فتنوں کے دور میں قرآن کریم سے وابستگی از حد ضروری

اداریہ:

حذیفہ وستانوی           

(مدیر شاہراہ علم ومدیر تنفیذی جامعہ اکل کوا)

                اللہ نے ہمیں دولتِ ایمان سے وابستہ کیا، یہ سب سے عظیم نعمت ہے۔ ہر مسلمان کی فکر ہونی چاپیے کہ وہ اسلام کے ساتھ زندگی گزارے اور ایمان کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہو، یہ ہی اصل کامیابی ہے، مگر افسوس کے آج اکثریت کے دل و دماغ میں اسلام اور ایمان کی اہمیت اور وقعت کم ہوچکی ہے، اس لیے نہ تو علمِ دین کے سیکھنے کا جذبہ باقی رہا، نہ اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنے کا داعیہ بچا ، بل کہ معمولی سے معمولی واقعہ پیش آجاتا ہے تو ایمان تک کو چھوڑنے پر مسلمان آمادہ ہوجاتا ہے،جب کہ اس سے بڑی محرومی اور بدقسمتی کوئی اورنہیں ہوسکتی کہ بندہ کفر، نفاق یا فسق و فجور کے ساتھ موت سے دوچار ہو! اللہ ہماری حفاظت فرمائے۔ آمین یارب العالمین۔

 ایمان کی حقیقت :

                ایمان نام ہے اقرار باللسان، تصدیق بالقلب اور عمل بالجوارح کا ،ایمان کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ اس بات پر یقین ِکامل رکھے کہ اسے اور کائنات کی ہر چھوٹی بڑی چیز کو عدم سے وجود بخشنے والی ذات اللہ کی ہے۔ کائنات کے نظام کو چلانے والی ذات بھی وہی ہے، عزت، ذلت ،روزی، تنگی،بیماری، تندرستی، سلطنت سب کچھ دینے والا وہی اللہ ہے، اس کی مرضی کے بغیر درخت کا پتہ بھی حرکت نہیں کرسکتا، کوئی کسی کو نقصان نہیں پہنچاسکتا، بندہ کا کام ہے اللہ کے ہر فیصلے پر راضی رہنا، مصیبت پر صبر اور نعمت پر شکر بجالانا ، اسی کے سامنے اپنی پیشانی جھکانا ہے اور کسی کے سامنے نہیں؛ اسی کی رضامندی کے حصول میں پوری زندگی صرف کرنا ہے اور اس کی رضامندی اور ناراضگی کو جاننا موقوف ہے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی معرفت پر۔

                کتاب اللہ متن اور احادیث ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کی شرح ہے، جب تک متن کو یاد نہ کیا جائے اور شرح کو نہ جانا جائے دنیا اور آخرت کی اصل کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی۔

 قرآن کے حقوق:

                 ۱…پہلا حق: اس پر ایمان لایاجائے۔

                 ۲…دوسرا حق: اس کی تجوید کے ساتھ کماحقہ تلاوت کی جائے۔

                ۳… تیسرا حق: اس کو سمجھا جائے۔

                 ۴… چوتھا حق :اس پر عمل کیا جائے ۔

                ۵… پانچواں حق: اس کے پیغام کو عام کیاجائے۔

                ۶… چھٹا حق: اس سے شفاء حاصل کی جائے۔

                 مگر افسوس کے ہم تقریباً اس سے محروم ہیں۔ مسلمانوں کا بڑا طبقہ یا تو تلاوت ہی نہیں کرتا، اگر کرتا بھی ہے تو تجوید کے بغیر ،اس کو سمجھنے کی بات تو بہت دور ، عمل کرنے والے افراد خال خال نظر آتے ہیں۔

                ہر سال کی طرح امسال بھی” خصوصی شمارہ“ لانے کا ارادہ ہوا، تو یہ طے کیا کہ” امت کو قرآنِ مقدس سے جوڑنے کا طریقہ بتایا جائے“ کیوں کہ کامیابی اسی میں مضمر ہے۔تو آیئے قرآن کریم سے وابستگی کیسے ہو؟ اس سے واقف ہوتے ہیں۔

                قرآن چوں کہ کلام اللہ المجید ہے، اس کا ایک ایک کلمہ اپنے اندر اعجاز کو لیے ہوئے ہے، ایک مرتبہ دل میں اس کی عظمت بیٹھ جائے بس پھر کیا ہے، اس کی تلاوت سے دل بھرتا ہی نہیں، اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ رعیل اول جن کے سامنے قرآن کریم کا نزول ہوا، وہ اس کی تلاوت کا کتنا عظیم ذوق رکھتے تھے۔

صحابہ کا تلاوت ِقرآن سے شغف:

                 یہ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگی کا ایک روشن ترین باب ہے، نزولِ قرآن سے پہلے یہ لوگ اشعار گنگنایا کرتے تھے، قرآن نازل ہوا تو اشعار پھیکے پڑگئے، اب ذوق تھا تو کلامِ الٰہی کی تلاوت وتکرار کا ، اور ذوق بھی کیسا؟ کہ تیر پر تیر لگ جائے، خون کی دھاربہنے لگے؛ مگر تلاوت کی لذت کے سامنے اس تکلیف کی کوئی حیثیت نہیں۔ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک غزوہ سے واپس تشریف لارہے تھے، شب میں ایک جگہ آپ نے قیام فرمایا اور حفاظت وحراست کے لیے ایک مہاجر صحابی حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ اور ایک انصاری صحابی حضرت عباد بن بشر رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا، ان دونوں حضرات نے باری مقرر کرلی کہ آدھی رات ایک آدمی پہرہ دے، دوسرا سوئے، پھر پہلا سوئے اور دوسرا پہرہ دے، رات کا پہلا حصہ حضرت عمار بن یاسر کے جاگنے کا قرار پایا، آپ نے نماز کی نیت باندھ لی، دشمن کے ایک شخص نے دیکھا کہ کوئی آدمی کھڑا ہے تو اس نے تیر چلایا، وہ تیر ان کو لگا، مگر انہوں نے کوئی حرکت نہ کی اور نماز پڑھتے رہے، اس کے بعد یکے بعد دیگرے کئی تیر چلائے، آپ انہیں بدن سے نکال کر پھینکتے رہے اور اطمینان سے نماز پوری کرکے اپنے دوسرے ساتھی کو جگایا، انھوں نے ان کو زخمی دیکھ کر کہا کہ آپ نے مجھے فوراً کیوں نہیں جگایا؟ آپ حضرت عمار بن یاسر کا ایمان افروز جواب سنیے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن کے ساتھ ان کے شغف اور تعلق کا کیا عالم تھا! ”میں نے سورہٴ کہف کی تلاوت شروع کردی تھی اور میرا دل نہ چاہا کہ اسے ختم کرنے سے پہلے رکوع کروں؛ لیکن بار بار تیر لگنے سے مجھے اندیشہ ہوا کہ اگر میں مرگیا تو وہ مقصد ہی فوت ہوجائے گا، جس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں مقرر کیا ہے، اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا تو میں مرجاتا؛ لیکن سورہ ختم کرنے سے پہلے رکوع نہ کرتا۔

(حکایاتِ صحابہ، ص:۵۸،۵۹، بحوالہ ابوداوٴد وبیہقی)

                 صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کی تلاوت کا انداز کیا تھا؟ اور اس کو وہ کس ایمانی حلاوت کے ساتھ پڑھتے تھے کہ ان کی قرآ ت سننے کے لیے ملائکہ آسمان سے اترتے تھے۔ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ مشہور انصاری صحابی اپنے اصطبل میں ایک رات قرآن پڑھ رہے تھے، اچانک ان کے گھوڑے نے چکر لگانا اور بدکنا شروع کیا، وہ قدرے خاموش ہوئے تو گھوڑا بھی پُرسکون ہوگیا، مگر وہ پڑھنے لگے تو گھوڑا پھر بدکنے لگا، کئی مرتبہ ایسا ہوا تو وہ ڈرے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ یحییٰ (ان کے بیٹے) کو روند ڈالے، وہ گھوڑے کی طرف بڑھے، فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ میرے سر پر ایک سائبان ہے، اس میں جیسے بہت سے چراغ جل رہے ہوں، دیکھتا ہوں کہ وہ فضا میں اوپر چڑھ رہا ہے، پھر وہ میری نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ حضرت اسید بن حضیر نے صبح کو یہ سارا قصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا تو آپ نے فرمایا کہ وہ ملائکہ تھے، تیرا قرآن سننے آئے تھے، اگر تو پڑھتا رہتا تو ملائکہ اس حالت میں صبح کردیتے اور ان کو سب دیکھتے اور وہ کسی سے نہ چھپتے۔

(حیاة الصحابہ، ج:۳، ص:۶۱۳، بحوالہ بخاری ومسلم شریف)

                ان نفوسِ طیبہ کے قرآن سے عشق کا یہ عالم تھا کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے رسول ِکریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہوتا کہ انہیں قرآن سناوٴ، حضرت ابی بن کعب کا واقعہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ان سے فرمایا: اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہیں قرآن سناوٴں، ابی بن کعب نے کہا کہ کیا اللہ نے میرا نام لیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، تو وہ خوشی سے رونے لگے۔حضرت ابی بن کعب تہجد میں آٹھ راتوں میں قرآن پاک ختم کرنے کا اہتمام کرتے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” اَقْرَاُ اُمَّتِیْ اُبَیُّ بْنُ کَعْبٍ“ (میری امت میں سب سے بڑے قاری ابی بن کعب ہیں)۔

                آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن عبداللہ بن مسعود، ابی بن کعب، سالم مولی ابی حذیفہ اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہم سے پڑھو۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے شغف بالقرآن کا یہ عالم تھا کہ جب جنگ یمامہ میں حفاظ صحابہ کی ایک بڑی جماعت شہید ہو گئی، تو آپ نے قرآن کے ضائع ہونے کا خطرہ محسوس کر کے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو تدوینِ قرآن پر آمادہ کیا، ایسے ہی آپ نے تراویح کی سنت جاری کرکے قرآن کی حفاظت کے ایک ایسے طریقے کو رواج دیا، جس کی وجہ سے بے شمار قلوب قرآن پاک کے محفوظ سفینے بن گئے۔

                حضرت عثمان ِغنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ وتر کی ایک رکعت میں پورا قرآن پڑھ ڈالتے تھے، حضرت مولانا عبد الحی فرنگی محلی ”إقامة الحجة علی ان الإکثار فی التعبد لیس ببدعة“ ص:۴۶پر لکھتے ہیں:

                ”حضرت علی کرم اللہ وجہہ دن بھر میں آٹھ ختم پڑھتے تھے اور حضرت تمیم داری کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وہ رات بھر میں پورا قرآن پڑھ ڈالتے تھے۔“

قرآن اور دورِ حاضر :

                بلاشبہ ہر زمانہ میں ہر قوم کے نوجوان مستقبل کے معمار سمجھے جاتے ہیں۔ آج نوجوانوں کے سامنے بل کہ ہر مسلمان کے سامنے سب سے اہم سوال اپنے مقصدِ زندگی کے تعین کا ہے، چناں چہ اس سلسلہ میں تعلیمِ قرآن کے ذریعے نوجوان طلبہ و طالبات اور امت کے ہر فرد میں آگاہی بڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے، جو اپنی جگہ ایک انتہائی مستحسن اقدام ہے۔ اور بحیثیت مسلمان ہمارا عقیدہ بھی ہے کہ معرفتِ الٰہیہ یعنی اپنے خالق و مالک کی پہچان ہماری زندگی کا مقصدو محور ہو، اس لیے ہمیں رسمی تعلیم کے ساتھ معرفتِ الٰہیہ کے حصول کی زیادہ فکر کرنی چاہیے، کیوں کہ اسی سے ہم اپنے مقصدِحیات کو پاسکتے ہیں۔ فارسی کے ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

روحِ پدرم شاد کہ او گفتہ بہ استاد

فرزند مارا عشق بیاموز ودیگر ہیچ!

                 ”میرے باپ کی روح شاد رہے کہ اس نے میرے استاذ سے کہا تھا، میرے فرزند کو بس عشق سکھا دیں(یعنی اللہ کی حقیقی محبت) اور کچھ نہیں!۔“

معرفت ِالہیہ کا حصول کیسے ہو؟

                 اس کے لیے خود اللہ تعالیٰ نے اپنے مقدس کلام کی صورت میں ایک شان دار تحفہ عطافرمایا ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ہمارے پاس اور جتنی بھی دیگر نعمتیں ہیں، مثلاً ہماری یہ زمین، آسمان، چاند ستارے اور خود ہمارا اپنا وجود، یہ سب اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں،جب کہ قرآن ِکریم وہ نعمت ہے، جو ہم اہل سنت والجماعت کے نزدیک اللہ کی مخلوق نہیں، بل کہ خود اس کی ذات و صفات کاایک حصہ اور مظہر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث میں قرآن کریم کو ”حبل اللّہ المتین“ یعنی اللہ کی ایک مضبوط رسی سے تعبیر کیا گیا ہے اور ﴿وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّہِ جَمِیْعًا﴾ میں بھی”حبل اللّٰہ“ کی تفسیر مفسرین نے ”کلام اللہ“ سے ہی کی ہے۔

                 اب اگر کوئی شخص آج کے دور میں اللہ تعالیٰ کی ذات سے وابستہ ہونا اور معرفتِ الٰہیہ حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کا ذریعہ” قرآن کریم“ ہی ہے۔ جو شخص جتنا زیادہ قرآن سے وابستہ ہوگا،اتنی ہی وابستگی اُسے اللہ تعالیٰ سے حاصل ہوجائے گی۔ قرآن ِکریم اللہ تعالیٰ کا وہ لازوال ابدی و آفاقی کلام ہے، جو ہر دور کے انسان کی جملہ روحانی ومادی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔

                 اللہ تعالیٰ کی کچھ نعمتیں ایسی ہیں، جن کی اہمیت و افادیت کسی بھی دور میں کم نہیں ہوتی، مثلاً پانی کو ہی لے لیجیے،حضرت انسان نے اپنے ذوق کی تسکین کے لیے طرح طرح کی مشروبات بنائی ہوئی ہیں، لیکن پانی کی ضرورت و افادیت آج بھی اسی طرح ہے جس طرح آج سے ہزاروں سال پہلے تھی۔ اسی طرح انسان کو زندہ رہنے کے لیے جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے وہ آکسیجن ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی کی تمام تر ترقی کے باوجود کوئی چیز آکسیجن کی متبادل نہیں بنی اور نہ بن سکتی ہے۔ بالکل اسی طرح قرآنِ کریم بھی انسان کی روحانی زندگی کی وہ ضرورت ہے، جس کا کوئی متبادل نہیں ہے اور کسی بھی دور میں اس کی اہمیت وا فادیت کم نہیں ہوسکتی۔

                آج کوئی بھی شخص صبح اُٹھ کر جب قرآن ِکریم کی تلاوت اور اس میں تدبرکرتا ہے، تو اُسے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ کلام آج ہی ،اس کے پیش آمدہ مسائل کے حل کے لیے اُترا ہے۔

 عالمگیری دور میں عالمی وآفاقی کتاب کا عالمگیر پیغام:

                آج کا دور عالمگیری دور کہلاتا ہے، جب کہ قرآنِ کریم کا پیغام بھی عالم گیر و آفاقی ہے۔

                 قرآن انسانیت کو ”اے لوگو!“ اور”اے بنی آدم!“ کہہ کر مخاطب کرتا ہے، جس میں ہر خطے، ہر زبان اور ہر رنگ کے لوگ شامل ہیں۔ قرآن ہر دور کی کتاب ہے۔افلاطون‘ الٰہیات،فلکیات اور تخلیق کائنات سے متعلق اپنے جن شہرہ ٴآفاق نظریات و خیالات کی وجہ سے ”افلاطون“ کہلاتا ہے اور ارسطو کو جن باتوں کی وجہ سے”ارسطو“ کہا جاتا ہے، وہ نظریات اور باتیں آج اگر میٹرک کے کسی بچے کے سامنے بھی بیان کی جائیں، تو وہ ان میں سے بیشتر باتوں کو جھٹلادے گا اور ان پر ہنسے گا، کیوں کہ سائنس کے ارتقا نے ان باتوں کو کلی اور حتمی طور پر غلط ثابت کردیا ہے، مگر قرآن ِکریم نے انہی مشکل ترین موضوعات سے متعلق جو حقائق آج سے چودہ سو سال قبل بیان کیے تھے،وہ آج بھی نہ صرف اپنی حقانیت کو منوارہے ہیں،بل کہ انسانیت کی رہنمائی بھی کر رہے ہیں۔

 قرآن کے مطابق زندگی ہی اصل زندگی ہے :

                قرآنی طرز زندگی اور قرآن کی تعلیمات کے مطابق چلتے رہنے ہی اصل زندگی ہے اور اسی میں حقیقی کامیابی ہے۔اس بات سے قطع نظر کہ قرآن کی آیات جس زمانے میں نازل ہوئی ہیں اسے تو صدیاں گزر چکی ہیں!! اور وہ تو نبی اکرم اکی زندگی کا زمانہ تھا!!!

                قرآن انسان کو پیش آمدہ مسائل کے کئی طرح سے حل پیش کرتا ہے، قرآن کریم کی ہی یہ عظمت ہے کہ ایک وقت میں یہ ایک فقہی مسئلہ کو حل کر رہا ہے، اس میں حلال و حرام کا بڑا واضح بیان ہے اور اسی کے ساتھ کوئی واقعہ بھی بیان کر رہاہو گا جس میں عظیم پیغام اوردرس عبرت ہو گا۔آپ اس میں یہ تعلیم بھی پائیں گے، جو اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ قدیم زمانے میں کیا تھا؟ اور یہ بھی کہ کون سے واقعات آئندہ جنم لیں گے؟ قرآن کریم میں ایک اور اہم چیز یہ ہے کہ یہ کائناتی فلسفہ بھی بیان کرتا ہے وہ بھی مبنی برحقیقت۔ قرآن تاریخی، سائنسی، ثقافتی،سماجی، سیاسی، اقتصادی،مذہبی اور قانونی ہر طرح کی تعلیم دیتا ہے،قرآن فرد اور معاشرے ہر دو کی رہنمائی کرتا ہے۔

                ان ساری چیزوں کے ساتھ ساتھ قرآن ایک معجزانہ کتاب ہے، یہ علم و فکر کی جامع کتاب ہے،یہ ہدایت اور رحمت کی کتاب ہے۔یہ صرف قصوں، کہانیوں کی کتاب نہیں ہے۔یہ مقابلہ اور مناظرہ کی کتاب نہیں ہے کہ عرب اپنی زبان پر بحث کرتے رہیں اور قرآن ان کو اپنی فصاحت کے ساتھ چیلنج کرتا رہے۔

                یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ قرآن میں فصاحتی تحدی موجود ہے۔ قرآن دراصل کتاب ِزندگی ہے، بل کہ یہ موت کے وقت اور بعد میں کیا ہو گا اس کو بھی بتاتی ہے۔

قرآن کتاب ِزندگی ہے:

                یہ وہ کتاب ہے جو فرد اور امت ہر دو کو بتاتی ہے کہ زندگی کیسے گزارنی ہے؟ قرآن کریم انفرادی اور اجتماعی زندگی کی، جس طرح تعلیم دیتا ہے اس طرح کوئی اور نظام تعلیم نہیں دیتا۔انفرادی اور اجتماعی مسائل کو قرآن اعلیٰ انداز میں حل کرتا ہے اور قرآن جس اندازمیں ان مسائل کو حل کرتا ہے کوئی اور نظام ایسے حل نہیں کرسکتا۔یہ قرآن کتابِ واقع ہے یہ انسانی زندگی کے ہر معاملہ کا بالکل مناسب حل بتانے والی کتاب ہے۔قرآن اپنے سے پہلے والی کتب کی طرح نہیں کہ ،جو صرف محدود زمانہ کے مسائل حل کرتی تھی۔

                قرآن کریم وہ کتاب ہے، جس کی تعلیمات انسانی زندگی موت اور مابعد الموت سے متعلق ہیں۔

                اگر قرآن میں عام زندگی سے تعلق نہ ہوتا اور یہ فقط فلسفیانہ رنگ ہی ہوتا؛ جیسا کہ یونانی، بدھ مت اور ہندو فلسفہ کی کتابوں میں موجود ہے تو اس کے ساتھ چلنے اور اس پر عمل کرنے کا جذبہ کم ہی ہوتا، کیوں کہ ان میں واقعیت سے دوری ہے اور فقط خیالات ہیں، جیسے فزکس اور دیگر مابعد الطبیعات مضامین میں ہوتے ہیں۔

قرآن ایک معجزاتی کتاب ہے:

                گویا قرآن ایک معجزاتی کتاب ہے؛جیسا کہ وقت نے ثابت کیا ہے کہ قرآن پاک زندگی کے ساتھ چلنے والی کتاب ہے۔یہ تہذیب کے ساتھ مہذب اور ترقی یافتہ ہے،اس میں جو علوم موجود تھے انہیں آگے بڑھایا، یہ خاص الٰہی طریقہ ہے، جو فکری ترقی اورتحقیق کی طرف لوگوں کو راغب کرتا ہے۔

بعثت ِنبوی اور نزول قرآنِ کریم :

                حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب نے بعثت ِنبوی اور نزول قرآنِ کریم کو بڑے خوبصورت پیرائے میں ڈھالتے ہوئے فرمایا: ”درحقیقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کو دو بعثتوں سے سرفراز کیا گیا:

                1- بعثتِ جسمانی: اس کو حیاتِ ظاہری سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے، جس کا آغاز ماہِ ربیع الاول کے مہینہ سے ہوا، جس وقت آپ کی ذاتِ گرامی کو عدم سے وجودبخشا گیا، جس نے افرادِ انسانی کو حقیقی انسانیت کا سبق دیا۔

                2- بعثتِ روحانی: اس کو حیاتِ ثانیہ سے تعبیر کیا جاتا ہے، جس کی ابتدا نزولِ قرآن سے ہوئی، جس سے آپ کے شرف وکرامت میں مزید اضافہ ہوا۔

                ان میں سے پہلی بعثت جمال ہی جمال تھی،جب کہ دوسری بعثت جمال وکمال کا بیش بہا خزینہ تھی، جس کا مشاہدہ آج تک کیا جارہا ہے،مگر افسوس کہ امت اس بیش بہا تحفہ ٴالٰہی سے دوری اختیار کر رہی ہے، تو علما کے بیان کردہ قرآن سے دوری کی عملی شکلیں کیا ہیں، اس پر ایک نظر کرتے ہیں ۔

 ہجر القرآن کی عملی مروجہ صورتیں:

                حافظ ابن القیم حنبلی  نے اپنی کتاب ”الفوائد“میں ہجر القرآن کی پانچ عملی صورتوں کو ذکر کیا ہے، جو درج ذیل ہیں:

1-تلاوتِ قرآن اور سماعت میں بے توجہی کا اظہار:

                عام طور پر یہ مشاہدہ ہے کہ قرآن ِمجید کو مخصوص حالات مثلاً غم وکرب، مخصوص زمان مثلاً کسی عزیز کی رحلت و وصال پر تلاوت کیا جاتا ہے، باقی ایام میں اس کو نہایت غفلت کے ساتھ الماری کی نذر کردیا جاتا ہے، یہ نہایت برا عمل ہے، اسی طرح قرآن ِمجید پڑھتے ہوئے خاموشی سے کان لگانے کے بجائے اس پر آوازیں بلند کرنا، یا محض عدمِ التفات یہ سب ”ہجر القرآن“ کے وسیع مفہوم کا حصہ ہے، جن سے احتراز ضروری ہے۔

2-آیات ومضامینِ قرآنی کے فہم وتفکر سے غفلت کا اظہار:

                قرآن ِمجید حق تعالیٰ شانہ کا کلام ہے، جن سے ہر صاحب ِایمان شخص کو محبت ہوتی ہے، ظاہر ہے کہ محبوب کے خط تک رسائی کی صورت میں عاشق اس وقت تک بے چین و بے سکونی کی زندگی بسر کرتا ہے، جب تک کہ اس کے مندرجات پر اطلاع نہ ہوجائے اور اس کے مضمون کی فہم دانی کے لیے کوئی دقیقہ نہیں اُٹھاتا ہے، تو کیا ملک الملوک ذات کے کلام کو اس قدر بھی اہمیت ورتبہ حاصل نہیں؟

3-احکاماتِ قرآنی پر عمل پیرائی سے استغنا کا اظہار:

                قرآن ِمجید کو دستور ِحیات، مشعلِ راہ اور کتابِ ہدایت تسلیم کرنے کے باوجود اس کے حلال و حرام، اوامر ونواہی سے متعلق کوتاہی وغفلت کا اظہار یہ ایسا شنیع عمل ہے، جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔

                 معاشرے میں سکونت پذیر خلقتِ خدا کی ایک بڑی تعداد اس مرض میں مبتلا ہے، جو مغربی تہذیب وتمدن پر اس قدر فریفتہ ہیں کہ ان کے طرزِ زندگی کے اپنانے کو باعث ِفخر ومسرت تصور کرتے ہوئے ،اسی کو کامیابی تصور کرتی ہے اور ا س تاریک راہ کو ترقی کے دلفریب عنوان ولیبل کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے:

میں قرآن پڑھ چکا تو اپنی صورت ہی نہ پہچانی

میرے ایمان کی ضد ہے مرا طرزِ مسلمانی

4-نجی زندگی وگھریلو معاملات میں رفعِ تنازع کے لیے قرآنی ہدایات کو ناقص تصور کرنا:

                قرآن مجید ہمارے واسطے محض قصہ گوئی کی کتاب نہیں، بل کہ ایک جامع دستور ِحیات وقانونِ زندگی ہے، جس کے ذریعہ نجی وداخلی تنازعات کو بحسن وخوبی رفع کیا جاسکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کو حکم و فیصل تسلیم کرنا اور اس کے مطابق زندگی کو ڈھالنا اس کے حقوق میں داخل وشامل ہے۔

5- امراضِ جسمانی وروحانی کے لیے نہایت مفید و باعثِ شفا:

                انسانی جسم جو غم وتکالیف کی آماج گاہ ہے، اس میں روحانی وجسمانی امراض وتکالیف سے نجات کے لیے بعض آیات کا ورد بطور علاج وشفا نہایت مجرب ہے، جب اس کلام ِپاک کے نزول کی تاثیر سے پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل سکتا ہے، تو روحِ انسانی سے حسد وعداوت، کینہ و بغض جیسی بیماریوں کو مکمل صاف کردیتا ہے؛ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: ”قُلْ ھُوَ لِلَّذِیْنَ آمَنُوْا ھُدًی وَّشِفَاءٌ“ یعنی یہ قرآن مجید اہلِ ایمان کے لیے ہدایت وشفایابی کا ذریعہ ہے۔

                اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآن مجید کے ساتھ صحیح تعلق ووابستگی قائم کرنے اور اس کے حقوق کی پاسداری کی توفیق عطا فرمائے، اور روزِ قیامت اس کو ہمارے خلاف حجت بننے سے محفوظ فرمائے۔ (آمین)

قرآن کریم سے وابستگی کیسے؟

                ہر زمانہ میں مسلمانوں کی ترقی کا مدار قرآن کریم کے ساتھ وابستگی پر منحصر رہا ہے، اگر مسلمان قرآن سے اچھی طرح وابستہ رہا ہے، تو اللہ نے اسے عروج عطا فرمایا ہے اور جب بھی اس کا تعلق قرآن ِکریم سے کم ہوا ،اللہ نے اسے قعر مذلت میں ڈھکیل دیا۔

                قرآن کے ساتھ اصل وابستگی اس پر ایمان اور عمل ہے، آج ویسے تو قرآنِ کریم پر بہت کام ہورہا ہے الگ الگ زاویہ سے، اس پر کتابیں لکھی جارہی ہیں کوئی تفسیرِ موضوعی پر دسیوں جلدیں لکھ رہا ہے، تو کوئی مقاصدِ سور پر،کوئی اشتقاق پر تو کوئی فروق لغویہ پر، کوئی تسویر السور پرتو کوئی مقاصد سورت پر ،کوئی خرائط سور پر تو کوئی بلاغت و بیان قرآنی پر، کوئی قیم سور پر تو کوئی اس پر تو کوئی اس پر ،مگر عملی میدان میں زیرو تو آئے منصوبہ بناتے ہیں کہ قرآن کریم کے ساتھ امت کو کس طرح منسلک کردیا جائے ۔

علما اور طلبہ کی قرآن فہمی سے غفلت:

                قرآنِ کریم تمام مشکلات کا حل جس طرح پیش کرتا ہے، دنیا میں کوئی اور کتاب ایسا حل پیش کرنے سے عاجز ہے، مگر افسوس کہ امت نے اپنے مسائل کے حل کے لیے قرآن ِکریم کی طرف رجوع کرنا ہی چھوڑ دیا، خاص طور پر طبقہ ٴعلما ہی اس سے غفلت کا شکار ہے، جو انتہائی درجہ تکلیف دہ ہے۔ طلبہ اور علما کو تو چاہیے کہ وہ اپنا زیادہ سے وقت قرآن کی تلاوت ،اس کی تفسیر اور تدبر میں صرف کریں، اس لیے کہ ان پر امت کی رہبری کی ذمے داری ہے؛ لہٰذا صحیح رہنمائی و رہبری کے لیے کتاب اللہ سے شغف از حد ضروری ہے، جتنا وہ قرآن پر اپنی توجہ مرکوز کریں گے اتنا برکتوں سے بھی مالامال ہوں گے اور نصرت ِالٰہی بھی قدم بوسی کرے گی اور اختلاف و انتشار اور گمراہیوں سے بھی محفوظ رہیں گے۔

                 صبح اٹھ کر تلاوت ، اس کے بعد روزانہ چند آیات یا چند صفحات کی تفسیر کا اہتمام ہونا چاہیے ۔خود کی ثابت قدمی کے لیے بھی اور امت کو ایمان پر جمانے کے لیے بھی اپنے اپنے حلقے میں درس ِقرآن اور تفسیر ِقرآن کا اہتمام وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ فتنوں کے اس تاریک دور میں سب سے بڑا ہتھیار قرآن ہی ہے ۔

                ان فتنوں سے بچنے کی اساسی اور بنیادی تدبیر اللہ کی یاد میں روز و شب بسر کرنا ہے، اگر اللہ کی یاد سے اعراض ہوگا تو حالات بد سے بد تر ہوتے جائیں گے۔

                اللہ کا فرمان ہے:﴿ وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہ مَعِیْشَةً ضَنْکًا﴾۔ (سورہ ٴطہ)

                جو میری یاد سے بے پرواہ ہوگا، اس کی زندگی تنگ ہو جائے گی۔ تنگ زندگی کی تفسیر میں وہ ساری باتیں آجائیں گی، جن کا آج مسلمان شکوہ کر رہے ہیں، جن سے چھٹکارا پانا چاہ رہے ہیں۔

                اور ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا:﴿وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ ذُکِّرَ بِأٰیٰتِ رَبِّہ ثُمَّ اَعْرَضَ عَنْھَا اِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِیْنَ مُنْتَقِمُوْنَ﴾۔ (سورہٴ سجدہ)

                اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا، جس کو اپنے رب کے آیات سے نصیحت کی جاتی ہے، پھر اس نے اس سے منھ پھیر لیا، ہم یقینا ایسے مجرموں سے بدلہ لے کررہیں گے۔

                ان فتنوں سے بچاؤ کا پہلا حل، قرآن مجید سے اپنا تعلق قائم کرنا ہے؛ ایسا تعلق کہ قرآن ہماری زندگی کا لازمی حصہ بن جائے۔ قرآن کی تلاوت، علمائے ربانیین ومستند مفسرین کی تفسیر وترجمہ پڑھ کر اس کے احکامات کو اپنی زندگی میں لائیں! ہمیشہ یادِ الٰہی میں مگن رہیں، پھر دیکھیں! تمام فتنوں سے حفاظت آسان ہو جائے گی۔

 فتنوں سے بچنے کی تدابیر میں سب سے کار آمدتدبیر قرآن سے وابستگی ہے:

                ان فتنوں سے بچنے کی وہ تدبیریں، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث میں بیان فرمائی ہیں۔

                ۱- عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: اِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ: اِنَّھَا سَتَکُوْنُ فِتْنَةٌ قُلْتُ مَا الْمَخْرَجُ مِنْھَا یَا رَسُوْلَ اللہِ ﷺ؟ قَالَ: کِتَابُ اللہِ‘ فِیْہِ نَبَاُ مَاقَبْلَکُمْ وَخَبَرُ مَا بَعْدَکُمْ وَحُکْمُ مَا بَیْنَکُمْ‘ ھُوَ الْفَصْلُ لَیْسَ بِالْھَزْلِ‘ مَنْ تَرَکَہ مِنْ جَبَّارٍ قَصَمَہُ اللّٰہُ‘ وَمَنِ ابْتَغَی الْھُدٰی فِیْ غَیْرِہ اَضَلَّہُ اللّٰہُ‘ وَھُوَ حَبْلُ اللّٰہِ الْمَتِیْنُ‘ وَھُوَ الذِّکْرُِ الْحَکِیْمُ‘ وَھُوَ الصِّرَاطُ الْمُسْتَقِیْمُ‘ ھُوَ الَّذِیْ لَا تَزِیْغُ بِہِ الْاَھْوَاءُ وَلَا تَلْتَبِسُ بِہِ الْاَلْسِنَةُ وَلَا یَشْبَعُ مِنْہُ الْعُلَمَاءُ وَلَا یَخْلُقُ عَنْ کَثْرَةِ الرَّدِّ وَلَا تَنْقَضِیْ عَجَائِبُہ‘ وَ الَّذِیْ لَمْ تَنْتَ الْجِنُّ اِذْ سَمِعَتْ حَتّی قَالُوْا: ﴿اِنَّا سَمِعنَا قُرانًا عَجَبًا oیَّہدِی اِلَی الرُّشدِ فَاٰمَنَّا بِہ ﴾ مَنْ قَالَ بِہ صَدَقَ‘ وَمَنْ عَمِلَ بِہ اُجِرَ‘ وَمَنْ حَکَمَ بِہ عَدَلَ‘ وَمَنْ دَعَا اِلَیْہِ ھُدِیَ اِلٰی صِرَاط مُسْتَقِیْمٍ ۔(رواہ الترمذی والدارمی)

                حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :سن میں نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سناہے کہ سنو ایک بڑا فتنہ آنے والا ہے،میں نے عرض کیا یارسول اللہ! اس سے بچنے کی کیا سبیل ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی کتاب (اس سے بچا سکتی ہے)اس میں گزشتہ امتوں کے(سبق آموز)واقعات ہیں، اور آئندہ کی اطلاعات ہیں اور حال کے فیصلے ہیں اور اس کے ارشادات فیصلہ کن ہیں۔ وہ دل لگی کی باتیں نہیں ہے،جو بھی سرکش اسے چھوڑے گا،اللہ اس کو توڑے گااور جو قرآن سے ہٹ کر ہدایت تلاش کرے گا، اللہ اس کو گمراہ کرے گااور وہ اللہ کی مضبوط رسی ہے اور وہ پر حکمت نصیحت نامہ ہے اور وہ سیدھا راستہ ہے۔

                قرآنِ کریم وہ کتاب ہے، جس سے خیالات میں کجی نہیں آتی اور زبانیں اس میں گڑبڑ نہیں کرتیں، یعنی تحریف نہیں کرسکتیں، یا زبانیں قرآن کے ساتھ مشتبہ نہیں ہوتیں، اہل علم کبھی اس سے سیر نہیں ہوتے،وہ کثرت مزاولت سے پرانا نہیں ہوتا،یعنی طبیعت کبھی اس سے اکتاتی نہیں، اور اس کے حیرت انگیز مضامین کبھی ختم ہوتے نہیں ہوتے، قرآن کریم کی شان یہ ہے کہ اس کو جنات نے سنا تو وہ بے اختیار پکار اٹھے، ہم نے ایک عجیب قرآن سنا،جو بھلائی کی طرف رہنمائی کرتا ہے،سو ہم اس پر ایمان لے آئے، (سورة الجن)جس نے قرآنِ کریم کے موافق بات کہی اس نے سچی بات کہی اور جس نے قرآن کریم پر عمل کیا وہ اجرو ثواب کا حقدار ہوااور جس نے قرآنِ کریم کے موافق فیصلہ کیا ،اس نے عدل وانصاف والا فیصلہ کیااور جس نے قرآن ِکریم کی طرف دعوت دی وہ سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کیا گیا۔(تحفت الألمعی ج۷ص۲۶)

فتنوں کا اصل علاج قرآن کریم:

                علامہ یوسف بنوری  رقم طراز ہیں کہ قرآن ِکریم حق تعالیٰ شانہ کی وہ آخری اور عظیم ترین نعمت ہے، جو اس دنیا کو دی گئی ہے، قرآن کریم ہی وہ قانون ِالٰہی ہے، جو انسانوں کو اعلیٰ ترین سطح پر پہنچانے کا ضامن ہے اور جو قوموں کی سر بلندی اور حکومتوں کی عزت ومجد کا بہترین ذریعہ ہے۔ دور حاضر کے جتنے بھی فتنے ہیں ان سب کا واحد علاج قرآنی دستور ہے، آج کل جو فتنے رونما ہو رہے ہیں، ان کا اصلی سبب قرآنی تعلیمات سے انحراف واعراض ہے۔ (دور حاضر کے فتنے اور ان کا علاج)

                لہٰذا ایک مکمل تحریک کے طور پر جامعہ اکل کوا امت کے ہر طبقہ کو قرآن سے جوڑنے کے نظام کا اعلان کررہا ہے ۔

 تحریک رجوع الی القرآن:

                جس کے ذریعے تفسیر ِقرآن اور درس ِقرآن کے سلسلے میں مکمل رہنمائی کی جائے گی۔ ان شاء اللہ۔ ساتھ ہی قرآن کو تجوید کے ساتھ پڑھنے پڑھانے کا ماحول کیسے بنایاجائے ،بچپن سے لے کر بڑھاپے تک ہر عمر اور ہر طبقے کے لوگوں کو قرآن سمجھنے سمجھانے کے طریقے بتائے جائیں گے ۔ان شاء اللہ۔

                شعبان ہی سے فہم قرآن کے سلسلے کو شروع کیا جائے گا۔ ان شاء اللہ!

ائمہ مساجد اور علماء و طلبہ درس قرآن و تفسیر کی تیاری کیسے کریں؟

 رمضان سے قبل ہی ذہن سازی کرنا شروع کردے :

                رمضان المبارک کے آتے ہی ماشاء اللہ امت کا رجوع مساجد کی جانب بڑھ جاتا ہے؛ ایسے موقع کو غنیمت جان کر ہمارے مساجد کے ائمہ یا تراویح سنا نے کے لیے پہنچنے والے علیا کے طلبہ کو مؤثر اور مختصر انداز میں دروسِ قرآن و تفسیر کا اہتمام کرنا چاہیے؛ تاکہ پرفتن دور میں ان کو قرآن سے قریب کیا جائے۔

                سب سے پہلے تو ایسا وقت متعین کیا جائے، جس میں زیادہ سے زیادہ افراد شریک ہوسکیں اور نشاط کے ساتھ ۱۵ /منٹ بیٹھ سکیں، اس کے لیے رمضان سے قبل ہی ماحول بنایا جائے ،قرآن کی عظمت اور عصر حاضر میں اس سے منسلک ہونے کی شدید ضرورت پر روشنی ڈالی جائے، مقامی زبان میں چھوٹے پمفلٹ شائع کرکے اسے تقسیم کیا جائے، کچھ لوگوں کو مکلف کیاجائے کہ وہ لوگوں کو درس ِقرآن میں بیٹھنے پر آمدہ کریں سمجھا کر انہیں بیٹھائیں۔ شعبان کے آخری دونوں جمعہ تفسیر کی اہمیت و ضرورت پر اور ہونے والے درس ِقرآن پر بیانات میں تذکرہ کریں؛ تاکہ پہلے سے لوگ تیار ہوجائیں۔ مسجد کے بورڈ پر بھی اس کا وقت لکھنے کا اہتمام کریں؛ غرضیکہ ماحول بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں؛ تاکہ لوگوں کی اچھی طرح ذہن سازی ہو اور پہلے سے بیٹھنے کا من بنا لیں۔

 درس کو مؤثر بنانے کے لیے کیا کریں؟

                اگر آپ تفسیر کو مؤثر بنانا چاہتے ہیں ،تو ابھی سے جن سورتوں کی تفسیر کرنا چاہتے ہیں، اس سے متعلق کتابوں کا مطالعہ شروع کردیں، اس کے لیے جتنا زیادہ مطالعہ ہوگا، اتنا ہی کم وقت میں زیادہ اور مؤثر درس دے سکیں گے؛ بہتر یہ ہے کہ حالات ِحاضرہ کو پیش نظر رکھ کر آیات کا انتخاب کریں یا سورتوں کا انتخاب کریں! مثلا: سب سے پہلے تو سورہٴ فاتحہ خوب اچھی طرح سمجھانے کی کوشش کریں کیوں کہ وہ ہر رکعت میں پڑھی جاتی ہے؛ تاکہ عوام اسے اچھی طرح سمجھ لے اور جب اسے نماز میں پڑھے تو معنی کا استحضار ہو، لطف لے کر پڑھے۔سمجھانے کا انداز آسان سے آسان ہو، الفاظ عام فہم ہوں مشکل الفاظ استعمال نہ کریں، علمی انداز اختیار نہ کریں؛ بل کہ موعظت و نصیحت کاا سلوب اختیار کریں۔ آہستہ آہستہ اس انداز میں درس دیں کہ بات سامعین کے مکمل سمجھ میں آجائے اور ان سے کہیں بھی کہ اگر کوئی سوال ہو تو پوچھ سکتے ہیں، البتہ درس کے بعد؛ تاکہ سامعین پر گراں نہ گزرے۔ اگر کوئی مشکل بات پوچھ لی اور آپ کو اس کا جواب معلوم نہیں تو کسی ذی استعداد عالم صاحب سے رابطہ رکھیں (کہ اگر کوئی بات پیش آئی تو بندہ آپ سے دریافت کرے برائے کرم رہنمائی فرمانے کی زحمت فرمائیے گا) ایسی درخواست پہلے ہی کرکے رکھیں۔

سامعین کی اکثریت غیر تعلیم یافتہ ہو تو مندرجہ ذیل تفاسیر کا مطالعہ بہتر ہوگا :

                ۱- معارف القرآن مفتی شفیع صاحب ۔

                ۲- آسان ترجمہٴ قرآن مفتی تقی عثمانی صاحب ۔

                ۳- تفسیر عثمانی علامہ شبیر احمد عثمانی صاحب ۔

                ۴- گلدستہ ٴتفاسیر الحاج مولانا عبدالقیوم مہاجر مدنی صاحب ۔

                ۵- انوار القرآن مولانا نعیم دیوبندی صاحب ۔

شروع میں قرآن سے مانوس کرنے کے لیے مندجہ ذیل کتابیں زیر مطالعہ رکھیں :

                ۱- علوم القرآن۔ مفتی تقی عثمانی صاحب ۔

                ۲- قرآن عظیم الشان۔ پیر ذوالفقار صاحب نقشبندی ۔

                ۳- قرآن کی حیرت انگیز معلومات ۔مولانا ومیض ندوی صاحب ۔

اگر سامعین میں اکثریت جدید تعلیم یافتہ ہو تو مذکورہ کتابوں کے ساتھ مزید ان کتابوں کو بھی زیر مطالعہ رکھیں :

                ۱- بیان القرآن۔ حکیم الامت حضرت تھانوی۔

                ۲- معارف القرآن۔ علامہ ادریس کاندھلوی ۔

                ۳- تفسیر ماجدی۔ مولانا عبدالماجد دریابادی صاحب۔

                ۴- معالم العرفان۔ صوفی عبدالحمید سواتی صاحب ۔

                ۵- ذخیرةالجنان مولانا سرفراز خاں صفدر صاحب ۔

                ۶- تفسیر حقانی مولانا عبدالحق دہلوی ۔

                ۷- تفسیر مظہری علامہ پانی پتی صاحب۔

                ۸- تفسیر ابن کثیر ۔

                ۹- تفسیر بغوی۔

                ۱۰- تفسیر طبری ۔

                ۱۱- أضواء البیان ۔شنقیطی

نوٹ: اگر جدید تعلیم یافتہ طبقہ میں تفسیر کی جارہی ہو تو علوم القرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب سے تفسیر میں گمراہی کے اسباب کو اچھی طرح سمجھ کر بتانا از حد ضروری ہے؛ تاکہ قرآن کی تفسیر کے مقاصد پر نظر رہے۔

                عصر حاضر کے احوال کے پیش نظر سورہ ٴفاتحہ کے بعد سورہ ٴکہف کی تفسیر زیادہ مناسب ہوگی ،جس میں فتنوں کے دور میں اپنے ایمان کو بچا کر کیسے زندگی گزاری جائے ،اس پر بڑی عمدہ رہنمائی ہے ۔یا نماز میں پڑھی جانے والی سورتوں کی تفسیر کرے؛ تاکہ مسلمان سمجھ کر نماز پڑھنے لگیں، جو اسے منکرات سے روکنے میں مدد دے یا سورہٴ حجرات جس میں معاشرت کے احکام بیان کیے گئے ہیں؛ غرض یکہ امت قرآن سے محبت کرنے لگے اور اسے یہ احساس ہو کہ قرآن زندہ جاوید کتاب ہے اور اس میں تمام مسائل کا حل موجود ہے ۔

 تفسیری مواد کے روابط اور لنک:

                ہماری کوشش رہے گی کہ ایک ایسی فائل تیار کی جائے، جس میں تفسیری مواد کے روابط اور لنک ہوں؛ تاکہ جن احباب کو کتابیں دستیاب نہ ہوں، وہ پی ڈی ایف یا سافٹ ویر سے استفادہ کرکے” تحریک رجوع الی القرآن“ کا حصہ بنیں ۔اور ہم سب مل کر امت کو کر قرآن سے وابستہ کرنے میں کامیابی حاصل کرسکیں۔ ایمان پر استقامت کی دولت میسر آئے اور ہم اللہ کی رضامندی اور خوشنودی حاصل کرکے اپنے مقصد حیات کو پانے میں کامیاب ہوجائیں۔

 تشکر و امتنان

                اخیر میں ہم بے پناہ ممنون و مشکور ہیں ہمارے اساتذہ ٴ کرام کے ،کہ جب بھی ہم کسی خصوصی شمارہ کا ارادہ کرتے ہیں اور ہنگامی طور پر انہیں مطلع کرتے ہیں تو ماشاء اللہ نہایت مستعدی سے فوراً معیاری مضامین لکھ کر یہ حضرات مکمل تعاون کرتے ہیں ،اس بار بھی ابھی چند دنوں قبل موضوع طے ہوا اور جیسے ہی ان کواطلاع دی سب نے مختصر مدت میں رات دن ایک کرکے اپنے مضامین سپرد قرطاس کیے اور الحمدللہ رسالہ آپ کے ہاتھوں میں ہے ۔

                اللہ ہمارے ان تمام اساتذہ کو دارین میں بہترین اجر عطا فرمائے۔ مجلہ ہذا کے معاون مدیر مفتی محمد ہلال الدین اور ان کے رفقائے کار مفتی محمد سبحان مولانا ابو سفیان اور مولوی انس کو بھی جزائے خیر عطا فرمائے، جنہوں نے دن رات ایک کر کے اس کو تکمیلی شکل دی۔ اللہ امت کو اس کے ذریعہ ہدایت سے بہرہور فرمائے۔ آمین یارب العالمین ۔

                 تفسیر قرآن کی ڈیجیٹل لائبریری عنقریب تیار کر کے نشر کی جائے گی ۔ان شاء اللہ

                 تحریک رجوع الی القرآن کے لیے قرآن فہمی کی جو تحریک شروع ہورہی ہے اور جو احباب رمضان میں درسِ قرآن و تفسیر کا ارادہ رکھتے ہیں، ان کے لیے یہ مجلہ بھی بہت معین ہوگا اور اس سے قبل کے قرآنیات کے شمارے بھی تفسیر قرآن کی ڈیجیٹل لائبریری میں ان شاء اللہ سب کو شامل کیا جائے گا۔