پہلی قسط :
مولانا حذیفہ ابن مولانا غلام محمد صاحب وستانویؔ
’’ الموسوعۃ الحدیثیۃ لمرویات الإمام أبی حنیفۃ ‘‘ ۲۰ جلدوں میں
(ذخیرہ حدیث کے باب میں ایک بہترین اضافہ )
اللہ رب العزت نے قرآن کریم اور دین اسلام کی حفاظت کا وعدہ {انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون}کے ذریعہ کیااور اپنے اس وعدہ کو سچ کر دکھایا، اس طور پر کہ شریعت ِمطہرہ کا مدار جن بنیادی نصوص پر ہے وہ دو ہیں ۔ ایک ’’ قرآن کریم‘‘ اور دوسرا ’’احادیثِ نبویہ ‘‘اور ان کی روشنی میں اجماع اور قیاس۔ خاص طور پر ان دونوں نصوص کی حفاظت کے لیے اللہ رب العزت نے ایسے انتظامات کیے، جس کی نظیر انسانی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی ۔ ہمارے علما نے لکھا ہے کہ قرآن کریم متنِ متین ہے، اللہ نے ہر زاویے سے اس کی حفاظت کی ؛کہیں تجوید کے ذریعہ اس کے تلفظ کی حفاظت کی ،کہیں تفسیر کے ذریعہ اس کے صحیح مفاہیم کی حفاظت کی تو کہیں احادیث کے ذریعہ اس کے معانی اور عملی تفاصیل کی حفاظت کی ۔
تدوین حدیث کا نقطہ آغاز
تدوینِ حدیث کا مبارک سلسلہ دورِ نبوی ہی سے شروع ہوچکا تھا، البتہ دورِتابعین میں اس کو مستقل حیثیت دی گئی۔ اللہ نے پہلے سیدنا حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ذریعہ قرآن کو جمع کروایا، اس کے بعد حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ذریعہ رسم الخط کو مجتمع فرمایا اور اس کی متعدد کاپیاں بنواکر عالم اسلام میں اسے پھیلا دیا، اس طرح بغیر کسی شبہِ اختلاط کے قرآنِ کریم محفوظ ہوگیا ۔ اس کے بعد دورِ علی رضی اللہ عنہ سے ’’علم الاسناد اور علم اسماء الرجال‘‘ کی بنیاد ڈلوائی؛ تاکہ قرآن کی تفسیر کے ساتھ احادیثِ مبارکہ کا ذخیرہ بھی خوب اچھی طرح محفوظ ہوجائے۔
تدوین حدیث کے باریے میں مستشرقین کی غلط بیانی
مستشرقین نے یہ شوشہ چھوڑا کہ احادیث کی تدوین بہت زمانے کے بعد عمل میں آئی اور اس کے دیکھا دیکھی نام نہاد مسلمان منکرینِ حدیث بھی اسے لے اڑے ، جب کہ محقق دوراں علامہ حمید اللہ مرحوم نے لکھا ہے کہ :
’’ عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہی میں صحابۂ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کے ہاتھوں تدوین حدیث کے متعدد واقعات ملتے ہیں ،مثلاً: عبد اللہ بن عمروابن عاص ، حضرت ابو رافع ،خادم رسول حضرت انس اورایک انصاری صحابی جو آپ کی مجلس ہی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین قلمبند کرتے تھے ۔ اس کے بعد عہدِ صحابہ میں عام تدوین عمل میں آئی ۔ ‘‘
(دنیا کا قدیم ترین مجموعہ احادیث صحیفہ ہمام ابن منبہ ص ۳۸-۳۹ سے مستفاد )
تدوین حدیث کی تاخیر میں حکمت الہٰی
یہاںایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر قرآن کی طرح احادیث کی باقاعدہ تدوین دور نبوی اور دورِ ابی بکری وعمری میں کیوں نہیں عمل میں آئی ؟ تو اس کا بہترین جواب بقیۃ السلف والخلف، محققِ کبیر، محدثِ دوراں حضرت مولانا مفتی سعید صاحب پالنپوری مد ظلہ العالی نے دیا ہے :
’’قرآن لوگوں کے گھروں میں محفوظ تھا۔اور متفرق چیزوں میں لکھا ہوا تھا۔اور اس لکھے ہوئے کی آئندہ ضرورت بھی پڑنے والی تھی ،پس اگر لوگوں کے گھروں میں حدیثیں بھی لکھی ہوئی ہوں گی تو قرآن کے ساتھ اشتباہ کا اندیشہ تھا۔
البتہ ایسا نہیں ہے کہ دور نبوی میں احادیث بالکل ہی نہیں لکھی گئی ۔ ’’ لکھی گئیں اور مخصوص لوگوں کو لکھنے کی اجازت بھی دی ، اس سے کتابت حدیث کا جواز ثابت ہوا ۔ جیسے ایک رمضان میں دویا تین راتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح جماعت سے پڑھائی ، پھر فرضیت کے اندیشہ سے بند کردی ، مگر اتنے عمل سے جواز ثابت ہوگیا ، چناں چہ جب فرضیت کا اندیشہ نہ رہا تو فاروقِ اعظم نے اس کا باقاعدہ نظام بنادیا ؛ اسی طرح جب ضرورت پیش آئی تو حدیثیں مدون کی گئیں ، کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فی الجملہ حدیثیں لکھوائی بھی تھیں اور اس کی اجازت بھی مرحمت فرمائی تھی ۔‘‘ (تحفۃ الالمعی:۶۶)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حدیثیں جمع کرنے کا ارادہ کیا مگر اشارہ نہ پایا :
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانۂ خلافت میں احادیث کو جمع کرنے کاارادہ فرمایا تھا ۔ حضرت ہی کو سب سے پہلے قرآن جمع کرنے کا خیال بھی آیا تھا اور ان کے مشورہ سے قرآن جمع کیا گیا تھا یعنی سرکاری ریکارڈ میں لیا گیا تھا ۔ یہی ارادہ آپ کا حدیثوں کو سرکاری ریکارڈ میں لینے کا بھی تھا ، چناں چہ آپ نے مشورہ کے لیے صحابہ کو اکٹھا کیا اور فرمایا کہ میرے دل میں یہ بات آتی ہے کہ حدیثیں لکھ لی جائیں۔ سب نے مشورہ دیا : مبارک خیال ہے ایسا ضرور کرلیا جائے ، مگر آپ کو شرحِ صدر نہ ہوا تو آپ نے استخارہ شروع کیا ، ایک ماہ مسلسل استخارہ کرنے پر شرح صدر ہوگیا کہ حدیثوں کو مدون نہ کیا جائے ، چناں چہ آپ نے پھر صحابہ کو جمع کیا اور فرمایا کہ ’’ مجھے یاد آگیا کہ گزشتہ امتوں نے جو اللہ کی کتابیں ضائع کردیں، تو اس کی وجہ یہ ہوئی تھی کہ انہوں نے اپنے پیغمبروں کی باتیں بھی لکھ لی تھیں ، وہ ان میں ایسے مشغول ہوگئے کہ اللہ کی کتابوں سے ان کی توجہ ہٹ گئی اور جب ان کا اہتمام نہ رہا تو وہ ضائع ہوگئیں، پس بخدا! میں اللہ کی کتاب کے ساتھ کسی چیز کو نہ رلاؤںگا ! ‘‘ (تحفۃ الالمعی:۶۶-۶۷)
بہر حال حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ احتیاط اس لیے تھی کہ لوگ قرآن میں مشغول رہیں ، چناں چہ حفظِ قرآن کا مسلمانوں میںایسا رواج ہوگیا کہ دن بدن بڑھتا ہی جارہا ہے اور اس کی نظیر یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میںیہ حکم نافذ کیا تھا کہ کوئی شخص حج کے ساتھ عمرہ نہ کرے ۔ عمرہ کے لیے مستقل سفر کر کے آئے ، چنا ں چہ سال بھر کعبہ شریف آباد ہوگیا ۔ اور دن بدن عمرہ کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے ۔
اورحضرت عمر رضی اللہ عنہ کے استخارہ میں جو تدوین حدیث نہیں آئی، اس کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح قرآن کی حفاظت کی ذمہ داری عام مسلمانوں کی ہے ، حکومت ہی کی یہ ذمہ داری نہیں ہے۔ اسی طرح حدیثوں کی حفاظت کی ذمہ داری بھی عام مسلمانوں کی ہے ۔ اگر حدیثیں جمع کرلی جاتیں یعنی سرکاری ریکارڈ میںلے لی جاتیں تو عام مسلمانوں کی توجہ اس سے ہٹ جاتی اور حدیثوں کے ضائع ہونے کا امکان پیدا ہوجاتا ۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام کے سامنے جوبات فرمائی تھی کہ پچھلی امتوں نے اللہ کی کتابوں کو اس طرح ضائع کیا : اس کی تفصیل یہ ہے کہ محبت کی دو قسمیں ہیں : عقلی اور طبعی ۔ عقلی محبت : معنویات سے اور غائب سے ہوتی ہے ۔ اور طبعی محبت اپنی ذات اوربیوی بچوں سے ہوتی ہے اور وہ ظاہر احوال میں غالب نظر آتی ہے ۔ (تحفۃ الالمعی:۶۷-۶۸)
اسی طرح اس مسئلہ کو بھی سمجھنا چاہیے کہ مومن کو اللہ اور اللہ کی کتاب سے جو محبت ہے وہ عقلی ہے اور صحابہ کو جو اپنے نبی اور اس کی باتوں سے تعلق ہے وہ طبعی ہے ، چناں چہ گزشتہ امتوں نے اللہ کی کتابوں کے ساتھ اپنے انبیا کی باتیں بھی لکھ لیں تو ان کے صحابہ فطری محبت کی وجہ سے ان کی باتوں میں ایسے منہمک ہوگئے کہ اللہ کی کتابوں کا اہتمام باقی نہ رہا ، چناں چہ وہ ضائع ہوگئیں۔ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں بھی دور صحابہ میں اور عہد فاروقی میں جمع کرلی جاتیں، تو اندیشہ تھا کہ صحابہ اس میں قرآن سے زیادہ مشغول ہوجاتے ، اس لیے عہد صحابہ تک حدیث مدون نہیں ہونے دی گئیں، عہد صحابہ کے بعد اس کی تدوین ہوئی ، کیوں کہ تابعین کے لیے اللہ اور اللہ کے رسول دونوں غیب ہیں، اورقرآن وحدیث دونوں معنویات ہیں ۔ پس دونوں سے محبت عقلی ہوگی اور عقلی محبت اللہ کی اور اس اللہ کی کتاب کی قوی تر ہے اللہ کے رسول اور ان کی حدیثوں کی محبت سے اس لیے وہ خطرہ اب باقی نہ رہا ۔ (تحفۃ الالمعی:۶۸)
جمع حدیث کے متعدد مراحل :
حضرت مولانا سعید صاحب نے ایک اور بڑی معقول بات لکھی ہے کہ پہلے دور میں علاقائی حدیثیں جمع ہوئیں مثلاً مدینہ ، بصرہ ، کوفہ ، شام اوریمن ۔ ہرعلاقے کے محدثیں نے اپنے علاقے کے مشاہیرکی حدیثیں جمع کرلی اودوسرے دور میں جوامع لکھی گئی ۔ دوسری صدی کے نصف ثانی میں جیسے جامع سفیان ثوری ، مصنف عبد الرزاق ،مصنف ابن ابی شیبہ ۔ اس کے بعد تیسرے دور میں احادیث صحیحہ کے مجموعے تیار کیے گئے ۔ اس طرح تیسری صدی تک تدوین حدیث کا کام مکمل ہوگیا ۔ اس کے بعد جو کچھ احادیث بچ گئی تھیں امام طبرانی ، امام بیہقی وغیرہ نے اسے بھی چوتھی صدی تک مکمل کرلیا ، گویا اب کتاب و سنت اور اس سے متعلق تمام علومِ عربیہ و اسلامیہ مدون ہوگئے ۔ وللہ الحمد علی ذالک!
خلاصہ یہ ہے کہ صحابہ ؓ کی اولاد اور تلامذہ یعنی تابعین نے احادیث کو قلمبند کرنا شروع کیا ۔ کسی نے ’’صحیفہ صادقہ‘‘ اپنے والد اور دادا کی احادیث سے حدیث بیان کی ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے شاگرد ہمام ابن منبہ نے ’’صحیفۂ ہمام‘‘ کی صورت میں احادیث کو محفوظ رکھنے کی کوشش کی ۔ اس کے بعد حضرت عمر بن عبد العزیز نے باقاعدہ اسے جمع کرنے کا بعض محدثین کو مکلف کیا ،جو علامہ حمید اللہ کی کاوش سے نشر بھی ہوا ۔ قرنِ اول کے اختتام تک قرآن و حدیث مکمل طور پر محفوظ کرلیے گئے ،اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مزید اپنے فضل سے قرآنی تعلیمات کی عملی صورت کو کما حقہ محفوظ رکھنے کے لیے بے شمار ائمۂ فقہ کو کھڑا کیا، جن میں سے چار کو مقبولیت عامہ حاصل ہوئی ، جن کے پیشِ نظر مکمل قرآنی وحدیثی علوم تھے ؛ لہٰذا اصولِ فقہ اور فقہ کو دوسری صدی کے علما نے مدون کیا ۔
بہر کیف احادیث صحیحہ کو کتابی شکل دینے کا کام اللہ نے دوسری صدی کے اواخر کے محدثین کے ذریعہ کیا ، جن میں ابن ابی شیبہ، عبدالرزاق ، امام احمد وغیرہ پیش پیش تھے ۔ اور تیسری صدی میں تویہ کام اپنے عروج کو پہنچ گیا اور بے شمار محدثین نے احادیث صحیحہ کے نسخے تیار کیے؛ جن میں سے صحاح ستہ کو مقبولیتِ عامہ حاصل ہوئی ۔ غرض یہ کہ اسلامی اور عربی علوم پر خدمت کا کام مسلسل چودہ صدیوں سے جاری و ساری ہے بل کہ مرورِ زمانہ کے ساتھ اس میں ندرت آتی رہتی ہے ۔
علم الاسناد اور علم اصول فقہ اہم ترین:
ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم نے بڑی قیمتی بات ارشاد فرمائی کہ اللہ نے علمِ اصول فقہ کے ذریعہ اسلام میں عقلی راستے سے آنے والے فتنوں اور گمراہیوں پر روک لگوادی کہ عقلی طور پر اتنے دائرے تک جاسکتے ہیں اور علم الاسناد والرجال کے ذریعہ نقل کے راستے سے آنے والی گمراہیوں پر روک لگائی ؛ لہٰذا اسلام میں نہ عقل کے راستے سے گمراہی آنے کا امکان باقی رہا اور نہ نقل کے راستے سے ، اسلامی تعلیمات میں اب کہیں سے گمراہی داخل نہیں ہوسکتی ۔ اور ہو ئی بھی تو علما‘ اصولِ صحیحہ کی روشنی میں اس کا رد کردیںگے ۔الحمد للہ اسلام میں نہ عقل کے راستے سے گمراہی آنے کا امکان باقی رہااور نہ نقل کے راستے سے۔
آخری سوسال میں احادیث نبویہ کی عظیم خدمت :
انیسویں صدی میں انکارِ حدیث کے فتنے نے سراٹھایا ،توعلمائے حق میدان میں آئے اور الحمد للہ! جم کر حدیث کی خدمت کا بیڑا اٹھایا۔بس پھر کیا تھا نئے نئے پہلوؤں سے علم ِحدیث پر جو کام ہوا اور ہورہا ہے وہ بے مثال ہے ۔ الحمدللہ حق کو جتنا دبانے کی کوشش کی گئی اتناہی ابھر ا، اس پر علما نے مزید نکھار پیدا کرنے کی کوشش کی اوریہ سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔ مولانا سمیع اللہ صاحب سعدی نے ’’ دور جدید کا حدیثی ذخیرہ ایک تعارفی جائزہ ‘‘ کے عنوان سے تفصیلی مقالہ لکھا ہے جو ’’ الشریعہ‘‘ گوجرانوالہ میں ۷؍ قسطوں میں اگست ۲۰۱۷ء سے فروری ۲۰۱۸ء شائع ہوا ، جو قابل مطالعہ ہے ۔(الشریعہ کی ویب سائٹ پر دست یاب ہے www.alsharia.org) حدیث سے شغف رکھنے والوں کو ضرور اس کا مطالعہ کرنا چاہیے ، جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ ’’ علم حدیث کی تاریخ میں دور جدید بعض وجوہ سے نہایت اہمیت کا حامل ہے ، کیوں کہ امت مسلمہ کے دور زوال میں علم حدیث مسلم اور غیر مسلم مفکرین کی توجہ کا مرکز رہا ہے ‘‘۔ اس کے بعد لکھا کہ ’’ دورجدید میں علم حدیث پر ہونے والے کام کے اہم جہات تین ہیں : (۱) ذخائر احادیث (۲) تاریخ حدیث (۳) علو م الحدیث۔ اور پھرہر جہت کے تحت دسیوں اقسام کو ذکر کی ہے ۔ اس مقالہ کی پانچویں قسط میں آپ نے لکھا ہے کہ اس دور میں حدیث پر ہونے والے کام میں ایک بڑا ذخیرہ احادیث پرموسوعۃ انسائیکلو پیڈیاکی شکل میں ہوا ہے ۔ زیر تعارف کتاب اسی قبیل سے ہے ۔
امام اعظم قلیل الحدیث نہیں ہوسکتے:
یہ بات مُسلَّم ہے کہ ہر ’’فقیہ‘‘ محدث، مفسر اور ادیب ہوتا ہے تو ہی و ہ اجتہاد کا ملکہ حاصل کرسکتا ہے ۔ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ متفقہ طور پر امت کے عظیم امام فقہ ہے، مگر افسوس کہ بعض حضرات ان پر قلیل الحدیث ہونے کی تہمت لگاتے ہیں، جو کہ نہ عقلاً درست ہے اور نہ شرعاً ، اس لیے کہ جب ذخیرہ ٔاحادیث پر نظر نہیں ہوگی تو اجتہاد کیسے کرسکتے ہیں!!!
شرعی اعتبار سے بھی اہلیت کے لیے عربی اور اسلامی علوم پر دسترس ضروری ہے ۔ تو ایک طرف آپ کو امام اعظم کہا جائے اور دوسری طرف انہیں قلیل الحدیث کہا جائے کسی صورت میں درست نہیں ہوسکتا ۔
امام صاحب کی روایتیںصحاح ستہ میں کیوں نہیں ؟
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امام صاحب کی روایتیں احادیث صحاح ستہ میں کیوں نہیں ہے ؟!! تو اس کا جواب یہ ہے کہ امام صاحب کے دور میں کتب ِاحادیث صحیحہ کا بالکل ابتدائی دور تھا، بل کہ آپ کے بعد اس کا دورشروع ہوا، لہٰذا آپ کی احادیث مشہور کتابوںمیں کم نظر آتی ہیں ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے صحاح ستہ کے جامعین ایسی روایات کو جمع کرنے زیادہ التزام کیا جن کو مشاہیر کے تلامذہ نے جمع نہ کیا ہو اس لیے کہ ان کو تو ان ائمہ کے شاگردوں جمع کر ہی لیا تھا اسی لیے امام مسلم نے امام شافعی کی مرویات نہیں لی امام بخاری نے بھی تعلیقا لی ہے اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ حدیث کی دیگر کتابوںآپ کا تذکرہ اور مرویات بکثرت موجود ہے تب ہی تو مولانا لطیف الرحمن صاحب کے لیے سند کے ساتھ اس موسوعۃ میں تقریبا گیارہ ہزار احادیث کا جمع کرنا ممکن ہوسکا !!!!
بلکہ محقق علم حدیث مولانا عبدالرشید نعمانی رحمہ اللہ نے ماتمس الیہ الحاجہ میں لکھا ہے کتاب الاثار اول ماصنف من الصیحح جمع فیہ الامام الاعظم صحاح السنن و مزجہ باقوال الصحابۃ و التابعین وقد تبعہ الامام مالک فی مؤطئہ و سفیان الثوری فی جامعہ وعلیہ بنی کل من جاء بعدہ ( ماتمس الیہ الحاجہ۱۸) امام صاحب کا شمارصرف محدث ہی کی حیثیت سے نہیں ہوتا ہے بلکہ امام جرح و تعدیل اور علم مصطلح الحدیث میں بھی آپ کے قول کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے جیسا کہ ملا علی قاری رحمہ اللہ نے شرح مسند ابی حنیفہ میں امام ذھبی کے حوالے سے نقل کیا ہے وابو حنیفۃ ممن تذکاآراء ہ فی مصطلح الحدیث وفی قواعد الحدیث ورجالہ حتی عدہ الذہبی فی تذکرتہ التی ہی ثبت الحفاظ(شرح مسند ابی حنیفہ۷)
دوسرا امام صاحب پر فقہی رنگ غالب تھا ، لہٰذا آپ اسی سے مشہور ہوگئے ؛ورنہ امام صاحب کے عالم بالحدیث ہونے کے بارے میںکیسے شک کیا جا سکتا ہے؛ جب کہ آپ کی دسیوں ہزار احادیث کتابوں میں اب بھی موجود ہیں ۔امام ابویو سف فرماتے ہیں کہ مارأیت احداً اعلم بتفسیر الحدیث ومواضع النکت التی فیہ من ابی احنیفۃ وکان ابصر بالحدیث الصحیح منی ۔ احادیث کی تفسیر کے بارے میں میں نے امام صاحب سے زیادہ ماہر کسی کو نہیں پایا اور امام صاحب مجھ سے زیادہ احادیث صحیحہ سے واقف تھے ۔اسی لیے بہت سارے بعد میں آنے والوں کے لیے آپ کی مسانید لکھنا آسان ہوا اور اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ مندرجہ ذیل محدثین نے یہ خدمت انجام دی ہے۔
۱- امام حارثی
۲-حافظ ابن ابی العوام
۳-حافظ ابن خسرو
۴-حافظ ابن المقری
۵-الامام الثعالبی
۶-حافظ ابو نعیم
۷-حافظ ابن عدی
۸- الامام ابو یوسف
۹-الإمام محمد الشیبانی وغیرہ