فسق۔ لغت میں فسق کا معنی نکلنا ہے، جب کہ شرعی طور پر فسق سے مقصود اللہ عزوجل کی اطاعت سے روگردانی کرنا ہے، اس میں کامل خروج بھی ہو سکتا ہے؛اسی لیے گناہ کبیرہ کے مرتکب مومن کو فاسق کہا جا سکتا ہے۔
فسق دو طرح کا ہوتا ہے: ایک وہ فسق ہے جس کی وجہ سے آدمی ملت اسلامیہ سے خارج ہو جاتا ہے۔ اس سے مراد کفر ہے۔ کافر کو فاسق کہا جا سکتا ہے۔ اللہ عزوجل نے ابلیس کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبِّہ ۔(الکھف: 50)
”ابلیس نے اپنے رب کے حکم سے روگردانی اختیار کی۔“
ابلیس کا یہ فسق و خروج کفر تھا۔ اللہ عزوجل نے ایک دوسرے مقام پر فرمایا:
وَ اَمََّا الَّذِیْنَ فَسَقُوا فَمَاْوَاھُمُ النَّارُ۔(السجدة:20)
”فسق کرنے والوں کا ٹھکانہ جہنم ہے۔“
یہاں فسق سے مراد کفار ہیں۔ اس کی دلیل یہ فرمانِ الٰہی ہے:
کُلَّمَا أَرَادُوا أَنْ یَخْرُجُوا مِنْہَا أُعِیدُوا فِیہَا وَقِیلَ لَہُمْ ذُوقُوا عَذَابَ النَّارِ الَّذِی کُنْتُمْ بِہِ تُکَذِّبُونَ۔(السجدة:20)
”جب کبھی وہ اُس سے نکلنا چاہیں گے اسی میں دھکیل دیے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا کہ چکھواُسی عذاب کامزا جس کو تم جھٹلایاکرتے تھے“۔
نافرمان مسلمان کو بھی فاسق کہا جاتا ہے، لیکن مسلمان اپنے اس فسق کی وجہ سے اسلام سے خارج نہیں ہو گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:وَالَّذِینَ یَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ یَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُہَدَاء َ فَاجْلِدُوہُمْ ثَمَانِینَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَہُمْ شَہَادَةً أَبَدًا وَأُولَئِکَ ہُمُ الْفَاسِقُونَ۔ (النور:4)
”اور جو لو گ پا ک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں، پھرچار گواہ لے کر نہ آئیں، ان کو اَ سی کوڑے مارو اور اُن کی شہادت کبھی قبول نہ کرو،وہ خود ہی فاسق ہیں“۔
اسی طرح اللہ عزوجل کا فرمان ہے:
فَمَنْ فَرَضَ فِیہِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ۔(البقرة: 197)
(جو شخص ان مقرر مہینوں میں حج کی نیت کرے،اسے خبردار رہنا چاہیے کہ حج کے دوران میں اُس سے کوئی شہوانی فعل، کوئی بد عملی،کوئی لڑائی جھگڑے کی بات سرزد نہ ہو)
اہل علم کا اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں کہنا ہے کہ یہاں فسوق سے مراد نافرمانیاں ہے۔
(ابن تیمیہ، کتاب الایمان،ص: 278)