غیر مسلم مرد سے نکاح کرنا اور اس کو جائز سمجھنا

فقہ وفتاویٰ

مفتی محمد جعفر صاحب ملی رحمانی

صدر دار الافتاء-جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا

غیر مسلم مرد سے نکاح کرنا اور اس کو جائز سمجھنا

سوال :    ۱- کیا کسی مسلم خاتون کا غیر مسلم مرد سے نکاح کرنا جائز ہے؟

۲- اگر کوئی مسلم خاتون غیر مسلم مرد کے ساتھ نکاح کو جائز سمجھے ، تو اس کا حکمِ شرعی کیا ہوگا؟

الجواب وباللہ التوفیق :

 ۱- شریعتِ مطہرہ میں مسلمان عورت کا نکاح کسی غیر مسلم مرد سے قطعًا ناجائز ، حرام، باطل اور کالعدم یعنی غیر معتبر ہے، اللہ تبارک وتعالیٰ قرآن ِکریم میں ارشاد فرماتے ہیں:

 ” اور اپنی عورتیں مشرکوں کے نکاح میں نہ دو یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں، خواہ وہ تمہیں کتنا ہی اچھا کیوں نہ لگے، وہ لوگ تمہیں دوزخ کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے حکم سے تمہیں جنت اور مغفرت کی طرف بلاتے ہیں، اللہ تعالیٰ لوگوں کے لیے اپنے احکام بیان کرتے ہیں، تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔“ (۱)

            ملااحمد جیون امیٹھوی رحمة اللہ علیہ ”تفسیراتِ احمدیہ“ میں فرماتے ہیں:

” یہ آیت ثابت کرتی ہے کہ مومن کا نکاح مشرکہ سے اور مومنہ کا نکاح مشرک سے جائز نہیں۔“ (۲)

نیز حضرت مولانا مفتی شفیع صاحب رحمة اللہ علیہ ”معارف القرآن “ میں تحریر فرماتے ہیں:

” آیاتِ مذکورہ میں ایک اہم مسئلہ یہ بیان فرمایا گیا کہ مسلمان مردوں کا نکاح کافر عورتوں سے اور کافر عورتوں کا نکاح مسلمان مردوں سے جائز نہیں، وجہ یہ ہے کہ کافر مرد اور عورتیں انسان کو جہنم کی طرف لے جانے کے سبب بنتے ہیں، کیوں کہ اِزدواجی تعلقات آپس کی محبت ومودّت اور یگانگت کو چاہتے ہیں، اور بغیر اس کے ان تعلقات کا اصلی مقصد پورانہیں ہوتا، اور مشرکین کے ساتھ اس قسم کے تعلقاتِ قریبہ محبت ومودّت کا لازمی اثر یہ ہے کہ اُن کے دل میں بھی کفر وشرک کی طرف میلان پیدا ہو، یا کم از کم کفر وشرک سے نفرت اُن کے دلوں سے نکل جائے، اور اس کا انجام یہ ہے کہ یہ بھی کفر وشرک میں مبتلا ہوجائیں، اور اُس کا نتیجہ جہنم ہے۔“ (۳)

 ۲-        اگر مذکورہ مسلم خاتون غیر مسلم سے نکاح کو لاعلمی کی بنا پر جائز سمجھتی ہے، تو اولاً اُسے بتایا جائے کہ اسلام میں غیر مسلم مرد سے نکاح ناجائز وحرام ہے، اگر اس کے بعد بھی وہ غیر مسلم سے نکاح کو حلال وجائز سمجھے ، تو اُس کو متوجہ کیا جائے کہ تم دین کی بدیہی وضروری بات وحکم :﴿ولا تُنْکِحُوْا الْمُشْرِکِیْنَ حَتّٰی یُوٴْمِنُوْا– کہ اپنی عورتیں مشرکوں کے نکاح میں نہ دو، یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں﴾- کا انکار کررہی ہو، جس سے کفر لازم آتا ہے، پھر اُس کے بعد بھی اگر وہ غیر مسلم سے نکاح کے حرام ہونے کو نہیں مانتی، تو اب اس پر کفر کا حکم لگایا جائے گا، ورنہ نہیں۔(۴)


 

الحجة علی ما قلنا :

(۱) ما في ” القرآن الکریم “ : ﴿ولا تنکحوا المشرکین حتی یوٴمنوا ولعبد موٴمن خیر من مشرک ولو أعجبکم اولٓئک یدعون إلی النار واللّٰہ یدعوٓ إلی الجنة والمغفرة بإذنہ ویبیّن اٰیٰتہ للناس لعلّہم یتذکّرون﴾ ۔

(سورة البقرة :۲۲۱)

ما في ” رد المحتار “ : قال العلامة ابن عابدین الشامي رحمہ اللّٰہ تعالی : قولہ : (وحرم نکاح الوثنیة) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ویدخل في عبدة الأوثان ؛ عبدة الشمس والنجوم والصور التي استحسنوہا ، والمعطلة والزنادقة والباطنیة والإباحیة ۔ وفي شرح الوجیز : وکل مذہب یکفر بہ معتقدہ ۔ اہ ۔ قلت : وشمل ذلک الدروز والنصیریة والتیامنیة فلا تحل مُناکحتم ۔ الخ ۔ (۴/۱۲۵ ، کتاب النکاح ، فصل في المحرمات ، ط: بیروت)

ما في ” بدائع الصنائع “ : ومنہا : إسلام الرجل إذا کانت المرأة مسلمة ، فلا یجوز إنکاح الموٴمنة الکافر لقولہ تعالی : ﴿ولا تنکحوا المشرکین حتی یوٴمنوا﴾ – ولأن في إنکاح الموٴمنة الکافر خوف وقوع الموٴمنة في الکفر ؛ لأن الزوج یدعوہا إلی دینہ ، والنساء في العادات یتبعن الرجال فیما یوٴثروا من الأفعال ویقلدونہم في الدین إلیہ ، وقعت الإشارة في آخر الآیة بقولہ عز وجل : ﴿اولٓئک یدعون إلی النار﴾ ۔ لأنہم یدعون الموٴمنات إلی الکفر ، والدعاء إلی الکفر دعاء إلی النار ؛ لأن الکفر یوجب النار ، فکان نکاح الکافر المسلمة سببًا داعیًا إلی الحرام فکان حرامًا ۔ (۲/۲۷۱ ، کتاب النکاح ، فصل في عدم نکاح الکافر المسلمة ، ط ؛ بیروت)

(الفتاوی الہندیة : ۱/۲۸۲ ، کتاب النکاح ، القسم السابع المحرمات بالشرک ، ط ؛ رشیدیہ ، الفقہ الإسلامي وأدلتہ : ۹/۶۶۵۲ ، کتاب النکاح ، الفصل الثالث ، المحرمات من النساء ، زواج المسلمة بالکافر ، ط : رشیدیہ ، الموسوعة الفقہیة : ۳۵/۲۷ ، کفر ، نکاح المسلم کافرة ونکاح الکافر مسلمة)

(۲) (التفسیرات الأحمدیة في بیان الآیات الشرعیة :ص/۱۳۴، حصہ اول ، ط : المیزان لاہور)

(۳) (معارف القرآن : ۱/۵۴۰ ، سورة البقرة :۲۲۱)

(۴) ما في ” الموسوعة الفقہیة “ : والکفر شرعًا : ہو إنکار ما علم ضرورة أنہ من دین محمد ﷺ کإنکار وجود الصانع ونبوتہ علیہ الصلاة والسلام وحرمة الزنا ونحو ذلک ۔

(۳۵/۱۴، کفر ، فتح الملہم :۱/۵۱۴- ۵۲۲ ، انعام الباري :۱/۳۲۲ – ۳۲۵)

(فتاویٰ محمودیہ: ۱۱/۴۴۸، ط: کراچی، فتاویٰ فریدیہ: ۴/۴۸۰، فتاویٰ دار العلوم زکریا جنوبی افریقہ:۳/۵۹۷) فقط

واللہ أعلم بالصواب

کتبہ العبد : محمد جعفرملی رحمانی ۔۲۶/۱/۱۴۳۵ ھ

(فتویٰ نمبر :۷۱۹- رج :۸)