہ جس طرح ذکر اللہ کی کثرت ایمان کی شادابی کا ایک بہت بڑا سبب ہے۔وہیں اعمال ِصالحہ بھی ایمان میں تازگی کا بڑا موٴثر ذریعہ ہے۔ایک جگہ امام العصر محدث کبیر حضرت علامہ انور شاہ کشمیری صاحب فرماتے ہیں:ایمان اور اعمال کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے، صرف مبدأ باطن ہے اور منتہیٰ ظاہر۔ اور اعمال کا مبدأ ظاہر ہے اور منتہیٰ باطن۔ مسافت دونوں کی مساوی ہے، جب ایمان دل میں پر نور ہوتاہے، تو پھوٹ پھوٹ کر اعمال ِصالحہ کی صورت میں ظاہر ہوتاہیاور اسی طرح جب اعمال ِصالحہ کی توفیق ہوتی ہے توپھر ایمان پر کیف اور نتیجہ خیز ثابت ہوتاہے۔
ایمان کا دل پر اثر:
ایک حدیث میں آیا ہے کہ جب بندہ کوئی گناہ کرتاہے، تو ایک سیاہ نشان دھبہ اس کے دل پر لگ جاتاہے۔اگر سچی توبہ کرلیتا ہے تو وہ نشان دھل جاتاہے ؛ورنہ جما رہتاہے ،بالکل کا لا اور زنگ آلود ہوجاتاہے ہے،جس کو حق تعالیٰ سورہٴ تطفیف میں یوں فرماتے ہیں”کلا بل ران علیٰ قلوبھم ما کانوا یکسبون۔“
اس کے بعد دل کی آیسی حالت ہو جاتی ہے کہ بات اس پر اثر نہیں کرتی۔
اس آیت کے ضمن میں ”حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمةاللہ علیہ حجةاللہ البالغة میں ارشاد فرماتے ہیں:آیت میں سیاہ نقطہ کے ظاہر ہونے سے مراد بہمیت کے ظلمتوں میں سے ایک ظلمت کا ظاہر ہونا ہے اور اس نقطہ کے صاف ہونے سے مراد ایک روشنی ہے کہ نور ایمان سے اس کے نفس پر فائز ہوتی ہے۔
اور” کلا بل ران“ ․․․․․سے مراد بہمیت کا غالب ہونا اور ملکیت کا بالکل پوشیدہ ہوجانا ہے، پھر باربار نورِایمانی کا ظہور ہوتا رہتاہے اور باربار نفسانی وساوس دور ہوتے ہیں،یعنی:جب نفس کے اندر کسی گناہ کا وسوسہ پیدا ہوتاہے، تو اس کے بالمقابل ایک نور بھی نازل ہوتاہے، جو اس باطل کو محو کردیتاہے، پھر صرف اتنا ہی نہیں کے دل سیاہ ہوتاہے؛ بل کہ ایمان کے سلب ہونے کا بھی اندیشہ ہے۔
گناہوں کی نحوست سے ایمان سلب ہونے کا اندیشہ!
فقیہ ابو اللیث سمرقندی نے” تنبیہ الغافلین “میں لکھا ہے کہ ہر شخص کے لیے ضروری ہے کہ کثرت سے لا الہ الا اللہ پڑھتا رہا کرے اور اللہ سے ایمان کے باقی رہنے کی دعا بھی کرتا رہے اور اپنے آپ کو گناہوں سے بچاتارہے ،اس لیے کہ بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ گناہوں کی نحوست سے آخرعمر میں ان کا ایمان سلب ہو جاتاہے۔
اس شخص پر افسوس نہیں ہوتا جو گرجا ،یا بت خانہ میں رہاہواور کافروں میں شمار ہوجائے۔ افسوس اس پر ہے جو مسجد میں رہاہو اور کافروں میں شمار ہوجائے،اور یہ باتیں گناہوں کی کثرت اور تنہائیوں میں حرام کاموں میں مبتلا ہونے سے پیدا ہوجاتی ہیں۔(اللھم احفظنا منہ)۔
بعضے لوگ سمجھتے ہیں کہ ابھی دوسروں کا مال ہڑپ لو بعد میں واپس کردیں گے اور پھر واپس کرنے کی نوبت بھی نہیں آتی اور موت آجاتی ہے،بعضے لوگوں کی بیویوں کی طلاق ہوجاتی ہے اور وہ اس کو سمجھتے بھی ہیں،لیکن پھر بھی اس سے ہمبستری کرتے ہیں اور ایسی حالت میں موت آجاتی ہے کہ توبہ کی توفیق بھی نہیں ہوتی،ایسے ہی حالات میں آخر میں ایمان سلب ہوجاتاہے۔
آزادیٴ ِفکر کا ایمان پر اثر!
حکیم الامت مجدد الملت مولانا شرف علی تھانوی صاحب نوراللہ مرقدہ فرماتے ہیں:”افسوس ہے کہ آج کل جن لڑکوں کو بیٹیاں دی جاتی ہیں بعضے ان میں سے جدید تعلیم کے اثر سے ایسے آزاد منش ہوتے ہیں کہ ان کو دین ،ایمان سے بھی تعلق نہیں رہتا ،زبان سے کلمات ِکفر بک جاتے ہیں اور کچھ پرواہ نہیں ہوتی ،پھر انہیں میں سے ایک سے مسلمان لڑکی کا نکاح پڑھوایا جاتاہے اور سب گھر والے خوش ہوتے ہیں کہ ایک مسنون طریقہ ادا کیا جاتاہے اور سنت کے لیے موقوف علیہ ایمان ہے۔
افسوس ہے کہ نوشہ صاحب نہ جانے کتنی دفعہ اس سے خارج ہوچکے ہیں،اب وہ مثال صادق آتی ہے یا نہیں کہ کپڑے کے پرزے پرزے کرکے ؛بل کہ جلا کے اچکن سینے کا ارادہ کیا جاتاہے۔
ہم کو تو اسی کا رونا تھا کہ اچکن نمونہ کے موافق نہیں سی جاتی،ایک آستین بالشت بھر کم کی جاتی ہے؛ یہاں نہ آستین رہی نہ دامن اور خیال یہ ہے کہ اچکن تیار ہے۔
ایک عبرتناک واقعہ:
ایک نیک بخت لڑکی ایک انگریز ی خواں سے بیاہی گئی ،جو ایک مجمع میں لفظ کہہ رہے تھے کہ محمد صاحب صلی اللہ علیہ وسلم واقعی بہت بڑے ریفارمر تھے اور مجھ کو آپ سے بہت تعلق ہے، لیکن رسالت میں ایک مذہبی خیال ہے۔ نعوذباللہ من ذالک! یہ کلمہٴ کفر ہے، نکاح اس سے ٹوٹ جاتاہے، یہ مسئلہ اگر لڑکی والوں کو بتایا جاتا ہے تو الٹے لڑنے کو سیدھے ہوتے ہیں کہ ہمارے خاندان کی ناک کٹواتے ہیں،اب وہ زمانہ ہے کہ اس کی بھی ضرورت ہے کہ دیکھ لیا جاوے کہ داماد مسلمان ہے یا کافر، بجائے اس کے پہلے دیکھاجاتاتھا نیکو کار ہے یا بدکار۔اس قصہ سے میرے قول کی تصدیق ہوگئی کہ ہمارے اعمال خراب ہی نہیں؛ بل کہ باطل ہیں پھر لطف یہ ہے کہ ہم ان کواچھے سمجھ کر اجر کے امیدوار بیٹھے ہیں۔“
وسوف ترٰی اذا انکشف الغبار أفرس تحت رجلک ام حمار
”غبار چھٹ جانے کے بعد ظاہر ہوگا کہ تم گھوڑے پر ہو یا گدھے پر۔“
بہت سے لوگ تو ایسے ہیں جو گناہ کو گناہ ہی نہیں سمجھتے۔بعض تو غلط تاویلات گھڑ کرحرام کو حلال کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں، بعض لوگ اپنی لذات ِنفسانی کو پورا کرتے ہیں اور شریعت ِمقدسہ کے احکام سے تنگ دل ہوتے ہیں۔ بعض تو اتنے جری ہوتے ہیں کہ احکام ِخداوندی سے استہزاء بھی کرتے ہیں۔ العیاذ باللہ! حضرات علما سے تمسخر کرتے ہیں، یہ لوگ اپنے ایمان کی خیر منائیں اور ذرا رات کو لیٹتے وقت اپنی موت اور موت کے بعد قبر ،پھر حشر اور پھر جہنم کی ہولناکیوں کو سوچیں اور اپنی جان پر ترس کھائیں، ایسے حضرات کو اپنا حقیقی محسن سمجھیں ،جو لذات ِدنیا اور خواہشات ِنفسانی کو پس ِپشت ڈال کران کے ایمان بچانے کی فکر میں ہیں۔
حضرت عمیر بن حبیب رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ:
”ایمان گھٹتا اور بڑھتا رہتاہے۔کسی شخص نے سوال کیا کہ ایمان گھٹتا اور بڑھتا کیسے ہے؟“
فرمایا:”جب ہم اللہ کا ذکر کرتے ہیں اور اللہ سے ڈرتے ہیں توایمان بڑھ جاتاہے اور جب غافل ہوجاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو بھول جاتے ہیں، تو ایمان گھٹ جاتاہے۔“
حضرت ابو ھریرة رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:ایمان کی مثال قمیص کی طرح ہے جس کو کبھی تم پہن لیتے ہو اور کبھی اتار کر رکھ دیتے ہو۔“
اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل وکرم سے اس سیاہ کاراور تمام اہل ایمان کو بھی کثرتِ ذکر کی توفیق عطافرمائیں اور جب بھی موت آئے، تو کمال ایمان کی حالت میں آئے،آمین۔
ایمان کے بغیر اعمال ِصالحہ کی حقیقت!
بغیر ایمان کے اعمال ِصالحہ کا آخرت میں کوئی وزن اور کچھ حقیقت نہیں،ایمان شرط ہے۔
عن عائشة رضی اللہ عنھا قالت ،قلت یا رسول اللہ!ابن جدعان کان فی الجاہلیة یصل الرحم ویطعم المسکین فھل ذاک نافعة ؟قال صلی اللہ علیہ وسلم لا ینفعہ انہ لم یقل یوما رب اغفرلی خطیئتی یوم الدین۔
ترجمہ:سیدہ عائشة فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا،یا رسوال اللہ !ابن جدعا ن تو زمانہٴ جاہلیت میں صلہ رحمی بھر کرتاتھا اور مسکینوں کو کھانا وغیرہ بھی کھلاتاتھا،تو کیا یہ نیک اعمال اس کے لیے نفع بخش ثابت ہوں گے؟حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ اعمال اس کونفع نہیں دیں گے؛ کیوں کہ ایک دن بھی اس نے یہ نہیں کہا کہ اے میرے پروردگار!قیامت کے دن میری خطاوٴں کو معاف کردینا۔
فائدہ:امام نووی شارح مسلم فرماتے ہیں ،مراد اس جملے سے(اے میرے پروردگار قیامت کے دن میری خطاء کو معاف فرمادینا)یہ ہے کہ وہ ایمان نہیں لایا،بل کہ کفر کی حالت میں موت آئی۔
پتہ چلا ایمان کے بغیر مسئلہٴ آخرت حل نہیں ہوگا۔
حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:ایمان بغیرعمل کے مقبول نہیں اور ناہی کوئی عمل بغیر ایمان کے مقبول ہے،اس سے ظاہر ہوگیا کہ ایمان وعمل میں کتنا مضبوط ربط ہے۔نفس ِایمان کی برکت نصوص سے ثابت ہے۔
تقدیر اپنی جگہ مسلم ہے بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تقدیر کی کچھ حقیقت نہیں ،بس سارے کام اچانک اور اتفاقاً ہوتے ہیں، اس قسم کے خیالات صرف خیالات ہیں،تقدیر کی ایک مسلّم حقیقت ہے۔
”والقدر خیرہ وشرہ من اللہ“تقدیر اچھی بری یہ سب اللہ کے ا ختیار میں ہے،ہاں اس کو اچھا اور برا بنانا بندے کے ایمان اس کے اعمال اور اس کے محنت ومشقت کے ساتھ مربوط ہے۔تقدیر کا مطلب ہے کام کر گزرنا، محنت سے جی نہ چرانا اور پھر نتیجہ اللہ کی ذات پر چھوڑ دینا۔ابن عمر سے فرمایا گیا،کچھ لوگ ہیں جو ایک طرف تو علم ِدین کی طلب ظاہر کرتے ہیں اور دوسری طرف ان کا عقیدہ یہ ہے کہ تقدیر کی کچھ حقیقت نہیں، بس سارے کام اچانک ہی ہوتے ہیں۔
ابن عمر نے فرمایا:جب تمہاری ملاقات ان لوگوں سے ہو تو ان کو بتلادیجیے کہ میں ان سے بری ہوں،اور وہ مجھ سے بری ہیں۔اس ذات کی قسم!جس کے قبضہ میں میری جان ہے، اگر ان میں سے کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر سونا بھی اللہ کے راستے میں خرچ کردے، اللہ تعالیٰ اس کو ذرہ برابربھی قبول نہیں فرمائیں گے،جب تک وہ اچھی بری تقدیر پر ایمان نہ لے آئیں۔
حضرت حذیفہ سے ر وایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اللہ تعالیٰ کسی بدعتی کا روزہ قبول کرتے ہیں نہ نماز،صدقہ قبول کرتے ہیں نہ عمرہ،جہاد قبول کرتے ہیں اور نہ نفلی اور فرض عبادت،وہ اسلام سے ایسے ہی نکل جاتاہے جیسے آٹے سے بال“۔
مراد ایسی بدعت ہے جو کفر تک پہنچادے۔
ایمان کے بغیر اونچے نسب کا بھی کوئی فائدہ نہیں !
ایمان وعمل کے بغیر نسب خواہ کتنا ہی اعلیٰ ارفع کیوں نہ ہو،اس سے نجات نہیں ملے گی۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اعلی وارفع کوئی نہیں ،مگر یہ محقق ہے کہ ابو طالب کو دوذخ میں آگ کی جوتیاں پہنائی جائیں گی۔حضرت لو ط علیہ السلام کی بیوی نے اپنے شوہر ِنامدار کی دعوتِ ایمان کو ٹھکرایا تو اللہ نے اس کو دنیا میں بھی دردناک عذاب میں مبتلاکیا اور آخرت میں ہمیشہ کے لیے جہنم کا ایندھن بن گئی۔اس طرح سیدنا نوح علیہ السلام کا بیٹا باغیوں سے جاملا،ایمان نہیں لایا دنیا میں اس پر ہلاکت طاری ہوگئی اور آخرت کا عذاب بھی محقق ہوگیا۔یہ بھی ذہن نشین رہنا چاہیے کہ صرف رسول اللہ کی محبت بھی کافی نہیں،جب تک ایمان اور عمل ِصالح نہ ہو۔
ایک شبہ کا جواب!
یہاں کسی کو یہ شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ ”ایسا شخص جو ڈھیروں خوبیوں کا مالک ہو ایثار وقومی ہمدردی،صدقت ودیانت کا وہ پیکر،خدمت خلق اور دیگر رفاہی سرگرمیوں میں پیش پیش اور علم وفن میں اپنی مثال آپ،اگر نہیں ہے تو صرف مسلمان نہیں ہے،صرف ایک ایمان سے محروم ہے“۔
دوسری طرف ایک شخص ہے اس میں کوئی خوبی نہیں ،نہ عمل، نہ کردار، نہ اخلاق، بس صرف اور صرف ایمان کے بول بولتا ہے،تو کبھی نہ کبھی جنت میں جائے گا،اور وہ پہلا شخص ہمیشہ دوذخ میں رہے گا۔
حضرت تھانوی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:”اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کوئی عدالت کسی ایسے مجر م کے لیے سزائے موت یا عمر قید کی سزا سناتی ہے،جو باغی ہے اور حکومت کا تختہ الٹنا چاہتاہے،اب یہاں کسی صاحب کے دل میں فاضل جج کے اس فیصلے پر کوئی وسوسہ نہیں آتا،کہ یہ شخص تو بہت سی خوبیوں کا مالک ہے، بڑا صنعت کار بھی ہے، بڑا سائنسداں بھی ہے اور یہ ہے اور وہ ہے،اور محض ایک جرم ِبغاوت کی وجہ سے اتنی بڑی سزا اس کے اوصاف کا کچھ بھی پاس ولحاظ نہیں؟یہ شبہ فاضل جج کے فیصلے پر اس لیے نہیں ہوتا،کیوں کہ ہر شخص سمجھتاہے کہ بغاوت ہی ایک ایسا جرم کافی ہے،جس کی وجہ سے اس کی ساری خوبیاں ڈھ گئیں،جب کہ دوسری طرف ایسا شخص جو حکومت کا وفادار ہے ،اگر چہ اتنی ساری خوبیوں کا مالک نہیں،تو وہ حکومت کا منظور ِنظرہوسکتا ہے۔حضرت مجدد تھانوی رحمة اللہ فرماتے ہیں کہ بالکل اسی طرح کفر بھی اللہ تعالیٰ سے بغاوت ہے،کافر خواہ کتنی ہی خوبیوں کا مالک ہو مگر اس کے مجرم ہونے کے لیے کفر جیسی بغاوت ہی کافی ہے،جب کہ مسلمان وفادار ہے اللہ سے باغی نہیں ہے ؛یہی خوبی ایک مسلمان کو مقبول بارگا بنانے کے لیے کافی ہے۔
ایمانی مجلسیں! گزشتہ صفحات میں ایمان میں بہار آئے، تازگی اور تابندگی پیدا ہو، اس کے لیے ذکر اللہ کو بیان کیا گیا ہے ۔ٹھیک اسی طرح،ایمانی مجالس اور محفلیں؛جہاں ذکر اللہ ہورہاہو ،خدا ورسول کا ذکر ِخیر اور ایمان کو مضبوط کرنے والی باتوں کا ذکر ہورہاہو، وہ بھی ایمان میں تازگی اور بلندی کا سبب ہوتی ہیں۔
عن انس بن مالک قال کان عبداللہ بن رواحة‘ اذا لقی الرجل من اصحاب رسول اللہ قال تعال!نوٴمن بربناساعة،فقال ذات یوم لرجل فغضب الرجل فجاء النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال یا رسول اللہ!الا تری ابن رواحة یرغب عن ایمانک الی ایمان ساعة فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم یرحم اللہ ابن رواحة یحب المجالس التی تتباھیٰ بھا الملائکة“۔
ترجمہ:حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ:حضرت عبداللہ بن رواحہ صحابہ کرام رضوان اللہ ،میں سے جب کسی سے ملتے تو فرماتے،آو ٴہم اپنے رب پر تھوڑی دیر کے لیے ایمان لے آئیں؛چناں چہ ایک دن کسی شخص سے یہی با ت کہی تو وہ ناراض ہوگیا اور اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت ِمبارکہ میں حاضر ہوکر عرض کیا!اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم!آپ ابن رواحة کی طرف نہیں دیکھتے کہ آپ کے ایمان سے اعراض کرکے تھوڑی دیر کے ایمان کی طرف مائل ہوتے ہیں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ تعالیٰ ابن رواحہ پر رحم کرے ،وہ ایسی مجلس کو پسند کرتاہے، جس پر ملائکہ(فرشتے)بھی فخر کرتے ہیں۔
ذکر سے ایمان میں تازگی!
حضرت عبداللہ بن رواحہ کی یہ روایت بیہقی میں اس طرح ہے کہ حضرت عبداللہ بن رواحہنے اپنے ساتھی سے کہا کہ،آوٴ تھوڑی دیر کے لیے ایمان لائیں، تو اس ساتھی نے پوچھا کیا ہم موٴمن نہیں ہیں؟حضرت عبداللہ نے فرمایا:بے شک ہم موٴمن ہیں،لیکن ہم اللہ کا ذکر کرنا چاہتے ہیں،جس کی وجہ سے ہمارے ایمان میں زیادتی ہو۔
حضرات صحابہ کو ایمان کی فکر!
حضرت امام بخاری نے”صحیح بخاری“میں جلیل القدر تابعی حضرت ابن ملیکہکا ارشاد نقل کیا ہے،آپنے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تیس صحابہ کرام سے ملاقات کی ہے ،ان میں ہر ایک کو اپنے نفس پر نفاق کا خوف رہتاتھا۔
اور”صحیح“میں حضرت حذیفة بن الیمان کا ارشاد منقول ہے کہ اور لوگ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کے بارے میں سوال کرتے تھے اور میں شر اور فتنہ کے بارے میں سوال کرتاتھا،کیوں کہ مجھے خوف لاحق رہتاتھا کہ کہیں کسی فتنہ میں مبتلا نہ ہوجاوٴں۔
یہ ہیں حضرات ِصحابہ کرام جن کے ا یمان کی شہادت اللہ تعالیٰ نے قرآن ِمجید میں دی اور ان سے اپنی رضا مندی کا اعلان فرمایا؛ لیکن ان کو اگر فکر تھی تو بس دین اور ایمان کی فکرتھی،کہ کہیں اس دولت عظمیٰ کو ضرر نہ پہنچ جائے اور ایمان کی بہار اور اس کی تازگی میں کچھ فرق نہ آجائے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت یافتہ ان نفوس ِقدسیہ کے ایک دو واقعات نہیں،سیکڑوں واقعات ایسے ہیں جن کے بارے میں کتب احادیث اور کتب سیر وتاریخ کے بے شمار اوراق گواہی دیتے ہیں کہ ان حضرات کا محبوب ترین توشہ ایمان تھااور ان کی نظر میں سب سے زیادہ شنیع اور مکروہ فعل کفر تھا۔رضی اللہ عنھم اجمعین