عمل اور نیکی میں نیت کا دخل

انوار نبوی                                                                      دوسری قسط:

درسِ بخاری: حضرت مولانا حذیفہ صاحب وستانویؔ

مرتب: محمد ہلال الدین بن علیم الدین ابراہیمیؔ

            الحمدللہ! مدیر شاہرا ہ حضرت مولانا حذیفہ صاحب کے دروسِ بخاری، مسلم اورترمذی، کا سینکڑوں صفحات پر مشتمل درسی مسودہ تیار ہے۔جس میں بڑی عمدہ بحثیں اور مفید باتیں ہیں۔ آپ کے دروس میں آپ کا شوقِ مطالعہ اور محققانہ مزاج صاف جھلکتا ہے؛لہذا ذہن میں یہ بات آئی کہ درسِ حدیث کے ان مباحث کو جو مفید ِعوام و خواص ہیں، قدر ِمرتب کرکے مضمون کی شکل دے کر قارئین کی خدمت میں پیش کیا جائے۔درس کا اکثر حصہ؛جو خالص علمی اور تحقیقی تھا،تذکیری پہلو اور عوام کی رعایت میں اسے شامل نہیں کیا گیا ہے۔ دعا کریں کہ درس ِحدیث کتابی شکل میں آجائے تو ساری بحثیں اس میں شامل ہو جائیں گی، جس کی علمی حلقے میں کافی پذیرائی کی امید ہے۔

بِسْمِ اللّہ الرَّحْمنِ الرَّحِیْمِ

            وَبِہ قَالَ حَدَّثَنَا الْحُمَیدِيُّ قالَ حدَّثَنَا سفیَانُ قَالَ حدَّثنَا یَحیَ بنُ سَعیدِ الَانصاريِّ،قَالَ اَئخبَرَنِي مُحَمَّدُ بنُُ ابرَاہیمَ التَّیمِيِّ اَئنَّہ سمِعَ عَلقمۃَ بنَ الوقَّاصِ الَّیثِيِّ یقولُ:سمعتُ عُمرَ بنَ الخَطَّابِ رَضیَ اللہُ عنہُ علَی المِنبرِ قالَ:سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ علیہِ وَسلَّمَ یَقُوْلُ:اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ، وَاِنَّمَا لِکُلِّ امرِیءٍ مَّا نَوٰی، فَمَن کَانَت ھِجرَتُہ الٰی دُنْیَا یُصِیبُہا، اَئو الٰی امرَأۃٍ یَنْکِحُھَا، فَہِجْرَتُہ اِلٰی مَا ھَاجَرَ اِلَیْہِ۔(بخاری)

ترجمہ:امام بخاریؒ نے کہا: کہ ہم سے بیان کیا امام حمیدی نے اور حمیدی کہتے ہیں کہ ہم سے بیان کیا سفیان نے،وہ فرماتے ہیں ہم سے بیان کیا یحییٰ ابن سعید الانصاری نے وہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے بیان کیا محمد بن ابراہیم نے اور وہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے علقمہ بن وقاص سے سنا اور وہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہوئے سنا،اس حال میں کہ حضرت عمر منبر پر تھے۔ حضرت عمر بن خطاب فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ”تمام اعمال کا مدارنیتوں پر ہے اور یقینا ہر شخص کے لیے وہی ہے، جس کی اس نے نیت کی،لہٰذا جس کسی نے دنیا حاصل کرنے کے لیے یا کسی عورت سے نکاح کی خاطر ہجرت کی تو اس کی ہجرت اسی چیز کے لیے ہوگی، جس کے لیے اس نے ہجرت کی ہے“۔

انبیاء ورُسل علیہم الصلاۃ والسلام کے انتخاب میں قلب و نیت کا تعلق:

             یہ دنیا دار الاسباب ہے۔اسبابی طور پر لوگوں کی ہدایت کے لیے اللہ رب العزت نے رسولوں کو منتخب فرمایا اور اس انتخاب میں اللہ نے دلوں کو دیکھا  ”ابرھم قلوبا“سب سے زیادہ پاکیزہ دل ان لوگوں (انبیاء علیہم السلام) کے ہیں۔تو انسانوں میں جو سب سے زیادہ پاکیزہ قلوب کے حامل تھے، اللہ نے ان کا کیا اورانتخاب کرنے میں قلوب کی طرف نظر کی۔اور نیت کا تعلق بھی قلب سے ہے۔ نیت کی درستگی کا اثر قلب پر ہوتاہے اور جب قلب درست ہوتاہے، تو قلب کا اثر جوارح پر پڑتاہے کہ انسان کا دل درست ہونے سے ہاتھ پاؤں بھی درست ہونے لگتے ہیں۔

اعضاء کے درست ہونے کا مطلب؟یہ ہے کہ اللہ کے حکم کے مطابق ہاتھ کام کرے گا،اللہ کے حکم کے مطابق پاؤں چلے گا،اللہ کی مرضی کے مطابق زبان بولے گی،اللہ کی مرضی کے مطابق آنکھ دیکھے گی،اللہ کی مرضی کے مطابق کان سنے گا؛تو ہر چیز اللہ کی مرضی کے مطابق ہوگی۔ حضراتِ صوفیاء کرام تو یہ کہتے ہیں:کہ اللہ رب العزت کا عرش یہ انسان کا دل ہے۔انسان جتنا اپنے آپ کو گناہوں سے دور رکھ کر اپنی نیتوں کو درست کرتاہے،اسی قدر اعمال درست ہوتے ہیں، اوراتنا ہی وہ اللہ سے قریب ہوتاہے۔

            اسی لیے تو قرآن نے کہا:وَنَحنُ اَقرَبُ اِلَیہِ مِن حَبلِ الوَرِیدِ۔(سورہ ق:۶۱)

            ترجمہ:اور ہم انسان کے اس قدر قریب ہیں کہ اس کی رگ گردن سے بھی زیادہ۔

اللہ کے عرش پر مستوی ہونے کا کیا مطلب؟

             ہم اہل سنت والجماعت اور فرق ِباطلہ کے درمیان مستقل ایک بحث ہے،کہ اللہ عرش پر مستوی ہے، تو اللہ کے عرش پر مستوی ہونے کا کیا مطلب؟ اس لیے کہ قرآن میں فرمان ہے:وَھُوَ مَعَکُم اَینَمَا کُنتُم۔(الحدید:۴)تم جہاں کہیں بھی ہو،اللہ تمہارے ساتھ ہے۔

       ”استوی علی الْعرش“(الحدید:۴)اللہ عرش پر مستوی ہوگیا۔

             سوال پیدا ہوتاہے یا تو اللہ کو عرش پر مانو تو ہر جگہ نہیں مان سکتے۔انسان کی اپنی سوچ کے اعتبار سے اور اگر ہر جگہ مانو تو عرش پر نہیں مان سکتے۔

ذاتِ باری تعالی کے سلسلہ میں جہمیہ کا عقیدہ:

             جہمیہ کا یہ کہنا ہے کہ اللہ ذات کے اعتبار سے عرش پر بھی ہے اور ہر جگہ بھی ہے۔حالاں کہ اللہ نے جب پہاڑ پر تجلی کی تو وہ ریزہ ریزہ ہوگیا،تو ہر چیز اللہ کو کیسے برداشت کر سکتی ہے؟بہر حال یہ جہمیہ کا مسلک ہے کہ اللہ ذاتی اعتبار سے ہر جگہ موجود ہے۔

ذاتِ باری تعالی کے سلسلہ میں اہل سنت والجماعت کا عقیدہ:          

            اہل سنت والجماعت کہتے ہیں: اللہ رب العزت بغیراحتیاجِ مکان کے عرش پر ہیں اور علم کے اعتبار سے ہرجگہ ہیں۔وھوُ مَعَکُم اَینَمَا کُنتُم(ای بالعلم)اللہ ہر جگہ پر ہے یعنی علم کے اعتبار سے۔مطلب دنیا میں جہاں کہیں بھی جوکچھ بھی ہوتا ہے، سب اللہ کے علم میں ہے۔اللہ رب العزت کو اس کا علم اور پتہ ہوتاہے۔ اور سیدھی سی بات ہے کہ اگر اللہ کی نگرانی اور اللہ کے علم کے مطابق دنیا کا یہ نظام نہ چلتا تو یہ دنیا چل ہی نہیں سکتی تھی۔

            جیسے انسان مشین تو بنالیتا ہے، لیکن اس کی نگرانی کے لیے آدمی رکھنا پڑتاہے،مشین آپریٹر ہوتا ہے،جو بٹن دبانے سے لیکر اس بات تک کا خیال رکھتا ہے کہ مشین صحیح سے کام کر رہی ہے یا نہیں، توجب چھوٹی سی مشین بغیر کسی نگراں کے نہیں چل سکتی، تو اتنی بڑی کائنات اللہ کی نگرانی کے بغیر کیسے چل سکتی ہے؟

جیسی نیت ویسے فیصلے:

            ”وَاِنَّمَا لِامرِیءٍ مَّا نَوٰی“اور انسان جس چیز کی نیت کرتا ہے اس کے لیے وہی چیز مکتوب ہوتی ہے، لکھی جاتی ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان جس چیز کی نیت کرتاہے، اسی نیت کے اعتبار سے اللہ کے یہاں اس کے لیے فیصلے کیے جاتے ہیں۔انسان اگر اچھی نیت کرتاہے، تو انسان کے لیے اللہ کی طرف سے اچھے فیصلے ہوتے ہیں۔ ایک حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں حدیثِ قدسی ہے: ”اَنَا عِندَ ظَنِّ عَبدی بِی۔فَلیَظُنُّ العبدُ مَا شَاءَ“۔(احمد،دارمی،ابن حبان)

            کہ میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوتاہوں تو بندے کو چاہیے کہ جو چاہے مجھ سے گمان کرے۔اگر چاہے تو اچھا گمان کرے، چاہے تو براگمان کرے۔اگر بندہ اللہ سے اچھا گمان کرتا ہے، تو اللہ اس کے بارے میں اچھے فیصلے کرتا ہے اوراگر بندہ اللہ سے غلط گمان کرتا ہے تو  اللہ کے یہاں اس کے بارے میں فیصلے بھی غلط ہوتے ہیں۔ تو سمجھ میں آیا کہ انسان کی دنیا وآخرت کی کامیابی کا مدار اللہ کے ساتھ اس کے گمان پر ہے۔اور انسان کا گمان قلب سے ہوتا ہے۔

اعتراف ِسائنس:

            ایک زمانہ تک مستشرقین اور متجددین کی ایک جماعت یہ اعتراض کرتی رہی کہ قرآن کریم کہتا ہے کہ انسان کا دل سوچتاہے، جب کہ سائنس یہ کہتی ہے کہ عقل سوچتی ہے دل نہیں سوچتا؛لیکن اب سائنس نے بھی اس بات کا اعتراف کیا کہ نہیں تفکر وتدبر کا آغاز قلب سے ہوتاہے اور اس کی انتہا عقل پر ہوتی ہے۔

دنیاوی نیت محرومیئ ثواب کا سبب ہے:

            فَمَن کَانَت ھِجرَتُہ الٰی دُنْیَا یُصِیبُہا۔کسی نے ہجرت کی اپنی دنیا کے لیے تو وہ اسے پالے گا۔”اَو الٰی امرَءۃٍ یَنْکَحُھَا، فَہِجْرَتُہ اِلٰی مَا ھَاجَرَ اِلَیْہِ“۔یا کسی نے کسی عورت سے نکاح کرنے کے لیے ہجرت کی ہے، تو اس کی ہجرت اس چیز کے لیے ہوگی، جس چیز کے لیے اس نے ہجرت کی۔مطلب ثوابِ ہجرت سے وہ محروم ہو جائے گا۔

بڑے ثواب سے محرومی:

            مکہ مکرمہ مدینہ منورہ سے چار سو کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ وہاں سے پیدل چل کر آنا۔ ایک دن میں اگر آدمی ستر کلو میٹر بھی چلتاہے، تو چار سو کلو میٹر کا سفر طے کرنے میں چھ دن تو اس کو لگیں گے۔ ایک ہفتہ پیدل چل کر آنے کی مشقت برداشت کی لیکن نیت دنیوی تھی تو حکم ہوا:”فَہِجْرَتُہ اِلٰی مَا ھَاجَرَ اِلَیْہِ“یہ عمل ہجرت کتنا بڑا عمل تھا، کہ ہجرت کرنے والے صحابہ دیگر صحابہ سے افضل ہیں اور انبیاء کے بعد مہاجر صحابہ کا مرتبہ ہے مگر فتور نیت کی وجہ سے اتنے بڑے عمل اور ثواب سے محرومی ہو گئی۔

حضرت ابو بکرؓ کی ہجرت:

            حضرت ابو بکرؓ نے بھی ہجرت کی، لیکن ایسی ہجرت کی کہ آپ کی ہجرت ساری ہجرتوں پر فوقیت لے گئی۔اس لیے کہ جب ہجرت کا حکم نازل ہواتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کہے بغیر حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے فورا تیاری شروع کردی؛کیوں کہ آپ سمجھ گئے کہ جیسے دوسرے لوگ ہجرت کرر ہے ہیں ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہجرت کریں گے؛لہٰذا آپ نے اونٹنیوں کا انتظام کر لیا، راستہ دکھانے والے کا انتظام کرلیا اور پھر آپ کے ساتھ ہجرت کی اور اس آیت کریمہ کے مصداق بنے”ثَانِیَ اثنَیْنِِِِِِِِِِ اِذْ ہُمَا فِی الْغَارِ اِذ یَقُولُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا“(سورۃ التوبۃ:۰۴)

            ترجمہ:جب کہ دوآدمیوں میں ایک آپ تھے،جس وقت کہ دونوں غار میں تھے،جب کہ آپ اپنے ہمراہی سے فرمارہے تھے کہ تم (کچھ) غم نہ کرو! یقیناً اللہ تعالی ہمارے ہمراہ ہے۔

            آپ کو یہ شرف کیوں حاصل ہوا اس لیے کہ آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت میں ہجرت اور آپ کی خدمت کی پہلے ہی سے نیت اور تیاری کرلی تھی۔

حضرت عائشہ ؓ کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے انوکھا سوال:

            حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں: ایک دن آسمان پر بہت ستارے جگمگارہے تھے، تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے پوچھا:کوئی انسان ایسا بھی ہوگا،جس کی نیکیاں ان ستاروں کے برابر ہوں،تو حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ میں یہ سوچنے لگی کہ حضور کہیں گے ہاں اور میرے والد کا نام لیں گے۔

            حضور نے کہا ہاں ہے۔حضرت عائشہ ؓ نے کہاکون؟آپ نے فرمایا:عمرؓ۔

            حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ اس جواب سے طبعا مجھے ناگواری ہوئی، کہ میرے ابا کا نام آنا چاہیے تھا۔حضو رﷺ نے فوراً بھانپ لیاکہ جواب عائشہؓ کو ناگوار گزرا ہے۔تو حضورﷺ نے کہا تمہارے والد کی نیکیاں تو اس سے بھی زیادہ ہیں او رکہا کہ تمہارے والد کی صرف ہجرت کی رات کی نیکیاں عمر کی ساری نیکیوں پر بھاری ہیں۔ یعنی ہجرت کی ایک رات جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت میں انہوں نے گزاری، اس ایک رات میں اتنی نیکیاں کمائی،جو دوسروں کی ساری نیکیوں پر بھاری ہیں۔اس کے علاوہ ان کی قربانیاں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تیئیس سال کے عرصہ میں ہوئیں، وہ تومزید ہیں۔(اس روایت کی سند پر کلام ہے)

حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے سلسلے میں مجدد الف ثانی کا کشف:

            اسی لیے حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے تعلق سے بیان کیا جاتاہے کہ حضرت نے فرمایا:  میں نے اللہ رب العزت سے دعا کی اور اللہ سے کہا،کہ اے اللہ! میں حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کے آپ کے ہاں مقام اور مرتبہ کو دیکھنا چاہتاہوں۔ فرماتے ہیں: کہ مجھے اللہ کی طرف سے یہ دکھایاگیا،کشف ہوا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم ِ مبارک سے بالکل لگ کر حضرت ابو بکر ہیں۔ اور حضرت عمر حضرت ابو بکر کے قدم کے بہت فاصلے کے بعد ہیں۔تو کہا کہ اس سے مجھے پتہ چلا کہ ابو بکر کے مقام ومرتبہ کو جب عمر نہیں پہنچ سکتے تو دوسرا کوئی کیسے پہنچ سکتاہے۔

حضرت ابو بکر ؓکے افضل البشر بعد الانبیاء ہونے کا سبب؟      

            حضرت ابو بکر کو یہ جو مقام ملا اس میں سب سے زیادہ دخل نیت کو تھا، ایک ابو بکر ہمیشہ اپنا سب کچھ اللہ کے راستہ میں قربان کرنے کی نیت سے تیار رہتے تھے۔ ہمیشہ ان کی نیت یہ ہوتی تھی کہ میرے پاس جو کچھ ہے سب اللہ کے راستے میں لگ جائے۔

حضرت ابوبکرؓ کے مضبوطیئ ایمان میں نیت کا دخل:      

            اسی لیے حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر کے بارے میں آتاہے، کہ عبدالرحمن بن ابی بکر بہت تاخیرسے اسلام میں داخل ہوئے۔توعبدالرحمن بن ابی بکر نے اپنے والد سے اسلام میں داخل ہونے کے بعد کہا،کہ بدر میں آپ میرے سامنے آئے تھے، لیکن میں نے راستہ بدل لیا تھا۔ حضرت ابو بکر نے کہا: کہ اگرتو میرے سامنے آتا تو میرے ہاتھوں سے تجھے ختم کر دیتا، اس لیے کہ میرے نزدیک وہ معرکہ حق وباطل کا معرکہ تھا؛ لہذا تومیرے سامنے آتا تو تیری ابنیت میرے لیے ذرہ برابر مانع نہ ہوتی کہ میں تجھے قتل نہ کرتا۔اس ایمانی قوت کی وجہ یہی بتائی جاتی ہے کہ آپ ہمیشہ اس بات کے لیے مستعد رہتے تھے کہ جو کچھ ہوگا سب اللہ کے راستہ میں کھپا دوں گا۔اور اسی نیت کی برکت سے آپ کا ایمان اتنا مضبوط تھا کہ پوری امت کے ایمان کو ایک ترازو میں رکھا جائے اور ابو بکر کے ایمان کو ایک پلڑے میں تب بھی ابو بکر کا ایمان فوقیت لے جائے گا۔ اسی لیے امام بخاری نے بڑے اہتمام سے اپنی کتاب کے شروع ہی میں اس بات کو بیان کردیا کہ حضرت ابو بکرؓ کے افضل البشر بعد الانبیاء ہونے میں سب سے بڑا دخل نیت کو ہے۔

 استحضارِ نیت امام بخاری ؒکے پیش نظر:

             بعض شارحین صحیح بخاری نے کہا کہ امام بخاری نے اپنی کتاب کو”انما الاعمال بالنیات“ سے جو شروع کیا،وہ اس لیے کہ استحضار نیت امام بخاری ؒکے نزدیک مقصود تھا اورآپ نے یہ بتانا چاہا ہے کہ میں ”انما الاعمال بالنیات“ سے اپنی کتاب کا آغاز کررہا ہوں،اس لیے کہ خالصۃً لوجہ اللہ احادیث مبارکہ کو جمع کروں۔

            اس سے معلوم ہوا کہ بخاری کو بھی جو دوسری کتابوں پر فوقیت حاصل ہے، اوراسے اصح الکتب بعد کتاب اللہ کا مقام حاصل ہوا،اس میں بھی نیت کو دخل ہے۔