فتویٰ ہے شیخ کایہ زمانہ قلم کاہے!

پہلی قسط:

شیخ محمدناظم ملی تونڈاپوری/استاذجامعہ اکل کوا

زمانہ ہمیشہ یکساں نہیں رہتا:  

            عزیزطلبہ!آج میںآپ کاذہن ایک ایسے موضوع کی طرف مُنعطِف کروںگا،جووقت کاتقاضا اورایک اہم پکارہے ۔یہ محقق ہے کہ آج کادور؛دورِ فتن ہے ۔آزمائش وابتلاکادورہے ۔اوریہ بات بھی روزروشن کی طرح عیاںہے کہ یہ دورابتلاسداقائم ودائم اورہمیشہ نہیںرہے گا۔اورایساہوناممکن بھی نہیں۔کہ بجلیاںکوندتی ہیںاورپھرغائب ہوجاتی ہیں۔طوفانوںکے جھکڑآتے ہیںاورنکل جاتے ہیں۔سورج کاطلوع ہونایقینی ہے ،اس کاشباب بھی حتمی ویقینی ہے ۔مگر اُس کے زوال وغروب کاکون انکارکرسکتاہے؟چاندکی خنکی اوراس کی چمک بھی اپنے اندردوام واستحکام نہیںرکھتی۔مثل مشہورہے’’چاردن کی چاندنی،پھراندھیری رات ہے‘‘۔ ستاروں کی قطاریں،ان کی جگمگاہٹ اوران کی نورانیت مسلّم۔آخرکاروہ بھی توچاندکے سامنے شرماجاتی ہیں۔کہکشائیںتوپھرکہکشائیںہیں،ان کی البیلی اوردل ربا ادائیںدل کولبھاتی ضرورہیں،لیکن کیا؟بقاودوام کی نویدوہ بھی سناسکتی ہیں؟نہیں!کہ خالق کائنات نے دنیاکانظام ہی کچھ اس طرح مرتب کیاہے ،جس کے ضمن میں یہ سمجھناانتہائی سہل اورآسان ہے ۔زمانہ ہمیشہ یکساںنہیںرہتا،زمانہ گردش میںہے ۔{وتلک الایام نداولہابین الناس}ہاں!تبدیلیاںیقینی ہیں۔تاہم ان تبدیلیوںکے وقوع کاانحصاراسباب کے درجہ میںانسانوںسے بھی وابستہ ہیں۔

            اس لحاظ سے جب ہم ماضی کوپلٹ کردیکھتے ہیںتوہمیںنظرآتاہے کہ دنیامیںجتنے انقلابات وقوع پذیرہوئے ہیں،ان کے واقع ہونے میںاورچیزوںکے ساتھ قلم کابھی اپناایک انوکھااورانفرادی کردارہے ۔جس کاانکارناممکن ہے ،اوریہی ہماراآج کاموضوع ہے۔

قرطاس وقلم اورحاملان علوم کاتعلق:

            قرطاس وقلم اورحاملان علوم نبوت کاباہم گہراربط ہے ۔ایک دوسرے کے لیے دونوںلازم وملزوم ہیں۔اوروقت کی اس اہم صداپرصدابرگوش ہوناعلوم اسلامیہ کے حاملین پرواجب وضروری ہے ۔کہ ان کاکام ہی قرطاس وقلم اورزبان سے وابستہ ہے ۔کل ملاکران کودوخانوںمیںبانٹاجائے تواس طرح سے دوعنوان بنتے ہیں:ایک تحریراوردوسراہے تقریر۔اوردونوں ہی کی افادیت مسلّم ہیں۔سردست ہم تحریرکولیتے ہیں،جوقلم کی پکارہے ۔قلم کیاہے؟کس چیزکانام ہے ؟معاشرے میںاس کاکیاوزن اورکیامقام ہے؟وہ کیاکرداراداکرسکتاہے؟یہ سمجھناطالبان علوم نبوت کے لیے ضروری ہے ۔توسمجھ لیجیے کہ قلم قافیہ پردازکی آواز ہوتی ہے ۔قلب صادق کی صداؤںکوقلم قرطاس پررقم کرتاہے۔قلم کی ادنیٰ سی گستاخی اورکجی زمانہ پرقہرڈھادیتی ہے ۔ہزاروںانسانوںکی گم راہی کاسبب اورضلالت وزیغ کاشاخسانہ ہوتی ہے ۔اورقلم کی درستگی ،اس کاحسن،اس کابانکپن،اس کی صداقت وسچائی ہزاروںانسانوںکی ہدایت اورایک پوری نسل کی رہبری ورہ نمائی کاسبب ہوتی ہے ۔ یقینا قلم امانت کوامینوںاوراس کے اہل لوگوںکے حوالے کرنے کاایک خاص ذریعہ ووسیلہ ہے ۔قلم!احساسات کوجگانے اورہوش وحواس کوبیدارکرنے کاایک اہم واسطہ اورسبب اورمافی الضمیرکی ترسیل کا اہم ذریعہ ہے ۔

قلم کس کوکہتے ہیں؟:

            راجاوپرجا،بادشاہ ورعایا اوران کی غلط روشوںپرقدغن لگانے کانام قلم ہے ۔خامیوںکوطشت ازبام کرکے حقائق کی سچی تصویرپیش کرنے کانام قلم ہے۔ تلبیس ابلیس کاپردہ چاک کرکے حق کوواضح کرنے کانام قلم ہے ۔قلم کبھی باطل سے سمجھوتہ نہیںکرتا۔غلط کی تائیدکرناقلم کی فطرت کے خلاف ہے ۔البتہ باطل ذہن، باطل دماغ،غیرمنصفانہ تفکرات انسان اپنے ہاتھوںغلط کرنے اورلکھنے لگتے ہیں۔یہاں پہنچ کرطلبہ یہ ہرگزفراموش نہ کریںکہ ہمارااورقلم کارشتہ انتہائی عمیق اورگہرارشتہ ہے ۔لاریب تیروتفنگ ،شمشیروسنان کے مقابلے میںقلم ہی ہے جودلوںکی کایاپلٹ کرتاہے ۔دلوںکوفتح کرلیتاہے ۔اور’’جودلوںکوفتح کرلے وہی فاتح زمانہ‘‘ہے ۔ اورعہدحاضرمیںقلم ہی فاتح زمانہ ہے ۔اسی لیے کہنے والے نے قلم کی للکارکواپنے الفاظ کاجامہ دے کرکہاتھا۔’’قلم گویدکہ من شاہِ جہانم‘‘لہٰذاقلم کی عظمت کوسمجھ کر اپنا رشتہ اسی سے مضبوط واستوارکیجیے ۔لکھنے کا عادی بنیے ۔کہاوت مشہورہے کہ ’’سوبکاایک لکھا‘‘۔

قلم کامرتبہ ومقام:

            تعلیم وتعلم کے جملہ ذرائع میںقلم کوجوعظمت ورفعت اورمقام ومرتبہ حاصل ہے وہ محتاج بیان نہیںہے ۔ اس کااعزازیہ ہے کہ اس کوبڑے ہی اہتمام سے رب کائنات نے اپنے کلام (قرآن مجید) میںایک نہیں،دونہیں،تین نہیں؛ بل کہ چارچارجگہوںپرصراحتاً مذکورفرمایاہے ۔جودیگرذرائع علو م سے اپنی ایک انفرادی اورمستقل شان وشناخت رکھتاہے ۔سورۃ القلم میںنہ صرف ذکرفرمایا،بل کہ قـلم کی قسم کھائی ۔{نٓ والقلم ومایسطرون}سورہ علق میں{الذی علم بالقلم}فرماکراس کی افادیت سے روشناس کرایا۔سورہ آل عمران میںبھی فرمایا{یلقون اقلامہم ایہم یکفل مریم}پھریہ بھی محقق ہے کہ جن چارچیزوںکورب رحمن ورحیم نے اپنے دست قدرت اوراپنے دست مبارک سے وجودبخشاان میںپہلے نمبرپرقلم ہے ۔

            حضورصاحب کوثرصلی اللہ علیہ وسلم کاارشادمبارک ہے ’’اول ماخلق اللہ القلم‘‘ کہ صانع حقیقی نے سب سے پہلے قلم کووجودبخشا،قلم کی تخلیق کی۔پھرجب قلم عالم وجودمیںآگیاتوباری عزاسمہ نے قلم کومخاطب فرمایا:’’اکتب‘‘یعنی لکھ۔قلم نے بڑے ادب سے عرض ونیازکیاکہ بارالٰہا!میںحقیروفقیراورعاجزودرماندہ لکھوںتوکیالکھوں؟’’مااکتب؟‘‘رب ذوالجلال کاارشادہوا’’اکتب کل شئی‘‘ اور بالفاظ دیگر’’اکتب ماکان  و ماسیکون‘‘ماضی،حال اورمستقبل سب قلمبندکرلیں۔یعنی کل کائنات کی تقدیریںرقم کرلیں۔اس طرح قلم کل کائنات کے لیے نوشتۂ تقدیرکاوسیلہ وذریعہ بنادیاگیا۔اوراس قلم کودستِ انسانی کی دسترس میںدے دیاگیا،جس سے انسانیت کاسربلندہوگیا۔اوراس کی عزت بھی کائنات پرآشکارا ہوگئی۔تویہ بھی کہاجاسکتاہے کہ انسانی بلندی کارازاسی قلم کی مرہون منت ہے ۔رب ذوالجلال نے قلم کووہ قدرت اورگراںقدرقوت بخشی ہے،جوماضی،حال اورمستقبل تینوںزمانوںکومحیط ہے ۔اورقوموںکے مقدر،رات کوروشن کرنے کی صلاحیت واستعدادسے وہ معمورہے ۔معاشرے کی تعمیروترقی میںقلم کاجوہرایک انفرادی جوت جگاتااورایک پُراثرانقلاب پیداکرتاہے ۔شاہان زمانہ پرجہاں وہ لگام کستاہے،وہیںغریبوں،یسیروںاوروقت کے ماروںکے مقدرات جگاتاہے ۔اورعلوم ومعارف کے شناوروںکے احوال وکوائف کابھی انکشاف کرتاہے ۔ اوربلاکم وکاست سب پرنقدوتبصرہ بھی کرتاہے ۔یہ کہناہرگزبے جانہ ہوگاکہ باوجودنت نئی تعمیروترقی کے دنیاآج بھی قلم کی محتاج ہے ۔

قلم کی عظمت اساطین علم کی نظرمیں:

            قلم قلم ہے ۔قلم کی عظمت کے کیاکہنے!جس قلم کی عظمت کوآسمان کی رفعتیںبھی سلام کریں۔خدائے ذوالجلال جس کی قسمیںکھائے ،جس کی افادیت پردنیا جہان کے معماروں،علم کے تاجداروںاورقلم کاروںکایہ فیصلہ ہو۔اگرقلم نہ ہوتاتوپھرادیان بھی صحیح نہ ہوتے ،ناہی اموردنیاباقرینہ وباترتیب ہوتے ۔یہی قلم ہے جس کے سلسلے میںباب العلم والحِکم تاجدارعلوم ومعارف ،پیکرقضاوتصوف سیدناحضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا:’’خداوندعالم نے اپنے بندوںکوان چیزوںکاعلم عنایت فرمایا،جس سے وہ جاہل وناواقف تھے۔نیزان میںجہل کی تاریکیوںسے نکال کرشمع علم کاپیکربنایا۔اورکتابت علم کاامین وپاسبان بنادیا،جس میںفوائدہی فوائد مضمر ہیں۔جواحاطۂ تحریرمیںنہیںلائے جاسکتے ۔دنیاکے تمام علوم ومعارف اوراسراروحِکَم کی تدوین اورازل تاابدتمام احوال وکوائف ؛خصوصاًب منزل من اللہ کتابیں اور صحائف تمام ہی قرطاس وقلم ہی کی رہین منت ہیں۔اگرقلم نہ ہوتاتوعلوم ومعارف کی اکثرشاخیںسوختہ وخشک ہی رہتے‘‘۔بہت سارے عقلاوحکماہیں،بے شماردانش وران ایسے ہیں،جنھوںنے قلم کی عظمت کوجانا،اس کے مقام ومرتبہ کوپہچانا،قلم کے سرپرانھوںنے عظمتوںکاتاج رکھا۔عِتابی یہ کہنے سے نہیںرکے:’’القلم مطایا الفطن‘‘کہ قلم شعورووجدان اورفہم وذکاکی سواری ہے ۔علوم ومعارف کے ایک اورشہ سوارابن ابی داؤدکوکہناپڑا:’’القلم سفیرالعقل ورسولہ‘‘کہ قلم عقل وخردکا سفیراوراس کاپیغامبرہے ۔خردکاایک اوردھنی اورشناورقلم کی عظمت کایوںرازافشاکرتاہے:’’عقول الرجال تحت اسنان اقلامہا‘‘کہ باعظمت انسانوںکی دانائی ان کے نوک قلم سے وابستہ ہے ۔قلم کاایک شناساسلطان عبدالحمیدقلم کی عظمت کااظہارکرتے ہوئے اوراپنے قلم کورونق بخشتے ہوئے کہتاہے:’’القلم شجرۃ ثمرہا الالفاظ والفکربحر لؤلؤہ الحکمۃ وفیہ ری العقول الظمئیۃ‘‘کہ قلم مانندشجرہے ۔الفاظ اس کے پھل ہیںاورفکرایک عمیق سمندرہے،جس کے موتی حکمت ودانائی ہیں۔اورتشنہ لب عقول کے لیے اس میںسامان شادابی وسیرابی ہے ۔ (جاری……)