نگارش:شفیع احمدقاسمی اِجرا،مدھوبنی/جامعہ اکل کوا
ربیع الاول کے معنی:
ربیع الاول کامہینا بڑاہی متبرک اورعظیم فضیلتوں کاحامل مہینا ہے ۔اِس لیے کہ اسی ماہ میں امام الانبیا کونین کے سرور، شفیع محشر،ہم سب کے دلبر،محبوب رب اکبر محمدعربی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی۔ ربیع الاول کے معنی پہلی بہارکے ہیں۔یہ مہینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی وجہ سے حقیقت میں بہار کیا؛ سدا بہار ہوگیا۔کیوں کہ اِسی ماہ میں انسانیت کوحسنِ عمل اورنورِہدایت کاابدی سرچشمہٴ حیات ملا۔
ولادت باسعادت :
سرورِکائنات محبوب رب العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ پیدائش کے متعلق علمائے کرام کے تین اقوال ہیں۔(۱)۸/ ربیع الاول(۲)۱۰/ ربیع الاول(۳) ۱۲/ ربیع الاول۔یہ تین تاریخیں علمانے تحریرفرمائی ہیں۔ لیکن محققین علماکااتفاق ۱۲/ ربیع الاول پرہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت پیرکے دن بہ وقتِ صبح محلہ ”سوقُ اللیل“میں ابوطالب کے مکان پرہوئی۔(العقدالثمین:ج۱/ص۲۲۰)
بہ صد اندازِ یکتائی ، بہ غایت شانِ زیبائی
امیں بن کر امانت آمنہ کی گود میں آئی
کتنے فاصلے ہوتے ہیں؟:
جس سال خداکایہ سچااورلاڈلارسول صلی اللہ علیہ وسلم کائنات میں وجودپذیرہوا،اُس سال کواہلِ عرب ”عام الفیل“کہا کرتے تھے۔کیوں کہ اُسی سال ولادت باسعادت سے صرف ۵۰/ دن پہلے ۲/ مارچ ۵۷۱ء بروزسنیچرکوواقعہٴ فیل پیش آیا تھا،جس میں یمن کے حاکم ”ابرہہ“ نے خانہ کعبہ کونیست ونابودکرنے کاارادہ کیا تھا، مگر خودہی اپنے ۶۰/ ہزار لشکروں اور۱۲/ ہاتھیوں سمیت نیست ونابودہوگیا۔ شمسی حساب سے اِس مذکورہ تاریخ کی موافقت ۲۰/ اپریل ۵۷۱ء کے ساتھ ہوتی ہے ۔ اِس بیان کردہ حساب کی روسے ولادت باسعادت اورولادتِ عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان ۵۷۱/ سال کا فاصلہ ہو جاتاہے ۔ حضرت عیسیٰ اورحضرت موسیٰ علیہماالسلام کے درمیان ۱۷۱۶ /سال کا لمبا عرصہ ہوتاہے ۔ اور حضرت موسیٰ تا حضرت ابراہیم علیہماالسلام تک ۵۴۵/ سال،حضرت ابراہیم اورطوفان نوح علیہ السلام کے درمیان ۱۰۸۱/سال اور طوفان نوح سے ابوالبشرحضرت آدم علیہ السلام کے درمیان ۲۲۴۲/سال کازمانہ ہوتاہے ۔موٴرخین نے اس حساب کی روشنی میں لکھا ہے کہ ولادت باسعادت سے آدم علیہ السلام کے زمانہ تک ۶۱۵۵/ سال کی مدت بنتی ہے ۔(ایک عالمی تاریخ :ص۱۵)
میں حیران رہ گئی:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ فرماتی ہیں کہ ولادت کے بعد میں نے اپنے بیٹے کو دیکھناچاہا جیساکہ ہرعورت کی دلی تمنااورخواہش ہوتی ہے ۔تومیں یہ دیکھ کرحیران رہ گئی کہ میرالخت جگراورنورنظر سجدہ کی حالت میں پڑاتھا۔آقائے نامدار،شہنشاہ کون ومکاں ،سپہ سالاربدروحنین صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہی دن عالم انسانیت کو یہ سبق پیش کیا کہ سب سے بڑی ذات حق تعالیٰ شانہ کی ہے ،وہی مالک ہے ،وہی بندگی کے لائق ہے اوراسی کے سامنے بندے کا سر جھکناچاہیے ۔
میں توڈرگئی:
فاطمہ بنت عبداللہ جودائی کافریضہ انجام دے رہی تھیں ،وہ کہتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے وقت ساراگھرروشن ہوگیا۔ستارے اس طرح جھکے ؛کہ مجھے اندیشہ ہونے لگاکہ کہیں یہ مجھ ہی پرنہ گر پڑیں،آفتابِ نبوت کی درخشندہ کرنوں سے کائنات منور ہوگئی،ہرذرہ روشن ہوگیا،ظلمت اورتاریکی نے اپنا بوریا بسترلپیٹ لیااورشرف انسانیت کو سربلندی مل گئی۔
یوم ولادت مناناچاہیے یانہیں:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کااس دنیامیں جلوہ گرہوناتاریخ کائنات کااتناعظیم الشان، پُرمسرت اورمقدس واقعہ ہے کہ اِس سے زیادہ عظیم الشان واقعہ روئے زمین پرکبھی پیش نہیں آیا۔ اوررہتی دنیاتک نہیںآ ئے گا۔ انسانیت کونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کانورملااورآپ کی مقدس شخصیت کی برکات نصیب ہوئیں۔
اسلام میں یومِ پیدائش منانے کا تصور:
اگرمذہبِ اسلام میں کسی کی یوم پیدائش منانے کاکوئی تصورہوتا،تومحمدِعربی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے زیادہ کوئی بھی دن اِس بات کامستحق نہیں تھاکہ اس کومنایاجائے ۔لیکن تاجِ نبوت ملنے کے بعد۲۳/ سال اِس دنیامیں تشریف فرمارہے ،ہرسال ربیع الاول کامہینا آیا، نہ آپ نے ۱۲/ ربیع الاول کواپنایوم پیدائش کاکوئی اہتمام کیا اورنہ جشن منایا اورنہ آپ کے بعد جاں نثارصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے منایا۔تاریخ کے سمندرکھنگال ڈالیے ؛ مگر آپ کو ایک لاکھ چوبیس ہزارصحابہ کرام کی جماعت میں کوئی ایک ایساصحابی بھی نظرنہیںآ ئے گا،جس نے ۱۲/ ربیع الاول کی تاریخ میں کوئی جلسہ منعقدکیاہویاکسی قسم کاکوئی جلوس نکالاہو۔یاکوئی چراغاں کیا یارنگ برنگی جھنڈیاں سڑکوں،چوک اورچوراہوں پرسجائی ہو؟اب صحابہ کی زندگی سے باہرقدم نکالیے اوریہ دیکھنے کی کوشش کریں کہ کسی تابعین یاتبعِ تابعین یاکسی بھی بزرگانِ دین نے اِس کا اہتمام کیاہے یانہیں؟میدان بالکل صاف ہے ، جواب تلاش کر کے دیکھ لیجیے توان شاء اللہ جواب بالکل ہی نفی میں ملے گا۔
اسلام رسموں کادین نہیں ہے:
کیاصحابہ سے بھی بڑاکوئی عاشق رسول ہوسکتاہے ؟آخرصحابہ نے ایساقدم کیوں نہیں اٹھایا؟اِس لیے کہ وہ حضرات اس حقیقت سے اچھی طرح آشناتھے کہ اسلام کوئی رسموں اور خرافات کادین نہیں ہے ۔بل کہ اسلام تو عمل کادین ہے ۔ہم تواپنے اوپرعاشق کالیبل لگاکراس دن کو؛جوکہ انسانیت کی طلوعِ صبح صادق کادن ہے صرف تکلف، اسراف اوربناوٹ وسجاوٹ میں لاکھوں روپے خرچ کرکے اپنی محبت کو”محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم“ کی محبت کا حق ادا کر دینا سمجھتے ہیں۔ہم ذرادل پرہاتھ رکھ کرٹھنڈے دل سے سوچیں کہ اس وقت میلے ٹھیلے کاجوسماں ہوتا ہے ، تفریح اورتماشے اوربے پردگی کاجودل خراش منظرہوتاہے ،کیااِس سے محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاحق ادا ہوجاتا ہے ؟یہ غیروں کاطریقہ ہے ،اِس سے مسلمانوں کوبہرحال بچناچاہیے ۔
بنیاسے کوئی سیانانہیں:
مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم نے اپنے والدِگرامی حضرت مفتی محمدشفیع صاحب(و:۲۰/ شعبان ۱۳۱۴ھ مطابق جنوری ۱۸۹۷ء /م:۱۱/ شوال ۱۳۹۶ھ مطابق۶/ اکتوبر ۱۹۷۶ء بروزبدھ) سے ایک کہاوت نقل کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ ”بنیے سے سیاناسوباوٴلا“۔یعنی کوئی یہ دعویٰ کرنے لگے کہ میں تجارت کے میدان میں بنیے سے زیادہ سیانااورہوشیارہوں اوراُس سے زیادہ تجارت جانتا ہوں، تووہ بالکل باوٴلااورپاگل ہے ۔اِس لیے کہ حقیقت میں تجارت کے میدان میں کوئی بھی شخص بنیے سے زیادہ سیانا نہیں ہو سکتا۔ یہ کہاوت سنانے کے بعدحضرت مفتی صاحبسناتے ہیں کہ جو شخص یہ دعویٰ کرے کہ میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے زیادہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاعاشق اورصحابہ کرام سے زیادہ محبت رکھنے والا ہوں، تووہ حقیقت میں پاگل ہے،بے وقوف اوراحمق ہے۔اُس کورانچی،بریلی یا شاہدرہ (دہلی )کے پاگل خانے میں اپنا داخلہ کرواکردماغ کاعلاج کرالیناچاہیے ۔اِس لیے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بڑاعاشق اورمحب صادق کوئی اور صبحِ قیامت تک ہوہی نہیں سکتا۔
محبت کے لیے اطاعت لازم ہے :
یہ توناممکن ہے کہ کسی کواللہ اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہواوراُس کی زندگی بغاوت اور نافرمانی کے بھنورمیں ڈوبی ہوئی ہواوروہ شیطانی جال کاشکارہوکررہ جائے۔ قرآن کہتاہے:﴿وَاَنَّ ہٰذَاصِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًافَاتَّبِعُوْہ﴾کہ ہم نے لائن ڈال دی ہے ،اُسی لائن پرچلو۔﴿وَلَاتَتَّبِعُواالسُّبُلَ﴾اِدھراُدھرمت بھٹکتے پھرو۔اگراِدھراُدھرجھانکنے لگے تو پھر اُس کانقصان کیاہوگا؟﴿فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہ﴾ ورنہ تم پٹری سے اتر جاوٴگے۔اب اپنے دل سے ہی یہ فیصلہ معلوم کرلیاجائے کہ موجودہ وقت میں ہمارایہی حال ہے کہ نہیں؟ لہٰذا جو لوگ بھی آزادی اور پوری بے فکری کے ساتھ اللہ اوراُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی خلاف ورزی کرتے ہیں،وہ اگراللہ اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کایہ دعویٰ ٹھونکیں تو سراسر جھوٹے اورمحبت میں کھوٹے ہیں۔ محبت کے غدارہیں، وفادار نہیں ہیں۔
حضرت رابعہ بصریہنے ایسے ہی مدعیانِ محبت سے خطاب کرتے ہوئے فرمایاہے کہ
تعصی الالٰہ وانت تظہرحبہ
ہٰذاالامرفی القیاس بدیع
لوکان حبک صادقاً لاطعتہ
ان المحب لمن یطیع مطیع
یعنی اے محبت کے جھوٹے مدعی! تواللہ کی نافرمانی کرتاہے اوراُس کی محبت کادعویٰ بھی کرتا ہے۔عقل و قیاس کے اعتبارسے یہ بات بڑی عجیب ہے ۔اگرتودعویٰ محبت میں سچاہوتاتواُس کی فرماں برداری کرتا۔کیوں کہ ہر محب اپنے محبوب کی بات دل وجان سے مانا کرتاہے ۔ (بحرالدموع:ص۱۹)
صرف زبانی زباں خرچ کرنے سے کچھ نہیں ہوتا۔اگرایساہوتاتو﴿ وَلٰکِنْ قُوْلُوْا اَسْلَمْنَا﴾کہنے کی ضرورت ہی پیش نہیںآ تی ۔ایمانِ کامل کی علامت اورپہچان تویہ ہے کہ ہماری ساری خواہشات ومرضیات سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیمات کے مطابق ہو جائیں،جیساکہ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ”لایومن احدکم حتیٰ یکون ہواہ تبعاً لماجئت بہ“ ۔
یعنی تم میں سے کوئی بھی اُس وقت تک کامل ایمان والاہوہی نہیں سکتا،جب تک اُس کی خواہشات میری لائی ہوئی تعلیمات کے تابع نہ ہوجائیں۔
تھرمامیٹرلگائیں :
اپناکرداروعمل ہی سچی محبت وعقیدت کوپرکھنے کی بہترین کسوٹی ہوتی ہے ۔ایمان کی گہرائی ناپنے کاایک تھرمامیٹر ہوتاہے۔ زبانی محبت کادعویٰ توبہت آسان ہے۔اِس میں کوئی لائسنس تولگتانہیں،اِس لیے بڑی آسانی سے کوئی بھی محبت کادعویٰ کردے گا ۔لیکن ذرا قرآن کریم سے بھی پوچھ کردیکھ لیں کہ وہ کیاکہتااورہمارے دعویٴ محبت کی تائید کیسے کرتاہے ؟ سورة الحجرات میں ہے:﴿قَالَتِ الْاَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُوْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْا اَسْلَمْنَا وَ لَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ ﴾
دیہاتی لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے۔کہہ دوکہ تم ایمان نہیں لائے ،بل کہ یوں کہوکہ ہم اسلام لائے ہیں اورایمان توہنوزتمھارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا۔
شراب حرام ہے ۔اُس میں بہت فائدے ہیں،وٹامن ہے،تھکان دورکرتی اورآرام کی نیندسلاتی ہے۔ مگرہے شریعت کی نظر میں حرام ۔آخرکیوں؟اِس لیے کہ اس کانقصان منفعت سے کہیں زیادہ ہے ۔سب سے بڑا نقصان تویہی ہے کہ انسان انسانیت سے نکل کرجانورکی لسٹ میں شامل ہوجاتاہے۔سورہ بقرہ میں ارشادربانی ہے:﴿ قُلْ فِیْھِمَآ اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَاِثْمُھُمَآ اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِھِمَا﴾لیکن کوئی بھی شرابی کبھی یہ نہیں کہتاکہ میں شرابی ہوں۔ اُس کی تو ادا ہی بتلاتی ہے کہ وہ شرابی ہے ۔اِسی طرح راہِ سنت پر چلنے والاخودسے آگے بڑھ کرگلی گلی ڈھنڈورا نہیں پیٹتاکہ میں سنی ہوں۔اُس کا کرداروعمل اوراس کی اداخودہی بتلادیتی ہے کہ وہ سنی ہے یا کچھ اورہے ۔محبت کی لائن میں سچا یا جھوٹا، کھڑایا کھوٹا ہے۔
ذراجائزہ لے لیں:
کیاہی اچھاہوتاکہ اس موقع پرہم تجدیدعہدکرتے ،اپنی زندگیوں کاجائزہ لیتے ،دیکھتے کہ ہمارے اپنے گھروں اورمعاشرے میںآ پ صلی اللہ علیہ وسلم کے چلن (طریقے)کاکتناچلن ہے ؟ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد”مَن احیاسنتی عندفسادِامتی فلہ اجرمأة شہید“کہ جس نے ہمارے چلن اورہماری طرززندگی کواُس وقت زندہ کیا،جب امت میں بگاڑوفسادعام ہورہاہو،تواُس کوسوشہیدوں کااجرملے گا۔اِس بات کوسوتے جاگتے یاد کیاکرتے، سوچتے اورغورکرتے کہ اِس کے زندہ کرنے کے لیے ہم کس راہ سے اور کتنی کوششیں کررہے ہیں یاہماری کوششوں کا دائرہٴ کاراور اُس کاطریقہ کیا ہے ؟اللہ سمجھنے کی توفیق بخشے آمین!