(اسباب ِانحطاط اور اس سے رہائی کی تدبیریں)
مولانا محمد ناظم ملی تونڈا پوری استاذجامعہ اکل کوا
انحطاط ، تنزلی ، پستی ، نکبت اورزوال جیسے نامانوس الفاظ آج امت ِمسلمہ کا لاحقہ بن گئے ہیں ، بل کہ اگریہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ روزانہ مشرق سے نکلنے والا سورج طلوع ہوتا ہے اور اپنے ساتھ ایک نئی مصیبت کی خبر لے کر نکلتا ہے۔ تو یہ کہا جاسکتاہے کہ تاریخ کے جس بھیانک موڑ سے آج امت ِمسلمہ نبرد آزما ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے کہ آج پھر ابو جہل کی ذہنیت پروان چڑھ کر پختگی حاصل کررہی ہے ۔ پھر پیغمبر اسلام کی مخالفت میں بادِ سموم چل رہی ہے ۔ اور پھر عدوان ِاسلام ‘اسلام کو دار ِارقم کی راہ دکھلانے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ آج پھر اسلام کو شعب ِابی طالب میں محصور کردینے کی سازشیں ہورہی ہیں اور خدا کے باغی دجالوں وعفریتوں اور نابکاروں نے اللہ کی سرزمین کو فسادو بگاڑ سے پر کر دینے اوربھردینے کے منصوبے گانٹھ لیے ہیں۔ شمع ِایمان کو بے نور کردینے کے لیے ہر کوشش پر آمادہ ٴپیکار ہیں،جس سے ایمان کی تب و تاب ہی ختم ہوجائے اور اس کی روشنی مدھم پڑجائے ۔ اس ضمن میں کبھی قرآن پاک جلایا جاتا ہے ، کبھی اس کی بے حرمتی کی جاتی ہے ، کبھی جوتوں اور چپلوں کے تلیوں پر مقدس آیات ِقرآنیہ نقش کی جاتی ہیں توکہیں پٹاخوں اور ٹیشو پیپر کی جگہ استعمال کیا جاتاہے ۔ خداجانے یہ شیطانی ذریت اسلام اور مسلمانوں کی ترقی وعروج سے جلے بھنے یہ کرگس کس حد تک جارہے ہیں۔ اس لیے اس سے نہ دل برداشتہ ہونے کی ضرورت ہے نہ ہی مایوس ہونے کی ضرورت ہے؛ البتہ جس کی ضرورت ہے وہ امت ِمسلمہ کا اپنے تئیں جاگنا اور بیدار ہونا ہے ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایک متحرک، فعال اور انقلابی امت کے ساتھ دنیا میں یہ ہوتا آیا ہے۔ اور امت ِمسلمہ کا یہ طرہ ٴامتیاز ہے کہ وہ اپنے آغاز کے روز ِاول سے ہی ایک صالح انقلاب کی حامل و امین امت رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج ہر ملک اورہرعلاقہ میں امت مسلمہ کو ایک نئے طریقہ کا چیلنج ہے اورایک طویل عرصہ سے ہی چیلنج قائم ہے۔ اور آئے دن روز افزوں ہے کمی کا نام نہیں ۔ اور اس چیلنج کا امت نے جس انداز سے مقابلہ کیا ہے وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔امت کہیں سرد مہری کا شکار ہوئی تو کہیں غفلت وبزدلی کا، آج ایمانی غیرت وصداقت کے وہ تیور نہیں، وہ جذبات نہیں،جو طوفانِ بلاخیز بن کر خرمن ِ باطل کو جلا کر خاکستر کردے ۔ ثبات و یقین کا وہ زلزلہ نہیں، جو ظالم وجابر عدوان ِاسلام پر کپکپی طاری کردے ، بل کہ اس کے برعکس مصائب اور انحطاط کے تسلسل سے خود امت ِمسلمہ پردہشت طاری ہے۔ ضعف اور اضمحلال چھایا ہوا ہے، ان نامساعد حالات سے نکلنے اور ان کمرتوڑ وارداتوں سے باہر آنے کے لیے دانا یان امت نے اپنے اپنے علم، تجربے اور مشاہدے سے اپنے اپنے طرز و انداز اور طور طریقے سے امت کی اس زبوں حالی اور انحطاط پر ضرب کاری لگانے کی کوششیں کی ہیں۔ ان حالات سے نکلنے کی تدابیر ، اسباب وعلل بیان فرمائے ہیں۔ اے کاش ! افرادِ امت ان دانایان امت کے رموز واشاروں کو سمجھ کر عمل پیراہوجائیں تو یقینا برف کے کھیت میں آگ لگانا اور آگ کے ڈھیر کو گلزار بنانا آسان ہوسکتا ہے۔ یعنی امت مسلمہ اپنی پستی ،نکبت وزوال اور اپنے انحطاط سے باہر آسکتی ہے۔ تاہم اس کے لیے” اپنے من میں ڈوب کر سراغ زندگی “ پانے کی جد و جہد لازمی ولابدی ہے۔ کہ کائنات کا رب خود اس بات کی تلقین فرمارہا ہے :
﴿ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیرو ا ما بانفسہم﴾
بقول شاعر
خدانے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا
ہم ذیل میں کچھ و ہ چیزیں عرض کریں گے ،جو اس وقت مجموعی طور پر امت ِمسلمہ کے لیے ضروری ہے۔ بالخصوص ہندستانی مسلمانوں کو !
گلستاں کے اجڑنے کا احساس !
متاع کارواں کے ضائع ہونے اورگلستان کے اجڑنے کا احساس اگر امت میں بیدار ہوجائے تو پھر امید ہی نہیں، یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اس کی حصول یابی اور انحطاط اور نکبت وزوال سے باہر آجانا آسان ہو گا۔ آج کوئی حساس طبیعت اوردانا وبینا دل اس بات کا انکار نہیں کرسکتا کہ آج اسلامی دنیا اور اسلامی برادری مہیب تاریکیوں اور بے پناہ سازشوں کا شکار ہے۔اغیار کی مکارانہ پالیسیوں اور طاغوت کے نشانے پر ہیں، جہاں اس کے لیے رقیبوں نے سازشوں کے جال پھیلائے ہیں؛وہیں رفیقوں نے بھی رہزنوں کے روپ میں افتاد ڈھائی ہیں اور مسلمان ہے کہ ”نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن“ کے مصداق کشمکش حیات کا اسیربن گیا۔ کفر کے علمبردار اپنی جھوٹی انا کے سہارے زمین پر دند نارہے ہیں۔ ظلم وجبر کا ایک طوفان انہوں نے کھڑاکیا ہوا ہے۔ شتر بے مہار کی طرح اپنے آپ کو آزاد تصور کرکے جہاں چاہے ، جب چاہے فتنہ کھڑا کرکے امن وامان کو خراب کردیتے ہیں اور اس تصویر میں ہیں کہ ان کوکوئی ٹوکنے والا نہیں ، ظالموں نے سچائی کے اظہار کو دہشت گردی کے نامانوس نام سے موسوم کردیا؛ وہیں بزدلی کو مصلحت کانام دے دیا۔
ایک جائزہ !
آپ دنیا کے جس خطہ یاعلاقہ پرنظر دوڑائیں آپ کو ہر جگہ شیطان کی ذریات اور طاغوتی ٹولہ طغیان وعصیان اور فسادی فتنہ کی آگ بھڑکاتے نظر آئیں گے۔ اور اس مقتل میں مسلمانوں جیسے لاچار وبے بس اور اپنے انجام کو پہنچنے کا منظر نظر آئے گا۔ فلسطین دائمی مقتل بن چکا، وہاں کا چپہ چپہ اور گوشہ گوشہ خونچکاں داستانیں سنارہا ہے۔ طرفہ تماشہ یہ کہ دنیا صرف تماشہ بین بنی ہوئی ہے،بہت ہوا تو کسی آرگنائزر نے کوئی ریزیولیشن پاس کرلیا (نفاذ کا تو کوئی سوال ہی نہیں)بس اس سے آگے نہ کوئی سوچ ہے نہ کوئی فکر۔ عصمت مآب خواتین متفکرہیں، ہزاروں شیر خوار بچے داغ یتیمی کو پہنچ چکے ہیں، ہزاروں بوڑھے ماں باپ اپنا سہارا کھوچکے ، بس آہوں کا ازدحام اور چیخوں کا تلاطم ہے او راس درمیان مسلمان اپنے آپ کو بے بس تصور کررہاہے؛ حالاں کہ یہ صحیح نہیں ہے۔ علامہ اقبال تڑپ کر فرماتے ہیں
ہفت کشور جس سے ہو تسخیر بے تیغ وتفنگ
تو اگر سمجھے تو تیرے پاس یہ ساماں بھی ہے
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
ورنہ گلشن میں علاج تنگی داماں بھی ہے
اس ضمن میں ملک شام ہے ، جہاں بدنام زمانہ اور شیطانی چیلہ رافضی بشار الاسد لعنة اللہ علیہ وجنودہ؛ جس نے اپنے ہی ملک میں باہر کی اسلام دشمن طاقتوں کا کام کیا۔ اورصحیح العقیدہ مسلمانوں کے لیے جینا دوبھر کردیا،بستیوں کی بستیاں نشان زدہ کر کے آگ و بارود برسا برسا کر ان کو تہہ ِخاک کردیا۔ اور تاہنوز یہ سلسلہ جاری ہے اور کم و بیش تیس لاکھ کے قریب لوگ اس ظالم اور اس کی فوج کے ظلم کا شکار ہوگئیاور قرآن مجید کی تصریح کے مطابق ﴿بارکنا حولہ﴾سجی سجائی بابرکت وبارونق بستیاں ملک ِشام کی کھنڈرات میں تبدیل ہوگئیں ، یہی حال یمن ، افغان اور عراق کا بھی ہے۔ برما آج تک مسلمانوں کے لیے سوہانِ روح بنا ہوا ہے۔ چیچنیا ، یوگوسلاویہ ، الجیریا ، نائیجیریا، لنکا ، نیپال اوربھارت میں بھی ایسے ہی یا کچھ کم و بیش حالات ہیں۔ ہندستان میں ہجومی تشدد ، مآب لنچنگ ، لوجہاد اور گئو ہتیا کے نام پر اور کبھی C.A.A، N.P.R، N.R.C کے ذریعہ سرکاری وغیر سرکاری طریقے پر مسلمانوں کو ہر اساں کرنے کی کوششیں ہیں ۔وہیں تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کو فساد برپا کرکے قید و بند میں ڈھکیلا جا رہا ہے۔ برما کی داستان سن کر تو جگر چھلنی ہوجاتا ہے ، جہاں چنگیز و ہٹلر کی روحیں بھی شرمندہ ہوجاتی ہوں گی۔ اور کچھ کیے بنا عنادل موسم بہار کا سپنا سجائے اپنے آشیانوں میں غافل بیٹھے ہیں۔ کسی زمانہ میں مفکر قوم و ملت مرحوم علامہ اقبال نے فرمایا تھا
چھپاکر بجلیاں رکھی ہیں گردوں نے آستینوں میں
عنادل باغ کے غافل نہ بیٹھے آشیانوں میں
مگر اب وہ بجلیاں ظاہر ہوچکی ہیں۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے:
دنیا کے نقشہ پر غالباً ۵۶/ اسلامی ممالک ہیں اور دنیا میں نمبر ۲ / کی بڑی آبادی مسلمان ہے اور بلا سے قدرت نے ساری دنیا کو قابو میں رکھنے کا ریموٹ کنٹرول اورپاور ، تیل، ڈیژل اور پٹرول کی شکل میں مسلمانوں کے ہاتھوں میں دے دیا ہے۔ ان کے پاس گیس کے قدرتی ذخائر ہیں، ان کی زمینیں عود و عنبر ، زعفران ،زیتون اور خشک میوہ جات سے لبریز ہیں ، سونے کی کانیں والے پہاڑ بھی موجود ہیں ۔ نیز زمین کا ایک بڑا حصہ ان کے زیر ِاثر ہے۔ دنیا کی نامی گرامی فوجوں اورفورس میں ان کی فوج اور فورس کو ایک مثالی مقام حاصل ہے ، موجودہ دور کے طاقت ور ایٹمی ہتھیاروں سے بھی وہ مالا مال ہیں ۔ باوجود ان تمام امتیازات کے ان کی بے وقعتی وبے وزنی بھی قابلِ دید ہے ۔ کیا کبھی ہم نے اپنے دل سے یہ کڑوا مگر سچا سوال بھی کیا؟ کہ سب کیسے اور کیوں ہورہا ہے ؟ کیوں انحطاط کی مالا ہمارے ہی گلے کا ہار بن گئی؟ ذلت ، نکبت ،زوال اور پستی ہمارے ہی ماتھے کا قشقہ کیوں بن گئی؟ رسوائی ہمارے ہی دیار و جدار اور گھروں کا کیوں طواف کررہی ہے ؟ ایک عرب سے زائد ہماری تعداد ہے اور توانائی اور ٹکنالوجی سے بھی ہم بھر پور ہیں ، کیا نہیں ہے ہمارے پاس ؟ مگر یہ بھی ایک سچائی ہے کہ ہم سے اپنی عبادت گاہوں کی حفاظت نہیں ہوسکی، یہود بے بہبودفلسطین میں مسجد اقصیٰ کو لے اڑا۔ تثلیث کے علمبرداروں نے مسجد ِقرطبہ چھین لی!اور پتھر کے پجاریوں اور برہمنوں نے بابری مسجد کا تیاں پانجاں کردیا! یہ کڑوی سچائیاں ہیں اور اتنہائی تلخ حقائق ! ان حقائق کا جب ہم جواب تلاش کریں گے تو بڑا صاف ستھرا جواب ہم کو مل جائے گا۔
ہاتھ بے زور ہیں الحاد سے دل خوگر ہیں:
ہمارے اپنے ان سوالوں کا جواب مفکرین ِملت اورقوم ِمسلم کے بہی خواہوں نے دیا ہے ۔ اسی ضمن میں مرحوم ڈاکٹر اقبال کو خدا بخشے انہوں نے کیا ہی خوب فرمایا تھا
تھے ہمیں اک تیرے معرکہ آراوٴں میں
خشکیوں میں لڑتے کبھی صحراوٴں میں
دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساوٴں میں
کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراوٴں میں
شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہانداروں کی
کلمہ پڑھتے تھے ہم چھاوٴں میں تلواروں کی
ہم جو جیتے تھے جنگوں کی مصیبت کے لیے
اورمرتے تھے تو تیرے نام کی عظمت کے لیے
تھی نہ کچھ تیغ زنی اپنی حکومت کے لیے
سر بکف پھر تے تھے کیا دہر میں دولت کے لیے
قوم جو اپنی زر ومال جہاں پہ مرتی
بت فروشی کی عوض بت شکنی کیوں کرتی
مزید ارشاد فرماتے ہیں:
ٹل نہ سکتے تھے اگر جنگ میں اڑجاتے تھے
پاوٴں شیروں کے بھی میداں سے اکھڑ جاتے تھے
تجھ سے سرکش ہوا کوئی تو بگڑ جاتے تھے
تیغ کیا چیز ہے ہم توپ سے لڑجاتے تھے
نقش ِتوحید کا ہردل میں بٹھایا ہم نے
زیر خنجر بھی یہ پیغام سنایا ہم نے
یقینا یہی داستانیں ہیں ہمارے آبا واجداد کی۔ ہمارے اسلاف اور بزرگوں کی کہ وہ ماسوا اللہ کے کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ وہ قیصر وکسریٰ کے دربار میں بھی ایسی شان ِبے نیازی اور شان ِاستغنائی کے ساتھ پہنچے تھے۔ زر و جواہر اور مال و منال کے ڈھیر اور ان کی فوجی طاقت وقوت کی پرواہ کیے بغیر ان کی زبانیں ان کی اندر کی کڑھن کا یوں اظہار کیا کرتی تھی۔ لنخرجن العباد من عبادة العباد الیٰ عبادة رب العباد ومن جور الادیان الی عدل الاسلام ۔ ان کا نہاں خانہٴ دل اللہ کی کبریائی ، اس کی عظمت سے لبریز اور ان کی حیات کا قیمتی سرمایہ عشق رسول تھا۔ وہ تڑپ کر بلا خوف وخطر ، یہ کہا کرتے تھے : ’ ’ أاترک سنة حبیبی لہٰوٴ لاء الحمقاء “وہ جب بھی اسلام اور ایمان میں کمزوری کی بات آتی ، ارکان اسلام میں کتر بیوت کا کوئی شائبہ بھی نظر پڑتا ،تو ان کی زبان پریہ نعرہٴ مستانہ رقص کرنے لگتا:” أینقص الدین وانا حی ؟ “ نہیں ہرگز نہیں ۔ میرے ہوتے ہوئے دین کے کسی امرمیں کمی واقع نہیں ہوسکتی؟ وہ خدا ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کے ایسے دیوانے اور لقائے رب کے ایسے مستانے اور مشتاق تھے کہ تلواریں برس رہی ہیں ، تیرآآکر لگ رہے ہیں اور جان جان آفریں کے سپر د کررہے ہیں۔ ایسے میں ان کی زبانیں دل کی رفیق ہوکر یہ اعلان کرتی ہیں: ”فزت ورب الکعبة“ ربِ کعبہ کی قسم میں تو کام یاب ہوگیا۔ یہ ان کا فلسفہٴ حیات تھا اور ہمارا فلسفہ ٴحیات ان سے بالکل جدا گانہ ہے۔ ان کے پاس معاش ومعیشت کا معقول انتظام نہیں تھا، مگر وہ اٹھے تھے توحید کی مشعل لے کر دنیا کے سامنے دنیا کی سب سے بڑی سچائی کہ ” اللہ “ ایک ہی ہے۔ ان کی اس سچائی کے ابلاغ وترسیل نے زندگی کی ہمہ جہت تاریکی کوروشنی ونور سے بدل دیا۔ اور ایسا بدلا کہ انسانی فکر و شعور کی قلب ِماہیئت کرکے رکھ دی ۔ حالات کے طوفان ِتندو تیز کے ایک ایک زاویہ پر بصیرت مندانہ نظر ڈالی ، ہر مخالف قوت کو زیر کردیا ۔ کلمہٴ حق کی دعوت اور شمع ِایمان کو روشن رکھنے کے لیے وہ کشمکش کی بھٹیوں میں بے خطر کود پڑے۔ ایک صالح نظام ِحیات قائم کرنے کے لیے وہ بیباکانہ اٹھ کھڑے ہوئے، خود دارانہ شان کے ساتھ چلنے کے لیے غیرت مندانہ طرز اپنایا ، جھوٹی شہرت سے اوپر اٹھ کر انہوں نے بے لوث وہ کار نامہ انجام دیا ، جو دوسروں کے لیے راہبر و راہ نما بن گیا۔ یہی تضاد وتفاوت ہے جو ہمارے انحطاط کا ایک سبب ہے ۔ یقینا انہی خطوط پر گامزن ہوکر ہم قعر ِمذلت سے باہر آسکتے ہیں۔
اقبال پھر تڑپ کر ارشاد فرماتے ہیں
اے تصور ہاں دکھادے پھر وہی صبح وشام تو
لوٹ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تو
تیرے کعبے کو جبینوں سے سجایا ہم نے
تیرے قرآن کو سینوں سے لگایا ہم نے
پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ ہم وفادار نہیں
ہم وفادار نہیں تو بھی تو دل دار نہیں
پھر آگے جواب ِشکوہ میں اپنے اس مزعومہ خیال کی تردید کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
صفحہٴ ہستی سے باطل کو مٹایا کس نے ؟
نوع ِانساں کو غلامی سے چھڑایا کس نے؟
مرے کعبے کو جینوں سے بسایا کس نے ؟
مرے قرآں کو سینے سے لگایا کس نے؟
تھے تو وہ آبا تمہارے ہی مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فرد ا ہو
سچائی یہ ہے کہ مسلمان آج تک اسی زعمِ باطل میں مسحور ہے کہ ” پدرم سلطان بود“ ۔مگراس سے کیا حاصل؟ اقبال اس مزعومہ خیال سے باہر نکالنے ،جو حقیقت میں انحطاط کا ایک سبب ہے؛ اسی کا علاج تجویز فرماتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ باپ دادا نے جو کچھ کیا ، وہ ان کا اپنا کردار تھا ، ہاں وہ محفل سجا کر رخت ِسفر باندھ چکے ، اب تک قوموں کو ان کی حکایات یاد ہیں ، مگر تم کیا ہو؟ کس کے منتظر ہو؟ تم بھی غفلت ، جہالت اور بزدلی کے خول سے باہر آوٴ اور انہیں کی طرح کارنامے انجام دے کر اسلاف کے سچے سپوت ہونے کا ثبوت دو۔ پھر دیکھو جس رب ذوالجلال نے انہیں ترقی کے بام ِعروج تک پہنچایا تھا، اس کا معاملہ تمہارے ساتھ بھی کیا ہوتاہے ، اس کے الطاف اورمرا حم ِخسروانہ اور اس کی عنایتیں تمہارے کاشانوں کا بھی کیسے طواف کرتی ہیں۔
اس کے الطاف تو عام ہیں شہیدیں سب پر
تجھ سے کیا ضد تھی جو تو کسی قابل ہوتا
اپنے آپ کو تو اس قابل بناوٴ! تمہارے لیے اس نے دمِ آخر تک ایک کام کا انتخاب کررکھا تھا : ﴿کنتم خیر امة اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنہون عن المنکر ﴾کے تم حامل وامین تھے ، مگر سچائی یہ ہے کہ اس سے تم بہت دور ہو۔ اس فرض ِمنصبی کی کوتاہی ہی زوال وانحطاط کا سبب بن رہی ہے ۔ تم اجتماعی وانفرادی ہر زاویے سے اس کے مکلف تھے، مگر اس کا کیا علاج کے تم خود آپس میں انتشار کا شکار ہوگئے!
کچھ بڑی بات تھی جو ہوتے مسلمان بھی ایک :
تم افتراق و انتشار کے ایسے اسیر ہوگئے کہ بھائی بھائی سے متنفر ، بیٹا باپ سے نالاں ،ماں بیٹا اور بیٹی سے شاکی ؛ اس سے آگے امام سے مقتدی، آپس میں ایک دوسرے سے دست بگریباں ، حکمراں اوررعایا میں جوڑ نہیں اور راجا وپرجا ایک دوسرے سے گریہ کناں۔ ۵۶/ اسلامی ممالک ؛مگرایک دوسرے سے الجھے ہوئے، اتفاق واتحاد تو گویا عنقا ہے ۔ اقبال اسی تشنت اور انتشار کو امت کے زبوں حالی اور انحطاط کا سبب گردانتے ہوئے فرماتے ہیں
فرقہ بندی ہیں کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
انتشار کی اس نحوست کا نتیجہ یہ ہے کہ امت جو بنیان ِمرصوص تصور کی جاتی تھی، اب اس کا تصور اور دھاک دنیا سے رخصت ہورہا ہے اورجس کا اثر ہم اپنی گناہ گار آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ کوئی بھی ملک اپنی مسلم رعایا کے ساتھ کیا کیا سلوک کررہا ہے ۔ برما اس کی مثال ہے اور بھارت میں C.A.A.، N.R.C.اورN.P.Rاس کا ثبوت ۔
اقبال مزید ایک ایسی علت بیان کرتے ہیں ، جس کے آئینے میں ہرآدمی اپنے آپ کودیکھ سکتا ہے۔اقبال کہتے ہیں
کون ہے تارک آئین رسول مختار
مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار ؟
کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعار اغیار ؟
ہوگئی کس کی نظر طرز سلف بیزار
قلب میں سوز نہیں روح میں احساس نہیں
کچھ بھی پیغامِ محمد کا تمہیں پاس نہیں
ہاں ہاں اب وہ افراد کہاں ؟ جن کے قلب کی سوزش اور ان کا احساس ہمیشہ زندہ وتابندہ تھا۔ اور وہ یہ تھا کہ ان کو اپنے ہر عمل میں پیغام محمدی صلی اللہ علیہ وسلم پاس ولحاظ ہوتا تھا۔ اور وہ قرون اولیٰ کے مسلمان تھے، جو رأفت ورحمت کا پیکر تھے، انسانیت کا روشن مینار تھے۔ انہو ں نے الحاد اور بے دین نظریات پر ضرب ِکاری لگائی تھی ۔ ان کے سینے ایمانی قمقموں سے شررآباد تھے ، انہوں نے اپنی حیات ِتازہ کا سارا لہو شجر ِاسلام کی آبیاری پر لگایا تھا ۔ انہوں نے کفر وشرک کا تعاقب کیا تو باوجود اس راہ کی ہزاروں رکاوٹوں اور دشواریوں کے وہ ان کے قدموں کو بیڑیاں نہ پہناسکیں ! انہوں نے دنیا کو پیغام ِامن دیا تو دنیا حقیقت میں امن کا گہوارہ بن گئی اور انسانیت کی کشت ِویراں میں بہار آگئی ۔ اور وہ دنیائے انسانیت کے لیے نشان ِمنزل بن گئے ۔ چراغ ِہدایت اور روشنی کا مینار بن گئے۔ اور انہیں اسلام کے مردانِ کار اور ابطالِ جلیلہ کے دم خم سے دنیا کی اجڑی ہوئی بہاریں رعنائیوں اور شادابیوں میں تبدیل ہوگئیں۔ انہوں نے انسانیت کے دلوں کی کایا پلٹ دی ، وہ جہاں گئے زمانہ ان کے پیچھے دوڑ پڑا ، انہو ں نے آواز لگائی اور ہر ذی گوش صدا برگوش ہوگیا۔ہاں ہاں ……یہی ہے ہمارے اسلاف کی داستان! آج تاریخ ہم سے سوال کرتی ہے … بڑا چبھتا ہوا سوال ؟ وہ یہ کہ یہ داستانیں بھی تمہارے ہی آبا وٴ اجداد کی ہیں۔ ع
دشت تو دشت ہے دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحرِ ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے
کہ بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑانا سمندر پار اتر کر کشتیاں جلا دینا، ضلالت وجہالت کی مادی دنیا کو علوم وفنون سے آشنا کرنا ؛تاریخ ،طب ،سائنس ،ہندسہ ، اقلیدس ، ریاضی ، جغرافیہ ، کمیسٹری ، بائیولوجی اور فزکس وغیرہ یہ سب تمہارے ہی اسلاف کی دہائی دیتے ہیں ؟ یقینا قوموں کو اب تک تمہاری حکایات یاد ہیں۔
مگر اس کا کیا علاج ؟ کہ تم اپنی حکایات وداستان بھول گئے ؟ زمانہ تو بڑے شوق سے سن رہا تھا،مگر تم ہی داستا ں کہتے کہتے سوگئے۔ اور ”عبد اللہ کی شادی میں بیگانے دیوانے بنے پھر رہے ہو“ سچ تو یہ ہے کہ حالات کے تھپیڑوں نے تمہیں بہت دور لے جاکر پٹخ دیا اور تم منجمد ہوگئے ہو۔
اور نوبت ایں جابر سید “ کہ تمہارا نہاں خانہٴ دل احساس زیاں سے بھی محروم ہوگیا۔ اقبال تڑپ کر اپنے رب سے امت کی بیداری اور اس کے جواں سال ہونے کی استد عا کرتے ہوئے فرماتے ہیں
یارب دلِ مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
جو روح کو تڑپادے جو قلب کو گرما دے
پھروادیٴ فاراں کے ہر ذرہ کو چمکا دے
پھر شوقِ تماشا دے پھر ذوقِ تقاضا دے
محرومِ تماشہ کو پھر دیدہٴ بینا دے
دیکھا ہے جو کچھ میں نے اوروں کو بھی دکھلادے
بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل
اس شہر کے خوگر کو پھر وسعت بینا دے
پیدا دلِ ویراں میں پھر شورش محشرکر
اس محمل خالق کو پھر شاہد لیلیٰ دے
اس دور کی ظلمت میں ہر قلب پریشاں کو
وہ داغِ محبت دے جو چاند کو شرمادے
احساسِ عنایت کر آثار مصیبت کا
امروز کی شورش میں اندیشہٴ فردا دے
میں بلبل ِنالاں ہوں اس اجڑے گلستاں کا
تاثیر کا سائل ہوں محتاج کو داتا دے
کلام اقبال اور اس دعا کے ایک ایک بند اورایک ایک لفظ پر غور کیجیے ۔ اقبال نے امت کے زبوں حالی اور زوال وپستی سے نکلنے کے لیے اپنے رب سے کیا کیا مانگا ہے ؟ اس ایک مصرعہ پر توجہ دیجیے ساری حقیقت ہمارے انحطاط کی ہمیں سمجھ میں آجائے گی اوراس کا علاج بھی درج ہے کہ یہ زبوں حالی؛ خوش حالی میں کیسے تبدیل ہوگی ؟ یہ زوال عروج سے کیوں کر متبدل ہوگا؟ فرماتے ہیں: ” بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل“ یہ ڈاکٹر مرحوم کی اپنی تعبیر اوراسلوب ِبیان ہے۔ ان کا اپنا ذوق و انداز ہے ،وہ کہنا چاہتے ہیں کہ در اصل امت کا پیارے آقا اور ان کے مطیع ومنقا د اور سچے عاشقین ؛یعنی صحابہ کرام اور تابعین وتبع تابعین نیز اپنے اسلاف کی ڈگر چھوڑنا ہی سببِ نکبت وزوال ہے اور پھر دوبارہ اسی کی طرف عود کرنااور لوٹنا اسی طرح تعلیم و تبلیغ اورصلاح و فلاح کی مشعل اپنے ہاتھوں میں لے کر اٹھناامت ِمسلمہ کے عروج کے لیے کافی وضروری ہوگا؛ مگر تا ہنوز امت آج بھی کش مکش کا شکار ہے۔ اور اتنے تھپیڑے کھانے کے باوجود بھی اس کا احساس نہیں۔
سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ اورکیوں ہورہا ہے؟ تاریخ ہمیں اس کا بڑا تلخ جواب دیتی ہے۔
تاریخ کہتی ہے :
جب پیرحرم ہی حرم کی رسوائی پر آمادہ ہوجائے۔جب پاسبانِ حرم ہی حرم میں لات ومنات کو جگہ دینے پر راضی ہوجائے، جب خود اعتمادی اور خدااعتمادی کی بنیادیں ڈھادی جائے۔تو پھر یہی ہوتا ہے کہ شاہین صفت پیشانیاں کرگسوں ، ابابیلوں اور کنجشک فرومایہ سے بھی بدکنے لگتی ہیں۔ شجاعت وبہادری ساحل بکنار ہوجاتی ہے ، معروف کی جگہ منکر کا راج ہوتا ہے ۔ انصاف عدالتوں میں سسکتا ہے، حیا کا آنچل اتر جاتا ہے ۔ شرم کی ڈور سکڑ جاتی ہے اور مصلحتوں کی قینچی ز بان ِحق کو کاٹ لیتی ہے ۔ قوموں کے مقدر بگڑ جاتے ہیں اور پھر نکبت وزوال انحطاط کا مقدر بن جاتے ہیں۔
گلشن میں علاج تنگی ٴ داماں بھی ہے :
ہم ببانگ ِدہل کہتے ہیں ۔ امت کو زوال سے اوپر اٹھنے کے لیے منجملہ تدابیر او رراستوں کے؛ سب سے پہلے اس راستہ اور تدبیر کو اختیار کرنا ہوگاکہ آج امت جہاں کھڑی ہے ، وہیں سے اپنے اسلاف کے کردار کی طرف لوٹ جائے۔ ان کی باقیاتِ صالحات کواپنے قلب وجگر میں جگہ دے اور احقاق حق وابطالِ باطل کے لیے دہرمیں دیوانہ وار گھوم جائے۔
اقبال کہتے ہیں ایک زمانہ تھا
ہرمسلمان رگ باطل کے لیے نشتر تھا
اس کے آئینہ ہستی میں عمل جوہر تھا
جو بھروسہ تھا اسے قوت بازو تھا
ہے تمہیں موت کا ڈر اس کو خدا کا ڈر تھا
دنیا جہاں کا یہ قانو ن ہے کہ اگربیٹا باپ کی صفات سے متصف نہیں ہے، تو اس کو وہ مقام حاصل نہیں ہوسکتا اور امت کی حالت یہ ہے کہ جس کو اقبال یوں فرماتے ہیں
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر
اور ہم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر
ہائے اقبال اللہ آپ کی روح کو تازگی بخشے :
آج دنیا میں ہوڑ لگی ہے ، دہریوں ، ناستکوں ، ملحدوں ، دین بیزار خدا بیزار کافروں ، مشرکوں ، یہودونصاریٰ کی چماچم زندگیوں کو دیکھ ان کی خدا بیزار ثقافتوں اور تہذیبوں کی چکاچوند کو ملاحظہ کرکے حاملینِ قرآن کا رپردازانِ اسلام رال ٹپکانے لگے۔ اور انہوں نے اسلامی تہذیب سے چشم پوشی اختیار کرلی ہے ، جس کے سبب امت ِمرحومہ کی عزت کوسیندھ لگ گیا۔ ان کی رفعتیں کافور ہوگئیں اور وہ صرف اور صرف اس لیے کہ تم تارکِ قرآن ہوگئے۔ گویا بظاہر قرآن گھروں میں ، لڑکیوں کے جہیز میں اورمرحومین کے ایصال ِثواب کے لیے ہاتھو ں میں موجود ہیں ؛ تاہم جو فلسفہ قرآن ِمجید انسانوں کی حیات ِمستعار کے لیے متعین کرتا ہے ، وہ مفقود ہے ۔ اب بھی قرآنِ مجید ہی کو امت اپنا رہبر ورہ نما بناکر زندگی کی راہوں پر گامزن ہوجائیں ،اس کو اپنی زندگی پر منطبق کرکے اس کی اشاعت اور ترسیل وتبلیغ پر گامزن ہوجائیں۔ تویقینا شاعر کا یہ خیال شرمندہٴ تعبیر ہوگا۔
کہ زمانہ آج بھی قرآن ہی سے فیض پائے گا
مٹے گی ظلمت ِشب اور یہ سورج جگمگائے گا
ہمارے لیے اپنا رشتہ قرآن اورصاحب قرآن سے استوار کرنا لازمی ہے ، جس کے بغیر ہماری دنیا بھی اندھیری اور آخرت بھی تاریک ہوگی۔
مزید وضاحت کرتے ہوئے اقبال کا قلم گوہر باری کرتاہے اور نشتر چلاتاہے۔ وہ کہتا ہے
تم ہو آپس میں غضبناک وہ آپس میں رحیم
تم خطا کار و خطابین وہ خطا پوش وکریم
چاہتے سب ہیں کہ ہو اوج ثریا پہ مقیم
پہلے ویسا کوئی پیدا کرے تو کرے قلب سلیم
آگے فرماتے ہیں
شور ہے کہ ہوگئے دنیا سے مسلماں نابود
ہم نہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود
وضع میں تم ہو نصاریٰ توتمدن میں ہنود
یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائے یہود
یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتاوٴ تو مسلمان بھی ہو
اقبال ان مسلمانوں کی خبر لیتے ہوئے فرمارہے ہیں ،جومسلمان توہیں اوراپنی مسلمانی کا دعویٰ اپنی لمبی لمبی زبانوں سے کرتے بھی ہیں۔یایوں کہیے جن کو مسلمان رہتے ہوئے یہودی، نصرانی اورہندوانہ تہذیب وثقافت اور کردار و کریکٹر کو محبوبیت اورپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ، شعارِ محمدی ان کو نہیں بھاتا ، جس پر دنیا وآخرت کے سنوارنے کے وعدے ہیں ، قرآن ِکریم پکار پکار کر کہتا ہے : ﴿قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ﴾ ایک جگہ ارشاد ہے : ﴿لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنة ﴾ اورفرمایا﴿ وعد اللہ الذین آمنوا منکم وعملوا الصٰلحٰت یستخلفنہم فی الار ض کما استخلف الذین من قبلکم ﴾۔
ان تمام کا ماحصل یہی ہے کہ جس کلچر اور ثقافت اور جس تمدن کا تعلق محمد رسول اللہ ﷺکے اسوہٴ حسنہ سے ہوگا ، وہ رہتی دنیا تک کا م یابی کی ضمانت ہوگا۔ برعکس ہر اس تہذیب اورثقافت کے جس کا تعلق اسوہٴ حسنہ ﷺسے نہ ہوگا، وہ مرد ود ہوگا اور ناکامی کی بھینٹ چڑھے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ ساری دنیا کی خوش حالیاں سمٹ کر چلی آتی ہیں ، جب لوگوں کے دلوں میں اور ان کے ظاہر وباطن میں اسوہٴ محمدی پروان چڑھتا ہے اور ذلتیں رسوائیاں اورزوال و انحطاط کا نام ونشان نہیں ہوتا؛ پھر اقبال کو دعا دیجیے فرماتے ہیں
کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں