فتنۂ علم ودانش

مولانا الطاف حسین کشمیری / استاذ جامعہ اکل کوا

            ’’ شاہراہِ علم‘‘ کے اس خصوصی شمارے میں مجھے جو موضوع دیا گیا ہے؛ وہ ہے ’’فتنۂ علم ودانش ‘‘۔ آپ کے ذہن میں فورًا یہ خیال گردش کرنے لگے گا کہ کیا علم ودانش بھی کوئی فتنہ ہو سکتا ہے؟! علم ودانش تو سراپا خیر ہے، اس میں شرور وفتن کا گذر کیسا؟! اسی سوال کاجواب تلاش کرنے کے لیے ہم مندرجہ ذیل معروضات پر نظر دوڑاتے ہیں۔

تمہید: اس دنیائے آب وگِل کو خداوند قدوس نے بنی نوع انسان کے لیے امتحان اور آزمائش کی جگہ بنایا ہے، انسان کو اپنی قدرت ِکاملہ کا سب سے حسین، دیدہ زیب اور بہترین شاہ کار بنایا،پھر وہ بارِ امانت، جس کے اٹھانے سے آسمانوں، زمینوں اور پہاڑوں نے باوجود اپنی تمام تر وسعتوں اور رعنائیوں کے اِبا کردیا، لیکن انسان نے اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھا لیا، تاکہ وہ محل تکلیف بن سکے۔ اللہ رب العزت نے اس کی جبلت میں خیر وشر، ہردو کے مابین امتیاز وفرق کا ملکہ بہ مقدارِ وافر ودیعت فرمایا اور اسے عقل وفہم کی بیش بہا دولت سے سرفراز فرماکر ابتلا و آزمائش کے لیے روئے زمین پر اتار ا، تاکہ مکافاتِ عمل کے مطابق کام یابی و کامرانی کی صورت میں بفضلِ الٰہی جنت الخلد کا مکیں بنے، اوربہ صورت دیگر تقاضۂ عدل الٰہی کے مطابق نار جہنم کا سزاوار قرار پائے۔

فتنے اور آزمائش کے انداز وطرق:

            ابتلا وآزمائش؛ مرغوبات و محبوبات نفسانیہ کی شکل میں بھی ہوتی ہے اور نفوس پر شاق گذرنے اور نا پسندیدہ  امور کی صورت میں بھی۔ارشاد ربانی ہے:{ وَنَبْلُوکُم بِالشَّرِّ وَالْخَیْرِفِتْنَۃً وَإِلَینَا تُرْجَعُونَ} (الأنبیاء: 35)۔

            اور ہم تمہیں آزمانے کے لیے بری بھلی حالتوں میں مبتلا کرتے ہیں اور سب ہمارے پاس ہی لوٹا کر لائے جاؤگے ۔

فائدہ: یعنی دنیا میں سختی، نرمی، تندرستی، بیماری، تنگی، فراخی اور مصیبت و عیش وغیرہ مختلف احوال بھیج کر تم کو جانچا جاتا ہے؛ تاکہ کھرا کھوٹا الگ ہوجائے اور اعلانیہ ظاہر ہوجائے کہ کون سختی پر صبر اور نعمتوں پر شکر ادا کرتا ہے اور کتنے ایسے لوگ ہیں ،جومایوسی یا شکوہ شکایت اور ناشکری کے مرض میں مبتلا ہیں۔(تفسیر عثمانی بتغیر یسیر)۔

            علم جو بظاہر خیر ہی خیر کوحاوی نظر آتا ہے، اس میں بھی در حقیقت خیر وشر ہر دو پہلو موجود ہیں؛دراصل دیکھنا یہ ہوگا کہ ہمارا علم ودانش خدائے ذوالجلال سے قرب کا ذریعہ بن رہا ہے یا بعد کا، ہمارے اندر آدمیت وتواضع پیدا ہورہی ہے یا سرکشی اور طغیانی۔

اللہ سے کرے دور،تو تعلیم بھی فتنہ

 املاک بھی اولاد بھی جا گیر بھی فتنہ

ناحق کے لیے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ

شمشیر ہی کیا نعرۂ تکبیر بھی فتنہ

علم ودانش کا باعث فتنہ (طغیانی) ہونا،اس کا سبب اور قرآنی علاج:

            مولانا مناظر احسن گیلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: عام حیوانات کے مقابلے میں انسان ایک تعلیمی حقیقت ہے۔ یعنی جو چیزوں کے علم سے خالی اور جاہل پیدا ہوتا ہے، تعلیم کے ذریعے ان کے جاننے کی صلاحیت صرف آدمی میں ہے۔ قرآن کی پہلی نازل شدہ آیتوں میں پڑھنے اور لکھنے کا ذکر کرنے کے بعد{عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ}(العلق: 5) (سکھائی انسان کو وہ باتیں جنہیں وہ نہیں جانتا تھا) کی آیت میں اسی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، لیکن اسی کے بعد ارشاد ہے: {کَلَّا إِنَّ الْإِنسَانَ لَیَطْغَیٰ }(العلق: 6) (خبردار! بلاشبہ انسان سرکش ہوجاتا ہے۔

            یہ کوئی اتفاقی بات نہیں بل کہ جو مشاہدہ ہے اسی کا اظہار ہے، یعنی نہ جانی ہوئی چیزوں کے جاننے کی جوں جوں آدمی میں صلاحیت بڑھتی جاتی ہے،دیکھا جاتا ہے کہ اسی نسبت سے اس میں طغیان اور سرکشی کی لہریں بھی اٹھنے لگتی ہیں، وساوس و شکوک، تنقید و اعتراض اور یہ قصے ظاہر ہے کہ جاہلوں اور کند دماغوں میں نہیں پیدا ہوتے، بل کہ یہ سارے عوارض علم کے ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ اپنی تمام خوبیوں کے ساتھ علم کا یہ وہ خطرناک پہلو ہے کہ اس پہلو کی جانب سے معمولی غفلت ہمیشہ خطرناک نتائج پیدا کرتی رہی ہے۔ قرآن کریم میں علم کے اس طغیانی پہلو پر چونکانے کے بعد  { أَن رَّآہُ اسْتَغْنَی} (العلق: 7)۔(وہ اپنے آپ کو مستغنی سمجھتا ہے) کے الفاظ سے اس سبب کو ظاہر کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے آدمی میں یہ بیماری پیدا ہوتی ہے۔ گویا پڑھ لکھ لینے کے بعد آدمی یہ باور کرنے لگتا ہے کہ اب میں خود سوچ سکتا ہوں، دوسروں سے مشورہ لینے کی مجھے کوئی حاجت نہیں، حق وباطل میں امتیاز میرا دماغ خود پیدا کرسکتا ہے، علم کا یہی استغنا انسانیت کی موت ہوتی ہے؛ الغرض مرض (طغیان)  سببِ مرض (استغنا)  کے بعد  {إِنَّ إِلَیٰ رَبِّکَ الرُّجْعَیٰ}(العلق: 8) (علاج اس طغیانی کا یہ ہے کہ)  اپنے رب کی طرف واپسی ہو) کو اس طغیان کا واحد علاج بتایا گیا ہے۔اس قرآنی حکم کی تعمیل کی یہ شکل ہے کہ جن کے پاس ان کا رب ہے، ان کی طرف رجوع کیا جائے، وہ اپنی صحبت وتربیت میں رکھ کر اس کو بھی رب کی طرف پھیر دیں گے؛ اسی کا اصطلاحی نام پیری مریدی یا بیعت وصحبت ہے۔ قرآن کے بینات بتارہے ہیں کہ خدا کی طرف رجوع کرنے کی شکل اس ہبوطی زندگی میں بنی آدم کے لیے صرف یہی ہے کہ خدا والوں کی طرف پلٹا جائے،اگر خدا والوں کی مصاحبت ومتابعت نصیب ہوگئی، تو حاصل کردہ علم اس کے حق میں سراپا خیر وبرکت اور باعثِ سعادت دنیوی واخروی ہوگا؛ ورنہ وہ طغیانی وتکبر کی ابلیسی ڈگر پر چل کر منزل مقصود سے بر گشتہ ہوجائے گا۔

سورۃ الکہف :چار بڑے فتنے اور فتنۂ علم و دانش:

             قرآن کریم کی سورۂ کہف ،جو دجالی فتنوں کی نقاب کشائی کرتی اور ان فتنوں سے گلو خلاصی کی راہیں بتاتی ہے، اس میں بالترتیب چار بڑے فتنوں کی نشاندہی کی گئی ہے: فتنۂ دین، فتنۂ مال، فتنۂ علم اور فتنۂ جاہ وسلطنت۔ فتنۂ علم کو حضرت موسیٰ اور خضر علیہما السلام کے مابین پیش آنے والے واقعات کی صورت میں بہت ہی حسین پیرایۂ بیان اور دل کش اسلوب میں اجاگر کیا گیا ہے۔

            اس واقعہ کی جو جھلکیاں قرآن کریم نے پیش کی ہیں اور احادیث مبارکہ میں اس کی جو تفصیل آئی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک اولوالعزم پیغمبر موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام کو ’’فتنۂ علم‘‘کے ذریعے آزمایا گیا، مگر وہ بہ توفیقِ خداوندی اس آزمائش میں کھرے اترے؛انہوں نے بنی اسرائیل کے سوال پر’’ أَنَا أَعْلَمُ‘‘ کہا، مگر عتاب خداوندی کے آنے پر علم نافع کے تقاضوں کے مطابق فورًا اعترافِ تقصیر فرمالیااورعلمی طغیانی اور تکبر و غرور کے ادنیٰ شائبہ تک کو پاس نہ آنے دیا۔ علم کی مزید طلب کی خاطر حضرت خضر کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے پابہ رکاب ہو گئے اور حقیقی نفع بخش علم کے سفر میں جن صعوبتوں اور مشقتوں کا آنا لابدی ہے، انہیں بڑی خندہ پیشانی اور بشاشت سے برداشت کیا اور حضرت خضر کی خدمت میں پہنچ کر طلب علم کے آداب کا بھی حق ادا کردیا، اس طرح وہ علمی سفر کے مسافروں کے لیے ایک آئیڈیل اور نمونہ بن گئے اور فتنہ علم سے محفوظ رہنے کی ایک مثال دائمی قرار پائے۔

فتنۂ علم ودانش میں مبتلا لوگ:

              دوسری طرف جو لوگ علم کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر خواہشاتِ نفسانیہ کی پیروی کرتے ہیں اور اخلاد الی الارض کا شکار ہوجاتے ہیں وہ اس’’ فتنۂ علم ودانش ‘‘ میں ناکام ونامراد ٹھہرتے ہیں۔ قرآنِ کریم نے متعدد مقامات پر ان بدبختوں کو بھی نمونۂ عبرت کے طور پر پیش کیا ہے۔ ایک مقام پر ارشاد ہے:

            {اَفَرَئَ یْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰھَہٗ ھَواہُ وَاَضَلَّہُ اللّٰہُ  عَلٰی عِلْمٍ وَّخَتَمَ عَلٰی سَمْعِہٖ وَقَلْبِہٖ وَجَعَلَ عَلٰی بَصَرِہٖ غِشٰوَۃً ط فَمَنْ یَّھْدِیْہِ مِنْم بَعْدِاللّٰہِ ط اَفَلاَ تَذَکَّرُوْنَ}(الجاثیۃ:۲۳)

ترجمہ: بھلا دیکھا تو نے اس شخص کو ،جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود ٹھہرا لیا، اللہ نے اسے باوجود علم ودانش کے راستے سے گمراہ کردیا اور مہر لگا دی اس کے کان اور دل پر اوراس کی آنکھ پرپردہ  ڈال دیا؛ پھر اسے اللہ کے سوا کون راہ پر لائے،سو کیا تم غور نہیں کرتے۔

فائدہ:  یعنی اللہ جانتا تھا کہ اس کی استعداد خراب ہے اور اسی قابل ہے کہ سیدھی راہ سے ادھر ادھر بھٹکتا پھرے۔ یا یہ مطلب ہے کہ وہ بدبخت علم رکھنے کے باوجود اور سمجھنے بوجھنے کے بعدبھی گمراہ ہوا،جو شخص محض خواہش نفس کو اپنا حاکم اور معبود ٹھہرالے، جدھر اس کی خواہش لے چلے ادھر چل پڑے اور حق و ناحق کے جانچنے کا معیار اس کے پاس یہی خواہش نفس رہ جائے، تو اللہ تعالیٰ بھی اسے اس کی اختیار کردہ گمراہی میں بھٹکتا چھوڑ دیتا ہے؛پھر اس کی حالت یہ ہوجاتی ہے کہ نہ کان نصیحت کی بات سنتے ہیں، نہ دل سچی بات کو سمجھتا ہے، نہ آنکھ سے بصیرت کی روشنی نظر آتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اللہ جس کو اس کے کرتوت کی بدولت ایسی حالت پر پہنچا دے، کون سی طاقت ہے جو اس کے بعد اسے راہ پر لے آئے۔ (تفسیر عثمانی علیٰ ترجمہ شیخ الہند)

مقصد ِعلم سے انحراف کرنے پر علم فتنہ اور آزمائش بن کر رہ جاتا ہے:

            اسلام میں علم و دانش اور تعلیم کا بنیادی مقصد آدمی کو اس کے خالق ومالک اور کائنات میں اس کی قدرت کے بکھرے ہوئے رموز واشارات سے آگاہی کرانا، اور خیر و شر کی معرفت اور تمیز سکھانا ہے، اگر جامع انداز میں کہا جائے توجہالت کے اندھیروں سے آگہی کی روشنی کی طرف لاناہے، تاکہ اسے خودی اور خدا کی معرفت حاصل ہوجائے اوراسے اپنے مقصدِ تخلیق اور اپنے مبدا و معاد کا یقینی اور مبنی بر حقائق علم حاصل ہوجائے۔اب ہر وہ علم ودانش جو حصولِ مقصد میں معین و ممد ثابت ہو، وہ خیر ہی خیر، نافع، مقصود اور مطلوب ہے اور جو حصول مقصد میں رکاوٹ یا مقصد سے برگشتہ کرنے والا ہو، وہ شر وفساد، ضار، فتنہ اور مصیبت ہے۔

مقصد علم کی پاسداری کے ثمرات:

             اسلام کے تمام سنہرے ادوار بالخصوص قرونِ مشہود لہا بالخیر میں علم کے مقصد کو سمجھا جاتا رہا، اور اسی مقصد کی خاطر اسے سیکھا سکھایا جاتا رہا،جس کے نتیجے میں معاشرے پر مجموعی طور پر خیر وبھلائی اور انسانیت کی ہمدردی اور محبت غالب رہی۔

تعلیم وتعلّم کے باب میں مسلمانوں کی دریا دلی:

            مسلمان علم کی جوئے شیریں کو ہر طرف بہاتے رہے، انہوں نے اپنوں اور پرایوں ہر ایک کے لیے علم کے دروازوں کو وا رکھا، جس سمت نکل گئے اپنے علم وفن کو لے گئے، جہاں روشنی کی کمی محسوس کی چراغِ علم جلا دیا، جس علاقے میں قحط سالی دیکھی ،علمی آب حیواں کا چشمہ سدا کے لیے جاری کردیا۔

علم کا سرچشمہ وحی الٰہی ہے:

            اسلامی نقطہ نظر سے علم کا سرچشمہ وحی الٰہی ہے، وحی کا آغاز اس دنیا میں مبعوث کیے جانے والے پہلے شخص سے ہوا، جسے اللہ نے اپنا نبی بناکر علم سے سرفراز فرمایا:{ وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَائَ کُلَّہَا}  (البقرۃ:31)

            اور (اللہ نے) آدم کو ساری چیزوں کے نام سکھائے۔

            اس دنیا میں انسانی زندگی کا آغاز وحی کے حامل ایک انسان کے ذریعے ہونا در اصل اس حقیقت کا اظہار ہے کہ تاریخ انسانی نے سفر کا آغاز علم کی روشنی میں کیا؛ پہلے دن سے ہی انسان کو وہ بنیادی علم عطا کیا گیا ،جو اس دنیا میں زندگی گذرانے اور راہِ راست پر چلنے کے لیے ضروری تھا اور وہ ان مہمات ومسائل کا درست جواب جانتا تھا، جن کے حل کے لیے علم کی روشنی سے آنکھیں بند کرکے آج تک بڑے بڑے فلاسفر ومفکرین ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔(اسلامی نظام تعلیم کے خدوخال ص 56)

            وحی الٰہی کے چشمۂ صافی سے سیراب ہونے والے اگر اس کے تقاضوں کو بجا لاتے ہیں تو وہ فتنۂ علمی سے محفوظ رہتے اور دارین میں سر خرو ہوتے ہیں، اور جو اس کے تقاضوں پر عمل پیرا نہیں ہوتے وہ فتنہ میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور ان کا علم ان کے حق میں وبال اور ان کے خلاف حجت بن جاتا ہے۔حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ نے ایک کتابچے میں ان فتنوں کا ذکر فرمایا ہے، جن میں عمومًاعلما اور مصلحین مبتلا ہوتے ہیں۔میں یہاں پر نہایت اختصار کے ساتھ چند فتنوں کی طرف اشارہ کررہا ہوں۔

کتمانِ علم کا فتنہ:

             جانتے ہوئے علم کو چھپانا، عظیم فتنہ اور بڑا گناہ ہے۔ یہ علمائے یہود کی قبیح خصلتوں میں سے ہے۔ وہ حق کو جانتے ہوئے بھی چھپاتے تھے۔ ہمارے اس زمانے کا ایک المیہ اور کتمانِ علم کی ایک صورت یہ بھی نظر آتی ہے کہ بعض بڑے علم وکمال کے مالک مدرسین وعلما اپنے تدریسی نظام میں فقط خانہ پری کرتے ہیں۔بڑی بڑی کتابیں اپنے ذمہ لے کر ان کے چند مخصوص مقامات پر بڑی لچھے دار تقریر کرکے اپنا علمی رعب اور دھاک بٹھا دیتے ہیں۔  باقی سال بھر اپنے اسفار اور دعوتوں کی کارگزاریاں سناتے ہیں یا مشہور علما ومحدثین کی نقالی کرکے طلبہ کے قیمتی اوقات کی تضییع اور اپنے فرائضِ منصبی میں دھڑلے سے کو تاہی کرتے ہیں ۔

مصلحت اندیشی کا فتنہ:

            اس فتنے نے آہستہ آہستہ علما کی زبانیں گنگ کردی ہیں۔بروقت حکمت کے ساتھ حق بات ضرور کہنا چاہیے۔ بعض علما لوگوں کی رعایت کے نام سے اور اپنے حلقۂ احباب میں کمی کے ڈر سے مصلحت کا لیبل لگا کر صحیح و حق بات کہنے سے گریزاں رہتے ہیں، یہ بھی بڑا پرخطر فتنہ ہے۔

ہردلعزیزی کافتنہ:

             بعض ہر دل عزیز بننے کے لیے لوگوں کی چاہتوں کے مطابق گفتگو اور تعامل کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ وقت کے تقاضوں کے مطابق شریعت کے احکام بیان کرنے سے عاری ہوجاتے ہیں۔بعض اپنے ماتحتوں کی غلط حرکتوں تک کو صرف ہردل عزیز بننے کے لیے نظر انداز کرجاتے ہیں۔

اپنی رائے پر جمود واصرار کافتنہ:

             علمی دنیا میں یہ بھی ایک خطرناک فتنہ ہے۔ بعضوں کے خانۂ دماغ میں جو رائے آگئی وہ اسے نص شرعی کی طرح ناقابل تغیر وتبدل سمجھ لیتے ہیں، چاہے وہ رائے جمہور امت کے خلاف کیوں نہ ہوں، مگر وہ اس پر مصر رہتے ہیں، اور اپنے حلقۂ یاراں کو بھی وہی بات منوانے پر ٹل جاتے ہیں، اور مریدین ومحبین اپنے اس پیر و محبوب کے لٹو ہوجاتے اور اس کے مقابلے میں دوسرے علما کی توہین وتذلیل پر اتر آتے ہیں۔

سوئے ظن کافتنہ:

            بعض لوگ اپنے حلقے اور مسلک کے لوگوں کو بالکل مخلص، نیک نیت اور معصوم سمجھتے ہیں، جب کہ بالمقابل بڑے سے بڑے مخلص نیک نیت لوگوں سے بدظنی رکھتے ہیں، اور ان کے کارناموں کو ریاکاری گردانتے ہیں، جب کہ یہ سراسر نا انصافی کی بات ہے۔ کسی کی نیت پر حملہ آور نہیں ہونا چاہیے۔

سوئے فہم کافتنہ:

             نصوص میں سوئے فہمی ہو یا اقوال رجال میں اس سے غلط نتائج اخذ کیے جاتے ہیں، اور یہ سوئے فہم خود گمراہ ہونے یا دوسروں کو مورد تہمت ٹھہرانے کا باعث بنتی ہے اور اس کی وجہ سے علما وفقہا اور بزرگانِ سلف سے بدظنی پیدا ہوجاتی ہے ۔

جذبۂ انتقام کا فتنہ:

             یہ بھی نفس کا ایک رذیلہ ہے،جو کسی کے درس و تقریر کی مقبولیت وشہرت یا طلبہ میں شان محبوبی دیکھنے سے جل بھن کر حسد کی بنا پر پیدا ہوتا ہے، جس کی بنا پر یہ حاسدِ نامراد اوچھی حرکتیں کرکے اپنے جذبۂ انتقام کو تسکین دیتے ہیں، بل کہ بسا اوقات ان میں سے بعض لوگ اتنی نچلی سطح پر اتر آتے ہیں کہ طلبہ کے ذریعے ایک دوسرے کی سلبیات تلاش کرکے ان پر کچھ مزید مسکہ لگاکر بھری مجلسوں میں بیان کرنے سے نہیں شرماتے۔نیز شاگردوں کو فلاں فلاں کے پاس آمد ورفت رکھنے پر طرح طرح کے حقیر اور بازاری جملے سنانے سے نہیں چوکتے، جس سے بہت سے غیور طلبہ تنگ آکر تعلیم کو ہی خیرباد کہہ دیتے ہیں،اور زندگی بھر کے لیے طبقۂ علما سے بدظن رہتے ہیں۔ اس لیے ایسے بدبخت مبتلائے فتنہ لوگوں کو اللہ سے ڈر کر ایسی خسیس حرکتوں سے بچنا چاہیے۔

بہتان طرازی کا فتنہ:

            یہ فتنہ سابقہ فتنے کا ہی اگلا درجہ ہے، حسد وکینہ کی آگ بجھانے کے لیے شرافت کو بالائے طاق رکھ کر کمینگی کی حدود کو پار کرتے ہوئے کسی بھی بے گناہ، بے ضرر، خادم دین عالم پر بہتان طرازی اور الزام بازی پر اتر آئے ہیں۔ اس کی نجی زندگی کا تجسس کرتے ہیں۔ اگر کوئی رائی مل جائے تو اس کا پربت بناکر سادہ لوح عوام کے سامنے پیش کیا جاتا ہے اور اس زمانے میں سوشل میڈیا کے ذریعے جو طوفان بدتمیزی کھڑا کیا جاتا ہے اس سے تو الامان والحفیظ!

حب شہرت کا  فتنہ:

             علما و صلحا کی صفوں میں پنپنے والا یہ فتنہ بھی بہت سنگین ہے۔ اس کا مبدا دینی امور میں عدم اخلاص اور ریاکاری ہے۔ اس میں مبتلا حضرات اپنی شہرت اور پبلیسٹی کے لیے دوسروں کو بدنام کرتے ہیں اور مختلف علاقوں میں اپنے کچھ مخصوص لوگوں کو اپنے نام کا ڈھنڈورا پیٹنے اور تشہیر کرنے پر آمادہ کرتے، بل کہ کرائے پر رکھتے ہیں!؟

خطابت یا تقریرکا فتنہ:

             خطابت وتقریر؛ تبلیغ اسلام کا ایک بہترین اور مؤثر ذریعہ ہے، مگر بدنصیبی سے کچھ لوگوں نے اس کو بھی اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کررکھا ہے۔ ان کے پاس رٹی رٹائی چند تقریریں اور من گھڑت قصے ہوتے ہیں، جنہیں ہر جگہ اور ہر جلسے میں الاپتے رہتے ہیں۔یہ نہیں دیکھتے کہ کس علاقے میں کن برائیوں کا شیوع ہے، جن کی روک تھام کے لیے کیا مضامین مفید ہوسکتے ہیں، بل کہ انہوں نے خطابت وتقریر کو ایک پیشہ بنا رکھا ہے۔ الامان و الحفیظ!

عصبیت جاہلیت کا فتنہ:

            کچھ جاہل نما علما، سارے علوم وفنون میں دسترس حاصل کرلینے کے باوجود اس فتنہ عمیا سے اپنا دامن نہیں بچا پاتے۔ علاقے، خاندان یا زبان کے اختلاف سے دوسرے علما اور طلبہ سے عصبیت رکھتے ہیں۔ ان کی تحقیر وتوہین کرتے ہیں، علاقوں یا زبانوں کی طرف منسوب کرکے چڑاتے ہیں، ایسا کرنے والے نئے تراشیدہ بتوں کے بچاری ہیںاور مصطفائی صفات سے متصف علما اس سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔ علامہ اقبال رحمہ اللہ نے بہت خوب کہا تھا:

ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے

جو پیرہن اس کا ہے، وہ مذہب کا کفن ہے

یہ بت کہ تراشیدۂ تہذیب نوی ہے

غارت گر کاشانۂ دین نبوی ہے

بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے

اسلام ترا دیس ہے ، تو مصطفوی ہے

نظارۂ دیرینہ زمانے کو دکھا دے

اے مصطفوی خاک میں اس بت کو ملا دے!

حب مال کا فتنہ:

             اس فتنے کو لسان نبوت سے راس الفتن کہا گیاہے۔ اور جب یہ علما وصلحا میں در آئے تو دین کی خیر نہیں:

یہی شیخِ حرم ہے جو چُرا کر بیچ کھاتا ہے

گلیمِ بُوذرؓ و دَلقِ اویسؓ و چادرِ زہراؓ!

            یہود کے احبار ورہبان اسی فتنے میں مبتلا ہوکرکتمانِ علم کا شکارہوئے۔ اس فتنے میں مبتلا ہوکر بہت سے علما اپنی زبانیں بیچ ڈالتے اور اُن کے مطلب کی کہتے ہیں گرچہ زبان اِن کی ہوتی ہے۔ بعضوں کے اسفار بہ ظاہر تبلیغی ہوتے ہیں ،مگر وہ ایک ایک سفر میں ایک ایک تقریر کے بدلے غریب عوام سے اتنا وصول لیتے ہیں، جتنا کوئی مہینوں کی خون پسینے کی محنت سے نہ کما پائے۔اور اگر وہ تعلیمی اداروں سے منسلک ہوں تو پھر ان کے اسباق اور نظام تعلیم کا اللہ ہی حافظ ہے۔ انہیں اللہ سے ڈر کر طلبۂ کرام کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کرنے سے بعض آجانا چاہیے۔

            یہ مذکورہ بالا دنیا پرست مال وجاہ وشہرت کے طلب گار علما کے فتنے ہیں، جنہیں مشاہدات و محسوسات  کی روشنی میں رقم کیا گیا ہے، ورنہ امت میں مخلص،خدا خوفی اور للہیت والے علما بھی الحمد للہ بڑی تعداد میں موجود ہیں، جنہیں حق تعالیٰ نے ان فتنوں سے مامون رکھا اور صفت استغنا سے متصف فرمایا ہے:

خدا کے پاک بندوں کو حکومت میں، غلامی میں

زِرہ کوئی اگر محفوظ رکھتی ہے تو استغنا

حصولِ علم کے ذرائع اور فتنۂ علم ودانش کے اسباب:

             حصولِ علم کے تین اسباب وذرائع ہیں،جن میں سے پہلا ذریعہ ’’حواسِ خمسہ‘‘کا ہے۔اس کا دائرہ محسوسات اور مرئیات تک محدود ہے۔ دوسرا ذریعہ ’’عقل ‘‘ہے، اس کا دائرہ محسوسات و مرئیات پر غور وخوض کے نتیجے میں حاصل ہونے والے عقلی نتائج پر منتہی ہوجاتا ہے، مگر بہت ساری چیزیں ایسی ہیں ،جو نہ تو نظر آتی ہیں اور نہ ہی عقل ان کا صحیح ادراک کرسکتی ہے، جنہیں مختصر لفظوں میں ’’مغیبات‘‘ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے؛ایسی چیزوں کے وجود وعدم وجود اور حقیقت وماہیت کا صحیح علم تیسرے ذریعہ علم ’’وحی الٰہی ‘‘ سے ہوتا ہے۔ اور یہ ذریعہ سب سے اہم، سب سے محفوظ،سب سے معتبر اور صحیح ترین ذریعہ ہے، اس سے حاصل ہونے والا علم بالکل یقینی، درست اور ناقابل تردید ہوتا ہے۔

علم ودانش کے باعث فتنہ بننے کی وجہ:

             اگر حصولِ علم کے ذرائع واسباب کی حدود کی رعایت کی جائے، اور ہر ایک ذریعہ کو اس کے دائرے میں رکھا جائے، اور انہیں باہم خلط ملط نہ کیا جائے تو ایک بڑی حد تک فتنۂ علم ودانش کی سنگین ہلاکتوں سے بچا جاسکتا ہے۔ ماضی اور حال میں جتنے لوگ فتنۂ علم و دانش کا شکار ہوئے ہیں، ان کی اکثریت ان ذرائع میں حد تجاوزی کی وجہ سے اس وادیٔ پر خطر میں جا پہنچی ہے۔

علوم ِعقلیہ میں افراط وتفریط اور انہیں وحی پر مقدم کرنے کا نتیجہ:

             دورِ عباسی میں جب اسلامی قلمرو میں منطق و فلسفہ کو خوب پذیرائی ملی اور ان کی نشر واشاعت نے رواج پایا تو بہت سے لوگ اس راستے سے گمراہیوں کی پرپیچ وادیوں میں بھٹک گئے، اس لیے کہ انہوں نے علوم وحی کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنا شروع کیا، جو ان کی عقلِ محدود میں آیا اسے تسلیم کر لیا، اور جو ان کی عقل محدود سے ماورا ٹھہرا اس میں تاویل کرڈالی یا سرے سے اس کی تردید کردی، جب کہ وحی الٰہی کی اتباع ہی سلامت روی ہے۔ اور یہی ہر چیز کے پرکھنے کا معیار اور کسوٹی ہے۔

منطق وفلسفہ کی راہ سے آنے والے فتنۂ علم ودانش کا سد باب:

             جب لوگ اس فتنے میں مبتلا ہونے لگے تو حکمائے اسلام کھڑے ہوئے اور ٹھیک اسی راستے سے اس فتنہ کا سدباب کیا؛چناں چہ امام غزالی رحمہ اللہ نے نے علومِ عقلیہ میں مہارتِ تامہ بہم پہنچائی اور وہ اس سے قبل علوم ِنقلیہ میں بھی مہارت وحذاقت حاصل کر چکے تھے۔ علوم ِعقلیہ میں افراط وتفریط کی روک تھام کے لیے ’’المنقذ من الضلال والموصل إلی ذي العزۃ والجلال‘‘ لکھی، جس میں انہوں نے واضح کردیا کہ عقل زندگی کی گتھیوں کو سلجھانے اور حقیقت سے پردہ اٹھانے میں ناکافی ہے، اس کے لیے وحی الٰہی کی طرف رجوع لابدی ہے۔ اور نقل صحیح سے جو بات ثابت ہوجائے وہ مسلّم اور قابل قبول اور لائق اتباع ہے، خواہ وہ عقل کے دائرے میں آئے یا ماورائے عقل رہے۔اور نور نبوت سے ہٹ کر دنیا میں کوئی نور نہیں ،جس سے دنیا کی تاریک راہوں میں روشنی لی جاسکے۔

روحانیت کو فراموش کرکے صرف مادیت پر توجہ دینے کی بنا پر فتنۂ علم ودانش کا شیوع:

             پھر جب مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ دنیا کی زمام اقتدار یورپ کے ہاتھ میں آئی تو فتنۂ علم ودانش مزید پروان چڑھا، اور اس کے مزید بال و پر نکلے۔یہ لوگ چوں کہ صحیح آسمانی علوم سے محروم تھے، اس لیے انہوں نے اپنی عنان ِتوجہ صرف مادیت کی طرف پھیر دی اور دنیاوی علوم وفنون میں ترقی کو ہی کامیابی کی معراج سمجھ لیا۔ اور مادے کو ہی اپنا معبود ومسجود بنالیا، اور ہر چیز کو مادی منافع کی نگاہ سے دیکھنے لگے۔روحانیت کا نام تک اپنی لغت سے نکال ڈالا،اور تعلیم وتعلّم کو ایک تجارت اور بزنس بنادیا۔ اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے مادر پدر آزادہوکر استعماری قوتوں کے ذریعے آہستہ آہستہ دنیا کے دوسرے ممالک پر اپنا پنجۂ خونیں گاڑنے کے لیے میدان میں کود پڑے۔

مستشرقین !فتنۂ علم ودانش میں مبتلا محروم القسمت لوگ:

             استعماری قوتوں نے عالم اسلام کے امن وامان کوتاراج کرنے، وہاں کی دولت وثروت کو غصب کرنے، آسمانی علوم کی قدر و منزلت گھٹانے ، ختم کرنے کے لیے علمی تحقیق اور ریسرچ کے نام پر چوروں اور ڈاکوؤں کے جھنڈ کے جھنڈ اسلامی دنیا میں لا اتارے، جنہوں نے اسلامی علوم کو صرف تشکیک وتحریف کی غرض سے سیکھا،بہت سی نایاب کتابوں کا سراغ لگایا۔ مسلمان علما و مصنفین کی گراں قدر، علمی وتحقیقی کتابوں کو یورپی زبانوں میں منتقل کیا اور ان کے مضامین ومشتملات کو خیانت علمی کے سنگین جرم کا ارتکاب کرتے ہوئے اپنے ناموں سے شائع بھی کیا۔ علامہ اقبال رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آبا کی

جو دیکھیں جاکے یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ

            فتنۂ علم ودانش کے نخچیر ان بدبختوں کے بارے میں مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’مستشرقین عمومی طور پراہلِ علم کا وہ بدقسمت اور بے توفیق گروہ ہے، جس نے قرآن، حدیث، سیرت نبوی، فقہ اسلامی اور اخلاق وتصوف کے سمندر میں بار بار غوطے لگائے اور بالکل’’خشک دامن‘‘اور’’تہی دست ‘‘ واپس آیا، بل کہ اس سے اس کا عناد، اسلام سے دوری اور حق کے انکار کا جذبہ اور بڑھ گیا  ۔‘‘

            مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ کی اس عبارت کو نقل کرکے شہیدِ اسلام مولانا یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ  رقم طراز ہیں: اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان کی یہ غوطہ زنی ایک ’’آبدوز کشتی ‘‘ کی غوطہ زنی تھی کہ اسلام کی کشتی کو ڈائنامائٹ لگاکر تباہ کردیں،مگر اللہ تعالیٰ روزِ اول سے اس کشتی کے محافظ ہیں{ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ }(النحل: 9)اس لیے یہ آبدوزیں خود ہی ڈوب گئیں اور فی النار والسقر ہوگئیں۔

لارڈ میکالے کا نصاب ونظامِ تعلیم ایک بڑے علمی فتنے کا نقطۂ آغاز:

             جب سامراجی قوتیں اپنے ہدف میں کامیاب ہوگئیں اور انہوں نے عالمِ اسلام کے علاقوں کے علاقے ہتھیا لیے تو انہوں نے اپنا فرنگی نظام ِتعلیم بھی نافذ کردیا ،جس سے دسیوں برائیوں کا درآنا لازمی تھا، اس سے سماج اور قوم و ملت کو جو نقصان پہنچنا تھا وہ پہنچ چکا۔ یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ اس نظامِ تعلیم کا سب سے بڑا ہدف انسان کی خودی پر ضرب لگانا تھا۔ ملت کے مفاد اور مذہب کے تقاضوں سے اسے بے گانہ کرنا تھا، بالخصوص دین اسلام کے لیے یہ سب سے بڑا خطرہ تھا۔ علامہ اقبالؔ کے الفاظ میں:

اور یہ اہل کلیسا کا نظام تعلیم

ایک سازش ہے فقط دین ومروت کے خلاف

            ایک طرف انگریزوں نے اپنا نظام تعلیم رائج کرنے میں دیر نہیں لگائی تو دوسری طرف ذہنی غلامی کے شکار مسلمانوں نے بھی اسے بصد خوشی اور بلا تردد قبول کرلیا۔یہ الگ بات ہے کہ لارڈ میکالے کے اس نظامِ تعلیم و تربیت کے مضمرات جن بیدار ذہنوں پرواضح تھے ،انہوں نے اسے روکنے کی اپنی بساط بھر کوشش ضرورکی، لیکن اقوام مغرب نے بڑی چالاکی سے تعلیم و تربیت اور فن و ہنرمندی کو روزی کے ساتھ اس قدر دل کش انداز میں جوڑ دیا تھا کہ عام آدمی کا دامن بچانا محال ہوگیا؛ ایسے میں بشمول مسلمان، عام آدمی کے لیے اسی فرنگی نظام کو اپنانے اور اپنی دنیا سنوارنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں رہا تھا۔ اس نظام کو اپنانے میں اگرکہیں کچھ ایمان و عقیدہ کے خلل او ر آخرت کے نقصان کا خوف و خدشہ موجود بھی تھا، تو دنیاوی سرخ روئی کی دل کشی نے اس پر خوب صورت اور دبیز پردہ ڈال دیا؛ اس طرح یہ فرنگی نظامِ تعلیم ،اقوام عالم کا پسندیدہ نظام بن کر ابھرا یا ابھارا گیا۔جس کا بنیادی پیغام ہی یہ تھا کہ

تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو

ہوجائے ملائم تو جدھر چاہے ادھر پھیر

نظامِ تعلیم اور نصابِ تعلیم:

            حصولِ علم کی راہ میں دو چیزیں نہایت اہمیت کی حامل ہوا کرتی ہیں۔ ایک نصاب تعلیم، دوسرے نظام تعلیم۔ اسلام کے سنہرے ادوار میں یہ دونوں چیزیں بڑی اہمیت کی حامل اور مرکزِ توجہ رہی ہیں۔

زمانۂ خیرالقرون میں تعلیم کا نصاب ونظام مثالی تھا:

            مولانا قاضی اطہر مبارکپوری رحمہ اللہ نے اپنی انتہائی مفید اور شان دار کتاب ’’خیرالقرون کی درس گاہیں اور ان کا نظامِ تعلیم وتربیت ‘‘ میں بڑی شرح وبسط کے ساتھ قرون ِاولیٰ کی درس گاہوں میں ان دونوں کے بہترین انتظام وانصرام کو رقم فرمایا ہے، جس سے ان دونوں کی اہمیت، کردار اور نتیجہ خیزی کا علم ہوتا ہے۔

سامراج کے غاصبانہ تسلط سے قبل ہندستان کا نصاب ونظامِ تعلیم:

            مولانا سید مناظر احسن گیلانی رحمہ اللہ نے اپنی بہترین کتاب’’پاک وہند میں مسلمانوں کا نظام تعلیم وتربیت ‘‘ میں برصغیر کی اسلامی درس گاہوں اور ان کے نصاب ونظام پر سیر حاصل بحث فرمائی ہے،اور واضح کیا ہے کہ اسلامی ادوار کا ہندستان علم ودانش کا گہوارہ اور تعلیم وتربیت کا سنگم تھا۔ علم اپنے حقیقی معنوں میں موجود تھا، آپ نے بہت سی نادر ونایاب قیمتی کتابوں اور کتب خانوں کا بھی تذکرہ فرمایا ہے، اور بہت سے علما اور مشائخ کی علم دوستی کے واقعات بھی لکھے ہیں؛یہی تعلیم وتربیت بر صغیر میں عرصے تک بہت سے فتنوں سے بچاؤ کی ضامن تھی۔

رب کے نام کی معرفت کے ساتھ پڑھنا فتنۂ علم ودانش سے حفاظت کا ذریعہ:

            مسلمانوں کا نصاب ونظام تعلیم جب تک وحی کی ہدایات و ارشادات پر گامزن رہا اور وہ ’’اقرأ ‘‘ اور ’’باسم ربک‘‘ ہر دو کو لازم پکڑے رہے ،تو علم ان کے حق میں خیر وبرکت،سعادت وخوش بختی اور دنیوی و اخروی ہمہ جہتی فلاح وبہبود کا ضامن رہا۔وہ اخلاقی قدروں کے امین رہے، وہ تہذیب وتمدن کے خلاق رہے، وہ جہاں گیری وجہاں بانی میں مصروف عمل رہے۔ مخلوقِ خدا کے لیے سحابِ رحمت بنے رہے، انہوں نے چڑھتے سورج سے تاج مانگا اور سمندروں سے خراج وصول کیا،ان کے ایک خلیفہ نے بغداد سے گذرنے والے بادل سے عزت ایمانی اور افتخار مسلمانی سے لبریز ہو کر یہاں تک کہہ دیا ’’ أیتہا السحابۃ ! أمطري حیث شئتِ فسیأتیني خراجک ‘‘ (اے بادل کی ٹکڑی! تجھے جہاں کہیں جاکر برسنا ہے برس،تیرا خراج ضرور میرے پاس آئے گا)۔

نصاب ونظام تعلیم کیا بدلا، ذہن ومزاج بدل گیا:

            مغرب کی عیار ومکار مادہ پرست قوموں نے اسلامی ملکوں میں اپنا کنٹرول سنبھالنے کے بعد سب سے زیادہ زور مسلمانوں سے ان کا نظام ونصاب تعلیم چھیننے پر صرف کیا، اس لیے کہ یہ کسی بھی قوم کو ذہنی غلام بنانے کا سب سے کام یاب حربہ ہے؛چناں چہ لارڈ میکالے نے 2؍فروری 1835ء کو ایک رپورٹ پیش کی ،جس میں اس نے ہندستان میں برطانوی نظام تعلیم کا یہ مقصد قراردیا کہ ’’ہمیں اپنی بھرپور کوششیں اور صلاحیتیں اس بات کے لیے صَرف کرنی چاہئیں کہ ہم ہندستان میں ایک ایسے طبقے کو پیدا کریں، جو ہمارے اور ہمارے زیرنگیں کروڑوں ہندستانیوں کے بیچ مترجم کی ذمہ داریاں نباہ سکے۔یہ طبقہ ایسے افراد پر مشتمل ہو،جو کہ رنگت اور جسمانی خدوخال میں ہندستانی ہوں، لیکن مزاج، پسند ناپسند، نظریات، اخلاقیات اور عقل و دانش کے استعمال میں برطانوی باشندوں جیسے ہوں‘‘۔

            لارڈ میکالے کا یہ منصوبہ کامیاب ہوا،جس سے برصغیر کے مسلمانوں پر یہ قیامت ڈھائی گئی کہ ان کے اسکولوں، کالجوں اور یونی ورسٹیوں سے اسلام کو خارج کردیا گیا اور مسلمانوں کو ان کے ماضی سے کاٹ دیا گیا اور انہیں یہ باور کرایا گیا کہ دنیا میں تعلیم کو رواج دینے والی یہ مغربی اقوام ہیں، جس کے نتیجے میں مغربی ہندی نژاد انگریزوں کی بڑی تعداد پیدا ہوگئی اور ہورہی ہے، یہاں تک کہ انگریزوں کے ہندستان سے جانے کے لگ بھگ ستر برس بعد بھی انہیں کا دیا ہوا نصاب ونظام تعلیم عصری درس گاہوں میں رائج ہے اور اپنے فاسد اثرات دکھا رہا ہے اور بہت بڑے طبقے کو فتنۂ علم ودانش میں مبتلا کیے ہوئے ہے ۔ ایسی تعلیم پر یہ شعر حرف بہ حرف صادق آتا ہے۔

رہی تعلیم مشرق میں ، نہ مغرب میں رہی غیرت

یہ جتنے پڑھتے جاتے ہیں، جہالت بڑھتی جاتی ہے

اور بہ قول شاعر مشرق علامہ محمد اقبال رحمہ:

خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقّی سے مگر

لبِ خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ

ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم

کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ

گھر میں پرویز کے شیریں تو ہوئی جلوہ نُما

لے کے آئی ہے مگر تیشۂ فرہاد بھی ساتھ

            ایسی تعلیم اور ایسا علم دانش سراسر جہالت، فتنہ اور آزمائش ہے، جس کے پیشِ نظر صرف دنیا اور اس کی ترقیاں ہیں،اور خدا شناسی خدا کی پرستش چھوڑکر صرف خودی کی پرستش مرکز توجہ بنی ہوئی ہے۔بہ قول اکبر مرحوم رحمہ اللہ:

مذہب نے پکارا اے اکبر، اللہ نہیں تو کچھ بھی نہیں

یاروں نے کہا یہ قول غلط، تنخواہ نہیں تو کچھ بھی نہیں

مغربی نظام ونصاب تعلیم کی منفی اثرات:

             یہ فرنگی نظامِ تعلیم ڈارون کے فرسودہ نظریۂ ارتقا کو اس کے خود مغربی سائنس دانوں کے مسترد کردینے کے بعد بھی ایک حقیقت سمجھے بیٹھا ہے، مگر اس کے نزدیک اللہ، رسول اور آخرت کی باتیں قدامت پسندی، رجعت، دقیانوسیت ، بل کہ ترقی کی مخالفت اور اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔بہ قول اکبر مرحوم رحمہ اللہ:

رقیبوں نے رپٹ جا جا کے لکھوائی ہے تھانے میں

کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں

دشمنان ِاسلام مصنفین کی کتابوں میں میٹھا زہر:

             مغربی نظام ونصاب تعلیم نے بے شمار برائیوں اور فتنوں کو جنم دیا ہے۔نصابی کتابوں کے مصنفین نے کبھی خاموشی سے اور کبھی کھلے بندوں اسلامی عقائد وتعلیمات اور اخلاقی قدروں پر شب خون ماراہے۔ اس نصاب کو پڑھنے والے طلبہ کے ذہنوں میں بھی نادانستہ طور پر ان کے افکار سرایت کرجاتے ہیں، جو ان کے حق میں دین بیزاری اور بسا اوقات دین ومذہب کے ساتھ تمسخر کرنے پر منتج ہوتے ہیں؛بہت سے نامی گرامی اور دینی گھرانے کے افراد بھی ان فتنوں کا شکار ہوکر تہذیبِ نو کے دھارے میں بہہ گئے۔

            مولانا عبدالماجد دریابادی رحمہ اللہ اپنی سرگزشت میں لکھتے ہیں: 1908 ء میں عمر کا سولہواں سال تھا کہ میٹرک پاس کرکے لکھنؤ کالج میں داخل ہوا اور اب انگریزی کتابوں پر ٹوٹ پڑا۔ اتفاق سے شروع ہی میں ایک بڑے انگریز ڈاکٹر کی کتاب سامنے آگئی ظالم نے کھل کر اور بڑے زوردار الفاظ میں مادیت کی حمایت اور مذہب واخلاق دونوں سے بغاوت کی تھی۔ موضوع یہ تھا کہ

            ’’ عصمت اور نیک چلنی کے کوئی معنی نہیں، محض پرانے لوگوں کا گڑھا ہوا ڈھکوسلہ ہے، اصل شے صحت اور مادی راحت ہے،صحت کا خیال رکھ کر جو کچھ جی میں آئے کرو اور نکاح وغیرہ کی قیدیں سب لایعنی ہیں۔‘‘

            مصنف کے پیشِ نظر اسلام یقینًا نہ تھا، لیکن زد تو بہرحال اسلام پر پڑتی ہی تھی۔ خیالات ڈانواں ڈول ہونے لگے؛ اور اس زمانے میں اتفاق سے ایک اور کتاب بھی نظر سے گزری اور یہ ادبی تھی؛ مشاہیر عالم کے اقوال وخیالات پر اس میں ایک جگہ پورے قد کی تصویر صفحہ بھر پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی درج تھی اور نیچے سند یہ بھی تھی کہ فلاں (غالبًا رومہ) کے میوزیم میں قلمی تصویر موجود ہے، یہ اس کا فوٹو ہے۔ حلیہ یہ تھا کہ سر پر عمامہ، جسم پر عبا، تلوار کمر سے بندھی ہوئی، شانہ پر ترکش، ہاتھ میں کمان، تیوروں پر بَل پڑے ہوئے، آنکھوں سے غصہ، بشرہ سے تند خوئی عیاں؛ شانِ رحمۃ للعالمین الگ رہی، معمولی نرم دلی اور نیک مزاجی کے آثار بھی مفقود، نیچے سند درج! مغربیت سے مرعوب دماغ کے لیے اب شک وشبہ کی گنجائش ہی کہاں رہ گئی تھی!! دماغ پہلے ہی مفلوج ہوچکا تھا، اب دل بھی مجروح ہوگیا۔ ارتداد دبے پاؤں آیا، اسلامیت کو مٹا اور ایمان کو ہٹا کر خود مسلط ہو گیا۔ایف -اے کے امتحان کی فیس لی جانے لگی، تو فارم میں جہاں مذہب کا خانہ ہوتا ہے، وہاں بجائے مسلمان کے ’’ریشنلسٹ‘‘ لکھ دیا! الحاد، بے دینی یا عقلیت کا یہ دور کوئی 10 -8 سال تک قائم رہا…..

            یہ ہے اثر اور نحوست خدابے زاری کا جو خدابے زار مصنفین کی کتابوں میں زہر کی طرح سرایت کیا ہوا ہے اور ان گنت انسان اس زہریلے مواد کو پڑھ کر شاہراہِ ضلالت پر پڑ چکے ہیں۔ حق تعالیٰ نے مولانا عبد الماجد دریابادی رحمہ اللہ کی دستگیری فرمائی اور انہیں راہِ راست پر لاڈالا۔ ورنہ وہ بہ قول خود ان کے ارتداد والحاد کے دام فریب میں بری طرح پھنس چکے تھے؛یہی حال ہماری نژادِ نو کا ہے، وہ اب تک ڈارون کے نظریۂ ارتقا اور اس طرح کی دسیوں بے سند فرسودہ باتیں پڑھتے ہیں، جس سے اسلامی عقائد وتعلیمات پر زد پڑتی ہے، اگر مساجد ومکاتب ومدارس کے ذریعے ان کی دینی ذہن سازی نہ کی گئی اور اس میٹھے زہر کا تریاق نہ ڈھونڈا گیا ،تو یہ الحاد کی کسی بھی منزل تک پہنچ سکتے ہیں۔

اہل دل مسلمان مصنفین کی کتابوں کے نورانی اور پاکیزہ اثرات:

             علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: قرآن پاک کے بعد مولانا اسمٰعیل شہید رحمہ اللہ کی’’ تقویۃ الایمان ‘‘میرے ہاتھ میں دین کی پہلی کتاب دی گئی۔ میں بیبیوں کے بیچ میں بیٹھ کر’’ تقویۃ الایمان‘‘ کی ایک ایک بات پڑھتا تھا اور بھائی صاحب مرحوم پردے کے پیچھے سے اس کے ایک ایک مسئلے کی تشریح وتفسیر فرماتے۔ اور جو وہ فرماتے وہ میرے دل میں بیٹھتا جاتا۔ یہ پہلی کتاب تھی، جس نے مجھے دین کی باتیں سکھائیں اور ایسی سکھائیں کہ اثنائے تعلیم ومطالعے میں بیسیوں آندھیاں آئیں، کتنی دفعہ خیالات کے طوفان اٹھے؛ مگر اس وقت جو باتیں جڑ پکڑ چکی تھیں، ان میں سے ایک بھی اپنی جگہ سے ہل نہ سکی۔ علمِ کلام کے مسائل، اشاعرہ ومعتزلہ کے نزاعات، غزالی ورازی و ابن رشد کے دلائل؛ یکے بعد دیگرے نگاہوں سے گزرے، مگر اسمٰعیل شہیدؒ کی تلقین بہرحال اپنی جگہ پر قائم رہی۔(مشاہیر اہل علم کی محسن کتابیں)

            اس سے معلوم ہوا کہ اگر مسلمان اپنے بچوں کی ابتدا میں فکر کرلیں ، انہیں مسجد ومکتب سے وابستہ کردیں ، اسلامی عقائد ان کے ذہن ودماغ میں راسخ کردیں اور اسلام قرآن اور پیغمبر اسلام علیہ السلام کی محبت ان کے دلوں میں پیوست کرنے میں کام یاب ہوجائیں، تو ان شاء اللہ بڑے ہوکر کسی بھی مقام پر ان کے الحاد وارتداد سے اطمینان ہوسکتا ہے۔

دجالی فتنوں میں سے بطور خاص فتنۂ علم ودانش سے ہوشیار رہیں:

              جو ابھی مسلمان ہیں، مسلمان رہناچاہتے ہیں اور مسلمان ہی مرنا چاہتے ہیں، خود بھی اور اپنی آئندہ نسلوں کے لیے بھی اسلام کو پسند کرتے ہیں، تو وہ ضرور بالضرور اپنے بچوں کو بنیادی دینی تعلیم ، اسلامی عقائد اور قرآن سے روشناس کرائیں۔انہیں مروجہ تعلیم کے اعلیٰ سے اعلیٰ مقام تک لے جائیں، مگر خدارا ان سے وہ سوال ضرور کریں، جو بوقت وفات حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں سے کیا تھا۔اللہ رب العزت نے اس سوال کی اہمیت کی بنا پر اسے قیامت تک کے لیے اپنے مقدس قرآن میں محفوظ فرمادیا۔ارشاد ربانی ہے:

            {اَمْ کُنْتُمْ  شُہَدَآئَ  اِذْ حَضَرَ  یَعْقُوْبَ  الْمَوْتُ لا اِذْ  قَالَ  لِبَنِیْہِ  مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ م بَعْدِیْ ط قَالُوْا نَعْبُدُ اِلٰھَکَ وَاِلٰہَ اٰبَآئِکَ اِبْرٰھٖمَ وَاِسْمٰعِیْلَ  وَاِسْحٰقَ  اِلٰھًا  وَّاحِدًا صلے ج  وَّنَحْنُ  لَہٗ  مُسْلِمُوْن}(البقرۃ: ۱۳۳)

            ترجمہ: بھلا جس وقت یعقوب وفات پانے لگے تو تم اس وقت موجود تھے، جب انہوں نے اپنے بیٹوں سے پوچھا کہ میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے؟ تو انہوں نے کہا کہ آپ کے معبود اور آپ کے باپ دادا ابراہیم اور اسمٰعیل اور اسحاق کے معبود کی عبادت کریں گے، جو معبود یکتا ہے اور ہم اُسی کے حکم بردار ہیں،اگر ہماری اولاد کا بھی یہی جواب ہو، جو فرزندانِ یعقوب علیہ السلام کا تھاتو الحمد للہ! ورنہ ہمیں بہت کچھ فکرمندی کی ضرورت ہے۔

خزاں کی دیکھ کر آمد کہا رو رو کے بلبل نے

چمن میں خانہ ویرانی کے ساماں ہوتے جاتے ہیں