عمل اور نیکی میں نیت کا دخل

انوار نبوی ا      چوتھی قسط:

درسِ بخاری: حضرت مولانا حذیفہ صاحب وستانوی

مرتب: محمد ہلال الدین بن علیم الدین ابراہیمی

            الحمدللہ! مدیر شاہرا ہ حضرت مولانا حذیفہ صاحب کے دروسِ بخاری، مسلم اورترمذی، کا سینکڑوں صفحات پر مشتمل درسی مسودہ تیار ہے،جس میں عمدہ بحثیں اور مفید باتیں شامل ہیں۔ ان دروس میں آپ کا شوقِ مطالعہ اور محققانہ مزاج صاف جھلکتا ہے؛ذہن میں یہ بات آئی کہ درسِ حدیث کے ان مباحث کو جو مفید ِعوام و خواص ہیں ، مضمون کی شکل دے کر قارئین کی خدمت میں پیش کیا جائے۔درس کا اکثر حصہ ؛جو خالص علمی اور تحقیقی تھا،تذکیری پہلو اور عوام کی رعایت میں اسے شامل نہیں کیا گیا ہے۔ دعا کریں کہ درس ِحدیث کتابی شکل میں آجائے تو ساری بحثیں اس میں شامل ہو جائیں گی، جس کی علمی حلقے میں پذیرائی یقینا ہوگی۔

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

            وَبِہ قَالَ حَدَّثَنَا الْحُمَیْدِيُّ قالَ حدَّثَنَا سُُُُُُُُُُُُُفْیَانُ قَالَ حدَّثنَا یَحْیَ بنُ سَعیدِ الَانصاريُّ،قَالَ اَٴخْبَرَنِيْ مُحَمَّدُ بنُُ ابرَاہیمَ التَّیْمِيُّ اَٴنَّہ سمِعَ عَلقمةَ بنَ الوقَّاصِ الَّیْثِيَّ یقولُ:سمعتُ عُمرَ بنَ الخَطَّابِ رَضیَ اللہُ عنہُ علَی المِنبرِ قالَ:سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ علیہِ وَسلَّمَ یَقُوْلُ:اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ، وَاِنَّمَا لِکُلِّ امْرِیءٍ مَّا نَوٰی، فَمَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُہ الٰی دُنْیَا یُصِیبُہا، اَٴوْ الٰی امْرَأةٍ یَنْکِحُھَا، فَہِجْرَتُہ اِلٰی مَا ھَاجَرَ اِلَیْہِ۔(بخاری)

ترجمہ:امام بخاری نے فرمایا: کہ ہم سے بیان کیا امام حمیدی نے اور حمیدی کہتے ہیں کہ ہم سے بیان کیا سفیان نے،وہ فرماتے ہیں ہم سے بیان کیا یحییٰ بن سعید الانصاری نے وہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے بیان کیا محمد بن ابراہیم تیمی نے اور وہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے علقمہ بن وقاص سے سنا اور وہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہوئے سنا ،اس حال میں کہ حضرت عمر منبر پر تشریف فرماتھے۔ حضرت عمر بن خطاب فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ”تمام اعمال کا مدارنیتوں پر ہے اور یقینا ہر شخص کے لیے وہی ہے، جس کی اس نے نیت کی،لہٰذا جس کسی نے دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے نکاح کی خاطر ہجرت کی تو اس کی ہجرت اسی چیز کے لیے ہوگی، جس کے لیے اس نے ہجرت کی ہے“ ۔

”النیات“ یہاں نیت لغوی مراد ہے یا اصطلاحی؟

            انما الاعمال بالنیات: نیت سے مراد یہاں کیا ہے؟ نیتِ لغوی مراد ہے، یا نیت اصطلاحی ؟ تو اس سلسلہ میں حافظ ابن حجر رحمة اللہ فرماتے ہیں: کہ نیت سے مراد یہاں پر معنیٴ لغوی ہے۔اور لغت کے اعتبار سے نیت کہتے ہیں کسی چیز کا ارادہ کرنا۔

            البتہ امام بدر الدین العینی فرماتے ہیں:نیت سے مراد یہاں معنیٴ اصطلاحی ہے۔ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دنیا میں لغت بیان کرنے کے لیے نہیں بھیجا گیا؛ بل کہ شرعی احکام بیان کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے لغت تو ایک نعمت زائدہ ہے؛اسی لیے یہاں پر معنیٴ اصطلاحی وشرعی مراد ہوگا۔

             شریعت کے اعتبار سے نیت کی تعریف: شریعت کے اعتبار سے نیت کی ہر ایک نے اپنے اعتبار سے تعریف کی ہے۔اس کی سب سے بہترین تعریف امام بیضاوی نے کی ہے۔امام بیضاوی فرماتے ہیں: اِنبِعاثُ القَلبِ نَحْوَمَا یَراہُ مُوَافِقًالِغَرْضٍ مِنْ جلبِ نَفْعٍ او دفعِ ضَر ٍّ حالاً أو مآلاً۔

( فتح الباری:۱/۱۳)

            ”انسان کے دل کا کسی چیز میں اپنی منفعت یا دفع مضرت کو دیکھ کر مائل ہونااور اس کے لیے آمادہ ہونا“۔مطلب انسان کو کسی بھی کام کی انجام دہی کے لیے ارادہ کی ضرورت پڑتی ہے۔انسان نماز پڑھنے کا ارادہ اسی وقت کرتا ہے، جب اس کو نماز میں منفعت یا دفع مضرت نظر آتی ہے، اگر انسان کو نماز میں کسی قسم کا فائدہ نظر نہ آئے تو وہ کبھی بھی نماز پڑھنے کے لیے آمادہ نہ ہو۔

نماز کے فوائد وفضائل اور انسان کی سستی:

            انسان تو اتنا سست ہو چکا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اتنے سارے فوائد بیان کرنے کے بعد بھی نماز کو پسِ پشت ڈال دیتا ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کی بے شمار فضیلت بیان کی، کہیں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی فضیلت بیان کی، کہیں تکبیراولی کی فضیلت کو ذکر کیا،کبھی فرض نماز کے متعلق بتلایا تو کبھی سنتوں کے بارے میں بیان کیا، اتنی ساری فضائل کی احادیث اللہ نے اپنے رسول کے زبان سے اسی لیے کہلوائی کہ انسان ان فوائد و منفعت کو دیکھتے ہوئے اور وعیدوں سے بچنے کی صورت میں ہی عمل کی کوشش کریگا، ورنہ تو وہ کچھ عمل نہیں کرے گا؛ جیسا کہ آج ہمارا مشاہدہ ہے۔

 عقل مند انسان کا مقصد:

             عقل مند انسان کوئی بھی کام کم از کم دو مقصد مد نظر رکھتے ہوئے کرتا ہے:(۱) ذاتی فائدہ۔(۲)یانقصان سے حفاظت ۔یا تو نفع کا پہلو سامنے رکھتا ہے یا نقصان سے بچنے کی فکر کرتا ہے،خواہ وہ دنیوی فائدہ یا نقصان ہو یا اخروی، تب جاکر وہ کوئی عمل کرتا ہے۔ اسی کو امام بیضاوی نے کہا ہے: کہ خواہ دفع مضرت ہو یا جلب منفعت ،فی الفور ہو یا مستقبل میں۔

            اگر انسان سے بازار جانے کے لیے کہا جائے اور اس حکم میں اسے نہ کسی قسم کا فائدہ اور نہ ہی کسی قسم کا نقصان ٹلتے نظر آرہا ہو تو وہ بازار نہیں جاتا، اس کے با وجود بھی اگر وہ بازار جاتا ہے تواسے بے وقوف سمجھا جاتا ہے ۔

سب سے بڑے بیوقوف:

            اسی لیے جو حضرات گٹکا کھاتے ہیں، بیڑی پیتے ہیں، تویہ لوگ امام ائمة الحمقاء ( نہایت ہی بے وقوف) لوگ ہیں۔اس لیے کہ ان چیزوں کے پیکٹ پر لکھا ہوا ہوتا ہے کہ ان کے کھانے سے کینسر جیسی جان لیوا بیماری ہوجاتی ہے۔ اس کے باوجوج بھی کوئی اسے کھاتا ہے تو دنیا میں اس سے بڑا بے وقوف اور کون ہو سکتاہے؟

عربی زبان کی فصاحت:

            عربی زبان بھی کتنی پیاری زبان ہے عقل کا مادہ ”عین، قاف ، لام“ استعمال ہوا، اور اکل کے لیے ”الف، کاف، لام“؛ مطلب عقل کے حروف وزنی ہیں اور اکل کے حروف ہلکے ہیں، اسی لیے ائمہٴ لغت خاص طور پر امام ابن جنّی ہر کلمہ میں حرف اصلی کے اصل معنی بیان کرتے ہیں،ان کی کتاب کا نام ”سِرُّصناعةِ العَرب“ ہے۔ ابن جنی نے اپنی اس کتاب کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ عربی زبان کے کسی کلمہ میں اگر الفاظ گاڑھے ہیں، یعنی مستعلیہ میں سے ہیں، تو اس کا معنی بھی اتنا ہی زیادہ وزنی ہوگا، اور اگر کسی کلمہ میں الفاظ ہلکے ہیں،تو اس کا معنی بھی ہلکا ہوگااور جس چیز پر اس لفظ کا اطلاق ہو گا وہ بھی ہلکا ہوگا۔اسی لیے عقل کا اطلاق ایک عظیم چیز پر ہوتا ہے اس کے لیے حروف ِمستعلیہ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔اللہ نے اسی لیے اپنی کتاب اور اپنی شریعت کے لیے عربی زبان کا انتخاب کیا؛اس میں جتنی خصوصیات پائی جاتی ہیں دنیا کی کسی زبان میں اتنی خصوصیتیں نہیں پائی جاتیں۔

قول کے لیے نیت ضروری ہے یا نہیں؟

            نیت کے سلسلہ میں شراح حدیث نے ایک بحث یہ کی ہے کہ قول کے لیے نیت ضروری ہے یا نہیں؟ ھَلْ یَحْتَاجُ الْقَوْلُ النِیَّةُ أَم لا؟ اس سلسلے میں علمائے کرام کے مختلف اقوال ہیں:بعض حضرات کا کہنا یہ ہے کہ قول کے لیے نیت شرط نہیں ہے،اس لیے کہ قول عمل نہیں ہے، اور نیت عمل کے لیے شرط ہے۔

            البتہ حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں: کہ قول کے لیے نیت کے شرط ہونے میں شیخ الاسلام بلقینی کا قول ہے : القَوْلُ یَحْتَاجُ النِیَّةَ،کہ قول بھی نیت کا محتاج ہے۔اس لیے کہ عمل ہر اس شئ کو کہا جاتا ہے، جس کو انسان اپنے اختیار سے کرے،توقول بھی انسان کے اپنے اختیار سے صادر ہونے والا ایک عمل ہے؛ جیسے انسان اپنے جوارح سے کوئی کام کرتاہے تو اس کے لیے نیت ضروری ہے،اسی طریقے سے قول کے لیے بھی نیت ضروری ہے۔ اگر انسان سبق پڑھائے،اور اس نیت سے سبق پڑھائے تا کہ طلباء کچھ بن جائیں، اور میرے لیے صدقہٴ جاریہ بن جائے، اللہ راضی ہوجائے تو اس کا یہ پڑھانا کارِ ثواب ہے۔اور اگر وہ اس لیے پڑھائے تاکہ تنخواہ مل جائے، یا میری واہ واہ ہو جائے، تو ظاہر سی بات ہے ایسی نیت کرنے سے سبق پڑھانے والے کو کوئی فائدہ حاصل ہونے والا نہیں ہے، غلط نیت کی وجہ سے اس کا یہ پورا عمل اکارت اور بے کار ہو جائے گا۔

کیا نیت بھی نیت کی محتاج ہے؟

            شارحین حدیث نے نیت کے سلسلے میں دوسری بحث یہ کی ہے کہ: کیا نیت بھی نیت کی محتاج ہے؟ ”ھَلِ الِنِیَّةُ تَحْتَاجُ الیٰ النِیَّةِ؟کیا نیت بھی نیت کی محتاج ہے؟ یعنی آدمی جب کسی عمل کے لیے نیت کررہا ہوگا تو کیا اس وقت اس شخص اس نیت کے لیے بھی نیت کرنا ہوگا، یا صرف عمل کی نیت کرلینا کافی ہوگا۔

             اس سلسلہ میں حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:اِتَّفقَ العلماءُ اَنَّ النِّیةَ لا تَحتاجُ اِلَی النِّیَّةِ۔نیت نیت کی محتاج نہیں ہے۔ اس لیے کہ اگر نیت کے لیے بھی نیت کی ضرورت ہو، تو اس صورت میں تسلسل لازم آئے گا، تو ایسی جگہوں پر جہاں پر تسلسل لا متناہی ہو تو اس عمل کو ضروری قرار نہیں دیا جاتا۔

( فتح الباری: ۱/۱۳۶)

ثواب میں نیت کا اثر:

            امام غزالی فرماتے ہیں: کہ انسان اپنے جوارح سے جن امور کو انجام دیتا ہے وہ کل تین طرح کے ہوتے ہیں:

(۱) …طاعات۔

(۲)… معاصی۔

(۳)…مباحات۔

            اور مزید فرماتے ہیں کہ انسان طاعات میں جتنی اچھی نیت کرے گا ،اتنا ہی اس طاعات کا وزن بھی بڑھتا چلا جائے گا، اتنا ہی زیادہ وہ عمل عند اللہ مقبول ہو گا، اور انسان جتنا کم درجہ کی نیت کرے گا ،اتنا ہی کم ثواب کا مستحق ہوگا، اور یہ ہی مفہوم قرآن کریم میں بھی ہے، وَلِکُلٍ دَرَجَاتٍ مِمَّا عَمِلُوْا وَلِیُوَفِّیَہُم أَعْمَالَہُمْ وَہُمْ لَا یُظْلَمُوْن۔َ (الاحقاف:۱۹)

گناہ میں نیت کا اثر:

             امام غزالی فلسفی، فقیہ اور اصولی تھے۔علوم ِمعقولہ، علوم منقولہ اور علوم ِباطنیہ کے ماہر تھے؛بریں بنا ان کا کلام بھی اتنا ہی گہرا اور معنی خیز ہوا کرتا ہے۔آپ فرماتے ہیں: جیسے نیت کا اثر طاعات پر پڑتاہے، ایسے ہی نیت کا اثر معاصی پر بھی پڑتاہے ۔ انسان کوئی گناہ کرتاہے، اور اس گناہ کو انجام دینے میں جتنی خراب نیتیں کرتا ہے، اتنا ہی زیادہ وہ سزا کا مستحق ہوتا ہے،اور اس گناہ کو نامہ ٴاعمال میں اتنا ہی زیادہ شدت کے ساتھ لکھا جاتا ہے۔ جیسے کوئی آدمی چوری کرے، اور اس کی نیت صرف چوری کرنے کی ہو تو اس کو صرف چوری کا گناہ ہوگا، لیکن اس نے چوری کرنے میں یہ نیت بھی شامل کرلی کہ چوری کر کے میں صاحب ِمال کو اذیت پہنچاوٴں گا ،تو وہ ایک عمل سے دو گناہ کا مرتکب ہوگا: ایک تو چوری کا، اور دوسرا صاحب مال کو تکلیف پہنچانے کا، اور اگر اس شخص نے مزید خراب نیت کی تو اس کا گناہ نیت کی قباحت کی وجہ سے اتنا ہی سخت ہوتا چلا جائے گا۔

مباح امور میں نیت کا اثر:

            اسی طرح آپ فرماتے ہیں: کہ نیت یہ مباحات میں بھی اثر انداز ہوتی ہے،اگر مباح کام کو انسان اچھی نیت سے کرتاہے،تو اس صورت میں نیت جتنی اچھی کرے گا ،اتنا ہی زیادہ اس مباح کام کے کرنے میں ثواب کا مستحق ہوگا۔ جیسیکسی نے میکینیک کی دکان کھولی جو کہ ایک مباح عمل ہے،اور ساتھ ساتھ وہ خدمتِ خلق کی نیت کرتاہے کہ اے اللہ میں”اِبْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللّٰہ“ آپ کی رضا کے لیے مخلوق کی خدمت کررہاہوں کہ رستہ چلتے مسافر کی تکلیف وپریشانی کو دور کروں تویہ چھوٹا سا عمل مخلوق ِخدا کی راحت رسانی اوراللہ کی رضامندی کی نیت سے، اباحت کے درجے سے نکل کر عبادت کے مرتبہ کو پہنچ گیا اور جس قدر نیت میں مخلص اور جزبے میں قوت ہوگی ،اسی درجے میں اس کا ثواب ملے گااور بسا اوقات تویہ بظاہر دنیا دکھنے والا مباح عمل بڑی بڑی عبادتوں پر فوقیت لے جاتا ہے۔

حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کی نیکی میں حرص:

             حضرت ابو بکر صدیق اور عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہما کا مشہور واقعہ ہے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ ٴتبوک کے موقع پر مسلمانوں کے لشکر کے تعاون کے لیے اعلان کیا ، اس موقع پر حضرت ابو بکر وعمر رضی اللہ تعالی عنہما نے اس تعاون میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سوچا کہ اس مرتبہ تو میں ابو بکر سے بازی لے جاوٴں گا،اس کے بعد جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکرسے دریافت فرمایا: اے ابو بکر گھر پر کیا چھوڑ کر آئے؟تو کہا: ابقیت لہم اللہ ورسولہ۔گھر میں جو کچھ تھا سب لے کر آیا، صرف اللہ اور اس کے رسول کو گھر پر چھوڑ آیا ہوں،اس کے علاوہ کچھ نہیں چھوڑا۔ حضرت عمر  سے پوچھا تو کہا کہ آدھا لے کر آیا، اور آدھا چھوڑ کر آیا۔ حضرت ابو بکر اگر چہ کمیت ومقدار کے اعتبار سے حضرت عمر فاروق سے کم لائے تھے، لیکن نیت کی وجہ سے فوقیت لے گئے۔

 (ابوداوٴد: رقم الحدیث: ۱۶۷۸)

            اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:میرے صحابہ میں سے اگر کوئی مٹھی بھر سونا اللہ کے راستہ میں صدقہ کرے ،اور بعد میں آنے والا احد پہاڑ کے برابر سونا صدقہ کر دے ، تب بھی وہ صحابہ کے مٹھی بھر سونے کے صدقہ کرنے کے ثواب کو نہیں پہونچ سکے گا۔

( ابو داوٴد: رقم الحدیث: ۴۶۵۸)

            امام غزالی فرماتے ہیں نیت انسان کے اعمال وافعال پر اتنا زبردست اثر کرتی ہے کہ اس سے زیادہ ثواب اور عند اللہ مقبولیت کے اعتبار سے کوئی چیز موٴثر نہیں ہوسکتی۔

معرفتِ الہٰی کے لیے نیت شرط ہے یا نہیں؟

             شارحین حدیث نے ایک مسئلہ اور معرفت الہی میں نیت کا اٹھایاہے۔ (شارحین حدیث میں سے تین ائمہ سب سے زیادہ مسائل اٹھاتے ہیں:۱۔ حافظ ابن حجر عسقلانی۔۲: علامہ بدر الدین عینی۔۳:اور امام کرمانی)۔

             حافظ ابن حجر عسقلانی معرفت ِالٰہی کے سلسلے میں بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں:معرفتِ الہی دو طرح سے ہوتی ہے۔(۱) معرفتِ الہی بوجہ مّا۔(۲) معرفتِ الہی نظرا الی الدلائل۔

             پہلی صورت میں معرفت الہی کے لیے نیت شرط نہیں ۔ مطلب انسان چیزوں کو دیکھتاہے، اللہ کی قدرت کو دیکھتا ہے، تو اللہ کی معرفت خود بخود اسے حاصل ہو جاتی ہے۔اگر انسان تھوڑی عقل دوڑائے،اور سوچے کہ اللہ نے انسان کو کس طرح بنایا؟ غور کرے کہ اللہ نے پہاڑ کیسے بنایا؟ درختوں کو کیسے بنایا؟ جس کی قرآنِ کریم خود دعوت دیتاہے: فَلْیَنْظُرِ الِانْسَانُ مِمَّ خُلِقَ، خُلِقَ مِنْ مَاءٍ دَافِق،یخرُجُ مِن َبینِ الصُّلبِ وَالتَّرائِبِ۔(سورة الطارق: ۵) تو اس صورت میں معرفت الہی کے لیے نیت شرط نہیں ہے۔

            البتہ دلائل کے اوپر نظرکرے اور ان دلائل کے ذریعہ وہ کیا چاہتاہے؟اس کی تعیین کرے تو اس کے لیے نیت کی ضرورت ہو گی۔مطلب یہ کہ انسان ان ساری چیزوں کودیکھنے کے بعد اللہ رب العزت کی معرفت حاصل کرکر اس کا قرب چاہتاہے، تو اس صورت میں نیت کی ضرورت ہے۔ اور اگر ان سب چیزوں کو دیکھنے کے بعد بھی اس کی نیت معرفت ِ الٰہی کی نہیں ہے، بل کہ اس کی کوشش صرف ریسرچ ،تحقیق دنیوی قوانین اور قدرت کے قوانین کو جاننا اور اپنے مفاد کے لیے اس قدرت کو استعمال کرنا ہے تو ظاہر سی بات ہے ایسی نیت سے اس کو معرفت الہی کا حصول نہیں ہوگا۔

تفکرِ کائنات میں سائنسدانوں کی نیت:

             جیسا کہ ہمارے زمانے کے سائنس داں، فلاسفہ اور تعلیم یافتہ لوگ کرتے ہیں۔ گرچہ یہ حضرات بہت محنت کرتے ہیں، لیکن ان کی ساری محنت قدرت کی چیزوں کے تسخیر اور اس کو اپنے تابع کرنے کے لیے ہوتی ہے۔ ان کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ ان چیزوں کو جاننے کے بعد وہ اللہ رب العزت کی قدرت سے واقف ہوں،اور واقفیت کے ذریعہ اللہ کی رضا اور اس کی معرفت حاصل کریں، جس کی وجہ سے اللہ کے یہاں ان کی ساری محنتیں اکارت اور بے کار ہو جاتی ہیں اور اس محنت پر ان کو کوئی اجر نہیں ملتا ۔خلاصہ ٴ کلام یہ کہ ”نظرا الی الدلائل “ دلائل کی طرف دیکھتے ہوئے نیت کا اعتبار ہوتا ہے، کہ انسان کس نیت سے محنت کررہا ہے۔

 مثال:    

            جیسے کورونا کے زمانہ میں، کورونا کا علاج تلاش کیا گیا۔اگر اس میں انسان یہ نیت کرتا کہ اللہ کی مخلوق کی خدمت کرکے اللہ کو راضی کرنا ہے، تو اس کا مکمل ریسرچ عبادت بن جاتا اور اس پر ثواب مرتب ہوتا؛ لیکن نیت یہ کی کہ میں سب سے پہلیویکسین لے آوٴں،تاکہ خوب پیسہ بناوٴں ، تو ظاہر سی بات ہے اس کی محنت کا محور دنیا بن گئی،تو اس پر وہ ثواب کا مستحق نہیں ہو گا۔

توحید کے لیے نیت شرط ہے یا نہیں؟

             شراح حدیث نے نیت سے متعلق مزید ایک بحث چھیڑی ہے کہ:توحید کے لیے نیت شرط ہے یا نہیں؟اللہ کی وحدانیت کے لیے نیت شرط ہے یا نہیں؟

            اس سلسلہ میں بعض حضرات نے کہا: توحید کا تعلق اعتقاد سے ہے۔ اور حدیث میں” انما الاعمال بالنیات “آیا ہے۔ انما اعتقاد الاعمال نہیں کہا گیا ہے؛لہذا ان حضرات کے مطابق توحید اور اعتقادات کے لیے نیت ضروری نہیں ہے۔

 (فتح الباری: ۱/۱۳۵)

            البتہ امام خطابی جو بخاری شریف کے بہت بڑے شارح ہیں،وہ فرماتے ہیں کہ توحید یہ” رأس الطاعات والعبادات“ ہے۔ ساری عبادتوں اور ساری طاعتوں کی بنیاد ہے۔ اس میں نیت سب سے اہم اور بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔اس وجہ سے اعتقاد کو آپ اعمال سے خارج نہیں کر سکتے؛ کیوں کہ اعمال کی جو پیچھے تعریف کی گئی اس میں آپ نے پڑھا کہ اعمال میں قول بھی داخل ہے، اعمال میں جوارح سے کیے جانے والے کام بھی داخل ہیں، اور اعمال میں قلبی افعال بھی داخل ہیں ،تو اس تعریف کے بنا پر اعتقاد بھی اعمال میں داخل ہے۔

( اعلام الحدیث: للخطابی: ۱/ ۱۱۳، رقم الحدیث: ۱)

            میری رائی بھی یہی بن رہی ہے کہ امام خطابی نے بالکل صحیح کہا ہے، اس لیے کہ بعضے توحید و وحدانیت کے تو قائل ہوتے ہیں، مگر وحدانیت کو مان کر اللہ کو ماننے کا جذبہ ان میں نہیں ہوتا؛دنیا میں ایسے بہترے لوگ ہیں، جو وحدانیت کے تو قائل ہیں؛ لیکن اللہ کی باتوں کے قائل نہیں ہیں۔

            جیسے وحید الزماں خان صاحب نے اپنی کتاب میں لکھا ہے،کہ سائنسی تحقیق کے بعدیہ نتیجہ اخذ کیا گیاہے کہ انسان ایک ماں باپ سے ہی وجود میں آیا ہے۔ اب تک سائنس داں لوگ یہ کہتے تھے کہ انسان ترقی یافتہ بندر ہے۔اور اب جا کر سائنس داں لوگوں کی ایک جماعت یہ کہنے لگی کہ ایسا نہیں ہوسکتاہے،اس لیے کہ آج تک کسی چھوٹے سے کیڑے کو بھی کسی دوسری چیز میں تبدیل ہوتا ہوا دیکھا نہیں گیا، تو انسان بندر کی ترقی یافتہ شکل کیسے ہو گی؟

            ان سائنسدانوں نے مانا کہ انسان ایک ماں باپ سے پیدا ہواہے،لیکن انہوں نے اس بات کو اعتقادی طورپر نہیں اپنایاکہ قرآن وحدیث نے اسے بیان کیاہے،بل کہ انہوں نے اپنے تجربات کی روشنی میں اسے مانا ہے۔ اور اس کے بعد کہا :جب انسان ایک ماں باپ سے بنا ہے تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان کو بنانے والا بھی ایک ہے۔اس سے یہ معلوم ہوا کہ سائنس دانوں نے وحدانیت کا تو اقرار کیا، لیکن اس اقرار کی بنیاد اللہ کی معرفت و طاعت نہیں؛ بل کہ ان کا تجربہ اور مشاہدہ ہے۔ اسی لیے بہت سارے حضرات غلو کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سائنس دانوں میں بہت سے حضرات مومن ہوتے ہیں۔

موٴمن کسے کہہ سکتے ہیں؟ 

            موٴمن کسے کہہ سکتے ہیں؟علمائے کرام کے نزدیک یہ ایک مسئلہ ہے۔

            حضرت سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ سے ایک روایت مروی ہے: کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ صحابہ کے درمیان مال تقسیم کیا،لیکن ایک شخص کو نہیں دیا، تو میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا:کہ أَعط فلان فإنہ مُوٴمنٌ ، فلاں کو بھی دے دیجیے وہ موٴمن ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے چہرے کی طرف دیکھا،اور فرمایا: أَو مسلمٌ ۔

(مسلم: رقم الحدیث: ۱۵۰)

            ایمان کا تعلق دل کی کیفیت سے ہے، اور کون دل سے اللہ کو مانتا ہے اور کون نہیں،یہ اللہ کے علاوہ اور کون جان سکتا ہے؟اس لیے ہر ایک کو مومن کہنے سے احتراز کرنا چاہیے اور مسلمان کہنا چاہیے؛کیوں کہ انسان ظاہر ِحال کا مکلف ہے، تو ظاہر میں اگر کوئی شخص کسی کو نماز پڑھتا ہوا دیکھے، اور روزہ رکھتا ہوا پائے تو وہ گواہی دے کہ فلان شخص مسلمان ہے۔

نیت کیسے کی جائے؟

             شارحین ”کیفیة النیة“ کے سلسلے میں بھی بحث کرتے ہیں، کہ نیت کیسے کی جائے؟ یعنی یہ کہ نیت میں صرف دل کا ارادہ کر لینا کافی ہے یا پھر زبان سے بھی تلفظ ضروری ہے، اس سلسلے میں علمائے کرام کے مختلف اقوال ہیں:

            (۱) مالکیہ کا قول ہے کہ دل سے ارادہ کرلینا کافی ہے، تلفظ باللسان ضروری نہیں، اوربقیہ مذاہب کے مطابق اپنے عمل میں خشوع وخضوع پیدا کرنے کے لیے زبان سے سراً تلفظ کرنا مستحب ہے۔

( الفقہ الاسلامی وأدلتہ: ۱/ ۱۶۳)

            ہاں البتہ جب انسان زبان سے جہراً تلفظ کرے ،تو اس صورت میں اہل سنت والجماعت کابدعت ہونے پر اتفاق ہے۔اس لیے کہ کتاب وسنت سے جہراً نیت کرنا ثابت نہیں ہے۔

( مرقاة المفاتیح: ۱/۴۲)

نیت ہر عبادت میں ضروری ہے یا نہیں؟

            پھر اس کے بعد شارحین حدیث اس پر بحث کرتے ہیں کہ نیت کس عبادت میں کرنی چاہیے ؟ آیا نیت صرف عبادتِ مقصودہ میں کرنی چاہیے یا پھر عبادت ِغیر مقصودہ میں بھی نیت ضروری ہے۔ اس سلسلہ میں شوافع، حنابلہ اور مالکیہ کے ہاں پر النِیَةُ لِکُلِّ العِبَادَةِ، نیت ہر عبادت کے لیے ہے؛بل کہ امام احمد ابن حنبل اور امام مالک کے نزدیک تو معاملات میں بھی نیت ضروری ہے۔

            لیکن اس تعلق سے احناف کا مذہب یہ ہے کہ عبادت میں نیت کرنا مطلق ضروری نہیں ہے؛بل کہ عبادت کی دو قسمیں ہیں:(۱) عباداتِ محضہ: جسے عباداتِ مقصودہ بھی کہتے ہیں۔ (۲) عباداتِ غیر محضہ: جن کو وسائل اور ذرائع عبادت کہتے ہیں۔ احناف کے یہاں پہلی قسم عبادات ِمقصودہ میں نیت شرط ہے۔ یعنی نماز، روزہ، حج، زکوٰة کے لیے نیت شرط ہے،کیوں کہ یہ عباداتِ مقصودہ ہیں،لیکن جو عبادات عبادات مقصودہ نہیں ہیں، بل کہ وسیلہ اور ذریعہ ہیں، تو ایسی عبادتوں کے لیے نیت شرط نہیں ہے۔جیسے وضو کرنا تو اس کے صحیح ہونے کے لیے نیت شرط نہیں ہے۔( الاشباہ والنظائر لابن نجیم: ۱۷)

(جاری…………)