غزة کا المناک حادثہ امت کو کیا درس دیتا ہے ؟
عربی: ادہم شرقاوی ترجمہ:حذیفہ وستانوی#
اہل غزہ العزہ. اللہ انہیں سلامت رکھے!ان پر آئے المناک حالات سے ہر غیور مرد مومن کا دل چھلنی چھلنی ہے۔ صرف مسلمان ہی نہیں،جن کے سینے میں انسانی دل ہے،وہ بھی کرب ناک صورتِ حال پر بے چین ہیں،بہت کچھ کرنے کا ارادہ کرتے ہوئے بھی کچھ کر نہیں پارہے ہیں،مجبور اور لاچار ہیں،البتہ مسلمانوں اور دنیا والوں کے لیے اس میں چند دروس ہیں۔ وہ یہ کہ
۱-غزہ کے نہتے معصوم بچوں اور عورتوں کو انتہائی بے دردی سے قتل کیا جارہا ہے،جس پر اقوام متحدہ اور انٹرنیشنل قوانین کی خاموشی اور کوئی اقدام نہیں کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ محض کاغذات پر لکھے ہوئے قوانین ہیں، اس سے زیادہ اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ اگر اس میں صداقت ہوتی تو ضرور حرکت ہوتی۔ لعنت ہو! ایسے بکاؤ اور مجرم ٹولے پر!!
۲-اس دردناک حادثے نے یہ بھی ثابت کردیا کہ یہ دنیا دجال کے آنے سے پہلے ہی دجالی سماں پیش کررہی ہے اور دجال ہی کی طرح ایک آنکھ والی بھینگی اور کانی ہے۔ ان کے نزدیک فلسطین کے بچے ؛ بچے نہیں ہیں اور یوکرین کے بچے مظلوم ہیں، گویا مسلمان اور عربوں کی کوئی قیمت نہیں ہے!!!
۳-اہل غزہ نے امت کو یہ بہت اہم سبق سکھایا کہ اپنا حق چھین کر لیا جاتا ہے، اس کی بھیک نہیں مانگی جاتی۔کوئی دنیا والا آکر آپ کو یہ نہیں کہے گا کہ آپ بہت اچھے ہو۔ لو آپ کا یہ حق ہے، اسے لے لو، بلکہ پوری دنیا بھی مخالفت کرے تب بھی ہاتھ بڑھا کر کھینچ کر اپنا حق لینا چاہیے۔
۴- غزہ پر آئے حالات نے ہمیں یہ بتایا کہ فلسطین کی آزادی ممکن ہے،نا ممکن نہیں۔ہاں! مگر اس کے لیے بڑی قربانی پیش کرنا ہو گی۔ یہ گویا فتح کی طرف بڑھتے ہوئے قدم کی جھلک ہے۔
۵-غزہ کے یہ کرب ناک احوال امت کو سبق دے رہے ہیں کہ قومیں اپنے پختہ عزائم سے کام یابی کی جانب بڑھتی ہیں۔ کوئی بھی مسئلہ صرف وہم و گمان کی بنیاد پر حل نہیں ہوسکتا۔اگر اسی طرح اہل غزہ ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھے رہتے تو کچھ نہیں ہوتا،حوصلہ اور ارادہ بلند ہونا بہت ضروری ہے۔
۶-بیچارے ہمارے ان بھائیوں پر آئے حالات غمازی کرتے ہیں کہ ہمیں جو نعمتیں میسر ہیں، اس کی قدر کریں، ورنہ آج کی ترقی یافتہ دنیا میں بھی یہ ممکن ہے کہ آپ ایک گھونٹ پانی کے لیے ترس جاؤ۔نہ روٹی نصیب ہوسکتی ہے نہ ڈھنگ سے نہانا مقدر ہوسکتا ہے۔ انسان کا چھوٹا سا گھر بھی دنیا کے بڑے بڑے بنگلوں سے بہتر ہے۔ آج وہ بیچارے گاڑیوں میں دن بِتانے پر مجبور ہیں۔لاحول ولا قوة الا باللہ!
۷-غزہ کے اس حادثے نے یہ بھی ثابت کیا کہ دور ِصحابہ جیسے مضبوط ترین ایمان کے حامل مسلمان آج بھی روئے زمین پر زندہ ہیں، جن میں ابوبکر صدیق،عمر فاروق، عثمان غنی،علی مرتضی، خالد بن ولید اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم کی روحانی ذریت آج بھی زندہ ہیں، جو دشمن کی صف میں کہرام مچانے کی طاقت رکھتی ہے،جو موت سے نہیں ڈرتی، بلکہ عکرمہ کی طرح موت پر بیعت کرتی ہے۔ قعقاع جیسی گرجدار آواز رکھتی ہے، جو دشمن کے دلوں پر دھاک بیٹھادیتی ہے،جس کی تکبیر سے زلزلہ آجاتا ہے۔اور اس ذات کے نام سے جو ہمیشہ غالب رہنے والی ہے ،بے خطر کود پڑتی ہے۔ سلام ہو!قسام کے ان جیالوں کو اور غزہ کے اصحابِ عزیمت باشندوں کوجو شہادت کی خوشی مناتے ہیں۔ اللہ اکبر!
۸-غزہ کی ہمارے بہنوں نے قسم بخدا خنسارضی اللہ عنہا کی یاد تازہ کردی۔ ایسا لگتاہے کہ ایک نہیں دسیوں ہزار خنسا ہمارے درمیان بقید حیات ہیں،جو اپنے لخت ِجگر،نور ِنظر اور پیارے بچوں کو دین ِاسلام کی خاطر اللہ کی راہ میں قربان کروانے کے لیے پورے حوصلے اور صبر و استقامت کے ساتھ تیار ہیں اور زبان حال سے گویا ہیں:کہ اے خالق ارض و سما!جتنے چاہیے بچے ہم سے لے لے بس تو راضی ہوجا! سبحان اللہ سلام ہے ان جیالی ماؤں کو۔
۹-غزہ کے معصوم اور ننھے منے بچوں کے حوصلوں کو دیکھ کر یہ کہنا پڑے گا کہ جب بچپن میں بچوں کی صحیح ایمانی اور جہادی تربیت کی جائے تو وقت سے پہلے ہی بڑے ہوجاتے ہیں اور بچپن ہی میں بہادروں جیسے جوہر دکھانے لگتے ہیں۔ گویا اصحاب الاخدود سے بچے آج ہمارے بیچ موجود ہیں۔ان سب نے اپنے آپ کو آگ کے حوالے کرکے مرنے کو تو پسند کیا،مگر اپنے ایمان کا سودا نہ کیا۔گویا یہ دین زندہ ہے ایسے لوگوں کے خون کی برکت سے اور نیک لوگوں کی آنکھوں کے آنسوؤں سے۔
میرے غیور مسلمانو! رونا دھونا بند کرواور اٹھ کھڑے ہو! اپنے بچوں کی ایسی تربیت کرو کہ وہ مستقبل میں شہادت کی موت کو اپنے لیے شرف اور کام یابی تصور کرنے لگے۔
۱۰-غزہ کے اس واقعہ نے سب سے اہم اور بڑا درس یہ دیا کہ عقیدہ نام ہے اس پر مر مٹنے کا،لکھنے پڑھنے اور صرف جاننے کو عقیدہ نہیں کہا جاتا ہے۔ذرا دیکھو تو سہی! اللہ کے ہر فیصلے پر کیسی رضامندی ان میں پائی جاتی ہے؟ اپنے پیاروں کے جسم کے ٹکڑے جمع کرتے ہوئے بھی زبان پر الحمدللہ کا ورد جاری ہے۔ کیا طویل عرصے سے دنیا نے یہ منظر دیکھا تھا، ہرگز نہیں!ایک ہاتھ سے آنسو پوچھتے ہیں اور دوسرے ہاتھ سے بکھرے ہوئے شہیدوں کے جسم کے اعضا کو جمع کررہے ہیں، گویا عقیدہ ان کے دل کے نہاں خانے میں ایسا بسا ہے کہ جسم کے ہر عضو میں اس کی چاشنی پیوست ہوگئی ہے۔