غیر شرعی امور کے لیے گوڈاوٴن کرایہ پر دینا

فقہ وفتاویٰ

سوال:     میرا سوال یہ ہے کہ ہمارا ایک گو ڈاوٴن ہے جس کو ہم نے کرایہ پر دیا ہے، وہ بندہ اس میں کرایہ سے سامان دیتا ہے اور اس بندے سے فلم انڈسٹری کے لوگ بھی سامان کرایہ پر لے جاتے ہیں ، تو اس بندے کو کرایہ پر گو ڈاوٴن دینا کیسا ہے؟ مفصل جواب عنایت فرمائیں۔

الجواب وباللہ التوفیق

            آپ نے جس بندہ کو اپنا گوڈا وٴن کرایہ سے دیا ہے اگر وہ اس گو ڈاوٴن میں ایسے سامان بھی کرایہ سے دیتا ہے جو نا جائز کاموں میں استعمال ہوتا ہے، تو آپ اسے ناجائز کاموں کے لیے کرایہ پر دینے سے منع کریں، اس کے بعد بھی وہ ان کو کرایہ پر دے گا تو آپ اس کے ذمہ دار نہیں ہوں گے۔ اور آمدنی حلال ہوگی۔


 

والحجة علی ما قلنا

ما فی ”المبسوط للسرخسی“: ولا بأس بأن یواجر المسلم دارا من الذمی لیسکنھا، فان شرب فیہا الخمر أو عبد فیہا الصلیب أو أدخل فیہا الخنازیر لم یلحق المسلم إثم فی شیء من ذلک، لأنہ لم یواجرہا لذلک والمعصیة فی فعل المستأجر، وفعلہ دون قصد رب الدار فلا إثم علی رب الدار فی ذلک۔ (۱۶/۳/ باب اجارة الفاسدة)

(الفتاوی التاتارخانیة: ۱۵/۱۳۳/ کتاب الاجارة، نوع فی الاستجار علی المعاصی-الفتاوی الہندیة: ۴/ ۴۵۰/ کتاب الاجارة، مطلب الاجارة علی المعاصی)

ما فی ” رد المحتار“: قولہ: (وجاز إجارة بیت الخ) ہذا عندہ أیضًا لأن الإجارة علی منفعة البیت ولہذا یجب الأجر بمجرد التسلیم ولا معصیة فیہ وانما المعصیة بفعل المستأجر وہو مختار فینقطع نسبتہ عنہ۔

(۹/۵۶۲/ کتاب الحظر والاباحة، فصل فی البیع)

(الہدایة: ۴/۴۵۶/ کتاب الکراہیة، فصل فی البیع- تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق: ۷/۶۴/ کتاب الکراہیة، فصل فی البیع)

ما فی ”الأشباہ والنظائر لابن نجیم“: إذا اجتمع المباشر والمتسبب أضیف الحکم إلی المباشر۔

(ص: ۴۸۶/ الفن الأول، القاعدة السادسة عشرة) فقط

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ العبد: محمد جعفر ملی رحمانی

۵/۲/۱۴۴۵ھ-فتوی نمبر :۱۱۹۸