فتنہ ٔ  ُمنَشَّیات  اور معاشرہ پر اس کے تباہ کن اثرات

مولانا عبد العظیم امراوتی / استاذ جامعہ اکل کوا

            الحمد للّٰہ رب العالمین ، الرحمٰن الرحیم  والصلاۃ والسلام علی سید المرسلین وعلی آلہ واصحابہ اجمعین ۔اما بعد !

            اس میں توکوئی شک نہیں کہ موجودہ دور فتنوں اور آزمائشوں کا دور ہے ۔ اور فتنے بھی مختلف رنگ و روپ ، مختلف طرز وانداز ، مختلف نتائج وعواقب لے کر آتے جارہے ہیں ۔ہر دن ہی نہیں، بل کہ ہر آن ایک نیا فتنہ سامنے آتا ہے اور کوئی نہ کوئی تازہ گل کھلاتا ہے ،خارجی فتنے بھی ہیں اور داخلی بھی ،چھوٹے فتنے بھی ہیں اور بڑے بھی ۔ چھوٹوں پر بھی فتنے ہیں اور بڑوں پر بھی ،جانی و مالی فتنے بھی ہیں اور ایمانی وروحانی بھی اور ان فتنوں کی وجہ سے جہاں ہماری اقتصادیات ومعاشیات متاثرہوتی ہیں ؛وہیں ہمارے ایمان و اعمال کے لیے بھی بڑے خطرات لاحق ہیں ، بل کہ بعض فتنوں کا تعلق تو براہِ راست ہمارے ایمان واعمال سے جڑا ہوتا ہے ۔

            ہمارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے چودہ سوسال پہلے ہی ،ان تمام پیش آنے والے فتنوں کا ذکر فرماکر امت کو ان سے آگاہی بخشی؛ تاکہ ان میں سے اختیاری فتنوں سے امت بچنے کی کوشش کرے؛ ان ہی فتنوںمیں سے ایک فتنہ ’’ فتنۂ منشیات‘‘ نشہ آور چیزوں کا بھی ہے ۔

            مختلف احادیث میں قربِ قیامت کی علامتوں اورفتنوں کے ذیل میں شراب نوشی کی کثرت اور منشیات کے استعمال کا رواجِ عام کا ذکر ملتا ہے اور یہ منظر آج ہر جگہ ہمارے سامنے نمایاں ہے ، جسے ہر کوئی اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے ۔ مختلف اقسام کے مشروبات ، ماکولات ، گولیوں ، پُڑیوں ، انجکشنوں اورکیپسلوں کی شکل میں نشہ کا زہر نوجوانوں کی صحت اور کردار کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا رہا ہے اور اس حوالے سے سماج کے مصلحین کی طرف سے کوئی مثبت، ٹھوس اور منصوبہ بند اصلاحی کوششیں بھی نظر نہیں آرہی ہیں، جو سب کے لیے بڑے خطرے کا الارم ہے ۔

قرآنی صراحت :

            تمام میڈیکل تحقیقات ؛شراب اور دیگر منشیات کے ضرر رساں اور ہولناک نتائج واثرات پرمتفق ہوچکی ہیں ،سماج میں آدھے سے زیادہ جرائم شراب کے استعمال کے نتیجے میں ہوتے ہیں ؛اسی لیے اسلام نے جو بہ ہمہ وجوہ ِفطرتِ سلیمہ سے ہم آہنگ ہے، شراب پر سخت بندش لگائی ہے ؛چناں چہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ عظیم الشان میں شراب کو قطعی طور پر حرام قرار دیا اور صاف الفاظ میں فرمادیا :

            { ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْس’‘ مِّنْ عَمَلِ  الشَّیْطٰنِ   فَاجْتَنِبُوْہُ   لَعَلَّکُمْ   تُفْلِحُوْنَ  {۹۰}  اِنَّمَا  یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ  اَنْ  یُّوْقِعَ   بَیْنَکُمُ  الْعَدَاوَۃَ  وَ الْبَغْضَآئَ  فِی  الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ وَیَصُدَّکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَعَنِ الصَّلٰوۃِ ج فَھَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَھُوْنَ {۹۱} وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ  وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ  وَاحْذَرُوْا ج  فَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ  فَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَا  عَلٰی  رَسُوْلِنَا  الْبَلٰغُ  الْمُبِیْن}{۹۲}(المائدۃ: ۹۰-۹۲)

            اے ایمان والو! شراب ، جوا، بتوں کے تھان اور جوے کے تیر یہ سب ناپاک شیطانی کام ہیں ، لہٰذا ان سے بچو ، تا کہ تمہیں فلاح حاصل ہو۔(۹۰)شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اورجوے کے ذریعے تمہارے درمیان دشمنی اور بغض کے بیج ڈال دے اور تمہیں اللہ کی یاد اور نماز سے روک دے ۔ اب بتاؤ کہ کیا تم (ان چیزوں سے ) باز آجاؤگے ؟ (۹۱)۔اور اللہ کی اطاعت کرو، اور رسول کی اطاعت کرو اور (نافرمانی سے ) بچتے رہو۔ اور اگر تم (اس حکم سے ) منہ موڑ لوگے تو جان رکھو کہ ہمارے رسول پرصرف یہ ذمہ داری ہے کہ وہ صاف صاف طریقے سے (اللہ کے حکم کی ) تبلیغ کردیں ۔(۹۲) (آسان ترجمۂ قرآن :مفتی محمد تقی عثمانی صاحب )

            ان آیات میں انتہائی حکیمانہ فیصلہ کن اورقطعی انداز میں مختلف الفاظ واسالیب کے ذریعہ شراب کی حرمت وشناعت وقباحت آشکارا فرمائی گئی ہے ۔

            ۱-  شراب کی حرمت کو بت پرستی کے ساتھ ذکر فرمایا گیا ،گویا یہ برائی شرک کے مماثل ہے ۔

            ۲-  اسے نجاست و پلیدی قرار دیا گیا ۔

            ۳-  اسے شیطانی عمل بتایاگیا ۔

            ۴-  اس سے بالکلیہ اجتناب ضروری قرار دیا گیا ۔

            ۵-  اس سے اجتناب کو فلاح وکامرانی کا ذریعہ بتایا گیا ۔

            ۶-  اس کی حرمت کا سبب واضح کیا گیا کہ اس سے باہم عداوت ونفرت پیدا ہوتی ہے ۔

            ۷-  واضح کیا گیا کہ نشہ کا عادی بناکر شیطان تم کو اللہ کی یاد اور نماز سے غافل کرتا ہے اور چوں کہ ذکرِ الٰہی روح کی غذا اورقلب کا سکون ہوتا ہے اور نماز ، منکرات وفواحش سے رکاوٹ اور قرب الٰہی کا باعث عمل ہے۔ اور نشے کی لعنت ان دونوں سے غافل کرکے انسان کے دل کو بے سکون، روح کو بے کیف قربِ الٰہی سے محروم اور منکرات وفواحش کا عادی بنادیتی ہے ۔

            ۸-  اللہ نے زجر وتوبیخ کے انداز میں فرمایا ہے کہ جب شراب کی لعنت اتنی خرابیوں کا مجموعہ ہے، تو کیا پھر بھی تم اس سے باز نہیں آؤگے ؟

            ۹-  اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت فرض ہے اوراس کا تقاضا شراب ونشہ سے مکمل گریز ہے ۔

            ۱۰-  سختی سے فرمادیا گیا کہ یہ حکم الٰہی ہے ،اِس سے اعراض کروگے تو نتیجے کے ذمہ دار خود ہوگے ۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ ’حق‘ پہنچانا ہے ، وہ پہنچا چکے اب ماننا تمہارے ذمہ ہے ،نہیں مانوگے تو خود نقصان اٹھاؤگے ۔

            جب شراب کی حرمت کا یہ قطعی حکم شریعت کی طرف سے آیا تھا تو یک لخت تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے شراب چھوڑ دی تھی ،مدینہ کی گلیوں میں شراب کے مٹکے توڑ دیے گئے ، سڑکوں پرشراب بہادی گئی ؛چوں کہ ان آیات میں بیدارئ ضمیر اور فطرتِ انسانی کو سلامت رکھنے کے لیے امتحاناً یہ سوال بھی اللہ تعالیٰ نے کیا ہے کہ کیااب بھی تم اتنی بری، ناپاک اور شیطانی لعنت سے باز نہیں آؤگے ؟

            روایا ت میں آتا ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا تھا: کہ اے پروردگار ! ہم باز آگئے ،اب ہم کبھی شراب کے قریب بھی نہیں جائیں گے ۔   (مستفاد از: منشیات اور شراب )

احادیث میں شراب اور نشہ آور چیزوں کی صراحت :

            نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی واضح فرمایا کہ شراب کے ساتھ ہر وہ چیز اور مشروب بھی حرام ہے، جو نشہ لانے والا ہے ؛چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

            ’’ حرم اللہ الخمر وکل مسکر حرام ‘‘ ۔  (النسائی : ۵۶۳۳)

            اللہ تعالیٰ نے شراب کو حرام قرار دیا ہے اور ہر نشہ آور چیز حرام ہے ،اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد ہے : ’’ کل شراب أسْکَرَ فہو حرام ‘‘ ۔(بخاری : ۲۳۷)

            ہر پینے والی چیز جو نشہ لائے تو وہ حرام ہے ۔

            ایک حدیث میں فرمایا : ’’ کل مسکر خمر وکل خمر حرام ‘‘ (مسند احمد : ۴۵۰۶)

            ہرنشہ والی چیز شراب ہے اور ہر شراب حرام ہے۔

            نشہ آور چاہے کم ہو یا زیادہ ہر صورت میں اس کوحرام قرار دیا گیا ۔ارشاد مبارک ہے :

             ’’ ما اسکر کثیرہ فقلیلہ حرام ‘‘(ترمذی : ۱۷۸۷)

             جو چیز زیادہ مقدار میں نشہ پیدا کرے تو اس کی تھوڑی مقدار بھی حرام ہے ۔

            اس سلسلے میں اور بھی احادیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں، جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف فرمایا کہ نشہ آور تھوڑی ہو یا زیادہ بہر صورت اس کا استعمال کرنا ناجائز اور حرام ہوگا ۔ہم نے طوالت کے خوف سے بچتے ہوئے صرف چند کے ذکر پر اکتفا کیا ہے ۔

شراب نوشی کے دینی نقصانات :

            جب یہ بات واضح ہوگئی کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے چاہے وہ شراب ہو یا شراب کی طرح نشہ پیدا کرنے والی ہو، تو اب یہ دیکھنا چاہیے کہ نشہ آور چیز کے استعمال کرنے کی وجہ سے بندہ کس قدر دینی نقصان سے دوچار ہوتا ہے ۔ کیا پھٹکار اور لعنتیں اس پر برستی ہیں اور کس طرح وہ خیر اور بھلائی کے کاموں سے محروم رہ جاتا ہے۔ 

شراب تمام خرابیوں کی جڑ ہے :

            نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب کو تمام برائیوں اور خرابیوں کی کنجی اور جڑ قرار دیا ہے ،انسان اس کے استعمال کرنے کی وجہ سے برائیوں کے دروازوں کو کھول بیٹھتا ہے اور گناہوں ونافرمانیوں میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔

            آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ لا تشرب الخمر فانہا مفتاح کل شر ‘‘۔

(ابن ماجہ : ۳۳۷)

            شراب نہ پینا کیوں کہ وہ ہر شر کی کنجی ہے ۔

            آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ لا تشربن الخمر فانہ راس کل فاحشۃ ‘‘۔

 (مسند احمد : ۲۱۵۰۳)

            تم ہر گز شراب نہ پینا اس لیے کہ یہ ہر برائی کی جڑ ہے اور اس سے بڑے گناہوں کے دروازے کھلتے ہیں ۔

            حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ شراب سے بچو! کیوں کہ یہ خباثتوں کی جڑ ہے۔ پہلے زمانے میں ایک عابد انسان تھا، اسے ایک عورت نے اپنے دامِ فریب میں گرفتار کرنا چاہا اور ایک لونڈی کو اس شخص کے پاس اس بہانے بھیجا کہ میں تجھے گواہی کے لیے بلارہی ہوں ، تو وہ شخص اس لونڈی کے ساتھ چلاآیا ، جب وہ اندر جاتاہے، تو وہ لونڈی مکان کے ہر دروازے کو بند کردیتی ہے، حتیٰ کہ وہ ایک عورت کے پاس پہنچا ، جو نہایت حسین وجمیل تھی اور اس عورت کے پاس ایک لڑکا اور شراب کا ایک برتن تھا ۔ اس عورت نے کہا خدا کی قسم! میں نے آپ کو اس لیے بلایا ہے؛ تاکہ تو مجھ سے صحبت کرے یا اس شراب میں سے ایک گلاس پی لے یا اس لڑکے کو قتل کرڈالے ،وہ شخص بولا مجھے اس شراب کا ایک گلاس پلادو ، اس عورت نے ایک گلاس اسے پلادیا ؛جب اسے لطف آیا تو وہ بولا اوردو ، پھروہ وہاں سے نہ ہٹا جب تک کہ اس عورت سے صحبت نہ کرلی اور اس لڑکے کا ناحق خون نہ کرلیا ،تو تم شراب سے بچو! کیوں کہ اللہ کی قسم شراب اور ایمان ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے ، حتیٰ کہ ایک دوسرے کو نکال دیتاہے ۔

   (صحیح النسائی : ۵۶۸۲)

            یہی وجہ ہے کہ ایسے خبیث آدمی کو جہنم میں زانی عورتوں کی شرمگاہ سے جاری ہونے والی نہر سے سیراب کیا جائے گا ۔

            حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ’’ لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی الخمر عشرۃ: عاصرہا ومعتصرہا وشاربہا وحاملہا والمحمولۃ الیہ وساقیہا وبائعہا وآکل ثمنہا والمشتری لہا والمشتراۃ لہ ۔‘‘ (صحیح الترمذی : ۱۲۱۵)

            شراب کی وجہ سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دس آدمیوں پر لعنت بھیجی : (۱) شراب بنانے والے پر (۲) شراب بنوانے والے پر (۳) شراب پینے والے پر (۴) شراب اٹھانے والے پر (۵) جس کے پاس شراب اٹھاکر لائی گئی ہو اس پر (۶) شراب پلانے والے پر (۷)شراب بیچنے والے پر (۸) شراب کی قیمت کھانے والے پر (۹) شراب خرید نے والے پر (۱۰) جس کے لیے شراب خریدی گئی ہو اس پر۔

شراب اورمنشیات کے دنیوی مضر اثراث

۱-جسمانی نقصانات:

              شراب اور منشیات کا سب سے بڑا نقصان تو خود اس شخص کی صحت کو پہنچتا ہے،جو استعمال کرتا ہے، اطبا بھی اس بات پر متفق ہیں کہ شراب اور منشیات ایک سست رفتار زہر ہے ، جو آہستہ آہستہ انسان کے جسم کو کھوکھلا اور عمر کو کم کرتا جاتا ہے ،انسانی زندگی اس کے لیے ایک خدائی امانت ہے ، سنبھال کر رکھنا اس پر ضروری ہے ۔ انسان کے وجود سے نہ صرف اس کے ،بل کہ سماج کے بہت سے اور لوگوں کے حقوق بھی متعلق ہیں ۔ نشہ کا استعمال اس امانت میں خیانت کرنے کے مترادف ہے ؛اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نشہ آور اشیا کے ساتھ ایسی چیزوں سے بھی منع فرمایا ، جو جسم کے لیے فتور کا باعث بنتی ہو ۔ یعنی ان سے صحت میں خلل واقع ہوتا ہو؛  چناںچہ حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ  ’’نہی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن کل مسکر ومفتر ‘‘ ۔ (ابو داؤد : ۳۶۸۶)

۲-مالی نقصان:

             منشیات کے نقصان کا دوسرا پہلو مالی ہے ۔ سیال منشیات ہو یا جامد؛ قابلِ لحاظ قیمت کی حاصل ہوتی ہے ۔ شراب کی ایک بوتل کی اتنی قیمت ہوتی ہے کہ خط غربت سے نیچے کی زندگی بسر کرنے والے لوگوں کا ایک کنبہ اس سے اپنی ایک وقت کی روٹی ، روزی کا سامان کرسکتا ہے ،تو یہ معمولی نشہ آور اشیا کا حال ہے ۔بعض منشیات تو اتنی قیمتی ہیں کہ ایک کلو کی قیمت ایک کروڑ روپئے ہوتی ہے ۔ ہماری حکومت ایک مہلوک کے لیے ایک لاکھ روپئے ایکس گریشیا دیتی ہے (معاوضہ بنام ہمدردی ) اس طرح آپ کہہ سکتے ہیںکہ ایک کلو ہیروئن کی قیمت ایک سو انسانوں کے برابر ہے ؛اسی سے آپ ہمارے عہد میں انسانی وجود کی ناقدری اور صحت و اخلاق کے لیے مخرب اشیا کی قدر و قیمت کا تقابل کرسکتے ہیں ،پھر منشیات کا استعمال تو آدمی اپنے اختیار سے شروع کرتا ہے ، کوئی سینے پر بندوق تان کر نہیں کہتاکہ استعمال کرنا پڑے گا، ورنہ گولی مار کر ہندستان سے قبرستان کی طرف پارسل کردوںگا ، لیکن جب وہ گرفتار بلا ہوجاتا ہے، تو پھر اپنے قابو میں نہیں رہتا ،وہ اضطراراً منشیات کے خریدنے اور استعمال کرنے پر گویا مجبور ہوتا ہے ،چاہے کھانے کو دو روٹی بھی میسرنہ ہو ۔ گھرکے لوگ بھوک وفاقے سے گزر رہے ہوں ، علاج کے لیے پیسے میسرنہ ہوں ، لیکن جو اس عادت کا اسیر ہوگا ، وہ انسان تمام ضروریات کو پسِ پشت ڈال کر پہلے اپنی خوئے بد کو پورا کرنے کی کوشش کرے گا، اس کے لیے اسراف اور فضول خرچی کا یہ بہت بڑا محرک ہے ۔ نشہ خوری نے خاندان کے خاندان کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ بڑی بڑی جائدادیں اور پر شکوہ حویلیاں اس خود خرید زہر کے عوض کوڑی کی قیمت بک چکی ہیں۔

۳- سماجی نقصانات:

            منشیات کی مضرتوں کا سماجی پہلو یہ ہے کہ انسان ایک سماجی حیوان ہے ، جس سے مختلف لوگوں کے حقوق اورذمہ داریاں متعلق ہیں، ایک شخص باپ ہے ، تو اسے اپنے بچوں کی پرورش وپرداخت کرنی ہے ،نہ صرف اس کے روز مرہ کے کھانے پینے کی ضروریات کو پورا کرنا ہے ، بل کہ اس کی تعلیم وتربیت کی بھی فکر کرنی ہے ۔ وہ بیٹا ہے تو اسے اپنے بوڑھے ماں باپ اوراگر خاندان کے دوسرے بزرگ موجود ہوں تو ان کی پرورش کا بار بھی اٹھانا ہے ،شوہر ہے تو یقینا بیوی کے حقوق اس سے متعلق ہیں، بھائی ہے تو چھوٹے بھائی ، بہنوں کی پرورش اور شادی بیاہ کا فریضہ بھی اسی کے کندھوں پر ہے ۔ نشہ انسان کو اپنے گردو پیش سے بالکل بے خبر اور غافل کردیتا ہے اور اس بد مستی میں نہ اس کو لوگوں کے حقوق یاد رہتے ہیں ، نہ اپنے فرائض وواجبات۔ بعض اوقات تو وہ ایسی حرکت کر بیٹھتا ہے کہ اپنے ساتھ دوسروں کی زندگی بھی تباہ وبرباد کردے ؛ جیسے: طلاق کے واقعات ہیں ۔ طلاق کے بہت سے واقعات ؛ بالخصوص دیہی علاقوں میں اسی نوعیت کے ہوتے ہیں ،جس کا خمیازہ خود اسے بھی بھگتنا پڑتا ہے اور اس سے زیادہ بیوی اوربچوں کو ۔

اخلاقی نقصانات:

            شراب کے نقصانات کا سب سے اہم پہلو اخلاق ہے ۔ نشہ کی بد مستی انسان سے ناکردنی کرالیتی ہے اور ناگفتنی کہلوادیتی ہے ۔ قتل، عصمت ریزی ، ظلم وزیادتی، سب وشتم اورہذیان گوئی ،باعزت لوگوں کی بے توقیری ؛کون سی بات ہے ،جو انسان نشہ کی حالت میں نہ کرتا ہو۔ باہوش کیفیت میں جس سے آنکھ ملانے کی جرأت نہیں ہوتی ،نشہ کی حالت میں اس پرہاتھ اٹھادینا بھی قابلِ تعجب نہیں اور معتدل حالت میں تنہائی کے اندر بھی زبان پر؛ جن باتوں کا لانا گراں خاطر ہو ،نشہ کی حالت میں انسان اس سے زیادہ فحش اور خباثت آمیز گفتگو بھی بے تکلف کرجاتا ہے؛ اسی لیے نشہ صرف برائی ہی نہیں، بل کہ بہت ساری برائیوں کی جڑ ہے ۔ اور محض ایک گناہ نہیں، بل کہ سیکڑوں گناہوں کا سر چشمہ ہے ۔

            خلاصہ یہ کہ نشہ جسمانی ، مالی ، سماجی اور اخلاقی ہر پہلو سے انتہائی مضرت رساں چیز ہے ۔

(مستفاد از مضمون : مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب)

بیماریاں :

            ان نقصانات کے ساتھ مزید نقصانات اور بھی ہیں ،جو لوگ نشہ آور چیزیں شراب ، تمباکو، گل ، بیڑی ، سگریٹ ، گٹکھا ، گانجہ، افیم اور چرس وغیرہ استعمال کرتے ہیں، ان میں متعدد امراض وبیماریاں پیدا ہوجاتی ہیں ۔

            مذکورہ چیزوں سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں حلق کی خرابی ، جگر کی خرابی ، امراضِ قلب ، اسقاطِ حمل ، قلتِ عمر ، زخمِ معدہ ، خون فاسد ، تنفس کی خرابی ، ہچکی ، کھانسی ، پھیپھڑوں کی سوجن، کینسر ، سردرد ، بے خوابی ، دیوانگی ضعفِ اعصاب ، فالج ، مراق ، ہارٹ اٹیک، ضعفِ بصارت، دمہ ، ٹی وی ، سل ، خفقان ، ضعف باہ ، بواسیر ، دائمی قبض ، گردے کی خرابی اورذیا بیطس وغیرہ جیسی اہم بیماریاں شامل ہیں ۔ ان میں بعض ایسی بیماریاں ہیں ،جن کا انجام سرعتِ موت ہے ۔اطبا کے قول کی روشنی میں تمباکو میں تین خطرناک قسم کے زہریلے اجزا کی ملاوٹ ہوتی ہے ،ان اجزا میں ایک روغنی اجزا سے بنا ہوا نیکوٹین بھی شامل ہے ،اگر اس روغن کو نکال کر اس کا صرف ایک قطرہ کتے ، بلّی یا کسی بھی جانور کو کھلایا جائے تو فوراً وہ موت کے منہ میں چلا جائے گا ۔

(منشیات کے دنیوی و اخروی نقصانات : تحریر مقبول احمد سلفی )

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی :

            اس وقت پوری دنیا میں منشیات کی کثرت اور اس کے استعمال میں جو عموم پیدا ہورہا ہے ، وہ حد درجہ تشویش ناک بات ہے ۔ لوگوں نے منشیات کو نئے نئے خوب صورت نام دے دیے ہیں ،یعنی زہر کا نام حلوہ رکھا ہے۔ گٹکھے، چاکلیٹ اور مختلف دوسری اشیاکے ساتھ نشہ کا نام لیے بغیر تھوڑا نشہ آور اجزا کا طلبہ اور نوجوانوں کو عادی بنایا جاتا ہے اور یہی چیز ان کو آئندہ منشیات کا باضابطہ خوگر بنادیتی ہے ۔

            آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فتنۂ منشیات کے متعلق چودہ سو سال پہلے ہی پیشین گوئی کی تھی اور وہ ہو بہ ہو پوری طرح پہلے سے کہیں زیادہ آج محسوس کی جاسکتی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

            ’’ یشرب ناس من امتی الخمر یسمونہا بغیر اسمہا ‘‘

 (نسائی شریف : ۵۶۶۱)

            میری امت کے لوگ شراب پئیںگے ،لیکن اس کو شراب کا نام نہیں، بل کہ کوئی اور نام دیںگے ۔

            اس حدیث کو پڑھ کر آج کے حالات پر نظر ڈالیے، تو معلوم ہوگا کہ آج نشہ سے لذت اندوزی عام ہوتی جارہی ہے۔ نوجوانوں بالخصوص ؛اسکولوں اور کالجوں میں پڑھنے والوں میں اس کا رجحان دن بہ دن بڑھتا ہی جارہا ہے اور بے شمار لڑکے بل کہ لڑکیاں بھی نشہ کی مختلف قسم کی ادویات اور ڈرگس کے عادی ہوچکی ہیں۔ افیون ، مارفیا، کوکین، گانجہ، ہیروئن، شیشہ ، چرس ، بھنگ ، اعلیٰ کوالٹی کے سگریٹ ، کیمیائی ادویات جیسے ڈائز پام اور شیشہ کا استعمال کا عام رجحان ہے اور نہ صرف یہ بل کہ اس کے علاوہ نشہ بازی کے اوربھی عجیب وغریب اور نت نئے طریقے اختیار کیے جارہے ہیں ۔

            ۱-  محرک دماغ واعصاب دوائیوں کا استعمال خوب دھڑلے سے ہورہاہے اور ان کو سوئی سے رگ کے راستے جسم میں پہنچایا جاتا ہے ۔

            ۲-  نشہ آور مختلف دواؤں کو ایک ساتھ استعمال کیا جاتا ہے ، جس سے انسان نیم بے ہوشی کی کیفیت میں مبتلا ہوجاتاہے ۔

(نوجوان تباہی کے دہانے پر )

            موجودہ وقت میں ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں ۲۲؍ کروڑ لوگ نشہ آور اشیا کے عادی ہیں ۔ سب سے زیادہ بھنگ اور اس سے تیار ہونے والے نشہ کا استعمال ہوتا ہے ۔ نشہ کے سب سے زیادہ عادی لوگ بر اعظم ایشیا میں پائے جاتے ہیں ۔ ورلڈ ڈرگ رپورٹ کے مطابق دنیا میں ایک کروڑ ۲۴؍ لاکھ افراد بھنگ اوراس سے تیارشدہ نشہ آور اشیا کا استعمال کرتے ہیں ۔

            دوسرے نمبرپر ایک کروڑ ۴۰؍ لاکھ افراد کوکین ۔ تیسرے نمبر پر دو کروڑ ۵۰؍ لاکھ ایم فیٹا مائز ، ایک کروڑ ۵۰؍ لاکھ افیون ، ایک کروڑ ۵۰؍ لاکھ نے ہیروئن نشہ کو گلے لگا رکھا ہے ۔ اور ان اشیا کا استعمال کرکے ہر سال کروڑوں لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ۔

            اس وقت نشہ آور اشیا کی سب سے زیادہ مانگ یورپـ میں ہے ، جہاں ۷۵؍فی صد لوگ ذہنی پریشانیوں سے نجات اور دوسرے امراض سے وقتی سکون حاصل کرنے کے لیے نشہ کا استعمال کرتے ہیں ۔

            ایک اندازے کے مطابق دنیا کے ۴۴؍فی صدسے زیادہ افراد مختلف قسم کا نشہ کرتے ہیں ؛جب کہ تقریباً ایک کروڑ ۵۰؍ لاکھ لوگ باقاعدہ سگریٹ نوشی میں گرفتار ہیں اور ان میں سے ۸۰؍ کروڑ افراد کا تعلق ترقی پذیر ممالک سے ہے ،ان میں سے ۷؍ سو ملین بچے بھی شامل ہیں ۔

            عالمی ادارہ صحت نے سگریٹ نوشی کی بڑھتی ہوئی لعنت پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس خطرناک رجحان پر قابو پانے کی مؤثر کوششیں نہیں ہوئیں ،تو تقریباً ۲۰۳۰ء تک صرف سگریٹ نوشی کے باعث مرنے والوں کی تعداد کروڑوں تک پہنچ سکتی ہے ۔ عام طور پر سگریٹ نوشی ، تمباکونوشی اور دوسرے مہلک نشے کرنے والے افراد محض لطف اور سکون حاصل کرنے کے لیے ان کا استعمال کرتے ہیں ۔

            آج دنیا میں بہت سے شوق صرف نقل یا فیشن کے طور پر اپنائے جاتے ہیں اور بعد میں وہ عادت یا مجبوری بن جاتی ہے ؛ جیسا کہ شراب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ شروع میں انسان شراب پیتا ہے ،بعد میں شراب انسانی زندگی کو پی کرختم کردیتی ہے ؛کیوں کہ نشہ کوئی بھی ہو فطرت اور اس کے تقاضوں سے جنگ کے مترادف ہے۔ ہندستان میں ہر سال ۹،۱۰؍ لاکھ لوگ تمباکو سے متعلق امراض کی لپیٹ میں آکر ہلاک ہوکر ہندستان سے قبر ستان پہنچ جاتے ہیں ۔ مرکزی وزارتِ صحت اور خاندانی بہبود کی رپورٹ کے بموجب گٹکھا کھانے والے اس کا نفع و نقصان جانے بغیر تفریح اور شوق کے طورپر کھانے لگتے ہیں ۔اور ۲۰، ۲۵؍ سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے اپنی زندگی کو سنگین مصیبت میں ڈال دیتے ہیں ۔

 (مستفاد : نشہ آور اشیا انسانی صحت کے لیے مضر /از:ڈاکٹرمرضیہ عارف بھوپال )

منشیات کے رواج کے بنیادی اسباب و محرکات مندرجہ ذیل ہیں :

            ۱-  ایمانی جذبہ اور خوفِ خداوندی کی کمی  ۲-  اخلاقی تعلیم و تربیت کا فقدان  ۳-  بے کاری اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری  ۴-  بری صحبت  ۵-  یورپ کی اندھی نقالی اور غلامی  ۶-  بے شعوری میں نشہ آور گولیوں کا مقوی دوا سمجھ کر استعمال  ۷-  ذہنی پریشانی اور خانگی جھگڑے  ۸-  فلمی ایکٹرس کی نقل ۔

   (منشیات اور شراب : ڈاکٹر اسجد ندوی قاسمی )

سماج کو نشے کی لعنت سے بچانے کی بنیادی تدبیریں :

            اسلامی تعلیمات اور طبی نقصانات کے اس مختصر سے جائزے کے بعد اس کی برائی سے سماج کو بچانے کی بہترین تدبیر یہی ہے کہ ایک طرف لوگوں کو نشہ کے نقصانات کے بارے میں با شعور اور خبردار کیا جائے اور اس کے نقصانات سے ہر سطح پر آگاہ کیا جائے ۔

            ۱-  سب سے پہلا کام حکومت کا ہے کہ وہ منشیات کی روک تھام کے لیے مستقل بنیادوں پر پالیسی وضع کرے ۔ اور ساتھ ہی دور رس نتائج واثرات کے حامل اقدامات کو بروئے کار لانے کی کوشش کرے ۔

            ۲-  والدین اور بچوں کے سرپرستوں کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت اور نگرانی میںکوئی کسر نہ اٹھا رکھیں اوران کو دینی تعلیمات؛ بالخصوص منشیات کے استعمال کے نقصانات وعواقب سے ضرور آگاہ کریں ۔

            ۳-  میڈیا اور ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد پر لازم اور ضروری ہے کہ و ہ بھی اس سیلاب بلا خیز کو روکنے کے لیے اپنی حیثیت کو مکمل طور پر استعمال کریں ۔

            ۴-  تعلیمی اداروں اور اساتذہ کو چاہیے کہ قوم کے بچے اور بچیاں ،ان کا کردار اور ان کا مستقبل ان کے پاس امانت ہوتے ہے ، وہ اس کی مکمل پاسبانی کا اہتمام کریں اور کوئی ایسا چور دروازہ باقی نہ رہنے دیں،جہاں سے کسی کے بچے یا بچی کو نشے کی لت پڑسکے ۔

            ۵-  اور سب سے اہم اورآخری ذمہ داری حضرات علمائے کرام پر عائد ہوتی ہے؛ چوں کہ اللہ کے فضل وکرم سے علمائے کرام کا تمام دینی اور سماجی حلقوں میں ایک خاص مقام ہوتا ہے ، لوگ ان کی بات کو بہت اہمیت دیتے ہیں ۔ مستقبل کی قیادت ان علمائے کرام کے زیر اثر پروان چڑھتی ہے ، اس لیے علمائے کرام کو چاہیے کہ وہ اسے دینی اور اسلامی فریضہ سمجھتے ہوئے اپنے حلقہ اثرکے مدارس، علما ، عوام الناس اور منبر و محراب کو اس فتنے سے چھٹکارے کے لیے استعمال فرمائیں ۔