فتح بیت المقدس میں اہم کردار ادا کرنے والی شخصیات:

                صلاح الدین ایوبی ؒ کے ظہور سے قبل عالمِ اسلام تین مرحلوں سے گزرا : سیاسی بیداری ، تعلیمی و فکری بیداری ، امت میں اجتماعی طور پر ہرقسم کی بیداری۔ مرحلۂ اولیٰ میں اہم رول ادا کرنے والی شخصیات:

                ۱-نظام الملک الطوسی۔

                ۲-امام الحرمین الجوینی۔

                ۳-ابو اسحاق الشیرازی۔

                ۴-ابو القاسم القشیری۔

                ۵-ابو علی الفارندی۔

                ۶-سلطان الپ ارسلان۔

                ۷-ملکشاہ۔

                ۸-آق سنقر۔

                ۹-عماد الدین زنگی۔

                ۱۰-ابو مسلم مہر بن یزید۔

                ۱۱-ابو حامد الأزہری۔

                ۱۲-ابو الحسن محمد بن علی الواسطی۔

                ۱۳-الامام ابن عقیل۔

مرحلۂ ثانیہ میں اہم رول ادا کرنے والی شخصیات:

                ۱-الاما الغزالی حجۃ الاسلام۔

                ۲-نورالدین زنگی۔

                ۳-اسد الدین شیر کوا۔

                ۴-ابراہیم الشباک الجرجانی۔

                ۵-ابو القاسم اسماعیل بن عبد الملک الحاکمی۔

                ۶-مروان بن علی بن سلامہ بن مروان طنزی۔

                ۷-الکیا الہراسی۔

مرحلہ ٔثالثہ میں اہم رول ادا کرنے والے شخصیات:

                ۱-صلاح الدین ایوبی۔

                ۲-قطب الدین نیشاپوری۔

                ۳-حافظ ابوطاہر السلفی۔

                ۴-ابو طاہر بن عوف۔

                ۵-عبد اللہ بن بری نحوی۔

                ۶-ابن نجا الواعظ۔

                ۷-محمد بن موفق حبوشانی۔

                ۸- موفق الدین ابن قدامہ۔

                ۹-محمد ابن قدامہ۔

                ۱۰-ابن الذکی الشافعی۔

                گویا علما اور حکام کی مجموعی بیداری نے بیت المقدس کی کامیابی میں اہم رول ادا کیا ۔

                میں نے بالقصد بیت القدس کی پہلی بازیابی کے تمام پہلوؤں کو تفصیل کے ساتھ جمع کیا؛ تاکہ ہم اس سے سبق حاصل کریں اور اسی انداز میں تیاری کریں۔ امام مالکؒ نے فرمایا ’’لن یصلح آخرہذہ الأمۃ الابماصلح بہ أولہا ‘‘ آئیے! اب ہم موجودہ آخری صدی میں بیت المقدس پر کیا گزری، اور اس دور میں دوبارہ اس کی بازیابی کے لیے کیا لائحہ عمل تیار کیا جانا چاہیے اس پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح لکھنے کی اورہم سب کو اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

خلاصہ بحثِ مذکور :

                بیت المقدس کی تاریخ آغازسے لے کر فتحِ اسلامی اول تک او رفتح ثانی کے بعد سے بیسویں صدی کے اوائل تک دو مستقل مضامین میں ذکر کیے جائیں گیں۔ ابھی یہاں فلسطین کے مسلمانوں کے ہاتھوں سے جانے سے لے کر قیامِ اسرائیل تک اور قیام اسرائیل سے لے کر اب تک کی تاریخ پر ،نیز فلسطین پر مسلمانوں کے قانونی تاریخی اور دینی حق کے اثبات پر روشنی ڈالی جائے گی۔اور اخیر میں فلسطین کی بازیابی کے لیے کوشش کا آغاز کہاں سے کیا جائے یہ بتلایا جائے گا ؛تاکہ جہاد بالسنان سے پہلے جہاد بالقلم کے فریضہ کو ادا کرنے کی مقدور بھر کوشش کی جائے۔اللہ اخلاص کے ساتھ ارض ِمقدس کے لیے ہمیں ہر طرح کے جہاد کی توفیق مرحمت فرمائے۔

مسلمانوں کا اپنے دور میں یہود ونصاری کے ساتھ حسنِ سلوک :

                تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں نے نہ صرف عیسائیوں؛بل کہ یہودیوں کے ساتھ جورواداری کا رویّہ اختیار کیا، وہ اُن کے ساتھ عیسائیوں نے کبھی اختیار نہ کیا۔ عیسائیوں نے صلیبی جنگ میں بیت المقدس کو فتح کیا، تو سارے یہودیوں کو ایک جگہ جمع کرکے اپنے گرجا گھر کے اندر نذرِ آتش کردیا۔ ۱۰۹۹ء سے ۱۱۸۷ء کے عرصے میں شہرِ قدس میںیہودیوں کا داخلہ بالکلیہ ممنوع رہا۔ صلاح الدین ایوبی (یوسف بن ایوب بن شاذی ابو المظفر صلاح الدین ایوبی مقلب بہ ’’ملک نصر‘‘۵۳۲ھ / ۱۱۳۷ – ۵۸۹ھ /۱۱۹۳ء)نے بیت المقدس کو فتح کیا ، تو اُن کے لیے یہاں آمد کی راہ پیدا ہوئی ۔

یہودیوں کی سفاکانہ فطرت:

                مسلمانوں کی طرف سے روادارانہ روییّ کے باوجود، جہاں یہودیوں نے، جن کی فطرت میں غدّاری، عیّاری، بغاوت، ظلم شعاری اور خدا اور اُس کے رسولوں کی نافرمانی رچی بسی تھی؛ مسلمانوں سے اپنی ابدی دشمنی کو نہیں بھلایا، وہیں اہلِ صلیب نے، صلیبی جنگوں کو صلاح الدین ایوبیؒ اور آپ کی نجیب الاصل اولاد واخلاف کے ہاتھوں بُری طرح ہار جانے کے باوجود؛اپنے ناپاک صلیبی جذبے کو فرو نہیں ہونے دیا؛ بل کہ اُس کو ہمیشہ اور ہرممکن طریقے سے، اپنے سینوں میں فروزاں رکھا اور اپنے عمل سے ، تاریخ کے ہردور میں، اپنے اُس جذبے کو تسکین دینے کی کوشش کی۔ اِسلام دشمنی کی ہمہ گیر شکلیں آج بھی فرزندانِ تثلیث کی طرف سے، روبہ عمل آرہی ہیں اور اُن کی بے پناہ چالاکی اور ’’زیرکی‘‘ کے باوجود، صلیبی روح کی کارفرمائیاں چھپائے نہیں چھپتیں۔ اقتصادی وعسکری، سیاسی واجتماعی یلغاروں کے ساتھ ساتھ، تہذیبی وثقافتی حملوں اور قبضوں کے سارے نت نئے اور دیرینہ استعماری طریقوں کے ذریعے، عالمِ اسلام وعالمِ عرب پر مسلّط اور مکمل غلبے کا بھرپور کھیل کھیلا جارہا ہے۔ عالمی تنظیم’’اقوامِ متحدہ‘‘ اور طرح طرح کی خیراتی وتبلیغی انجمنوں اور خفیہ اداروں کے ذریعے، استعماری عمل کو استحکام دینے کی ایسی طرح ڈالی گئی ہے کہ اُمّتِ مسلمہ کے سارے عُقلا وقائدین بھی اُس کے سحر کا کوئی توڑ، اِیجاد کرنے سے قاصر ہیں۔

عالم اسلام کے حکمرانوں کی بے حسی :

                ہمارے قائدین وحکم راں تو اِس سحرِسامری کا بالکلیہ شکار ہیں۔ افسوس ہے کہ امّت کے چیدہ طبقے، جن کے ہاتھ میں عالمِ اسلام کی زمامِ کار ہے، کے دل سے احساسِ زیاں نہ صرف مفقود ہوچکا ہے؛ بل کہ اِسی سحرِ سامری کی وجہ سے ’’زیاں‘‘ کو ’’سود‘‘ سمجھ بیٹھے ہیں۔ زیاں کا یہ تسلسل ، اِسی لیے ختم ہونے کا نام نہیں لیتا کہ اِس کو ہمارے قائدین حکمرانوں کی طرف سے ، ’’سود‘‘ کے عمل کے طور پر شوق سے انجام دیا جارہا ہے۔

نصاریٰ کا قیامِ اسرائیل میں یہودیوں کا ساتھ دینا :

                حقیقت یہ ہے کہ اہلِ صلیب نے اسلام دشمنی میں ہی قاتلانِ انبیا وملعونین اِلٰہی یہود کا ساتھ دینے اور اُن کے لیے فلسطین میں ’’قومی وطن‘‘ بسانے کی تحریک چلانے، اُس کو کامیاب بنانے اور بالآخر وہاں اُن کی ناجائز ریاست قائم کردینے کی ٹھانی۔ ’’مجر‘‘ (Magyar, Hongrie)کے ایک یہودی رائٹر ’’ٹیوڈ رہرزل‘‘ (Tudor Herzel )(۱۸۶۰ء-۱۹۰۴ء) کو اِس تحریک کے لیے اکسایا، اُس نے اِس موضوع پر نہ صرف یہ کہ قلم اٹھایا؛ بل کہ ۱۸۹۷ء (۱۳۱۵ھ) میں سوئزرلینڈ (Suisse) کے شہر ’’بازل‘‘ (Basel)میں یہودیوں کی عالمی کانفرنس منعقد کی اور صہیونی تحریک کی بنیادی قرار داد پاس کرکے، قومی وطن کے قیام کی تحریک زوروشور سے شروع کردی، جس میں فرزندانِ تثلیث کی مکمل پشت پناہی یہودیوں کو حاصل تھی۔