علم الغایت (Teleology)

            علم الغایت یا علم المقاصد وہ علم ہے جو انسان کو ہر شئی، ذات اورعمل کے مقصد کا پتا بتاتا ہے۔ یہ علم ہمیں بتاتا ہے کہ کسی بھی شئی یا واقعہ میں کوئی بنیادی مقصد یا حتمی وجہ موجود ہے یا نہیں۔انسان فطرت میں موجود مختلف مظاہر، واقعات اوراشیاء میں ایک مقصد تلاش کرتا ہے۔ یہی نقطہٴ نظر ہے جو انسانوں کو اس جستجو پر ابھارتا ہے کہ ہر واقعہ، ہر ذات اورہر عمل کے پیچھے کے لازمی مقصد یا حتمی وجہ کو جاننے کی کوشش کرے۔

            علم الغایت ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ ہماری زندگی اور دنیا میں موجود ہر شئے کے پیچھے کوئی گہرا مقصد ہے اوریہ مقصد ہماری زندگی کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے اور اس کی رہنمائی کرنے میں معاون ہوتا ہے۔ یہ علم ہمیں اس بات کی سمجھ فراہم کرتا ہے کہ ہمیں اپنے ایک عمل اور فیصلے کو کیسے دوسرے عمل یا فیصلے پر فوقیت دینی چاہیے، تاکہ ہم اپنی زندگی کو زیادہ بامقصد اور معقول بنا سکیں۔

            یہی وہ نقطہٴ نظر ہے جو انسانوں کو اپنی زندگی اور دنیا کی حقیقت کو بہتر طور پر سمجھنے کی کوشش پر ابھارتا ہے اوراس تلاش میں انسان مختلف فلسفے، نظریات اورعقائد کی طرف راغب ہوتا ہے تاکہ وہ اپنے وجود اور اعمال کے مقصد کو واضح کر سکے۔

علم الغایت کی اہمیت:

            کائنات میں ڈیزائن: کائنات میں ڈیزائن کا پایا جانا ایک ایسا خیال ہے جو انسانی سوچ میں ہمیشہ موجود رہا ہے۔ انسان اس بات پر ایمان رکھتا رہا ہے کہ کائنات، زندگی اورقدرتی مظاہر میں ایک خاص ترتیب اور مقصد موجود ہے۔ یہ فلسفہ ہمیں بتاتا ہے کہ چیزیں ایک خاص انداز میں موجود ہیں اور کام کرتی ہیں کیوں کہ وہ کسی مخصوص مقصد کو پورا کرنے کے لیے تخلیق کی گئی ہیں۔

            حتمی مقصد: ٹیلیولوجی میں ”حتمی منزل“ یا”حتمی مقصد“ کا نظریہ اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ چیزیں کیوں اسی طرح ہیں اور واقعات کیوں ایک خاص انداز میں وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک پہلے سے طے شدہ مقصد موجود ہے جس کی طرف کائنات کی تمام چیزیں رواں دواں ہیں۔

            ترتیب اور ہم آہنگی: علم الغایت قدرتی دنیا میں ترتیب، ہم آہنگی اور ارادے و اختیار کے نظریے کو پیش کرتا ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ فطرت میں پائی جانے والی پیچیدگی اور نظم ایک بنیادی بامقصد انتظام کی عکاسی کرتی ہے، جو ایک اعلیٰ منصوبے کا نتیجہ ہے۔

            انسانی مقصدیت: بعض ٹیلیولوجیکل نظریات انسانی وجود سے مخصوص مقاصد کو منسوب کرتے ہیں یا یہ مانتے ہیں کہ کائنات کو انسانی مقاصد یا اہداف کی تکمیل کے لیے تخلیق کیا گیا ہے۔ انسانی فکر میں مقصدیت کا نظریہ پوری تاریخ میں موجود رہا ہے اور مختلف فلسفیانہ، مذہبی اورسائنسی خیالات کو متاثر کرتا رہا ہے۔

            قدیم فلسفے میں ارسطو جیسے مفکرین نے کسی شئی کے فطری انجام کے تحت مقصدیت پر بحث کی ہے۔ مذہبی تناظر میں، ٹیلیولوجیکل دلائل کا استعمال کائنات میں مقصد خداوندی یا ڈیزائن کے عقیدہ کو ثابت کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ ان نظریات کے ذریعے انسان یہ سمجھنے کی کوشش کرتا ہے کہ دنیا کی پیچیدگی اور ترتیب کسی بڑے مقصد یا منصوبے کا حصہ ہیں، جو انسانی تفکر کو ایک نئی سمت دیتا ہے اور اس کے وجود کو ایک بامقصد تناظر میں سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔

جدید اور قدیم علم الغایت (Teleology) کے درمیان بنیادی فرق:

            قدیم اور جدید علم الغایت میں بنیادی فرق یہ ہے کہ قدیم فلسفہ مقصدیت کو فطرت کی ایک لازمی خصوصیت کے طور پر دیکھتا ہے، جب کہ جدید فلسفہ اس نظریے کو مختلف طریقوں سے سمجھتا ہے اور اسے ارتقائی، منطقی اورمعقولیت کی بنیاد پر پرکھتا ہے۔ قدیم اور جدید علم الغایت میں بنیادی فرق کے مطالعے سے ہمیں فلسفیانہ سوچ کی ترقی اور تبدیلیوں کا پتا چلتا ہے۔

            قدیم فلسفے میں علم الغایت کی تفہیم عموماً ارسطو کے فلسفے کے ارد گرد گھومتی ہے۔ ارسطو نے اپنیMetaphysicsمیں مقصدیت کو ہر شئی کی بنیاد کے طور پر پیش کیا ہے۔ ارسطو کے مطابق ہر چیز کی ایک داخلی مقصدیت (telos) ہوتی ہے،جو اس کی فطرت کو بیان کرتی ہے۔ ارسطو نے اس خیال کو تفصیل سے بیان کیا ہے کہ تمام چیزوں کا ایک خاص مقصد ہوتا ہے، جو ان کی ترقی اور عمل کی سمت کو متعین کرتا ہے۔

            ارسطو کا نظریہ: ارسطو نے مقصدیت کو اپنے فلسفے کی بنیاد بنایا اور اس کی وضاحت کی کہ ہر چیز کی ایک خاص جگہ اور اس کا مقصد ہوتا ہے جو اس کی جوہریت کا حصہ ہے مثلاً، ایک بیج کا نمو پاکر چھوٹے سے پودے سے ایک تناور درخت بننے کا عمل اس کی فطری مقصدیت کو ظاہر کرتا ہے۔

            افلاطون نے بھی اپنے The Republic میں مقصدیت کے نظریے کو بیان کیا ہے، جہاں اس نے نظریہٴ تمثیل کی مدد سے یہ وضاحت کی کہ ہر چیز کی اصلی نوعیت ایک مثالی شکل (form) میں چھپی ہوئی ہے، جو اس کے مقصد کی نمائندگی کرتی ہے۔

            جدید فلسفے میں علم الغایت کی تفہیم میں تبدیلی آئی ہے۔ نئے دور کے فلسفیوں نے اس نظریے کو مختلف تناظر میں دیکھا ہے۔ مثلاً، امانوئل کانٹ نے اپنیCritique of Pure Reasonمیں مقصدیت کے تصور کو عقلی تناظر میں پیش کیا اور اسے اخلاقی قوانین اور انسانی عقل کے اصولوں سے جوڑا۔

            کانٹ کا نظریہ: کانٹ نے مقصدیت کو ایک اخلاقی اور منطقی اصول کے طور پر پیش کیا، جس میں مقصدیت کے بجائے انسان کی عقل اور اخلاقی قوانین کو زیادہ اہمیت دی گئی۔ اس نے مقصدیت کی بجائے اصولیت پر زور دیا اور اسے معقولیت کی بنیاد پر پرکھا۔

            ڈارون کا نظریہ: چارلس ڈارون کی On the Origin of Species میں مقصدیت کو ارتقائی نظریے سے جوڑا گیا ہے۔ ڈارون نے طبیعی انتخاب کے اصول کو پیش کیا اور اس کے ذریعے یہ وضاحت کی کہ زندگی کی ترقی میں مقصدیت کا کوئی ثابت نہیں ہے بلکہ یہ عمل ارتقائی عوامل پر مبنی ہے۔

            جدید فلسفیوں کا نظریہ: جدید دور کے فلسفیوں نے مقصدیت کو کسی خاص معین طریقے سے نہیں دیکھا ہے۔ کچھ فلسفیوں نے اس نظریے کو محض ایک ممکنہ تفہیم کے طور پر پیش کیا اور اس پر سوال اٹھایا کہ کیا تمام چیزوں کی مقصدیت حقیقت میں موجود ہوتی ہے بھی یا نہیں۔

(مبادیات مغربیت:۴۳تا۴۶)