مضمونگار:شیخ خالدخضمی ،یمنی
مترجم: مولاناعبدالوہاب ندوی ،مدنیؔ
علم تجوید کا شمار قرآنی علوم میں ہوتا ہے ۔قرآن کی تلاوت ، ترتیل ، اس کے صحیح سیکھنے اور درست طریقہ پر پڑھنے کے اعتبار سے، اسی طرح قرآن کی تفسیر، اس میں تدبر اور اس کے معانی میں غور وفکر کرنے کے اعتبار سے بھی، دوسرے پہلو سے غور کیا جائے تو علم تجوید کا عربی زبان اُس کی صوتی ہم آہنگی اور حروف سے بھی بڑا گہرا تعلق ہے ۔ علم تجوید علوم قرآنیہ اور عربی زبان کے علوم کا جامع ہے ۔ اسی لیے قرآنی علوم کے موضوعات پر تصنیف و تالیف کرنے والے علما نے بھی اس پر ایسی ہی توجہ دی، جیسا کہ عربی زبان کے ماہرین نے اس موضوع پر بہت کچھ لکھا ۔ اس طرح ہر دو فریق نے اس موضوع پر سیر حاصل بحث کی ۔ یہاں تک کہ اس علم کے مباحث ومسائل عربی زبان اور قرآنی علوم دونوں کی معرفت کا مستقل ایک باب بن گئے ۔ اگر چہ علم تجوید علو م قرآنیہ سے زیادہ قریب ہے اس لیے کہ اس کا تعلق صحیح انداز میں تلاوت اور الفاظ وحروف کی درست ادائیگی سے ہے ، اسی لیے دراسات قرآنیہ سے متعلق لکھنے والے علما نے اس موضوع پر بڑی تفصیلی بحثیں کی ہیں۔ جیسے وقف وابتد اکے قواعد، قرآنی رسم الخط کی رعایت اور ضبط پر خصوصی توجہ وغیرہ ۔
تجوید کی تعریف:
لفظ’’ تجوید‘‘ جَوَّدَ یُجَوِّدُ کا مصدر ہے ، یعنی الفاظ کو صحیح انداز میں بہ حسن و خوبی اِس طرح ادا کرنا کہ نطق وادائیگی میں ذرا بھی کمی بیشی نہ ہو ۔
اصطلاحاً : ہر حرف کو اپنے صحیح مخرج سے ادا کرنے اور ادائیگیٔ حروف میں صفات عارضہ ولازمہ کی پوری رعایت کرنے کا نام تجوید ہے ۔
علم تجوید کا موضوع:
علم تجوید کا موضوع کلمات قرآنیہ ہیں کہ ہر حروف کو اس کے صحیح مخرج سے ادا کیا جائے ۔
غرض وغایت :
الفاظ قرآنی کی ادائیگی پوری مہارت کے ساتھ اسی انداز میں ہو، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھلایا ۔
یاد رہے کہ کوئی بھی قرآن کا پڑھنے والا بغیر کسی ماہر قاری کے پاس مشق کیے مہارت کے درجہ کو نہیں پہنچ سکتا ہے ۔اس لیے کہ اس علم کی اصل بنیاد ہی تمرین اور کسی ماہر استاد کے پاس عملی مشق ہے ۔ لہٰذا کسی ماہر قاری سے رجوع کیے بغیر اس علم کا حصول بہت دشوار ہے ، اسی لیے اس علم کے لیے عملی مشق اور سکھانے والے ماہر اساتذہ ناگزیر ہیں ۔
فضیلت:
علم تجوید سب سے افضل و اشرف علم ہے ، اس لیے کہ خود باری تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اس کا حکم فرمایا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ترغیب اِن الفاظ میں دی ۔ ’’قرآن کا ماہر شخص معزز و بزر گ اور نیکوکار فرشتوں کے ساتھ ہوگا اور جو شخص قرآن کو پڑھتا ہے، مگر پڑھنے میں اٹکتا ہے اور قرآن کا پڑھنا اس کے لیے دشوار ہو تو اس کے لیے دوگنا اجرہے‘‘۔جب اس کا تعلق قرآن سے اس طور پر ہے کہ وہ معاون و مدد گار ہے ، قرآن کو بالکل صحیح اسی انداز میں پڑھنے میں جیسا کہ اللہ کا حکم ہے تو بلا شبہ یہ نہایت ہی قابل فخر علم ہوگیا ۔
علم تجوید سیکھنے کا حکم :
تجوید کی دو قسمیں ہیں :
(۱) علمی (تجوید کے قواعد واحکام سے واقفیت )(۲) عملی
جہاں تک علمی (تجوید کے قواعد واحکام سے واقفیت)کی بات ہے، تو اس کا سیکھنا عام مسلمانوں کے لیے واجب تو نہیں البتہ مندوب و مستحسن ہے ۔ اس لیے کہ صحت قرأت تجوید کے احکام جاننے پر موقوف ہے ۔لیکن عملاً تجوید سے قرآن پڑھنا ہر شخص (مرد و عورت ) کے لیے واجب عینی ہے ۔ اس لیے کہ قرآن و سنت میں اس کا حکم ہے اور علما ئے امت کا اس پر اجماع بھی ہے ، قرآن و سنت اور اجماع امت سے تجوید کے ساتھ قرآن پڑھنے کے وجوب پر کئی دلیلیں ہیں ، جن میں سے چند پیش کی جاتی ہیں:
قرآنی دلائل :
(۱)ارشاد ربانی ہے :{ ورتل القرآن ترتیلاً } قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر صاف پڑھا کرو ۔
’’ ترتیل‘‘ لغت میں کہتے ہیں: ’’ رتل الشئ‘‘ یعنی نظم و نسق سے رکھنا اور’’رتل الکلام ‘‘تجوید سے تلاوت کرنا ۔
اور اصطلاحاً تجوید حروف کی صحیح ادائیگی اور وقوف سے معرفت کا نام ہے۔
اور حروف کی صحیح ادائیگی قرأت کے احکام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز قرأت کو سیکھے بغیر ممکن ہی نہیں ۔ آیت شریفہ میں لفظ ’’رتل‘‘ صیغۂ امر ہے جو کہ وجوب پر دلالت کرتا ہے ۔ حضرت ابو جعفر النحاس اپنی کتاب ’’القطع والائتناف ‘‘ میں یوں رقم طراز ہیں:
ترتیل سے قرأت کا وجو ب نص قرآنی سے ثابت ہے۔ اور ترتیل کے معنی ہیں واضح اندا ز میں پڑھنا ، یعنی ہر حروف کو الگ الگ واضح اداکرنا ۔ اور اسی جگہ وقف کرنا جہاں معنی مکمل ہو ۔ علامہ ابن الجزری اس آیت کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ: علما اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے کہ ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کیجیے اور ہر حروف کو الگ الگ صاف ادا کیجیے اور پڑھنے میں ایسی جلدی نہ کیجیے کہ حروف کی آواز ایک دوسرے سے مل جائے ۔ نیز اللہ تعالیٰ نے صرف امر پر اکتفا نہیں کیا ، بل کہ تجوید سے اور صحیح اندا ز میں قرآن پڑھنے پر ابھارابھی ہے ۔
دوسری جگہ ارشا ہے:{ و رتلناہ ترتیلا} ( ہم نے اس قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کرسنایا ) اور ترتیل کے معنی یہی ہیں کہ ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا یعنی عجلت اور جلد بازی کی ضد ۔
(۲) ارشاد باری ہے :{ الذین اٰتینا ہم الکتٰب یتلونہ حق تلاوتہ اولٰئک یومنون بہ ومن یکفربہ فاولٰئک ہم الخٰسرون} (جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی اور وہ اسے اسی طرح پڑھتے ہیں جیسا کہ پڑھنے کا حق ہے یہی لوگ اس پر ایمان رکھنے والے ہیں اور جو اس کے منکر ہوں وہ نقصان اٹھانے والے ہیں ۔)
تلاوت کا حق بغیر حسنِ ادا اور تجوید کی رعایت کے ادا ہوہی نہیں سکتا،اس لیے کہ بغیر تجوید اور صحیح انداز کے تلاوت سے تو مزید بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے ۔ مذکورہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی مد ح سرائی کی ہے ،جو قرآن کو صحیح اندا زمیں پڑھ کر تلاوت کا حق ادا کرتے ہیں ۔ اس میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ قرآن جس انداز میں نازل ہوا اسے اسی طرح پڑھنا چاہیے ۔
(۳ ) تجوید کے وجوب کی دلیل قرآن کی آیت: { و رتلناہ ترتیلا}(یعنی اس قرآن کو ہم نے ٹھہر ٹھہر کر پڑھ سنایا )
اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ’’ ترتیلا ‘‘ اللہ کے کلام کی صفت ہے ۔ تو اب جس نے بھی قرآ ن کو ترتیلاًپڑھا گویا کہ اس نے اسی انداز سے پڑھا جیسا کہ باری تعالیٰ نے پڑھ کر سنایا اور اسی طرح پڑھنے کا حکم بھی دیا اور اسی انداز کے ساتھ حضرت جبرئیل علیہ السلام کو وحی بھی کی ۔ لہٰذا ’’ ترتیل ‘‘ اس آیت میں کلام الٰہی کی ایک ازلی اور غیر مخلوق صفت کے طور پر ہے ، جیسا کہ اہل سنت و الجماعت کا عقید ہ ہے ۔ تو معلوم ہوا کہ جیسا اللہ نے نازل کیا ویسے ہی پڑھنا واجب ہے۔
(۴) وجوب تجوید کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : {قراٰناً عربیاً غیر ذی عوج لعلہم یتقون }(الزمر: ۲۸)
یہ قرآن عربی زبان میں ہے جس میں کوئی کجی نہیں ۔ تاکہ وہ لوگ بچ سکیں۔
اب اگر کوئی شخص بغیر تجوید اور ترتیل کی رعایت کے پڑھے تو گویا اس نے قرآن کی صفت عربی کی مخالفت کی۔ اس لیے کہ قر آن کی تلا ت میں غلطی کرنا قرآن کی عربیت کے متنافی ہے ۔ تو جوبھی بغیر ترتیل کے پڑھے وہ ایسا ہے جیسا کہ کجی کے ساتھ پڑھ رہا ہو ۔
احادیث کی روشنی میں تجوید کے ساتھ قرآن پڑھنا واجب ہونے کی دلیلیں :
(۱) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت کا انداز کیا تھا ؟ تو آپ نے فرمایا : رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرأت میں تمدید فرماتے تھے ۔ (کھینچ کر پڑھتے ) پھر بہ طور تطبیق خود حضرت انس رضی اللہ عنہ نے پڑھ کر دکھایا جس میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کو کھینچ کر پڑھا ۔(بخاری)
بسم اللہ میں مد طبیعی ہے ۔اسی طرح الرحمن الرحیم کے مد کو د وسے چھ حرکات تک کھینچا جاسکتا ہے ۔
(۲) حضرت ام سلمہ ؓ بیان فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قرأت میں ایک ایک آیت کو الگ الگ پڑھتے ۔ { الحمدللّٰہ رب العٰلمین} پر وقف کرتے ، پھر{ الرحمن الرحیم }پر ٹھہر جاتے ۔
اس حدیث سے معلوم ہو اکہ ہرآیت پر وقف کرنا سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔
(۳) تجوید کے وجوب پر یہ دلیل بڑی قوی ہے ۔ جو کہ سننِ سعید بن منصور میں ہے :حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک شخص کو قرآن پڑھا رہے تھے ، تو اس شخص نے{ انما الصدقٰت للفقراء والمساکین } میں’’ فقراء‘‘ کو بغیر مد کے پڑھا تو حضرت ابن مسعود ؓ نے اسے فوراً ٹوکا اور فرمایا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس طرح نہیں پڑھایا ، پھر اس شخص نے دریافت کیا اے ابو عبد الرحمن !پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو کیسے پڑھایا؟ تو ابن مسعود ؓ نے فقراء کو مد کے ساتھ کھینچ کر پڑھ کر سنایا ۔
ابن جزری اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں کہ یہ حدیث تجوید کے وجوب کے سلسلہ میں بڑی واضح حجت ہے ۔ شیخ عبد الفتاح المرصفی فرماتے ہیںکہ حضرت ابن مسعود ؓ نے جو کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام نقل و حرکت میں مشابہت رکھتے تھے ، اس شخص کو ٹوکا جو کہ فقراء کو بغیر مد کے پڑھ رہا تھا اور اسے مد چھوڑ نے کی اجازت نہیں دی ۔ جب کہ مد سے پڑھنے اور نہ پڑھنے میں کلمہ کے معانی پر کوئی اثر نہیں پڑرہا تھا،لیکن صرف اس لیے کہ قرأت ایک ایسی سنت ہے ،جسے ایک دوسرے سے عملًا سیکھا جاتا ہے ۔ جیسا کہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے فرمایا اور حضرت ابن مسعود ؓ کا اس شخص کو ٹوکنا،صرف اس لیے تھاکہ وہ شخص اس نہجِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہٹ کر پڑھ رہا تھا ۔ جیسے آپ علیہ السلام نے صحابہ کو پڑھایا ۔
اجماع سے دلیل :
شیخ المحققین ابن الجزریؒ فرماتے ہیں : بلاشبہ امت مسلمہ کے لیے معانی قرآن کافہم اور اس کے حدود کو قائم کرنا ایک عبادت ہے۔ ایسے ہی قرآن پاک کے الفاظ کی تصحیح ، حروف کی بالکل درست اور صحیح ادائیگی اس انداز میں جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ اور ان سے ائمہ نے سیکھا ایک عبادت ہے ، جس سے رو گردانی اور خلاف ورزی کرنا بالکل جائز نہیں ۔ اس سلسلہ میں لوگ دو طرح کے ہیں ۔ ایک وہ جو بالکل صحیح اور درست پڑھے اور اسے ثواب ملے ۔ دوسرے وہ جو غلط پڑھے اور گنا ہ لازم آئے۔ تیسرا شخص معذور ہی ہو سکتا ہے ۔ جس شخص کو کلام الٰہی کی تصحیح پر قدرت ہوکہ اسے صحیح عربی انداز میں پڑھ سکتا ہے، لیکن صرف و ہ اپنے آپ کو بالکل سب سے مستغنی سمجھتے ہوئے یا پھر اپنی رائے پر قائم رہتے ہوئے یا جو کچھ اس نے یاد کیا اسی پر بھروسہ کرتے ہوئے قرآن کو عجمی یا نبطی انداز میں پڑھتا ہو اور کسی ایسے عالم سے رجوع بھی نہیں کرتا جو اسے صحیح انداز اور پڑھنے کا طریقہ سکھلادے تو بلاشبہ وہ قرآن کے حق میںکوتا ہی کرنے والا اور گناہ گار ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : دین سراسر خیر خواہی کا نام ہے ۔ اللہ کے لیے، اس کی کتاب (قرآن ) کے لیے ، اس کے رسول کے لیے اور مسلمان کے ائمہ و عوام کے لیے ۔لیکن اگر کوئی ایسا شخص ہو جس کی زبان ہی نہ چلتی یا پڑھنے میں اٹک جاتی ہو اور اسے قرآن پڑھنے میںبہت دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہو یا اسے ایسا کوئی مولوی ہی نہ ملے جو اس کی تصحیح کرسکے تو وہ معذور ہے اس لیے کہ{ لا یکلف اللّٰہ نفسا الا وسعہا }۔
شیخ محمد مکی نصر فرماتے ہیں کہ زمانۂ نبوت سے لے کر آج تک ساری امت کا اس بات پر اجماع ہے (کسی کا اس میں اختلاف نہیں ) کہ تجوید سے قرآن پڑھنا واجب ہے ۔