”علوم ِحدیث اور اس کے متعلقات“ کے عنوان پر  علمی سمینار کی نورانی یادیں

از قلم:حذیفہ وستانوی

            علم حدیث کی حیثیت علوم اسلامیہ میں پانی کی سی ہے؛ جیسے حیوان اور نباتات کے زندہ اور تروتازہ رہنے کے لیے پانی ضروری ہے، ایسے ہی اسلام کی علمی و عملی حفاظت کے لیے علم ِحدیث کی حیثیت ہے ۔بندہ کو آج بے پناہ مسرت اور خوشی ہورہی تھی کہ علم حدیث کے عنوان پر دارالعلوم اسلامیہ عربیہ ماٹلی والا بھروچ گجرات میں علوم حدیث اور اس کے متعلقات کے عنوان پر ایک عظیم الشان سیمینار ہورہا تھا ، اور یہ حدیث کی محفل علم دوست ، صالح طبیعت اورفخر ِگجرات مفکر قوم و ملت حضرت مولانا عبداللہ صاحب کاپودروی نوراللہ مرقدہ کے امین شیخ الحدیث و مہتمم حضرت مولانا مفتی محمد اقبال فلاحی ٹنکاروی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کی کاوشوں کا نتیجہ تھی۔

            گزشتہ کل ۲۴/ جمادی الأولی۱۴۴۶ھ بروز چہار شنبہ سے اس سیمینار کا آغاز ہوچکا تھا ،بندہ مصروفیت کی وجہ سے پہلے دن تو حاضری سے محروم رہا؛ البتہ آج ۲۵/ جمادی الأولی بروز جمعرات کی دوپہر تقریباً بارہ بجے اس مبارک اور پرنور محفل میں حاضری کی سعادت میسر ہوئی۔چار مجلسیں ہوچکی تھیں، جس میں الحمدللہ چالیس کے قریب مقالات پیش کیے جاچکے تھے۔

 سمینار کی پانچویں مجلس :

             سمینار کیپانچویں مجلس استاد محترم حضرت مولانا فاروق بروڈوی(استاد حدیث جامعہ اکل کوا) صاحب دامت برکاتہم کی صدارت میں جاری تھی،” حضرت امام ابوحنیفہ اور علم حدیث “پر نوجوان فاضل مولانا مجاہد الاسلام ایلوی کا مقالہ سننے کا موقعہ ملا ماشاء اللہ یہ مقالہ بڑا علمی اور مستند تھا، اس کے بعد بندے نے ”المعجم المفھرس لألفاظ الحدیث النبویکا تعارف و تجزیہ“ اس عنوان پرلکھے گئے مقالہ کا خلاصہ پیش کیا۔

 خلاصہٴ مقالہ :

            المعجم المفھرس پر مستشرقین نے اپنے مفاد اور اغراض و مقاصد کے لیے کام کیا ہے، اوریہ کام استعماری طاقتوں نے کروایا ہے، جو علمیت اور روحانیت سے عاری ہیں، ہمیں ہمارے اکابرین کی کاوشوں سے استفادہ کرنا چاہئے۔کیوں کہ کتاب میں مؤلف کی روحانیت کا بھی اثر ہوتا ہے۔ عالم اسلام کے بعض فضلا نے اس سے درجہا بہتر کام کیا ہے، مثلاً مفتاح کنوز السنہ، اسی طرح موسوعة أطراف الحدیث النبوی جو دو سو کتابوں سے مستفاد ہے۔ ہمیں مستشرقین اور استعماری طاقتوں سے مرعوب ہونے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ خاص طور سے علم حدیث پر شیخ الاسلام فقیہ العصر حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کی زیر نگرانی المدونة الجامعہ جس کے پچاس سے زائد جلدوں میں آنے کا امکان ہے اور اب تک پندرہ جلدیں چھپ چکی ہیں، اسی طرح مولانا ضیاء الاعظمی جو نو مسلم ہیں، مگر اللہ نے آپ سے عظیم کام لیا” الجامع الکامل فی الحدیث الصحیح الشامل“ بیس جلدوں میں اور الدکتور عواد البشار کی ۴۱/ جلدوں میں المسند المفصل المعلل بڑے وقیع اور خالص علمی کام ہیں۔ ہر باحث ان سے کما حقہ استفادہ کرسکتا ہے ،مجلس کے اختتام پر مولانا فاروق صاحب دامت برکاتہم کا پرمغز خطاب ہوا۔

 صدارتی خطاب کا خلاصہ :

             مولانا فاروق صاحب نے اصول کی جانب خصوصی توجہ کرنے کی تلقین کی کہ اصولِ فقہ، اصول تفسیر، اصولِ حدیث سب کو اہتمام کے ساتھ پڑھایا جانا ضروری ہے۔ بعض مدارس میں اصول تفسیر و حدیث کو خارجی اوقات میں پڑھایا جاتا ہے تو طلبہ میں اس کی اہمیت نہیں رہتی، اصول پر گرفت ہوگی تو علم میں گہرائی اور پختگی آئے گی اور اپ نے مولانا اقبال صاحب دامت برکاتہم کے علم حدیث پر اس سیمینار کو خوب سراہا کہ اس کی برکت سے ہمیں بھی معلوم ہوا کہ الحمدللہ اس گئے گزرے قحط الرجال کے دور میں بھی علمی ذوق کے حامل افراد کی کمی نہیں ہے اور الحمدللہ ہمیں خود بھی محسوس ہوا کہ علم حدیث سے ہمیں مناسبت اچھی خاصی ہے اور یہ حقیقت اور واقعہ ہے۔ آپ کی دعاء پرمجلس اختتام پذیر ہوئی۔

 طعام کا وقفہ اور چند ملاقاتیں :

             مجلس کے فورا ًبعد دوپہر کا پرتکلف کھانا تناول کیا، حضرت مولانا اقبال صاحب نے بڑی ذرہ نوازی کی، اپنے ساتھ ہی کھانا کھلایا ۔ظہر کی نماز ادا کی اور سستانے کے لیے دارالضیافہ لے گئے؛ جہاں یو۔ کے۔ سے آئے ہوے مدرسہ کے ذمہ دار حضرات سے ملاقات ہوئی۔ مولانا اقبال صاحب نے بتایا کہ جب ادارہ شروع ہوا اس دور میں آپ کے والد صاحب کے ایک عربی خط کی برکت سے ادارے کو سعودی سفارت خانہ کی جانب سے بڑی امداد موصول ہوئی تھی، جسے ہمارے ٹرسٹی حضرات آج بھی یاد کرتے ہیں کہ ہمیں تو کچھ پتا نہیں تھاکہمولانا غلام محمد وستانوی صاحب دامت برکاتہم نے عربی میں کیا لکھا تھا ؟ مگر اس وقت بہت بڑا سہارا ہوگیا ورنہ ادارہ ڈگمگا گیا تھا ۔میں نے تصویب کرتے ہوئے کہا کہ جامعہ اکل کوا، دارالعلوم عربیہ اسلامیہ کنتھاریہ اور دارلعلوم ماٹلی والا کے اس امدادی قصہ کو والد صاحب سے سنا ہے ۔حاجی عبدالعزیز ماٹلی والا سے ملاقات ہوئی تو والد صاحب دامت برکاتہم العالیہ کی خیریت دریافت کی اور کہا کہ بہت یاد آتی ہے مولانا کی ،میں نے کہا: تشریف لائیں! تو کہا: ان شاء اللہ آئیں گے۔

 معجم المصطلاحات الحدیثیہ کی ہندوستانی طباعت اور اس کی زیارت :

             بندہ نے ایک ملاقات میں مولانا اقبال صاحب سے درخواست کی کہ معجم المصطلاحات الحدیثیہکی زیارت ہوجائے تو بہتر ہوگا تو مولانا اقبال صاحب نے فوراً کتاب کا نسخہ منگوایا۔ ماشاء اللہ بہت عمدہ طباعت ہوئی ہے، موٴلف محترم نے دو تین ہفتہ قبل خواہش ظاہر کی تھی کہ عالمِ عرب و عالم ِاسلام میں متعدد مقامات پر شائع ہوچکی ہے، اگر ہندوستان میں بھی شائع ہوجائے تو بہتر ہوگا۔ بندہ نے حضرت مولانا اقبال صاحب سے درخواست کی کہ جامعہ اکل کوا اور دارلعلوم ماٹلی والا دونوں کے اشتراک سے شائع کروالیتے ہیں، علم حدیث کی مناسبت سے یہ اچھا موقعہ ہے ماشاء اللہ مولانا نے بلاتامل رضامندی ظاہری کی اور الحمدللہ کتاب بروقت پہنچ گئی بندہ نے فاضل مؤلف کو اطلاع دی تو بہت خوشی کا اظہار کیا۔

 اختتامی مجلس :

            اس کے بعد ۲/ بجکر۰ ۳ منٹ پر اختتامی مجلس مفتی محمد آچھودی دامت برکاتہم کی صدارت میں شروع ہوئی، جس میں پہلا مقالہ تحقیق ِحدیث اور شیخ البانی پر مولانا ضیاء الرحمن طالع پوری نے پیش کیا جو بڑا وقیع اور علمی تھا اس کے بعد محدثین کی ضبط ِحدیث کے سلسلے میں کوششیں کے عنوان پر حضرت مولانا عبدالقیوم پالنپوری دامت برکاتہم نے بڑا ہی علمی مقالہ پیش کیا۔ ماشاء اللہ مولانا بہت منجھے ہوئے اور تجربہ کار اور تحقیقی طبیعت کے حامل ہیں، علمی لطائف سے مجلس کو محذوذ کیا، اس کے بعد آخری مقالہ حفاظت ِحدیث کے عنوان پر نوجوان اور لائق فائق فاضل مولانا رضوان داہودی نے پیش کیا، جو بڑی عمدہ علمی و تاریخی نکات و معلومات پر مشتمل تھا ،ہر مقالہ ایسا تھا کہ طبیعت سیراب ہی نہیں ہوتی تھی، اس کے بعد بندہ کو تاثرات کی دعوت دی گئی تو بندہ نے ان الفاظ پر مشتمل اپنے تاثرات پیش کیے۔

 سمینار پر بندہ کے تاثرات اور چند تجاویز :

             بندے نے اپنی گفتگو کے آغاز میں کہا کہ ایک عرب محدث کو بندہ نے یہ کہتے سنا کہ برصغیر کو اس آخری دور میں علم حدیث جیسے مبارک و مسعود علم کی خدمت کا شرف اللہ نے بخشا ہے۔ روئے زمین پر اس وقت یہ ہی وہ خطہ ہے، جہاں مکمل صحاح ستہ پڑھائی جاتی ہے؛ بلکہ مزید حدیث پاک کی دیگر اہم کتب بھی پڑھانے کا رواج ہے، جس پر ہم اللہ کا جتنا شکر ادا کریں کم ہے۔

 بندہ کی جانب سے پیش کردہ چند تجاویز :

            بندہ نے مختصراً مندرجہ ذیل تجاویز پیش کی:

            ۱- تدریسِ حدیث کے دوران جو عملی چیزیں ہیں اساتذہ کو انہیں عملی طور پر طلبہ کے سامنے کرکے بتانی چاہیے؛ جیسے نماز، وضو وغیرہ؛ تاکہ سنت طریقہ جو مقصود ہے،ہر ہر طالب علم کو معلوم ہو، ورنہ بہت سارے زندگی بھر سنت کی رعایت کے بغیر ہی نماز ادا کرتے رہتے ہیں۔

            ۲- عصر ِحاضر کے زندہ مسائل کو درس کے دوران احادیث پر منطبق کرکے بتانا چاہیے، جس کے لیے انعام الباری، تکملة فتح الملہم اور آخری دور کے محدثین کی کتابیں زیر مطالعہ رہنی چاہیے۔

            ۳- بعض اہم ابواب جس کو عصر ِحاضر میں خوب اچھی طرح پڑھانے کی ضرورت ہے، مثلاً: کتاب الفتن، کتاب بدأ الخلق، ابواب الدعوات وغیرہ یہ سال کے اخیر میں رواں روی میں گزرجاتے ہیں ؛جبکہ یورپ اور مغربی طاقتوں نے تخلیق ِکائنات و تخلیق ِانسان ہی کی بنیاد پر پوری دنیا کو گمراہ کر رکھا ہے؛ لہذا ان ابواب کو اہتمام سے پڑھانا چاہیے۔

            ۴- سال کے شروع میں” مناھج المحدثین“ پر طلبہ کے سامنے گفتگو ہونی چاہیے، علمائے عرب نے اس پر اچھا خاصہ کام کیا ہے، اس سے استفادہ کرنا چاہیے۔

            ۵- طلبہ کو عمل بالحدیث پر آمدہ کرنا چاہیے۔ مثلا: ابواب الدعوات پڑھایا تو دریافت کرنا چاہیے کہ آپ نے دعاؤں کو پڑھنا شروع کیا یا نہیں؟ اس لیے کہ اصل تو عمل ہے ورنہ نرا علم مفید نہیں!-

            ۶- حفط حدیث کا اہتمام ہونا چاہیے ؛تاکہ میدان میں اترنے کے بعد حدیث کا مفہوم بیان کر کے سبکی اٹھائے اس سے بہتر تو یہ ہے کہ الفاظ حدیث یاد ہوں، جس کے لیے مولانا عبدالرحمن کوثر صاحب دامت برکاتہم نے ہر سال کے لیے مجموعہ تیار کیا ہے، وہ کارآمد ہے۔

            ۷- سال میں ایک خالص علمی مجلہ گجرات کے مدارس سے علم حدیث پر مشتمل تحقیقی مقالات کا شائع ہونا چاہیے؛ تاکہ لکھنے کا،رو بہ زوال ذوق باقی رہے۔

            ۸- علم حدیث پر اس طرح کا سمینار ہر سال نہیں تو دو یا تین سال میں ایک بار ضرور ہونا چاہیے، ہم بھی اس خدمت کے لیے تیار ہیں۔

            ۹- ہمارے یہاں اجازت حدیث کا اہتمام نہیں ہے؛ جبکہ اجازت حدیث اور عالی اسانید کے حصول کی کوشش ہونی چاہے ۔

تنگی وقت کی وجہ سے دو تین تجاویز رہ گئی وہ یہ ہیں:

            ۱۰- دورہ کے طلبہ سے عربی اور اردو میں مقالات لکھوانے چاہیے؛ تاکہ لکھنے کا فن اور تحقیق کا ذوق پیدا ہو۔

            ۱۱- علم حدیث پر عالم ِاسلام میں جو تحقیقی کام ہورہا ہے ،کتابوں کی صورت میں دراسہ یا مقالات یا قدیم کتابوں پر نئی تحقیقات اور اس کی طباعت کی شکل میں؛ غرض کہ علم حدیث پر ہورہے کام سے علما اور طلبہ کو باخبر کرنے کا منظم نظم ہونا چاہیے۔

            ۱۲- حدیث پر تصحیح و تضعیف کا حکم لگانے کا کام قرن ِرابع تک ہوچکا ہے ؛لہذا جیسے اجتہاد مطلق کا دروازہ بند ہوچکا ہے، ویسے ہی احادیث پر حکم لگانا بھی اجتہاد ہے، اس کا دروازہ بھی بند ہوچکا ہے ،ساتویں آٹھویں صدی کے محدث جنہیں حافظ الدنیا کہا گیا حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے بھی بہت محتاط انداز میں رجالہ رجال صحاح جیسی تعبیرات استعمال کی ہے اب کوئی سلسلة الاحادیث الصحیحہ لکھے تو اس کا کوئی اعتبار نہیں۔

            ۱۳- علم حدیث کے ساتھ ساتھ الحاد سے روک تھام کے لیے علوم ِعقلیہ، منطق ،فلسفہ اور علمِ مناظرہ کو بھی اچھی طرح پڑھانے کی سخت ضرورت ہے، خاص طور پر علم ِکلام جدید پر حضرت تھانوی اور حضرت نانوتوی رحمہما اللہ کی کتابوں کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش ہونی چاہیے، قرآن و حدیث میں بھی بہت سارے عقلی دلائل ہیں، جسے سمجھنے کے لیے بھی علوم عقلیہ ضروری ہے۔