فخرالاسلام مظاہری علیگ
۱۴۹۲ء/ میں کر سٹوفر کولمبس نے امریکہ اور ۱۴۹۸ء/ میں واسکو ڈی گا ما نے ہندوستان کا بحری راستہ دریافت کیا۔ بحری راستوں کی دریافت نے یورپی اقوام کو امریکہ، جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا جیسے دور دراز علاقوں سے واقف کروایا، جس کے ساتھ ہی ایک ”نئے انسان“ (Modern man) کی دریافت ہوئی۔ نئی دنیا کی دریافت اور نئے انسان کی یافت نے جو حالات پیدا کیے،وہی نشأةثانیہ کے معنی کا تعین کرتے ہیں۔ پروفیسر محمد حسن عسکری (۱۹۱۹-۱۹۷۸ء)کے قول کے مطابق نشأةِ ثانیہ کا اصلی مطلب ہے وحی پر مبنی اور نقلی علوم کو بے اِعتبار سمجھنا اور عقلیت اور انسان پرستی اختیار کر نا۔ اسی لیے اِس تحریک کا دوسرا نام انسان پرستی (Humanism) بھی ہے“۔اور”جدید انسان کی دریافت کا مطلب تھا: جدید نظریات ورجحانات کا فروغ اور مذہبی پا بندیوں سے آزادی“۔(۱)۱۶ویں صدی عیسوی میں پروان چڑھنے والی النشأةُ الثانیہ نے مذہبی پا بندیوں کی زنجیروں کو توڑ کر خیالات کی آزادی کا موقع فراہم کیا۔اور یہ آزادی عہدِ عقلیت(Age of Reason۱۷ویں صدی)عہدِ تنویر(Age of Enlightenment۱۸ ویں صدی)اور عہدِ جدید(Modern Age۱۹ویں اور ۲۰ویں صدی عیسوی)میں برگ و بار لائی۔
کائنات،فطرت اورانسان کی حقیقت و حیثیت کے متعلق سوالا ت تو ابتدا ہی سے چلے آرہے تھے؛لیکن نشاة ثانیہ کے بعد عہد روشن خیالی کا ظہور ہوتے ہی ایک طرف سائنس نے اپنی دریافتوں اور اصولوں کے متعلق ایک حتمی رائے قائم کر لی اور قدیم سے چلے آرہے تصورات پر -جو اُس کے دائرہٴ تحقیق میں آتے تھے،اُن پر بھی اور جو اُس کے نظریہٴ علم(Epistemilogy)سے خارج تھے،اُن پر بھی- سوالیہ نشان لگا دیے۔دوسری طرف -کچھ تو محیرالعقول دریافتوں نے اور کچھ اہلِ سائنس کے شاندار ناموں کی مرعوبیت نے- لوگوں کی سوچ اور خیال میں یکسر تبدیلی پیدا کر دی۔
اِنقلاب لانے والے سائنسی اِکتشافات(Top ten scientific discoveries of all time):
حالاتِ زندگی اور خیالاتِ انسانی کو یکسر تبدیل کر دینے والی دریافتوں میں سرِ فہرست یہ ہیں:
۱:کاپرنیکی نظریہٴ کائنات(Copernicum system۔۱۵۴۳)،موجد: کاپرنیکس۔
۲:قانون ثقل(Gravity۔۱۶۶۴)،موجد:اسحاق نیوٹن۔
۳:برق(Electricity۔۱۸۲۱)،موجد:مائیکل فائریڈی۔
۴:اِرتقا(Evolution۔۱۸۵۹)موجد:چارلس ڈارون۔
۵:مشاہدہٴ جراثیم(Experiment with bacteria۔۱۸۶۰)موجد:لوئس پاسچر۔
۶:پینسلین(Penicillin۱۹۲۸)موجد:الیکزینڈر فلیمنگ۔نیز جراثیم کش ادویہ(Antibiotics -۱۹۲۱)کا موجد بھی یہی ہے)۔
۷:نظریہٴ اضافیت(Theory of relativity۔۱۹۰۵)موجد:البرٹ آئنسٹائن۔
۸:نظریہٴ اِنفجارِ عظیم(Big Bang theory۔۱۹۲۷)موجد:جارج لیمینتر۔
۹:ڈی۔این۔اے۔(D.N.A.۱۹۵۳)موجد:جیمس واٹسن اور فرانسیس کِرِک۔
۱۰:مینڈلیف کاجدول(Dmitry Mendelev’table۱۸۶۹)موجد:دیمتری مینڈلیف۔۱۹۱۳ میں ہینری موسلی نے اِس جدول کی توثیق کر دی ۔
اِس میں شک نہیں کہ یہ دریا فتیں حیرت انگیزتھیں ، جن سے تمدن کو بے حد ترقی ہوئی۔انسان کو سہولتیں اور آسائشیں فراہم ہوئیں۔صحت کی حفاظت،امراض کے اِزالے اور ہلاکت خیز صورتوں(Life threatening conditions)سے نبرد آزما ہونے کی موثر تدبیریں دریافت ہوئیں،معاشرت اور معاش کا معیار بلند ہوا اوراِستحصال کی روش پر قدغن لگے۔اگریہ سب چیزیں خدا تعالی کی شکر گزاری اورفرماں برداری میں اِضافے کا باعث بنتیں اوریہ سائنس داں اور اُن کے متبعین سرکشی و تعلّی سے خود کو بچائے رکھتے،تو انسانیت کی بہترین خدمت سمجھی جاتی۔ لیکن بے احتیاطی اِس باب میں یہ ہو ئی کہ اِن دریافتوں کی وجہ سے اہلِ سائنس کو خود بھی غلوپیدا ہوگیا۔اُنہوں نے ”قانونِ فطرت “ کے نام سے اِن دریافتوں کی ایک اساس مقرر کر لی۔ اوراُس اساس پراُنہیں ایسا ناز ہوا کہ بعض مشہو سائنس دانوں نے یہ اعلان کر دیا کہ سائنس اور مذہب کا جب بھی تعارض ہو گا، تو سائنس حق پر اور مذہب باطل پر ہو گا“۔۱ورجو محققین مذہب کو بالکلیہ ترک کرنے کے روادار نہ تھے اورایک طرح سے خدا کے قائل تھے انہوں نے بھی اتنا ضرور کیا کہ ایک طرف تو تمام علمی چیزوں میں سائنسی اصلاح (Scientific Renaissance) ضروری خیال کی، دوسری طرف مذہبی عقائد اور مذہبی اصول وہدایات کے لیے بھی سائنس ہی کو معیار سمجھ لیا؛ حتی کہ خود گلیلیو کو یہ خیالِ جازم پیدا ہوگیا، کہ سائنس اور مذہب کا جب بھی تعارض ہو، تو سا ئنس کے مطابق مذہب کی تاویل و توجیہ کرنا ضروری ہے۔ وہ عیسائی مذہب کا پیرو کار تھا؛ لیکن سائنسی رجحان کے زیر اثراُس نے یہ صراحت کی کہ :” انجیل کی تفسیر صحیفہٴ فطرت کی روشنی میں متعین کرنا چاہیے“۔
ڈاکٹر ظفر حسن لکھتے ہیں:
”۱۶۱۵ء میں․․․․گلیلیونے کرسٹینا آف لٹسکنی کو ایک خط میں ”انجیل سے اقتباسات اور اُن کی سائنسی معاملات سے مناسبت“کے عنوان سے لکھا کہ: ”میں سوچتا ہوں کہ فطرت (کائناتِ طبعیہ یعنی سائنس) کے مسائل پرکوئی بھی بحث ہو، تو ہمیں یہ نہیں چا ہیے کہ کتابِ مقدس کی سند پیش کریں؛ بلکہ ہمیں چاہیے کہ ہماری بحث کا اِنحصار تجربہ اور مشاہدہ پر ہو․․․۔ میراخیال ہے کہ فطرت (طبعی کائنات سے وابستہ امور) کے بارے میں جنہیں ہمارے حواس محسوس کرتے ہیں، یا جنہیں تجربے ثابت کرتے ہیں، کبھی بھی کوئی شک، یا شبہہ نہیں ہو نا چاہیے، فطری (اورسائنسی) نتائج کو کبھی بھی الہامی کتا بوں کی سند سے رد نہیں کرنا چا ہیے “۔(۳)جس نے آگے چل کر نئی خدا پرستی(Deism)کا تصور وضع کیا۔گویاخدا کے نام کا سہارا لگا کر مذہبی رخ سے یہ گیارہویں عظیم ترین سائنسی دریافت تھی۔اِس خدا پرستی کے تصور میں خدا تعالی کے عموم قدرت کا انکار تھا۔گویاسائنسی انقلابات (Scientific Revolutions) کی پشت پر سائنسی سوچ کا یہی وہ نقطہٴ انحراف ہے، جس کی بنا پریہ کہا گیا کہ علوم وافکار کی تا ریخ میں جب: ”لو گوں کی نخوت وبد دماغی اُس سرحد سے آ لگی، جہاں اُن پر یہ خیال مسلط ہو نے لگا کہ خدا کی اب زیادہ عرصہ ضرورت نہیں ہے، موجودہ سائنس اور سیکولرزم کی نمو پذیری اُسی نقطہ سے وابستہ ہے“(۴)
انحراف کی بنیاد :
نقطہٴ انحراف کی بنیاد در حقیقت یہ سائنسی عقیدہ ہے کہ: ”مادہ کی حرکت و حرارت سے نظام عالم قائم ہے۔ نیچرل یا طبعی قوانین (Natural or Scientific laws) اِس کے نظم کو بحال رکھتے ہیں“۔نیچر یا فطرت کے اِن قوانین میں تبدیلی نہیں ہو سکتی۔سائنس نے چوں کہ فطرت کے رازہائے سر بستہ کو کھولا ہے؛اس لیے سائنس ہی معیار ہے۔ اور وہی علم، حقیقت اور صداقت کا مصداق بن سکتا ہے جو سائنس سے حاصل کیا جائے۔اِس کا نام ”نیچر“یا”فطرت “رکھا گیا۔یعنی نیچر اورفطرت ‘جس اعتقاد اور یقین کا نام ہے،اُس کی رو سے ہر شئ اپنی طبعی خصوصیات اوراَسباب کے تحت ہی ظاہر ہوتی ہے اوراُس کے علاوہ ما ورائے طبعیات اور روحانی توجیہات سرے سے قابلِ التفات ہی نہیں۔یہ نیچر، عالم کی ہر شے میں پا یا جا تا ہے، خود انسان کے اندرون میں یہی نیچر ہوتا ہے جو خیر وشر کا فیصلہ کرتا ہے۔ ظواہراشیاء اور مظاہرِ فطرت کے علاوہ کوئی شے حقیقی اور واقعی درجہ نہیں اختیار کر سکتی۔مظاہرِ فطرت اصولوں کے ما سوا کسی حقیقت کی قطعیت اور سچائی کا اعتقاد نہیں کیا جا سکتا۔تمام قدریں اضافی ہیں جو انسان کے معاشرتی ارتقا کے نتیجہ میں عمرانی عوامل کے تحت پیدا ہوتی ہیں(۵)۔“
یہ سائنسی رجحان تھا جس کی رو سے کائنات کے تصور میں تبدیلی آچکی تھی اورنیچرل ورلڈیا صحیفہٴ فطرت کے مقاصد بدل گئے تھے۔صحیفہٴ فطرت کے مقاصد جو فلسفے اور طبیعیات کی ابتدا سے اب تک متعین چلے آرہے تھے کہ مصنوعات کی معرفت سے خالق کی معرفت تک رسائی حاصل کی جائے ۔موجودات ومخلوقات کے حادث ہونے کے مشاہدے سے موجود اصلی اور خالق عالم کی ذات،صفات اورقدرت کا اِقرارکیا جائے اور اُس کے حقوق ادا کر نے کی ایک دھن سوار رہے۔دنیا و آخرت میں تفکر کر کے موازنہ کیا جائے کہ کون قابلِ ترجیح ہے ؟کس کا نفع حادث و فانی ہے اور کس کا نفع باقی و دائمی ہے؟ لیکن اب سائنسی رجحان کے زیرِ اثر کائنات کے تصور میں تبدیلی آجانے کے بعدجب اُس کے مقاصد بدل گئے،تو اُس اِلحاد کی راہ ہموار ہو گئی جسے علم و عقل کے سامنے کبھی پھٹکنے کی ہمت نہ ہوئی تھی۔اِلحاد کے اِ س سیلِ رواں کی ذمے داربالخصوص تین دریافتیں تھیں:۱:Copernican model of universe ،۲:Newtonian physics،۳:Religious deism۔یعنی نئی طبیعیات،نئی فطرت پرستی،نئی خدا پرستی۔اِن تصورات کے ساتھ یہ پیغام شامل تھا کہ کائنات کا نظام فطرت کے چند قوانین کے ذریعے قائم ہے۔ جس وقت لاک# (۱۵۹۶-۱۶۵۰)نے فطرت کے نظریے کے ساتھ پالیٹیکل فلاسفی کی بنیادیں فراہم کیں اورنیوٹن نے ثقلِ اضافی کے نظریات کے حوالے سے وہی کام کیا(کہ ہر قاعدہ اور اصول سائنسی حقائق اور قوانین میں پوشیدہ ہے ،کوئی ما بعد الطبیعی توجیہ درست نہیں)،توجدید فلسفیوں کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ گئی کہ کائناتrational،comprehensiveاور odered ہے(یعنی عقلی نوع کی ہے، رازہائے سربستہ نہیں ہے؛بلکہ سمجھی جانے والی ہے ،خاص متعین اصول اور قانون پر ترتیب دی گئی ہے)۔کائنات کے متعلق یہ تصورات ،عقیدہٴ ”خدا پرستی“(deism)کے لیے نہایت سازگار ثابت ہوئے۔ اور اِس سازگاری کی راہ گلیلیو نے دکھائی۔کیوں کہ مغرب میں جس وقت سائنس دانوں اور فلسفیوں نے اصلاح مذہب کا بیڑا اُٹھایا ،اُس وقت سائنس کے حوالے سے گلیلیو (۱۵۶۴تا۱۶۴۲ءء)کایہ خیال سب سے پہلے سامنے آیا جو اِس نظریے کو پیدا کرنے کے باب میں خاص اہمیت کا حامل ہے کہ:
”مقدس کتابوں اور” فطرت“ دونوں کا سر چشمہ کلمہٴ ربانی ہے۔فطرت غیر متغیر اور اٹل ہے،اور اپنے قوانین سے تجاوز نہیں کرتی۔میرا خیال ہے کہ فطری نتائج کے با ر ے میں جنہیں ہمارے حواس محسوس کرتے ہیں یا جنہیں تجربے ثابت کرتے ہیں کبھی بھی کوئی شک یا شبہہ نہیں ہونا چاہیے۔فطری نتائج کو کبھی بھی الہامی کتابوں کی سند سے رد نہیں کرنا چا ہیے۔خدا اِلہامی کتابوں کے نسبت فطرت کے عوامل سے کوئی کم ظاہر نہیں ہو تا۔“
در حقیقت گلیلیو کے ذریعے ذکر کردہ اِس نظریہٴ علم(epistemology) اور پیراڈم(paradigm) میں کہ ”فطرت غیر متغیر اور اٹل ہے،اور اپنے قوانین سے تجاوز نہیں کرتی۔“ خدا تعالی کی صفات میں سے ایک اہم صفت عمومِ قدرت کا اِنکار ہے۔حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی فرماتے ہیں:
اِس نظریہٴ علم کا ” حاصل خدائے تعالی کی ایک صفتِ کمال کو خدائے تعالیٰ سے نفی کردیناہے اور وہ صفتِ کمال عمو مِ قدرت ہے۔ کیوں کہ اس زمانے کے نو تعلیم یافتوں کی زبان اورقلم پر یہ جملہ جاری دیکھاجاتاہے کہ خلاف فطرت کوئی امر واقع نہیں ہوسکتا ۔“(۷)
خدا کی صفات میں تنقیص اور مخصوص صفت کے اِنکار کا عقیدہ ہی Deismیا ”خدا پرستی “کہلاتا ہے۔خد پرستی اِسے اِس لیے کہتے ہیں کہ اِس عقیدے کے حاملین نے ملحدوں کے مقابلے میں گویا یہ احسان کیا کہ خدا کے وجود کے قائل ہوئے۔آئندہ سطور میں ہم ”خدا پرستی “کے عقیدے کی وضاحت کریں گے۔
”خدا پرستی“ کا مغربی نظریہ( Deism) :
یہ اعتقاد کہ خدا نے کائنات بنا کر اُس میں چند قوانین رکھ دیے اورکائنات کو اُن قوانین کے حوالے کر کے خود بے دخل ہوگیا۔اب اِس کائنات کا نظم و اِنصرام قوانینِ فطرت کے سہارے خود بخودرواں دواں ہے۔یہ تصور ”خدا پرستی“یاdeism کہلاتا ہے۔اِس عقیدہ کا حامل ایسے خدا کے موجود ہو نے کا قائل ہے جو کائنات کے نظام میں کسی قسم کی مداخلت،صحیفہٴ فطرت کے قوانین میں چھیڑ چھاڑ اور انسانی زندگی میں دخل اندازی سے مکمل گریز کرتا ہے۔
”خدا پرستی“ کا یہ رنگ ۱۶۹۰ سے ۱۷۴۰ کے درمیان انگلینڈ میں پروان چڑھا ۔والٹیئر (۱۶۹۴-۱۷۷۸)کی فکر کے نتیجہ میں فرانس پہنچا،وہاں سے جرمن اور امریکا۔اُن مفکرین کی اکثریت اِ سی عقیدہ کی حامل تھی جوفرانس اور امریکی انقلاب کے بانی تھے ۔ اِس تصورِ ”خدا پرستی“کے اُبھرنے اور لوگوں کا ذہن ہموار ہونے میں کامیابی حاصل ہونے کی وجہ یہ تھی کہ اِس عقیدے کے ذریعے انسان کو یہ اطمینان حاصل تھا کہ وہ اپنی دلچسپیوں کے حوالے سے خدائی مداخلت اور اُس کے احکام کی پابندی سے یکسو اور بے فکر ہے۔اِس خوش کُن تصور کے سائے میں:
”کائنات کے بارے میں ایک عمدہ تمثیل یہ تھی کہ کائنات ایک عظیم مشین ہے اور پاپائے اعظم نے اطمینان سے رائے زنی کی کہ کوئی بھی مشین جو اِس خوبی سے چلتی ہو( جیسے کہ یہ کائنات فطرت کے قوانین اور میکانیوں سے چلتی ہے)وہ بغیر ایک منصوبے کے نہیں چل سکتی۔…..جہاں کوئی کائنات کا نقشہ یا منصوبہ ہو،وہاں نقشہ بنانے والا بھی ہو گا۔یعنی پوپ نے صفات کے بغیر ہی محض خدا کے وجود پر قناعت کر لی۔پے لی(william Paley ۱۷۴۳-۱۸۰۵)جیسے مصنفوں نے خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے کائنات کے ظاہری وجود کو گھڑی کی مثال دے کر مدد لی۔یعنی اگر آپ کو ایک گھڑی زمین پر پڑی ہوئی مِل جائے،تو شاید آپ کو اُس کے فوائد یا مقاصد سمجھ میں نہ بھی آئیں؛لیکن جیسے جیسے آپ اُس پر غور کریں گے،آپ ایک دانستہ تخلیق(Consclous design)کی علامتیں پائیں گے۔اِسی طرح طبیعی دنیا(Natural world)کی حالت ہے،یعنی جتنا آپ اِس پر غور کریں گے،اُتنا ہی ظاہر ہوگا کہ اِس کے پسِ پشت کوئی تدبیر کار گر ہے۔اِسی طرح سوچتے سوچتے نہ صرف کائنات کی خوبیوں پر؛بلکہ اُس کے خالق پر دھیان جا تا ہے اور اُس خالق کے لیے انسان میں ایک عزت اور احترام پیدا ہوتا ہے۔“(۲)
اس قسم کی تمثیلوں کا” سر چشمہ پے لی کی کتاب ”فطری دینیات“(Natural theology) ہے۔…اِس کتاب میں ایک عام فہم قسم کی پارسائی(Common sense Piety)جھلکتی ہے…لیکن حقیقت یہ تھی کہ….اگر فطرت ایک بہترین طرح سے بنائی ہوئی مشین ہے،تویقیناً خدا ایک اعلی مکینک بن جاتا ہے۔اِس طرح سے اٹھارہویں صدی کی عقلی دینیات(Rational theology)سے صرف یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ خدائے تعالی بجز ایک بڑے اِنجینئر کے کچھ نہیں جس نے اول اول کائنات کی مشین کو بنایا،اُس کو حرکت میں ڈالا اور پھر اپنے حال پر چھوڑ دیا۔ در اصل یہی ”خدا پرستوں “کا موقف تھا۔“(۲)
جیسا کہ گزشتہ بیان میں یہ صراحت آچکی ہے کہ اس تصور کی ابتداسترہویں صدی عیسوی میں ہوئی اور اٹھارہویں صدی عیسویں میں اِس نے زور پکڑا۔لیکن اِس تصور میں کوئی ایسا وزن نہیں تھا کہ اپنے دم خم پر باقی رہتا۔چناں چہ خود مغرب میں اِس تصور پر تنقید سامنے آتی رہی اور اِس کے دلائل کا ضعف اور بطلان واضح ہوتا رہا۔اور ابھی ۲۱ویں صدی کا ایک تازہ مضمون:
”مغربی خدا پرستی کائنات کے فلسفی طریقہٴ استدلال کے سامنے فیل کیوں کر ہو جاتی ہے؟“
نظر سے گزرا۔ مضمون نگار رِچ ڈیم(Rich Deem)لکھتا ہے کہ: کائنات میں خدا کی عدم مداخلت کا عقیدہ فلسفہ کی نظر میں کسی حقیقت اور سچائی پر مبنی نہیں تھا؛کیوں کہ خداقادر مطلق( Omnipotent)ہے،قادر مطلق ہونے کا یہ مطلب تو نہیں کہ خدا یہ کر سکے گا اور یہ نہ کر سکے گا۔کیوں کہ منطقی طور پر قادرِ مطلق سے یہ تصور ہی محال ہے کہ وہ بعض امور کی انجام دہی میں بے بس ہو۔ایسی صورت میں تو منطق ہی غیر منطق کہلائے گی۔وجہ اِس کی یہ ہے کہ اگر یہ کہا جا ئے کہ خدا یہ نہیں کر سکتا،تو یہ بات خود خدا کے نیچر کے خلاف ہے،پھر تو وہ خدا ہی نہ رہ جائے گا۔
مضمون نگار مزید لکھتا ہے کہ:صحیح بات یہ ہے کہ خدا تعالی طبعی قوانین میں محدود نہیں ہے ؛بلکہ اُسے یہ قدرت حاصل ہے کہ وہ طبعی قوانین کو کسی بھی وقت توڑ سکے۔چناں چہ اپنی قدرت اور اپنے محبوب بندوں سے تعلق کے اِظہار کے لیے اِن طبعی قوانین کو توڑتا اورخوارق ومعجزات رونما کرتا رہتا ہے۔
مقالہ نگار کہتا ہے کہ:”خدا پرستی“کے عقیدہ کے حاملین جب یہ کہتے ہیں کہ خدا کائنات میں موجود قوانین کا پابند ہے،تو کوئی شخص یہ سوال کر سکتا ہے کہ کائنات کے یہ قوانین آئے کہاں سے؟اگر خدا یہ قوانین پیدا کر سکتا ہے،تو اُنہیں معطل کیوں نہیں کر سکتا؟اور خدا نے ایسی کائنات پیدا کیوں کی جس میں وہ خود دخل اندازی سے معذور ہے؟معلوم ہو تا ہے کہ” خدا پرستوں“ کا خدا کوئی پاگل اور بے وقوف قسم کا ہے کہ ایسی کائنات پیدا کردی جس میں خود اُس کا اپنا کوئی اختیار نہیں رہا۔“
وہ یہ بھی لکھتا ہے کہ:”مغربی خدا پرستوں کواپنے موروثی علم اور منطق(knowledge & logic)کے قابلِ بھروسہ ہونے پر بڑا ناز ہے۔اُن کا یہ بھروسہ کرنا ،خواہ خوبی کی بات ہو؛لیکن وہ اِن سوالوں کا -جو اوپر ذکر کیے گئے- جواب دینے سے بے بس ہیں۔اُن کا یہ کہنا کہ خدا کا عمل اُس کا ذاتی نہیں ہے،اِس اثر تک منتج ہو تا ہے کہ خدا کو یا تو کائنات کی تخلیق کا سلیقہ نہ آیا،یاوہ نہایت بے ڈھنگا،مکروہ قسم کا مکینک ہے۔(۸)
لَا اُشْرِکُ بِرَبِّیْ اَحَداً کی تفسیری وضاحت میں حکیم الامت حضرت تھانویفرماتے ہیں ”جب توحید ثابت ہے جس کے لوازم میں سے ہے قدرتِ کاملہ کا ثابت ہونا اور اُس کے فروع میں سے ہے اسبابِ طبعیہ کا معطل ہو سکنا،تو اِس بنا پر تجھ کو واجب تھا کہ آگے بڑھ کر مسبِّب کی طرف نظر کرتا ۔“(۹)
ایک قسم کی دہریت یہ بھی ہے :
حضرت تھانوی مزید فرماتے ہیں:” ایک قسم کی دہریت یہ بھی ہے کہ خدا تعالی کو تو مانے اور اس کی قدرت ومشیت کو کامل نہ مانے؛ بلکہ (ایک حیثیت سے)یہ پہلی قسم (کہ خدا ہی کو نہ مانے)سے بھی بدتر ہے۔ کیوں کہ یہ شخص خدا کا قائل ہے اور محض برائے نام قائل ہے۔ جیسے کوئی یوں کہے کہ فلاں بادشاہ تو ہے؛ مگر پنشن یافتہ ہے کہ اسے اختیارات کچھ نہیں۔ چنانچہ بعض لوگ خداتعالی کو ایسا قادر مانتے ہیں جیسے گھڑی کا کو کنے والا،کہ کوک بھر دینے کے بعد گھڑی کے چلنے میں اُس کے اختیار کو کچھ دخل نہیں۔ بلکہ اب وہ خود بخود چلتی رہے گی ،کوک دینے والا زندہ ہو یانہ ہو۔ جب تک کوک بھری ہوئی ہے، اس وقت تک گھڑی کو اُس کی کچھ ضرورت نہیں۔ ایسے ہی یہ لوگ کہتے ہیں کہ حق تعالی کا کام اتناہے کہ اسباب کو پیدا کردیا۔ اب اسباب سے مسببات اور عِلل سے معلولات کا وجود خود بخود ہوتارہے گا۔ نعوذ باللہ اس تاثر وتاثیر میں حق تعالی کا کچھ بھی اختیار نہیں۔ وہ اسباب سے مسبب کو مختلف نہیں کرسکتے۔“ (۱۰)
موجودہ مسلمان سائنسدانوں کی کیفیت:
حکیم الامتمزید فرماتے ہیں: ” اہل سائنس تو غضب کرتے ہیں کہ خدا کے بھی منکر ہیں۔ اور سائنس والوں میں سے جو مسلمان خدا کے قائل بھی ہیں، یہ اُن کی محض وضعداری ہے۔ ورنہ اُن کا خدا کوماننا ایساہے جیسے کوئی شخص کسی سے پوچھے کہ تو نے بادشاہ کو دیکھا ہے وہ کہے کہ ہاں دیکھاہے اس کے ایک سونڈ تھی اور ذراساسر تھا اور آنکھیں نہیں تھیں تو پہلا شخص یہ اوصاف سن کر کہے گاکہ کمبخت! تونے بادشاہ کو نہیں دیکھا نہ معلوم کس بلا کو دیکھ لیاہے بادشاہ تو ایسا بد صورت نہیں ہے یہی حال ان سائنس دان مسلمانوں کا ہے جو خدا کے قائل ہیں مگر اس کے کمالات کے منکرہیں جن میں سے ایک بڑا کمال یہ ہے﴿یَفْعَلُ مَایَشاَءُ وَیَحْکُمُ ماَیُرِیْدُ﴾۔مگر یہ لوگ کہتے ہیں کہ بس خدانے عالم کو پیدا کرکے طبیعت اور مادہ کے سپرد سارا کام کردیاہے۔ اب جو ہوتاہے وہ اسباب طبعیہ سے ہوتاہے۔ ․․․․ (نتائج و اثرات کے مرتب ہونے میں)خدا کو کچھ دخل نہیں۔ “(۱۱)
اِنحراف بہ جانبِِ اِلحاد کا منشا ذکر کرتے ہوئے حضرت تھانوی فرماتے ہیں:”سائنس والوں کا اعتقاد ہے کہ ہر چیزمیں ایک تاثیر ہے جس سے تخلف نہیں ہوسکتا(یعنی اس کے خلاف نہیں ہوسکتا۔) اور تاثیر رکھ دینے کے بعد نعوذ باللہ ! اللہ تعالیٰ کو بھی قدرت نہیں رہی کہ اُس کے خلاف ہوسکے۔ مثلاً آگ کے اندر جلانے کی تاثیر رکھ دی ہے ، اب یہ ہوہی نہیں سکتا کہ آگ نہ جلائے۔“(۱۲)
اور پھرغلطی کا اِستدراک اِس طرح فرماتے ہیں:”لیکن یہ عقیدہ باطل ہے ہر چیز پر اللہ کی قدرت ہے کسی چیز میں قدرت مستقلہ یاتاثیر ذاتی نہیں اسی لیے شرک اکبر کے افراد عقلا ممتنع ہیں۔“(۱۳)
”پانی بالذات پیاس نہیں بجھاتا وہی بجھاتے ہیں۔ آگ خود فعل نہیں کرتی، یہ بھی حق تعالیٰ ہی کا حکم ہے وہ کھانا پکادیتی ہے۔“(۱۴)
(۱)جدیدیت از پروفیسر محمد حسن عسکری۔
(۲) سر سیداور حالی کا نظریہٴ فطرت ص۱۵۹ بحوالہThe western Intellectual Tradition by J. Bronowski and Bruce Mazlish Penguin Books 1963 Great Britain.،۱۶۳،۱۶۴،۱۹۷،۱۹۸۔ادارہ ثقافتِ اسلامیہ لاہور ۱۹۹۰ءء۔
(۳)www world history/Famous modern philosopher
(۴)دیکھیے: انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا۱۹۷۰ء؛ بحوالہ: www.Scientific method.com/m5-smhistoryhtml
(۵)اسلام کی اخلاقی صورت حال از اسرار عالم،نیزانٹرنیٹ:نیچرلزم)۔
(۶)www world history/Famous modern philosopher ۔
(۷)الانتباہا ت المفیدة عن الاشتباہات المفیدة ۔
(۸)مقالہ نگار کا اصل مضمون انگریزی میں ہے۔ ملاحظہ ہو:Why deism fails as a philosophical paradigm of the universe:by Rich Deem /browse/deism،wwwdistancy.com،Deism/by branch.doctrine ،contact evidence for God from science) ۔
(۹)پ:۱۵:۳۸بیان القرآن جلد ۶ ص۱۲۲۔
(۱۰)خیر الحیات وخیرالمات ص۵-اشرف الجواب ص ۲۸۵۔
(۱۱)تقلیل الاختلاط مع الانام بہ حوالہ اشرف الجواب ص۱۹-۲۲۔
(۱۲)ملفوظات حکیم الامت جلد۲۳۔ کمالات اشرفیہ ص۲۱۷۔از: مولانا محمد عیسیٰ صاحب ۔
(۱۳)ملفوظات حکیم الامت جلد۱۰/ص۲۹۸۔جلد۴/ص۲۱۱۔
(۱۴)ایضاً۔