علم الوجود (Ontology)

        علم الوجود (Ontology) نظریہٴ حیات کا وہ بنیادی حصہ ہے جووجود، حقیقت اوروجود کی صفات وغیرہ پرتحقیق کرتا ہے۔ یہ علم کسی ذات کے وجود، اس کی بنیادی خصوصیات اورمختلف ذاتوں کے باہمی تعلقات کا مطالعہ کرتا ہے۔ علم الوجود صرف وجود کے بنیادی تصورات پر بحث نہیں کرتا؛بلکہ گہرے فلسفیانہ سوالات بھی اٹھاتا ہے جیسے:

            کون کون سی ذاتیں موجود ہیں؟: یہ سوال اس بات کی تحقیق کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ ہماری کائنات میں کون کون سی ذاتیں ہیں اوران کا وجود کس نوعیت کا ہے۔وجود کی بنیادی کیٹیگری کیا ہیں، اورکسی ذات کے موجود ہونے کے اعتبار سے کتنی قسمیں ہیں؟: یہ سوال وجود کی مختلف اقسام اوران کی بنیادی کیٹیگریوں پرروشنی ڈالتا ہے، موجودات کی مختلف اقسام کی تحقیق کرتا ہے اوران کی تفصیلات کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔کیا کوئی وجود ایسا ہے جس کا ہونا لازم اورضروری ہے؟: یہ سوال اس بات کی تحقیق کرتا ہے کہ آیا کوئی ایسا وجود ہے جس کی موجودگی کو کسی بھی حالت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اگرہم اس لازمی وجود کونہیں مانتے، تو کائنات اورزندگی کو سمجھنے میں کیا مشکلات پیش آئیں گی؟

وجود کی نوعیت کیا ہے؟:

            اس سوال کا مقصد وجود کی حقیقت کی نوعیت کو جانچنا ہے، آیا یہ معروضی ہے، یعنی ہمارے حواس کے ادراک سے باہر ہے، یا یہ موضوعی ہے، یعنی ہمارے حواس اورتجربات سے تشکیل پاتی ہے؟کیا حقیقت وجود صرف مادی عناصر پرمشتمل ہے، یا غیر مادی وجود بھی ہوتی ہیں؟: یہ سوال مادی اورغیر مادی وجود، جیسے روحانی یا مابعدالطبیعیاتی وجود کے مابین فرق کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔

            مختلف ذاتوں کے درمیان کیا تعلقات ہیں؟: یہ سوال مختلف موجودات کے تعاملات اور ان کے باہمی تعلقات کو جانچتا ہے۔کیا ان کے آپسی تعامل کے لئے کوئی آفاقی اصول ہیں؟: اس سوال کا مقصد یہ معلوم کرنا ہے کہ آیا مختلف ذاتوں کے تعامل کے لیے کوئی عمومی اصول یا ضوابط موجود ہیں۔

کیا ہمارے حسی ادراک سے باہر حقیقت کی مختلف جہتیں یا سطحیں ہیں؟: یہ سوال اس بات کی تحقیق کرتا ہے کہ آیا حقیقت کی کوئی ایسی جہت یا سطح بھی ہے جو ہمارے حسی ادراک سے باہر ہے۔

            یہ تمام سوالات علم الوجود کے مختلف پہلوؤں کو اجاگرکرتے ہیں اورہمیں وجود اورحقیقت کی گہرائی میں جانے کی دعوت دیتے ہیں۔

 قدیم اور جدید علم الوجود (Ontology)

            قدیم اور جدید فلسفے میں وجود کی بحث بہت مختلف ہے لیکن ان میں کچھ تصورات آج بھی مشترک ہیں گرچہ ان کی حقیقت مختلف ہے جیسے وجودکی تقسیم ”ضروری وجود“،”ممکن وجود“ اور”ناممکن وجود“ یہ تقسیم بنیادی طور پر کلاسیکی علم الوجود کے تحت سمجھی جاتی ہے، خاص طورپر قرون وسطیٰ کے فلسفے میں اس کی بڑی اہمیت ہے۔ یہ درجہ بندی بڑی حد تک ان فلسفیوں کے کاموں سے سامنے آئی ہے جو ارسطو سے متاثر تھے، جیسے علامہ ابن سینا اوریکویناس، انہوں نے وجودات کو ضرورت اورامکان کی بنیاد پرتین قسموں میں تقسیم کیا ہے۔

            جدید وجودیات میں، یہ تقسیم ایک نئی شکل میں نظر آتی ہے، اگرچہ ضرورت اور امکان کے تصورات اب بھی موجود ہیں لیکن انہیں مختلف تناظر اور فلسفیانہ فریم ورک میں بیان کیا جاتا ہے۔ کلاسیکی اورجدید وجودمیں ان تصورات کو کس طرح سمجھا جاتا ہے یہاں اس کی مختصر وضاحت پیش کی جاتی ہے:

کلاسیکی تصور

ضروری وجود: ضروری وجود وہ ہے جس کا وجود لازمی ہے اوراس کے نہ ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ اس کا وجود خود اپنی ذات میں مکمل ہے اورکسی دوسری چیزپرمنحصرنہیں۔ یہ تصورقدیم فلسفہ میں خدا کے تصور کے ساتھ خاص ہے۔

             مثال: خدا، جیسا کہ علامہ ابن سینا اور متکلمین نے بیان کیا، ابن سینا نے پہلے سبب یا غیر متحرک محرک کی ضرورت اورمتکلمین نے محدث کے حق میں مضبوط دلائل پیش کیے۔

ممکن وجود:

            ممکن وجود وہ ہے جو موجود ہو سکتا ہے لیکن اس کا موجود ہونا ضروری نہیں،اس کا وجود ضروری وجود پر منحصر ہوتا ہے۔

             مثال: وہ چیزیں جنہیں اتفاقی وجودکہا جا سکتا ہے، جیسے انسان یا درخت، جو موجود تو ہیں مگر ان کا موجود ہونا ضروری نہیں۔ اگر خدا نہ چاہتا تو یہ موجود نہ بھی ہو سکتے تھے۔

ناممکن وجود:

            ناممکن وجود وہ ہے جس کا وجود عقلی یا منطقی طورپرممکن نہیں، کیونکہ اس کی ماہیت میں تضاد یا غیرمعقولیت ہوتی ہے۔

             مثال: مربع دائرہ، جو ایک منطقی ناممکنیت ہے، کیوں کہ ایک شکل بیک وقت مربع اور دائرہ نہیں ہو سکتی۔

جدید تصور

جدید علم الوجود میں ان تصورات کو مختلف انداز میں بیان کیا گیا ہے:

            ضروری وجود:ضروری وجود کا تصور اب بھی موجود ہے، خاص طورپران مباحثوں میں جو منطقی اورفلسفہٴ مذہب کے دائرے میں آتے ہیں۔ جیسے بعض جدید فلسفی ممکنہ دنیا کے فریم ورک میں ضروری وجود پربحث کرتے ہیں، الوین پلانتنگا Alvin Plantinga کا خدا کے وجود کے لئے وجودی منطقی دلیل اسی زمرے میں آتی ہے۔

ممکن وجود: ممکن وجود کے تصور کو ماڈل منطق (modal logic) میں خاص طور پر مطالعہ کیا گیا ہے، جو ضرورت اورامکان کے معاملات سے متعلق ہے۔ ڈیوڈ لیوسDavid Lewis کی ”On the Plurality of Worlds” ” تعددی ممکنہ دنیا کا نظریہ“ ایک ایسی تصوراتی بحث ہے جو تمام ممکنہ دنیاوں کو حقیقی دنیا کی طرح حقیقی مانتی ہے، حالاں کہ یہ نظریہ متنازعہ ہے۔

ناممکن وجود:ناممکن وجود کا تصور جدید فلسفے میں بھی اہمیت رکھتا ہے، خاص طور پرماڈل منطق اورمابعدالطبیعات میں۔ جدید مباحث اکثر منطقی اورمابعدالطبیعاتی ناممکنات کی حدود کا تعین کرنے پر زور دیتے ہیں۔

            گراہم پریسٹ کا تضاد پسند منطق (paraconsistent logic) جو بعض تضادات کی گنجائش پیدا کرتا ہے اورامکان اورناممکنیت کی حدود کو ایک نئی شکل دیتا ہے اس میدان میں ایک اہم کام ہے۔

 کلاسیکی آنٹولوجی (علم الوجود) کی بنیادی خصوصیات درج ذیل ہیں:

            جوہر کو مرکز میں رکھنا: کلاسیکی آنٹولوجی میں جوہر (Substance) کو وجود کا بنیادی زمرہ سمجھا جاتا ہے، جو تمام خصوصیات اور تبدیلیوں کو زیر کرتا ہے۔ ارسطو کا جوہر کے بارے میں تصوراس علم الوجود کی بنیاد ہے اورتھامس اکویناس نے اپنے مذہبی لٹریچر میں اس خیال کومزید تقویت بخشی ہے۔

            وجود کی درجہ بندی: کلاسیکی آنٹولوجی میں حقیقت کو درجہ بندی کے لحاظ سے دیکھا جاتا ہے، جہاں وجود کی اعلیٰ شکلیں، مثلاً مابعد الطبیعیاتی اورروحانی کو نچلی شکلوں جیسے مادی اشیاء سے زیادہ حقیقی یا بنیادی سمجھا جاتا ہے۔افلاطون کے نظریات اس درجہ بندی کی عمدہ مثال ہیں اورPlotinus نے اپنی تحریروں میں مابعد الطبیعیاتی درجہ بندی پرزوردیا ہے۔

            غائتی (ٹیلیولوجی) فہم:کلاسیکی آنٹولوجی میں اکثر مقصدیت کا نقطہٴ نظرشامل ہوتا ہے، جس میں ہروجود کے ساتھ ایک ذاتی مقصد یا انجام وابستہ ہوتا ہے۔ ارسطو کے نظریات میں بھی یہ بات نمایاں طورپرملتی ہے کہ فطرت میں ہرچیزکا ایک مقصد ہوتا ہے۔

            جوہریت: کلاسیکی آنٹولوجی میں اشیاء کی جوہریت (Essentialism) کو لازم سمجھا جاتا ہے اوراشیاء کی متعین خصوصیات پرکافی توجہ دی جاتی ہے جو ان کی شناخت اورنوعیت کو متعین کرتی ہیں۔ ارسطو کی تصانیف میں اس تصور کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ہے۔

            جدید مغربی فلسفے اور آنٹولوجی کی شروعات ڈیکارٹ سے ہوتی ہے، جو قدیم آنٹولوجی سے اپنے بنیادی عقائد اورتصورات میں یکسر مختلف ہے:

جدید آنٹولوجی (علم الوجود) کی بنیادی خصوصیات درج ذیل ہیں:

             Epistemologyکی طرف شفٹ: جدید آنٹولوجی وجود کے بجائے وجود کے علم پرزیادہ زور دیتی ہے، جو حقیقت کی تشکیل میں وجود اورشعور کے کردارپرروشنی ڈالتی ہے۔ کانٹ نے انسانی عقل کی حدود اورساختوں کی نئی تشریح پیش کرکے اس کو مزید ترقی دی۔

            جوہریت کی مخالفت:جدید آنٹولوجی اکثر جوہریت کو رد کرتی ہے یا اس کی اہمیت کو کم کرتی ہے اوراس کے بجائے اشیاء کی عارضیت اورموجودہ نوعیت پرتوجہ دیتی ہے۔ نطشے نے جوہریت پرتنقید کی اورحقیقت کی عارضیت پر زوردیا، جبکہ سارتر نے جوہریت کے بجائے وجود کی فوقیت کا اعلان کیا۔

            زبان اورساخت: بیسویں صدی نے ایک لسانی موڑدیکھا، جہاں فلسفیوں جیسے وٹگنسٹائن اورہائڈگرنے زبان اورساخت کے کردارپرزوردیا، کہ وہی حقیقت سے متعلق ہماری فہم کوتشکیل دیتے ہیں۔ وٹگنسٹائن کے بعد ہونے والے فلسفیانہ مباحث خاص طورپراس بات پرمرکوز ہیں کہ زبان کیسے حقیقت کو تشکیل دیتی ہے۔

            تعلق پرمبنی آنٹولوجی: جدید آنٹولوجی اکثر تعلق پرمبنی نقطہٴ نظرکواپناتی ہے، جہاں اشیاء کے درمیان تعلقات اتنے ہی بنیادی سمجھے جاتے ہیں جتنی اشیاء خود۔ وائٹ ہیڈ کا فلسفہ اس تعلقاتی نقطہٴ نظر کی مثال ہے اوردیلیوز نے بھی حقیقت کے متحرک ہونے اورتعلقاتی نوعیت پرزوردیا ہے۔

            مابعد جدید چیلنجز: مابعد جدید مفکرین روایتی آنٹولوجی کی بنیادی باتوں کو چیلنج کرتے ہیں اورحقیقت کے معروضی یا مطلق تشریح کے امکان پرسوال اٹھاتے ہیں۔ دیریدا کی ڈی کنسٹرکشن(Deconstruction) اور فوکو کی علمیاتی ساخت پرتنقید اس مابعد جدیدیت فکر کی عمدہ نمائندگی کرتی ہے۔(مبادیات مغربیت:۲۴تا۳۰)