عقیدہ ولاوبرا سے روگردانی اور اس کو اچھی طرح جاننے کی ضرورت

 

مولانا الطاف اشاعتی کشمیری  استاذ جامعہ اکل کوا

            آپ کے مؤقر اور محبوب ماہنامہ ”شاہراہِ علم“ کے اس خصوصی نمبر میں مجھے جس عنوان پر قلم فرسائی کرنے کا حکم ملا ہے، وہ اسلامی عقائد و تعلیمات کے اعتبار سے انتہائی مہتم بالشان، اہم، حساس اور نازک موضوع ہے۔یہ مبارک عقیدہ حق تعالیٰ کے نزدیک محبوبیت اور مبغوضیت کا معیار ہے۔یہ ایک مسلمان کے لیے دوسرے مسلمانوں اور ساری انسانی برادری کے تئیں محبت و بغض، دوستی و دشمنی، اپنائیت اور غیریت کی گائیڈ لائن اور ہر جگہ اور ہر زمانے میں پائیدار اور مستحکم ضابطہ اور قانون ہے۔ اس عقیدہ سے محبت و بغض کے سرچشموں اور اس سے پھوٹنے والے دھاروں کا رخ اور (direction) معلوم ہوتا ہے اور صحیح سمت میں سفرِ حیات جاری رکھ کر منزل ِمقصود تک پہنچا جا سکتا ہے۔ کتاب وسنت کی سیکڑوں نصوص میں اس عقیدے کو نمونوں اور مثالوں کے ساتھ بڑی وضاحت اور تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ قرآن ِعظیم نے اس کا سب سے بڑا علم بردار، امام اور پیشوا حضرت ابراہیم خلیل الرحمن علیہ السلام کو قرار دیا اور ملت ِابراہیمیہ محمدیہ صلوات اللہ وسلامہ علیہما کے پیروکاروں کو انہیں کی ملت کی پیروی کرنے اور انہیں کو اسوہ اور نمونہ بنانے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس عقیدے کو دوسرے الفاظ میں ”المُوالاة والمُعاداة فی الإسلام “ اور”الحب فی اللہ والبغض فی اللہ “سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔اسلامی عقائد کی کتابوں میں بھی اسے اہل السنة والجماعت کے صمیم عقائد میں جگہ دی گئی ہے۔ امام طحاوی رحمہ اللہ اپنی کتاب ” العقیدة الطحاویة“ میں لکھتے ہیں: وَنُحِبُّ أَہْلَ الْعَدْلِ وَالْأَمَانَة، وَنُبْغِضُ أَہْلَ الْجَوْرِ وَالْخِیَانَة.(ہم اہل ِعدل و امانت سے محبت کرتے ہیں اور ظلم وخیانت کرنے والوں سے بغض رکھتے ہیں) اس عقیدے میں امامِ موصوف نے حب وبغض/ولاء و براء اور ہر دو کے اسباب کو اجمالًا بیان فرمادیا۔ ان شاء اللہ آگے اس کی تفصیل آئے گی۔ حضرات ِمفسرین نے بھی اپنی تفاسیر میں بڑی شرح وبسط سے اسے لکھا ہے۔میرے سامنے اس وقت برِصغیر کے عظیم مفسر مولانا اشرف علی تھانوی، علامہ شبیر احمد عثمانی اور مولانا ادریس کاندھلوی رحمہم اللہ کی بیان القرآن، تفسیر عثمانی اور معارف القرآن ہیں ۔تینوں بزرگان نے سورہٴ آل عمران آیت نمبر ۸۲ /اور سورہٴ مائدہ آیت نمبر ۱۵ /اور اس کے بعد والی آیات کے تحت اس موضوع پر اپنے معہود، دلکش اور البیلے انداز میں انتہائی نفیس اور عمدہ کلام فرمایا ہے۔اہل علم کو اِن مقامات کی ضرور زیارت کرنا چاہیے۔

            اخلاق نبوی کے بہترین انسائیکلو پیڈیا موسوم بہ”نضرة النعیم فی مکارم أخلاق الرسول الکریم صلی اللہ علیہ وسلم “ میں ولا و برا کے موضوع پر 69 آیات، 31 احادیث اور 19 آثار پیش کیے گئے ہیں۔اور اس کے لغوی و اصطلاحی معنی کی وضاحت کے ساتھ اس پر مفصل و مدلل عمدہ کلام کیا گیا ہے۔ ایک عرب عالم محماس بن عبداللہ بن محمد الجَلْعُود نے اس موضوع پر دو جلدوں میں ایک ہزار صفحات پر مشتمل ایک بہترین کتاب بنام ”الموالاة والمعاداة فی الشریعة الإسلامیة “ لکھی ہے، جس میں بہت تفصیل کے ساتھ اس عقیدے کو بیان کیا ہے۔اس کے علاوہ بھی اس موضوع پر عربی زبان میں چھوٹی بڑی دسیوں مستقل تصانیف موجود ہیں۔

            اسلامی تاریخ کے سنہری ادوار میں جب دنیا کی زمامِ اقتدار مسلمانوں کے ہاتھوں میں تھی اور جب مسلمان صحیح معنی میں مسلمان تھے، اسی مبارک عقیدہ کو دوستی ودشمنی اور باہمی تعلقات کی استواری میں معیار اور میزان قرار دیا جاتا تھا۔ مگر جب دور ِانحطاط و اِدبار میں ہر چیز کے معیار اور پیمانے بدل گئے اور دوستی و دشمنی کے وہی جاہلی پیمانے بر آمد کر لیے گئے، جنہیں پیغمبر آخر الزماں سیدنا ومولانا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پاؤں تلے روند چکے تھے، تو اس عقیدے پر بھی کاری ضرب لگی۔ لوگ اس میں افراط وتفریط کا شکار ہوگئے، بل کہ اکثر مسلمانوں کے قلوب و اذہان سے یہ عقیدہ اوجھل ہوگیا۔ جب کہ امت ِمسلمہ کے اِقبال وتقدم میں اس عقیدہ کو اپنانے اور اِدبار وتخلف میں اس عقیدے سے روگردانی کرنے کا بڑا مرکزی کردار رہا ہے:

اپنی مِلّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر

خاص ہے ترکیب میں قومِ رُسولِ ہاشمی

اُن کی جمعیّت کا ہے مُلک و نسَب پر انحصار

قوّتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیّت تری

دامنِ دیں ہاتھ سے چھُوٹا تو جمعیّت کہاں

اور جمعیّت ہوئی رُخصت تو مِلّت بھی گئی

            ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان افراط وتفریط سے دور رہ کر اسلام کے مزاجِ اعتدال کے مطابق اس عقیدے کے ساتھ تعامل کریں اور ذلت اور نکبت کے قعر عمیق سے نکل کر عزت و رفعت کے بام ِعروج تک پہنچنے کی ہر ممکن سعی اور کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔

ولا و برا لغت کی میزان پر:

             وَلَاء (بفتح الواو) یہ عربی زبان کا بڑا جامع اور وسیع لفظ ہے۔ لغت میں اس کے متعدد معانی وارد ہوئے ہیں:

            قرب وتعلق، محبت، دوستی، مدد، وفاداری، جاں نثاری، اطاعت وغیرہ۔یہاں پر یہ لفظ ان تمام لغوی معانی کے اعتبار سے صحیح اور مفیدِ مطلب ہے۔

            اسی طرح لفظ برَاء (بفتح الرا) بھی ایک جامع لفظ ہے، جس کے لغت میں کئی معانی ہیں:

             بغض، نفرت، دشمنی، قطع تعلق اور نافرمانی وغیرہ۔یہ بھی اپنے تمام معانی کے اعتبار سے یہاں صادق آرہا ہے۔

            امام راغب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”الولاء والتوالی: أن یحصل شیئان فصاعداً حصولاً لیس بینہما ما لیس منہما، و یستعار ذلک للقرب من حیث المکانُ، ومن حیث النسبةُ ، ومن حیث الدینُ، ومن حیث الصداقةُ والنصرةُ و الاعتقادُ.

            ولاء“ کے اصل معنی دو یا دو سے زیادہ چیزوں کا اس طرح یکے بعد دیگرے آنا کہ ان کے درمیان کوئی ایسی چیز نہ آئے جو اُن میں سے نہ ہو۔ پھر یہ لفظ استعارہ کے طور پر قرب کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے، خواہ وہ قرب مکان کے اعتبار سے ہو یا نسبت کے۔یا دین، دوستی،نصرت ومددیا اعتقاد کے۔“

            اسی سے لفظ”وَلِیّ“ بمعنی دوست ہے ،جس کی ضد عَدُوٌّ(دشمن) ہے۔

            حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ولی کی یہ تعریف فرمائی ہے: الولی: ہو العالم باللہ، المواظب علی طاعتہ، المخلص فی عبادتہ. ولی ایسے شخص کو کہا جاتا ہے، جو اللہ کی معرفت رکھتا ہو، اس کی اطاعت پر کاربند ہواور اخلاص کے ساتھ اس کی عبادت کرتا ہو۔

            امام راغب براء کے معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:           أصل البُرء والبراء ة والبَری: التقصّی مما یکرہ مجاورتہ، ولذلک قیل: بَرَأْتُ من المرض، وبَرئتُ من فلان وتبرّأت۔“

            وَلاء کے مقابلے میں بَراء ہے، جس کے اصل معنی: کسی چیز سے اس کی ناپسندیدگی اور کراہت کی وجہ سے دوری اختیار کرنا۔ کہا جاتا ہے:”بَرَأْتُ من المرض“ میں بیماری سے دور ہوگیا (اچھا ہوگیا)،”وبَرئتُ من فلان وتبرّأت“میں فلاں سے دور یعنی بیزار اور دست بردار ہوگیا۔

            اسی طرح” بَرَی“، ”قطع“ کاٹنے کے معنی میں بھی آتا ہے، جو اعدائے اسلام سے تعلقات منقطع کرنے کے معنی میں ہوگا۔

اصطلاحی معنی کے اعتبار سے: ”الولاء والبراء“ کا مطلب ہوگا: أن تُوَالي من أجْل اللّٰہ تعالی وتُعادي وتبرأ من أجْلِہ، تحبّ في اللّٰہ وتبغض فیہ.

            اللہ کے لیے کسی سے دوستی کرنااور اللہ ہی کے لیے کسی سے دشمنی رکھنا اور اظہار ِبرائت کرنا۔ محبت ہو تو صرف اللہ کی خاطراور بغض ہو تو صرف اللہ کی خاطر۔

            براء کی اصطلاحی تعریف میں علما نے یہ بھی لکھا ہے: ہو البعد والخلاص والعداوة بعد الإعذار والإنذار۔

            (کفار ومشرکین سے) کے سامنے حجت تام کرنے اور انہیں شفقت کے ساتھ ڈرانے اور آگاہ کرنے کے بعد دوری، خلاصی اور دشمنی اختیار کرنا؛جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والد اور قوم کے ساتھ کیا۔

عقیدہ ولاء اور براء کی اہمیت: ولاء اور براء پرندے کے دو پروں کی مانند لازم وملزوم ہیں۔ اس کے سلبی اور ایجابی دونوں پہلو ہیں، دونوں جانب کی تکمیل سے ایمان کی تکمیل ہوتی ہے۔

            ”لا إلہ إلا اللّٰہ “ میں جزوِ اول براء اور جزوِ ثانی ولاء کو متضمن ہے۔

             اس کلمہٴ توحید میں اللہ، رسول، شریعت اسلامیہ اور مسلمانوں کے ساتھ ولاء اور طاغوت، شرک اور مشرکین کے ساتھ براء کا واضح اعلان ہے۔

            یہ دونوں لفظ در حقیقت ”محبت“ اور”بُغض“ کے تابع ہیں اور یہی دونوں ایمان کی بنیادی صفات ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے:

             ” مَن أَحَبَّ للّٰہِ وَأَبغَضَ للّٰہِ، وَأَعطَی للّٰہِ وَمَنَعَ للّٰہِ، فَقَدِ استَکمَلَ الإِیمَانَ۔“

             جس نے اللہ کے لیے محبت کی اور اللہ کے لیے دشمنی کی،اللہ کے لیے دیا اور اللہ کے لیے نہ دیا تو یقینا اس کا ایمان مکمل ہو گیا۔

             حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

            ” أَوثَقُ عُرَی الإِیمَانِ المُوَالَاةُ فِی اللہِ وَالمُعَادَاةُ فِی اللہِ، و الحُبُّ فی اللہِ وَالبُغضُ فی اللہِ۔“

            ” ایمان کا سب سے مضبوط حلقہ یہ ہے کہ اللہ کے لیے دوستی ہو،اللہ کے لیے دشمنی ہو، اللہ کے لیے محبت ہو اور اللہ ہی کے لیے بغض ہو۔“

            جو شخص اللہ کے دشمنوں اور باغیوں سے محبت رکھے اور پھر اللہ کی محبت کا دعوی بھی کرے تو وہ نرا احمق ہے، عربی شاعر کہتا ہے:

تَوَدُّ عَدُوّي ثُمَّ تَزْعُمُ أَنَّنِي

صَدِیْقُکَ لَیْسَ النوکُ عَنْکَ بِعَازِبِ

            تو میرے دشمن سے محبت کرتا ہے، پھر سمجھتا ہے کہ میں تیرا دوست ہوں، حماقت وبے وقوفی تجھ سے دور نہیں، بل کہ تیرے اندر سمائی ہے۔

            علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

            ” لا تصح الموالاة إلا بالمعاداة “ دشمنی مول لیے بغیر دوستی متحقق نہیں ہوسکتی۔

عشق قاتل سے، مقتول سے ہمدردی بھی

یہ بتا کس سے محبت کی جزا مانگے گا؟

سجدہ خالق کو بھی، ابلیس سے یارانہ بھی

حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا؟

             اللہ سے محبت کا تقاضا ہے کہ اللہ کے انبیائے کرام اور رسل ِعظام اوران کے اطاعت گزاروں سے محبت کی جائے۔ اسی طرح اللہ اور اس کے انبیا و مرسلین کے دشمنوں سے دشمنی اور عداوت رکھی جائے اور ان کے نافرمانوں سے علیٰ حسب الدرجات بغض رکھاجائے۔

            امام ابوالوفاء بن عقیل رحمہ اللہ فرماتے ہیں: إِذَا أَرَدتَ أَن تَعلَمَ مَحَلَّ الإِسلامِ مِن أَہلِ الزَّمَانِ فَلا تَنظُرْ إِلی زِحَامِہِم فی أَبوَابِ الجَوَامِعِ، وَلا ضَجِیجِہِم فی المَوقِفِ بِ(لَبَّیکَ)، وَإِنَّمَا انظُرْ إِلی مُوَاطَأَتِہِم أَعدَاءَ الشَّرِیعَةِ۔

            اگر تم اہل زمانہ کے اسلام کا مقام ومرتبہ معلوم کرنا چاہتے ہو تو مسجدوں کے دروازوں پر ان کی بھیڑ اور عرفات میں لبیک کی آوازوں کا شور وغل مت دیکھو،بل کہ اعدائے اسلام کے ساتھ ان کی سازباز اور گٹھ جوڑ کو دیکھو۔

معلوم ہوا کہ عقیدہ ولا و برا کو متحقق کیے بغیر عبادات وطاعات کی کثرت بے سود ہے۔

کعبہ بھی گئے پر نہ گیا عشق بتوں کا

زمزم بھی پیا پر نہ بجھی آگ جگر کی

عقیدہ ولا و برا اور قرآن:

            قرآن کریم میں حق تعالی نے متعدد مقامات پر بہت تفصیل سے اس عقیدے کو بیان فرمایا ہے۔یہ دونوں لفظ اپنے مشتقات و مترادفات کے ساتھ اوراق ِقرآنیہ پر موتیوں کی مانند بکھرے پڑے ہیں۔سورہ ٴآل عمران میں ارشاد ربانی ہے:﴿ لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْکَافِرِینَ أَوْلِیَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِینَ وَمَنْ یَفْعَلْ ذَٰلِکَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰہِ فِی شَیْءٍ إِلَّا أَنْ تَتَّقُوا مِنْہُمْ تُقَاةً وَیُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفْسَہُ وَإِلَی اللّٰہِ الْمَصِیرُ﴾۔

(آل عمران :۲۸)

            ترجمہ: مسلمانوں کو چاہیے کہ کفار کو (ظاہرا ًیا باطناً) دوست نہ بناویں۔ مسلمانوں (کی دوستی) سے تجاوز کرکے اور جو شخص ایسا (کام) کرے گا سو وہ شخص اللہ کے ساتھ (دوستی رکھنے کے) کسی شمار میں نہیں، مگر ایسی صورت میں کہ تم ان سے کسی قسم کا (قوی) اندیشہ رکھتے ہو۔ اور اللہ تعالیٰ تم کو اپنی ذات سے ڈراتا ہے اور خدا ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

            اس آیت ِکریمہ میں کفار کے ساتھ موالات اور دوستی سے شدت کے ساتھ منع فرمایا گیا ہے۔ کفار ومشرکین کے ساتھ ولاء (دوستی اور دلی تعلق) تو کسی بھی صورت میں جائز نہیں، البتہ دلی دوستی کے علاوہ ان کے ساتھ معاملات کا کیا حکم ہے؟ حضرت اقدس تھانوی رحمہ اللہ کی اس عبارت میں ملاحظہ فرمائیں: کفار کے ساتھ تین قسم کے معاملے ہوتے ہیں۔ موالات یعنی دوستی۔ مدارات یعنی ظاہری خوش خلقی۔ مواساة یعنی احسان و نفع رسانی۔موالات تو کسی حال میں جائز نہیں اور مدارات تین حالتوں میں درست ہے۔ ایک دفع ِضرر کے واسطے، دوسرے اس کافر کی مصلحت ِدینی یعنی توقع ہدایت کے واسطے، تیسرے اکرام ِضیف کے لیے۔ اپنی مصلحت و منفعت مال و جان کے لیے درست نہیں۔ اور مواسات کا حکم یہ ہے کہ اہل حرب کے ساتھ ناجائز ہے اور غیر اہل حرب کے ساتھ جائز۔

            حضرت رحمہ اللہ نے کفار و مشرکین کے ساتھ معاملات کی تین قسمیں بیان فرمائی ہیں:

            پہلی قسم، ولا اور موالات جو ہمارا موضوع ہے اور کسی بھی صورت میں جائز نہیں۔

             دوسری قسم مدارات (ظاہری خاطر داری اور آؤ بھگت) جس کو تین صورتوں میں جائز قرار دیا ہے:

            (۱) ان سے کسی ضرر اور نقصان کا خدشہ ہوتو اس سے بچنے کے لیے ظاہری آؤ بھگت سے کام لیا جاسکتا ہے۔

            (۲) انہیں اسلام سے قریب کرنے یا اسلام کے تئیں ان کی دشمنی کم کرنے کے لیے ان کی خاطر ومدارات کی جا سکتی ہے۔

            ( ۳) اگر وہ مہمان بنے تو مہمان کے اکرام میں اس کی خاطر تواضع کی جائے گی۔

            تیسری قسم مواسات (غم خواری، مدد، دکھ درد میں شریک ہونا) ہے۔اس کا حکم یہ بیان فرمایا کہ ایسے کافروں کے ساتھ جائز ہے جو مسلمانوں سے بر سرپیکار نہ ہوں۔ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف محاذ ِجنگ قائم نہ کر رکھا ہو، ان کے جان مال کے دشمن اور خون کے پیاسے بنے ہوئے نہ ہوں، اگر ایسے ہوں تو ان کے ساتھ مواسات بھی جائز نہیں۔

            بعض علما نے کفار کے ساتھ چوتھا درجہ معاملات کا بھی لکھا ہے کہ ان سے تجارت یا اجرت و ملازمت اور صنعت و حرفت کے معاملات کیے جائیں۔یہ بھی تمام غیر مسلموں کے ساتھ جائز ہے، بجز ایسی حالت کے کہ ان معاملات سے عام مسلمانوں کو نقصان پہنچتا ہو۔رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اور دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم کا تعامل اس پر شاہد ہے۔ فقہا نے اسی بنا پر کفار اہل حرب کے ہاتھ اسلحہ فروخت کرنے کو ممنوع قرار دیا ہے، باقی تجارت وغیرہ کی اجازت دی ہے اور ان کو اپنا ملازم رکھنا یا خود ان کے کارخانوں اور اداروں میں ملازم ہونا یہ سب جائز ہے۔

            اس تفصیل سے آپ کو یہ معلوم ہوگیا کہ قلبی اور دلی دوستی و محبت تو کسی کافر کے ساتھ کسی حال میں جائز نہیں اور احسان و ہمدردی و نفع رسانی بجز اہل ِحرب کے اور سب کے ساتھ جائز ہے۔ اسی طرح ظاہری خوش خلقی اور دوستانہ برتاؤ بھی سب کے ساتھ جائز ہے، جب کہ اس کا مقصد مہمان کی خاطر داری یا غیر مسلموں کو اسلامی معلومات اور دینی نفع پہنچانا یا اپنے آپ کو ان کے کسی نقصان و ضرر سے بچانا ہو۔

            رسول ِکریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو رحمة للعالمین ہو کر اس دنیا میں تشریف لائے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غیر مسلموں کے ساتھ جو احسان و ہمدردی اور خوش خلقی کے معاملات کیے، اس کی نظیر دنیا میں ملنا مشکل ہے۔ مکہ میں قحط پڑا تو جن دشمنوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے وطن سے نکالا تھا، ان کی خود امداد فرمائی، پھر مکہ مکرمہ فتح ہو کر یہ سب دشمن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قابو میں آگئے تو سب کو یہ فرماکر آزاد کردیا کہ﴿لاتثریب علیکم الیوم﴾ یعنی آج تمہیں صرف معافی نہیں دی جاتی؛ بل کہ تمہارے پچھلے مظالم اور تکالیف پر ہم کوئی ملامت بھی نہیں کرتے۔ غیر مسلم جنگی قیدی ہاتھ آئے تو ان کے ساتھ وہ سلوک کیا جو اپنی اولاد کے ساتھ بھی ہر شخص نہیں کرتا، کفار نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو طرح طرح کی ایذائیں پہنچائیں، کبھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہاتھ انتقام کے لیے نہیں اٹھا، زبانِ مبارک سے بد دعا بھی نہیں فرمائی، بنوثقیف جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے ،ان کا ایک وفد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا تو ان کو مسجد ِنبوی میں ٹھہرایا گیا، جو مسلمانوں کے لیے سب سے زیادہ عزت کا مقام تھا۔

             فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے غیر مسلم محتاج ذمیوں کو مسلمانوں کی طرح بیت المال سے وظیفے دیے۔

             خلفائے راشدین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے معاملات اس قسم کے واقعات سے بھرے ہوئے ہیں۔ یہ مواسات یا مدارات یا معاملات کی صورتیں تھیں، جس موالات سے منع کیا گیا وہ نہ تھی۔

            اس تفصیل اور تشریح سے ایک طرف تو یہ معلوم ہوگیا کہ غیر مسلموں کے لیے اسلام میں کتنی رواداری اور حسن ِسلوک کی تعلیم ہے، دوسری طرف جو ظاہری تعارض ترک ِموالات کی آیات سے محسوس ہوتا تھا وہ بھی رفع ہوگیا۔

            اب ایک بات یہ باقی رہ گئی کہ قرآن نے کفار کی موالات اور قلبی دوستی و محبت کو اتنی شدت کے ساتھ کیوں روکا کہ وہ کسی حال میں کسی کافر کے ساتھ جائز نہیں رکھی، اس میں کیا حکمت ہے؟ اس کی ایک خاص وجہ یہ ہے کہ اسلام کی نظر میں اس دنیا کے اندر انسان کا وجود عام جانوروں یا جنگل کے درختوں اور گھاس پھوس کی طرح نہیں کہ پیدا ہوئے، پھولے پھلے پھر مر کر ختم ہوگئے، بل کہ انسان کی زندگی اس جہان میں ایک مقصدی زندگی ہے، اس کی زندگی کے تمام ادوار، اس کا کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا، سونا جاگنا، یہاں تک کہ جینا اور مرنا سب ایک مقصد کے گرد گھومتے ہیں۔ جب تک وہ اس مقصد کے مطابق ہیں تو یہ سارے کام صحیح و درست ہیں، اس کے مخالف ہیں تو یہ سب غلط ہیں،جو انسان اس مقصد سے ہٹ جائے وہ اہل ِحقیقت کے نزدیک انسان نہیں۔

            قرآن ِحکیم نے اسی مقصد کا اقرار انسان سے ان الفاظ میں لیا ہے:

            ﴿قل ان صلاتی ونسکی ومحیای ومماتی للہ رب العالمین﴾ ” آپ کہیے کہ میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت ؛سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔“

            اور جب انسان کی زندگی کا مقصد اللہ رب العالمین کی اطاعت و عبادت ٹھہرا تو دنیا کے کاروبار، ریاست و سیاست اور عائلی تعلقات سب اس کے تابع ٹھہرے، تو جو انسان اس مقصد کے مخالف ہیں، وہ انسان کے سب سے زیادہ دشمن ہیں اور اس دشمنی میں چوں کہ شیطان سب سے آگے ہے اس لیے قرآنِ حکیم نے فرمایا:

            ﴿ان الشیطٰن لکم عدوا فاتخذوہ عدوا)” یعنی شیطان تمہارا دشمن ہے اس کی دشمنی کو ہمیشہ یاد رکھو۔“

            اسی طرح جو لوگ شیطانی وساوس کے پیرو اور انبیا (علیہم السلام) کے ذریعہ آئے ہوئے احکام ِخداوندی کے مخالف ہیں، ان کے ساتھ دلی ہمدردی اور قلبی دوستی اس شخص کی ہو ہی نہیں سکتی، جس کی زندگی ایک مقصدی زندگی ہے اور دوستی و دشمنی اور موافقت و مخالفت سب اس مقصد کے تابع ہیں۔

            اسی مضمون کو صحیحین کی ایک حدیث میں اس طرح ارشاد فرمایا گیا ہے(من أحب للہ وأبغض للہ فقد استکمل إیمانہ )یعنی جس شخص نے اپنی دوستی اور دشمنی کو صرف اللہ کے لیے وقف کردیا اس نے اپنا ایمان مکمل کرلیا۔“ (مستفاد از معارف القرآن )

کفار ومشرکین سے معادات کا حکم کیوں؟:

            عقیدہ ولاء اور براء کے تحت کفار اور مشرکین سے عدم ِموالات کا مطالبہ اس لیے ہے کہ وہ اللہ کے دشمن، باغی اور نافرمان ہیں۔ اور اللہ کو دوست رکھنے والے مسلمان کسی بھی طرح اللہ کے دشمنوں کی طرف دوستی کا ہاتھ نہیں بڑھا سکتے۔ عقیدہ ولا و برا ہی توحید ِخالص کا معیار اور تھرمامیٹر ہے، اسی کے لیے ہر قسم کی قربانیاں پیش کی گئیں۔ کفار ومشرکین کے ساتھ معرکہ آرائیاں ہوئیں، مجاہدین کے قافلوں کے قافلے شش جہات میں پھیل پڑے، تلواریں نیاموں سے نکل آئیں، کشت و خون کے ہولناک مناظر سامنے آئے اور اولیائے رحمن اور اولیائے شیطان کے مابین فیصلہ کن یلغاریں ہوئیں:

تھے ہمیں ایک ترے معرکہ آراؤں میں

خشکیوں میں کبھی لڑتے کبھی دریاؤں میں

دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں

کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں

شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہانداروں کی

کلمہ پڑھتے تھے ہمیں چھاؤں میں تلواروں کی

ہم جو جیتے تھے تو جنگوں کی مصیبت کے لیے

اور مرتے تھے ترے نام کی عظمت کے لیے

            یہ عقیدہ بڑا حساس اور نازک ہے۔ قرآن ِکریم نے اسے بار بار دہرایا اور اس میں کسی قسم کے سمجھوتے اور ادنی تنازل کو گوارہ نہیں کیا۔امام الموحدین سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور ان کے اقوال و افعال کو اس سلسلے میں بار بار بطور ِنمونہ اور مثال کے پیش کیا ہے۔

            اسلام میں ولاء اور براء کا اثر انسانوں تک محدود نہیں رہا،بل کہ جو کوئی بھی اللہ، اس کے انبیا، اور اس کے اولیا کا دشمن ہوگا وہ مسلمانوں کا دشمن ہے، چاہے وہ حشرات الارض میں سے کیوں نہ ہو، ارشاد نبوی ہے:

            ” اُقْتُلُوا الْوَزَغَ، فَإِنَّہُ کَانَ یَنْفُخُ عَلَی إِبْرَاہِیمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ النَّارَ۔“

            چھپکلی کو قتل کردو، اس لیے کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے جلائی گئی آگ میں پھونکیں مارتی تھی۔

            جب خلیل الرحمن کے ساتھ دشمنی رکھنے پر چھپکلی تک کو مارنے کا حکم ہے، تو رحمن کے باغیوں کے ساتھ اسلام ولاء اور دوستی کی کیسے اجازت دے سکتا ہے۔

 امام طحاوی کے قول کی وضاحت:

             پیچھے امام طحاوی رحمہ اللہ کا یہ قول نقل کیا گیا تھا: (وَنُحِبُّ أَہْلَ الْعَدْلِ وَالْأَمَانَة، وَنُبْغِضُ أَہْلَ الْجَوْرِ وَالْخِیَانَة).

            امام طحاوی رحمہ اللہ نے دو لفظ استعمال فرمائے ہیں”عدل و امانت“ یہ دونوں بڑے جامع لفظ ہیں، یہ اسلام، توحید، طاعت اور تمام شرعی ذمہ داریوں کو شامل ہیں، اب اسلام وتوحید میں جو جتنے بلند مقام پر فائز ہوگا، اسی مقدار وہ خدا تعالی کا مقرب اور محبوب ہوگا، اور ہمیں بھی اس سے بالواسطہ اسی درجے میں محبت کرنے کا حکم ہوگا۔حق تعالی کے سب سے مقرب اور محبوب امام الانبیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، لہٰذا ہمیں حق تعالیٰ کے بعد سب سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنا لازم ہے، پھر درجہ بدرجہ تمام انبیائے کرام، پھر صحابہ کرام، اولیائے عظام، علما و فقہااور عام مسلمان ہیں۔

            اسی طرح دوسرے جملے میں”جور وخیانت“ کے الفاظ بھی کفر وشرک اور تمام معاصی و آثام کو جامع لفظ ہیں۔ لہٰذا ہمیں سب سے زیادہ بے زاری، معادات اور بغض و دشمنی کا اظہار شیطان و طاغوت کے ساتھ کرنا ہوگا، پھر درجہ بدرجہ شیطان و طاغوت کے پیروکار کافروں، مشرکوں اور ان کے ہمنواؤں سے۔جو جس قدر شیطان اور طاغوت کی محبت کا دم بھرنے والا اور اس کی پیروی میں سرگرم ہوگا، اسی مقدار اہل ِاسلام کے ہاں دشمنی اور بغض ونفرت کا مستحق ہوگا۔

            اہل اسلام میں سے بدعات وکبائر کے مرتکب فساق وفجار سے بھی ان کی بدعت اور فسق و فجور کے مطابق بغض اور بے زاری کا اظہار کیا جائے گا۔

محبت کی قسمیں: یہاں یہ بات بھی جان لینا چاہیے کہ محبت کی دو قسمیں ہیں:

            ۱- فطری اور طبعی محبت: جیسے اہل وعیال اور مال وغیرہ کی محبت، اس میں مسلم اور کافر سب برابر ہیں۔

            ۲- دینی محبت :(اور یہی عقیدہ ولاء میں مقصود و مطلوب ہے) پھر اس کی بھی دو قسمیں ہیں:

            (۱) محبت اللہ (۲) محبت فی اللہ یا للہ:ان دونوں قسم کی محبتوں کو محبت دینیہ کہا جاتا ہے۔ پہلی قسم کا مطلب یہ ہے کہ انسان ذات باری تعالیٰ سے اس کی عظمت ِشان کے مطابق بالاصالہ و الاستقلال محبت کرے۔ اور محبت فی اللہ یا للہ کا مطلب یہ ہے کہ اوروں سے بالواسطہ اللہ کے حکم کے مطابق محبت کرے۔غیر ِخدا کو محبت میں برابر کردینا خواہ وہ کوئی ہو عقیدہ ولا و برا کے خلاف اور مشرکین کا کام ہے۔

ولاء و براء اور لوگوں کی تین قسمیں:

             اوپر کی تفصیل کے اعتبار سے ولا و برا کے باب میں لوگوں کی تین قسمیں ہیں:

             ۱- وہ لوگ جن سے ایسی خالص محبت کی جائے گی، جس میں بغض و عداوت کا کوئی شائبہ نہیں ہوگا۔ یہ حضرات انبیا ئے کرام، صدیقین، شہدا اور صالحین ہیں۔ انبیا میں سر ِفہرست امام الانبیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم ہیں۔ آپ سے ماں باپ، بیوی بچوں، مال و جان اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبت کرنا ایمان کی اصل اور بنیاد ہے، پھر آپ کی ازواج ِمطہرات امہات المومنین، اہل ِبیت اور بلا استثنا تمام صحابہ کرام سے خالص اور بے لوث محبت کرنا دلیل ِایمان ہے۔ پھر تابعین، تبع تابعین اور قرونِ مشہود لہا بالخیر کے سلف ِصالحین اور ائمہ وبزرگان دین سے اور پھر ان کے بعد ہر زمانے کے نیکوکار لوگوں سے محبت کرنا ولاء میں داخل ہے۔ اور بعد والوں کے نیک ہونے اور زمرہ ٴصالحین میں داخل ہونے کا معیار یہ ہے کہ وہ اگلوں کا حق مانیں، ان کی پیروی کریں، ان سے بیر نہ رکھیں، ان پر سب وشتم نہ کریں اور انہیں ہمیشہ بھلائی کے ساتھ یاد کریں؛ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:

            ﴿ وَالَّذِینَ جَآءُ و مِن بَعدِہِم یَقُولُونَ رَبَّنَا اغفِر لَنَا وَلِاِخوَانِنَا الَّذِینَ سَبَقُونَا بِالاِیمَانِ وَلَا تَجعَل فِی قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِینَ اٰمَنُوا رَبَّنَا اِنَّکَ رَوٴفٌ رَّحِیمٌ.﴾

            ترجمہ: اور جو ان کے بعد آئے (اور) دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ہمارے اور ہمارے بھائیوں کے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں گناہ معاف فرما۔ اور مومنوں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ (وحسد) نہ پیدا ہونے دے۔ اے ہمارے پروردگار تو بڑا شفقت کرنے والا مہربان ہے۔

            ۲- دوسری قسم جن کے ساتھ خالص دشمنی اور بے زاری کا برتاؤ کیا جائے گا، ان کے تئیں دل میں محبت کی کوئی جگہ نہ ہوگی یہ خالص کفار ومشرکین ملحدین، منافقین اور مرتدین ہیں ارشاد باری ہے:

            ﴿لَا تَجِدُ قَومًا یُّؤمِنُونَ بِاللہِ وَالیَومِ الاٰخِرِ یُوَآدُّونَ مَن حَآدَّ اللّٰہَ وَرَسُولَہ وَلَوکَانُوا اٰبَآئَہُم اَو اَبنَآئَہُم اَو اِخوَانَہُم اَو عَشِیرَتَہُم اُولٰٓئِکَ کَتَبَ فِی قُلُوبِہِمُ الاِیمَانَ وَاَیَّدَہُم بِرُوحٍ مِّنہُ وَیُدخِلُہُم جَنّٰتٍ تَجرِی مِن تَحتِہَا الاَنہٰرُ خٰلِدِینَ فِیہَا رَضِیَ اللّٰہُ عَنہُم وَرَضُوا عَنہُ اُولٰٓئِکَ حِزبُ اللّٰہِ اَلَا اِنَّ حِزبَ اللّٰہِ ہُمُ المُفلِحُونَ﴾

            ترجمہ:جو لوگ خدا پر اور روزِ قیامت پر ایمان رکھتے ہیں تم ان کو خدا اور اس کے رسول کے دشمنوں سے دوستی کرتے ہوئے نہ دیکھو گے، خواہ وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا خاندان ہی کے لوگ ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں خدا نے ایمان (پتھر پر لکیر کی طرح) تحریر کردیا ہے اور فیض ِغیبی سے ان کی مدد کی ہے۔ اور وہ ان کو بہشتوں میں جن کے تلے نہریں بہ رہی ہیں جا داخل کرے گا ،ہمیشہ ان میں رہیں گے خدا ان سے خوش اور وہ خدا سے خوش۔ یہی گروہ خدا کا لشکر ہے (اور) سن رکھو کہ خدا ہی کا لشکر مراد حاصل کرنے والا ہے۔

            ۳- تیسری قسم کے وہ لوگ ہیں، جن سے من وجہ محبت اور من وجہ بغض رکھا جائے گا۔ ان میں محبت اور بغض کے اسباب اکٹھے ہوتے ہیں اور یہ فاسق وفاجر مسلمان ہیں۔ ان سے ایمان کی وجہ سے محبت کی جائے گی اور ارتکابِ معاصی کی وجہ سے بغض رکھا جائے۔ ان کے معاصی پر خاموش رہنا جائز نہیں، بل کہ انکار اور مناہی کی جائے گی، اسلامی قانون میں ان پر حدود وتعزیرات کا اجرا ہوگا ہے، تاکہ یہ باز آجائیں۔ اسی طرح اہل اسلام کے وہ فرق ِضالہ جو بدعت مکفرہ کے مرتکب نہ ہوں، بل کہ بدعت مفسقہ کے مرتکب ہوں ان کا بھی یہی حکم ہے کہ من وجہٍ ولاء اور من وجہ براء کے سزاوار ہوں گے۔ خوارج کی طرح انہیں دائرہٴ اسلام سے خارج مان کر بغض ِشدید اور براء کا اظہار نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی مرجئہ کی طرح خالص مومن مان کر محبت اور ولاء کا اظہار ہوگا، بل کہ جرم اور گناہ کی مقدار کے اعتبار سے من وجہ ولاء اور من وجہ براء کا مظاہرہ ہوگا۔

اہل اسلام کے ساتھ موالات کی صورتیں:

             جب یہ بات واضح ہوگئی کہ ہماری موالات ومحبت کا محل خدا و رسول کے بعد اہل ایمان ہیں، تو آئیے اس موالات کے تقاضوں کو جاننے اور پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ محبت فی اللہ کے تحت مسلمان بھائیوں کے جو حقوق ہم پر لازم ہیں، یہ ایک مستقل تفصیل طلب موضوع ہے؛ یہاں اختصار کے ساتھ کچھ حقوق پیش کیے جا رہے ہیں۔

            امام ابن مفلح رحمہ اللہ اپنی کتاب ”الآداب الشرعیة“ میں ان حقوق کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

            ”ومما للمسلم علی المسلم: أن یستر عورتہ، ویغفر زلتہ، ویدیم نصیحتہ، ویرد غیبتہ، ویرحم عبْرتہ، ویقبل معذرتہ، ویحفظ خلتہ، ویرعی ذمتہ، ویجیب دعوتہ، ویقبل ہدیتہ، ویکافء صلتہ، ویشکر نعمتہ، ویوالیہ ولا یعادیہ، ویحسن نصرتہ، ویقضی حاجتہ، ویشفع مسألتہ، ویشمت عطستہ، ویرد ضالتہ، وینصرہ علی ظالمہ، ویکفہ عن ظلمہ غیرہ، ولا یسلمہ، ولا یخذلہ، ویحب لہ ما یحب لنفسہ، ویکرہ لہ ما یکرہ لنفسہ۔“

            ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر یہ حق ہے کہ وہ اس کی پردہ پوشی کرے، اس کی لغزش کو معاف کردے، ہمیشہ اس کی خیرخواہی کرے، اس کی غیبت اور عیب گوئی نہ ہونے دے، اس کے آنسو پر ترس کھائے، اس کے عذر کو قبول کرلے، اس کی دوستی کی پاسداری کرے، اس کے عہد و پیمان کی رعایت کرے، اس کی دعوت پر لبیک کہے، اس کا ہدیہ قبول کرے، اس سے تعلق بنائے رکھے، اس کے احسان کا شکریہ ادا کرے، اس سے دوستی رکھے، دشمنی نہ رکھے، اچھے طور پر اس کی مدد کرے، اس کی ضرورت پوری کرے، اسے کسی مقام پر سفارش کی ضرورت ہوتو اس کی سفارش کرے، اس کے چھینکنے پر یرحمک اللہ کہے، اس کی گم شدہ چیز ملے تو لوٹا دے، ظالم کے مقابلے میں اس کی مدد کرے، اسے دوسرے پر ظلم کرنے سے روکے، اسے دشمن کے حوالے نہ کرے، اسے بے یار و مددگار نہ چھوڑے، اس کے لیے وہی پسند کرے جو اپنے لیے پسند ہو، اس کے لیے بھی وہ نا پسند کرے جو اپنے لیے ناپسند کرتا ہو۔

            ایمانی رشتہ خونی رشتوں پر بھی مقدم ہے اور تمام مومنین جسم واحد کی طرح ہیں۔نبی ٴکریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ”مَثَلُ الْمُؤْمِنِینَ فِی تَوَادِّہِمْ وَتَرَاحُمِہِمْ وَتَعَاطُفِہِمْ، مَثَلُ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَکٰی مِنْہُ عُضْوٌ تَدَاعَی لَہُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّہَرِ وَالْحُمَّی۔“

            مومنوں کے آپس میں محبت، ہمدردی اور غم خواری کی مثال ایک جسم کی مانند ہے کہ اگر اس کے ایک عضو میں بھی تکلیف ہو تو سارا جسم ہی بخار اور شب بیداری میں گزارتا ہے۔

            ایک اور حدیث میں ارشاد مصطفوی ہے:

             ”الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لَا یَظْلِمُہُ، وَلَا یَخْذُلُہُ، وَلَا یُسْلِمُہُ، وَلَا یَحْقِرُہُ“۔

            ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے نہ تو وہ اس پر ظلم کرتا ہے، نہ ہی اسے بے یار ومددگار چھوڑتا ہے، نہ اسے دشمن کے حوالے کرتا ہے اور نہ ہی اسے حقیر جانتا ہے۔

اُخوت اس کو کہتے ہیں، چبھے کانٹا جو کابل میں

تو دہلی کا ہر اک پیر و جواں بے تاب ہو جائے

            ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کا دکھ درد اور تکلیف محسوس کرنا چاہیے۔مسلمانوں کو اخوت ِایمانی میں ایسا ہونا چاہیے کہ اگر ایک مسلمان مشرق میں بیمار ہو تو مغرب کا مسلمان اس کی عیادت کرے، جنوب میں مسلمان کو چھینک آئے تو شمال میں بسنے والا مسلمان اس کی چھینک کا جواب دے۔ اخوت ایمانی میں خغرافیائی حدود مانع نہ بنیں، مسلمان عالم میں جہاں کہیں بستا ہو وہ ہمارا بھائی اور ہم وطن ہے۔ قوموں، زبانوں اور علاقوں کے بدلنے سے ایمانی رشتہ نہیں بدل سکتا، ہم سب سے پہلے مسلم ومومن ہیں، پھر عربی وعجمی اور مشرقی ومغربی؛ مگر افسوس صد افسوس! مسلمانوں کی اکثریت اور بالخصوص ان کے نام نہاد حکمرانوں اور قائدین نے ایمانی اخوت کو بالائے طاق رکھ کر دوستی اور دشمنی کے جاہلی معیاروں کو اپنا لیا ہے۔ دشمنانِ اسلام سے ان کے گہرے دلی تعلقات اور محبت کے مراسم ہیں، جب کہ ان منافق صفات لوگوں نے اہل اسلام سے معاندانہ برتاؤ روا رکھا ہوا ہے۔ بعض اسلامی ممالک میں حق وصداقت کے علم بر دار علمائے اسلام اور دعاةِ دین قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنے پر مجبور ہیں، اہل حق کی زباں بندی کی جارہی ہے یا انہیں جام شہادت نوش کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔خود ہمارے گردو پیش میں ایسے دسیوں منافق اور مار آستین مل جائیں گے جو مسلمانوں کے خلاف ہونے والی سازشوں میں اغیار کا آلہ کار بنتے اورمسلمانوں کے راز افشا کرتے ہیں۔ ان سے نفرت اور بغض رکھتے ہیں، نئی تہذیب کے آزر نے بہت سے نئے بت تراش رکھے ہیں، جن کی پوجا کرنے میں یہ نام نہاد مسلمان پیش پیش ہیں۔اس لیے علامہ اقبال رحمہ اللہ ہمیں رہ رہ کے یاد آتے ہیں:

اس دور میں مے اور ہے، جام اور ہے جم اور

ساقی نے بِنا کی روِشِ لُطف و ستم اور

مسلم نے بھی تعمیر کِیا اپنا حرم اور

تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور

ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے

جو پیرہن اس کا ہے، وہ مذہب کا کفن ہے

یہ بُت کہ تراشیدہ تہذیبِ نوی ہے

غارت گرِ کاشانہ دینِ نبَوی ہے

بازو ترا توحید کی قوّت سے قوی ہے

اسلام ترا دیس ہے ، تُو مصطفوی ہے

نظّار دیرینہ زمانے کو دِکھا دے

اے مصطفَوی خاک میں اس بُت کو ملا دے!

اہل کفر سے معادات کی صورتیں اور اس تعلق سے ہماری ذمہ داری:

            (۱)… اہل اسلام پر دشمنان خدا و اسلام کے تعلق سے پہلی ذمہ داری اور واجب یہ بنتا ہے کہ وہ ان سے ہر گز دلی دوستی اور تعلق نہ رکھیں بل کہ ان سے بغض وعداوت رکھیں۔ اگر کوئی مسلمان ان سے دوستی رکھتا ہے تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں:

            (۱)- ظاہر اور باطن میں ان سے دوستی اور محبت رکھے، یہ صریح کفر ہے۔

            (۲)- ان سے باطنی دوستی اور محبت رکھے اور ظاہر میں ان کی مخالفت کرے یہ منافقین کا رویہ ہے۔

            (۳)- صرف ظاہراً ان سے دوستی کا تعلق رکھے اس کی دو شکلیں ہیں:( ۱) ان کے شر سے بچنے کے لیے ظاہر میں ان کی موافقت کرے اور باطن میں ان کے تئیں بغض و نفرت ہوتو دفع اذیٰ کے لیے اس کی رخصت ہے، جیسا کہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے واقعہ سے معلوم ہوتا ہے۔

            (۲)… دفعِ اذی مقصود نہ ہو پھر بھی ظاہرا ًان کی موافقت کرے اور ان سے دوستی کا اظہار کرے، جب کہ باطن میں ان سے نفرت ہو تو یہ کبیرہ گناہ ہے، جو واجب الترک ہے۔

            کافروں سے ترکِ موالات بہت اہم اور حساس مقام ہے۔سورہٴ مائدہ میں مسلمانوں کو حکم ہوتا ہے کہ تم ان سے محبت نہ کرنا جو ان سے محبت کرے گا وہ انہیں میں شمار ہوگا ؛کیوں کہ محبت اور صحبت کا برا اثر انسان کے دل پر پڑتا ہے۔ محبت کا یہ اثر ہے کہ محبوب کی ہر چیز محب کی نظر میں محبوب ہوجاتی ہے۔ جذام اور سرطان کی طرح کفر اور شرک ایک روحانی مرض ہے دلی میل جول سے اس کے جراثیم متعدی ہوتے ہیں ۔خدا تعالیٰ کے باغیوں کی دلی محبت اور میل جول سے رفتہ رفتہ انہیں کا مذہب اختیار کرلیتا ہے ؛فی الحال اگرچہ باعتبار باطن کے ان میں سے نہیں، لیکن ان کی محبت اور صحبت سے اندیشہ ہے کہ آئندہ چل کرا نہیں میں سے نہ ہوجائے یعنی اسلام سے مرتد نہ ہوجائے۔

            (۲)… دوسرا واجب یہ ہے کہ اعدائے اسلام کی اطاعت نہ کی جائے۔

﴿وَلَا تُطِعِ الْکَافِرِینَ وَالْمُنَافِقِینَ وَدَعْ أَذَاہُمْ وَتَوَکَّلْ عَلَی اللَّہِ وَکَفَی بِاللَّہِ وَکِیلاً﴾ (الأحزاب:۴۸)

            اور کافروں اور منافقوں کا کہا نہ ماننا اور نہ ان کے تکلیف دینے پر نظر کرنا اور خدا پر بھروسہ رکھنا اور خدا ہی کارساز کافی ہے۔

            غیر مسلم ممالک میں مسلمانوں کے لیے ملکی انتظامی قوانین کی رعایت کرنا تو خود شریعت ِمطہرہ کی رو سے ضروری ہے، مگر کوئی ایسا قانون جو شریعت میں مداخلت کی قبیل سے ہو، جس میں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی حکم کی مخالفت ہوتی ہو تو، اس میں کفار کی اطاعت ہرگز جائز نہیں۔

            (۳)…تیسرا واجب یہ ہے کہ اعدائے اسلام کی طرف میلان اور جھکاؤ نہ ہو۔ ان کی تعظیم وتکریم، مدح وستائش سے کلیةً احتراز کیا جائے اور ان کے مشرکانہ کاموں میں معاونت نہ کی جائے۔ارشاد باری تعالی ہے:

            ﴿وَلاَ تَرْکَنُواْ إِلَی الَّذِینَ ظَلَمُواْ فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ وَمَا لَکُم مِّن دُونِ اللّہِ مِنْ أَوْلِیَاء ثُمَّ لاَ تُنصَرُون﴾ (ہود:۱۱۳)

            اور جو لوگ ظالم ہیں ان کی طرف مائل نہ ہونا، نہیں تو تمہیں (دوزخ کی) آگ آ لپٹے گی۔ اور خدا کے سوا تمہارے اور دوست نہیں ہیں (اگر تم ظالموں کی طرف مائل ہوگئے) تو پھر تم کو (کہیں سے) مدد نہ مل سکے گی۔

             الرکون: عربی زبان میں میلان اور جھکاؤ کو کہتے ہیں۔رکون افعالِ قلوب کو بھی شامل ہے جیسے: محبت، رضامندی، دلی لگاؤ وغیرہ۔ اور افعال ِجوارح کو بھی جیسے ظلم کو دیکھ کر خاموش رہنا، ظلم کو مزین کر کے دکھانے میں شریک ہونا، مداہنت اختیار کرنا، ظالموں کا ہم نوالہ ہم پیالہ بنا رہنا وغیرہ…جب ظالموں کی طرف صرف میلان پر آگ کی وعید موجود ہے، تو ظلم کرنے اور ظالموں کا ساتھ دینے اور ظالموں کے ظلم کو جواز فراہم کرنے کا کیا انجام ہوگا؟

            (۴)… چوتھا واجب یہ ہے کہ مسلمان ان کے مکر وفریب، دسیسہ کاری اور چالبازیوں سے چوکنا اور ہوشیار رہیں اور ان سے بچاؤ کا سامان مہیا کریں۔ان کے عہد وپیمان پر بھروسہ نہ کریں، اس لیے کہ کفر وشرک کی طبیعت میں ہی عہد شکنی، وعدہ خلافی، جعلسازی، مکر وفریب اور دغا بازی ہے۔ اور مسلمانوں کو بارہا اس سلسلے میں بڑے تلخ تجربے ہوچکے ہیں۔ علامہ اقبال رحمہ اللہ نے ایک ایسے ہی واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تھا:

متاعِ دین و دانش لُٹ گئی اللہ والوں کی

یہ کس کافر ادا کا غمز خُوں ریز ہے ساقی

            (۵)… پانچواں واجب دشمنان دین کے تعلق سے جہاد وقتال اور اس کی مکمل تیاری ہے۔

            جہاد اسلام کا ایک محکم فریضہ ہے ،جو تا قیامت جاری اور ساری رہے گا، مگر اس کے کڑے آداب وشرائط اور حدود و قیود ہیں۔ اسلامی جہاد نہ تو حاشا وکلا اس دہشت گردی کا نام ہے، جو اسلامو فوبیا کے نام سے دجالی میڈیا کے توسط سے دنیا کے سامنے صبح وشام بار بار پیش کی جاتی ہے۔ور نہ ان نادان اورکم فہم مسلمانوں کی حرکات کا جو وہ اعدائے اسلام کا آلہ کار بن کر انجام دیتے ہیں، بل کہ یہ ایک مبارک اور مقدس عمل ہے، جس کا مقصد مظلوم انسانیت کو ظالموں اور جابروں کے پنجہٴ استبداد سے نجات دلانا ہے۔ اور اسلام کی ساڑھے چودہ سو سال کی تاریخ اس بات کی شاہد عدل ہے:

            ﴿وَأَعِدُّواْ لَہُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ﴾(الأنفال: ۶۰)اور جہاں تک ہو سکے ان کے مقابلے کے لیے مستعد رہو۔

            (۶)… چھٹا واجب یہ ہے کہ اعدائے اسلام کے مخصوص امور میں ان کی مشابہت سے گریز کیا جائے، اسلام میں کفار و مشرکین کی مشابہت اختیار کرنے کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

             ”مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُم“(أبو داود) جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انہیں میں سے ہے۔

            حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:

             ”رَأَی رَسُولُ اللَّہِ -صلی اللہ علیہ وسلم- عَلَیَّ ثَوْبَیْنِ مُعَصْفَرَیْنِ، فَقَالَ: ”إِنَّ ہَذِہِ مِنْ ثِیَابِ الْکُفَّارِ فَلاَ تَلْبَسْہَا“(مسلم). رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دو زعفرانی کپڑے پہنے ہوئے دیکھا تو فرمایا، یہ کافروں کا لباس ہے اسے مت پہنو۔

            اسلام ایک جامع اور کامل و مکمل دستور ِحیات ہے، اس کے منصفانہ احکام زندگی کے تمام شعبوں کو حاوی ہیں،وہ اپنے ماننے والوں کو ہر شعبہ ٴحیات میں مکمل اور معتدلانہ تعلیمات سے نوازتا ہے۔لہٰذا اہل ِاسلام کو کسی غیر کے طرز ِحیات کو اپنانے کی قطعا ًضرورت نہیں، اس لیے اگر کوئی اغیار کی تہذیب و تمدن کو اسلامی تہذیب وتمدن سے بہتر سمجھ کر اختیار کرتا ہے، تو وہ یقینا مرتد ہوکر ان میں شامل ہوگا؛ ورنہ کبیرہ کا مرتکب ہوگا۔ وضع قطع، رہن سہن، لباس وپوشاک، شادی بیاہ وغیرہ کسی بھی چیز میں اعدائے اسلام کی مشابہت اختیار کرنا گویا کہ اللہ کے باغیوں اور دشمنوں کے ساتھ اپنی محبت و مودت کا اظہار کرنا ہے۔ اس لیے کہ انسان جسے چاہتا اور پسند کرتا ہے، اسی کی روش اختیار کرتا ہے اور قیامت کے دن بھی جس کو جس سے محبت ہوگی وہ اسی کے ساتھ ہوگا۔ اس لیے ایک مسلمان کو اپنے عمل اور کردار سے ثابت کرنا پڑے گا کہ اسے کس سے محبت ہے؟غیروں کی مشابہت اختیار کرتے ہوئے، ڈاڑھی مونڈنا یا ایک مشت سے کم کرانا، سر کے آدھے بال کاٹنا آدھے باقی رکھنا، ایسا لباس زیب تن کرنا جو لباس سنت کے خلاف ہو، ہاتھ کی کسی انگلی کا ناخن بہت بڑھا لینا وغیرہ سیکڑوں گناہ ایسے ہیں ،جن میں بکثرت مسلمان مبتلا ہیں۔یہ سب اغیار کی مشابہت اور اندھی تقلید ہے جو مسلمانوں کے لیے واجب الترک ہے۔

            (۷)… ساتواں واجب یہ ہے کہ مسلمان کافروں کو اپنا رازدار، بھیدی اور مشیر نہ بنائیں، حق جل مجدہ کا ارشاد ہے:

 ﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ بِطَانَةً مِّن دُونِکُمْ لاَ یَأْلُونَکُمْ خَبَالاً وَدُّواْ مَاعَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاء مِنْ أَفْوَاہِہِمْ وَمَا تُخْفِی صُدُورُہُمْ أَکْبَرُ قَدْ بَیَّنَّا لَکُمُ الآیَاتِ إِن کُنتُمْ تَعْقِلُونَ﴾۔

 (آل عمران: ۱۱۸).

            مومنو! کسی غیر (مذہب کے آدمی) کو اپنا رازدار نہ بنانا یہ لوگ تمہاری خرابی (اور فتنہ انگیزی کرنے میں) کسی طرح کوتاہی نہیں کرتے اور چاہتے ہیں کہ (جس طرح ہو) تمہیں تکلیف پہنچے ،ان کی زبانوں سے تو دشمنی ظاہر ہو ہی چکی ہے اور جو (کینے) ان کے سینوں میں مخفی ہیں وہ کہیں زیادہ ہیں۔ اگر تم عقل رکھتے ہو تو ہم نے تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سنادی ہیں۔

            کافر کبھی بھی مسلمانوں کے حق میں مخلص اور خیر خواہ نہیں ہوسکتے، وہ مسلمانوں کے راز اپنے ہم مذہب لوگوں میں افشا کریں گے، اور مسلمانوں کو گزند پہنچانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے۔

علامہ شبیر احمد عثمانی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

            حق تعالیٰ نے یہاں صاف صاف آگاہ کردیا کہ مسلمان اپنے اسلامی بھائیوں کے سوا کسی کو بھیدی اور راز دار نہ بنائیں؛ کیوں کہ یہود ہوں یا نصاریٰ، منافقین ہوں یا مشرکین، ان میں کوئی جماعت تمہاری حقیقی خیر خواہ نہیں؛ بل کہ ہمیشہ یہ لوگ اس کوشش میں رہتے ہیں کہ تمہیں پاگل بنا کر نقصان پہنچائیں اور دینی و دنیاوی خرابیوں میں مبتلا کریں۔ ان کی خوشی اسی میں ہے کہ تم تکلیف میں رہو اور کسی نہ کسی تدبیر سے تم کو دینی یا دنیاوی ضرر پہنچ جائے۔ جو دشمنی اور بغض ان کے دلوں میں ہے وہ تو بہت ہی زیادہ ہے؛ لیکن بسا اوقات عداوت و غیظ کے جذبات سے مغلوب ہو کر کھلم کھلا ایسی باتیں کر گزر تے ہیں ،جو ان کی گہری دشمنی کا صاف پتابتا دیتی ہیں۔ مارے دشمنی اور حسد کے ان کی زبان قابو میں نہیں رہتی؛ پس عقل مند آدمی کا کام نہیں کہ ایسے خبیث باطن دشمنوں کو اپنا راز دار بنائے۔ خدا تعالیٰ نے دوست و دشمن کے پتے اور موالات وغیرہ کے احکام کھول کر بتلا دیئے ہیں، جس میں عقل ہوگی ان سے کام لے گا۔

            (۸)… آٹھواں واجب کفار کے تعلق سے یہ ہے کہ مسلمان ان کی مذہبی مجلسوں اور تہواروں میں شریک نہ ہوں۔ غیرمسلموں کی ہولی، دیوالی، کرسمس یا ان کے کسی اور مذہبی تہوار کے موقع پر ان کو مبارکبادی دینا مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے۔تہوار کسی بھی ملّت کی ثقافت و تہذیب کے نمائندہ اور اس کی اقدار اور روایات کے ترجمان اور اس قوم کا شعار ہوتے ہیں۔ اسلام کی اپنی پاکیزہ عیدیں اور خوشی کے تہوار ہیں، اسلام نہ دوسروں کے تہواروں میں شرکت کی اجازت دیتا ہے اور ان کو مبارک بادی دینے کی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم کی بعثت کے بعد جب اسلام نے جاہلیت کو ختم کیا تو اس کے تہواروں پر بھی خطِ تنسیخ کھینچ دی۔حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:

            ﴿وَالَّذِینَ لَا یَشْہَدُونَ الزُّورَ وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا کِرَامًا) ﴾(الفرقان: ۷۲)

            ترجمہ: اور وہ جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب ان کو بے ہودہ چیزوں کے پاس سے گزرنے کا اتفاق ہو تو بزرگانہ انداز سے گزرتے ہیں۔

            حضرت مجاہد رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیرمیں فرماتے ہیں: ”إنہا أعیاد المشرکین“الزور سے مراد مشرکین کے تہوار ہیں۔

            (۹)… نواں واجب کفار کے ممالک سے ہجرت کرنا ہے۔ اگر مسلمان کسی ایسے کافر ملک میں رہتا ہے، جہاں شعائر ِاسلام کے اظہار پر پابندی ہو اور اسلامی احکام پر عمل کرنا ممکن نہ ہو تو اس کے لیے اپنی استطاعت کے مطابق وہاں سے ایسی جگہ ہجرت کرنا لازم ہے، جہاں وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزار سکے۔ اسی طرح اگر مسلمان کسی اسلامی ملک یا ایسے ملک میں رہتا ہو ،جہاں وہ اپنے دین پر آزادی کے ساتھ عمل کرسکتا ہو تو اسے وہاں سے کافروں کے ملک میں منتقل ہونا جائز نہیں۔ ٹھیک اسی طرح اگر کوئی مسلمان مسلم اکثریت والی آبادی میں سکونت پذیر ہو تو اسے وہاں سے کافروں کی اکثریت والے علاقے میں جاکر بسنادرست نہیں۔اس میں اس کے دین کے تحفظ کا بھی سامان ہے اور عزت و آبرو اور جان ومال کا بھی۔حق جل مجدہ کا ارشاد ہے:

            ﴿إِنَّ الَّذِینَ تَوَفَّاہُمُ الْمَلآئِکَةُ ظَالِمِی أَنْفُسِہِمْ قَالُواْ فِیمَ کُنتُمْ قَالُواْ کُنَّا مُسْتَضْعَفِینَ فِی الأَرْضِ قَالْوَاْ أَلَمْ تَکُنْ أَرْضُ اللّہِ وَاسِعَةً فَتُہَاجِرُواْ فِیہَا فَأُوْلَئِکَ مَأْوَاہُمْ جَہَنَّمُ وَسَائتْ مَصِیرًا﴾(النساء: ۹۷)

            جو لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں جب فرشتے ان کی جان قبض کرنے لگتے ہیں، تو ان سے پوچھتے ہیں کہ تم کس حال میں تھے؟ وہ کہتے ہیں کہ ہم ملک میں عاجز و ناتواں تھے ۔فرشتے کہتے ہیں کیا خدا کا ملک فراخ نہیں تھا کہ تم اس میں ہجرت کر جاتے؟ ایسے لوگوں کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ بری جگہ ہے۔

            اس آیت ِکریمہ میں ایسی سرزمین پراقامت اختیار کرنے کو ظلم اور بدترین گناہ قرار دیاگیا ہے ،جہاں انسان اپنے دین و ایمان کی حفاظت نہ کرسکے، بشرطیکہ انسان وہاں سے نکلنے اورکسی مناسب مقام پر قیام کرنے کی قدرت رکھتا ہو۔اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ِمبارکہ ہے:

            أنا بریء من کل مسلم یُقیم بین أَظْہُرِ المشرکین.(رواہ أبو داوٴد)

            میں ہر ایسے مسلمان سے بری ہوں جومشرکین کے درمیان رہتا ہو۔

            یاد رہے کہ غیر مسلم ملکوں سے ہجرت کرنے یا وہاں سکونت اختیار کرنے کا مسئلہ کافی تفصیل طلب ہے۔ فقہ کی کتابوں میں اس پر مفصل کلام کیا گیاہے؛ بالخصوص اس زمانے میں جب بہت سے نام نہاد مسلم ممالک میں بھی آزادی کے ساتھ دین پر عمل کرنا دشوار ہے، اس کے بالمقابل بہت سے غیر مسلم ممالک میں مذہبی آزادی ہے اور پورے ربع مسکون میں غیر مسلم ملکوں میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد قیام پذیر ہے۔اس لیے اس سے کسی کو کوئی غلط فہمی نہ ہونے پائے اورمزید تفصیل کے لیے اس موضوع پر لکھی گئی کتابوں کی طرف رجوع فرمائیں۔

خدا کے باغیوں اور دشمنوں سے اظہار براء ت کی تین روشن مثالیں:

            آخر میں ولا و برا کے کچھ روشن نمونے پیش کر کے مضمون کو سمیٹے کی کوشش کرتا ہوں:

            (۱)… نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب کے آپ پر بہت سے احسانات تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ابو طالب کے ایمان کے لیے متفکر اور ساعی رہتے، مرض الموت میں بھی آپ ان کے قریب بیٹھ کر اسلام لانے کی دعوت دیتے رہے، مگر جب ابوطالب نے کفر پر اصرار کیا اور آپ علیہ السلام کو ان کے ایمان کی کوئی امید نہ رہی، تو آپ نے ان سے براء اور بے زاری کا اظہار فرمادیا۔

            (۲)… حضرت نوح علیہ السلام نے پورے جتن کرڈالے کہ ان کا بیٹا ایمان لے آئے اور ان کے ساتھ کشتی پر سوار ہوجائے، مگر وہ کمبخت نہ مانا۔آپ نے اس کے ڈوب جانے کے بعد بارگاہ ِایزدی میں استدعا کی؛ مگر جب حق تعالیٰ کی جانب سے آپ کو اس سلسلے میں سرزنش کی گئی، تو آپ نے فورا ًاپنے حقیقی بیٹے سے اظہار ِبراء ت کردیا۔

            (۳)… حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بڑے مشفقانہ اور ناصحانہ انداز میں عرصہ دراز تک اپنے والد کو اللہ کی طرف بلایا، مگر وہ راہ ِراست پر آنے کے بجائے ابراہیم علیہ السلام کو سنگسار کرنے کی دھمکی دینے لگا۔ ابراہیم علیہ السلام نے وہاں سے ہجرت فرمائی اور باپ سے کہا میں تمہارے لیے اپنے رب سے دعا کرتا رہوں گا، مگر جب انہیں معلوم ہوگیا کہ وہ ہدایت قبول کرنے والے نہیں ،تو آپ نے اس سے اظہار براء ت کردیا۔ارشاد ربانی ہے:

            ﴿فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہ اَنَّہ عَدُوٌّ لِّلّٰہِ تَبَرَّاَ مِنہُ﴾

            لیکن جب ان کو معلوم ہوگیا کہ وہ خدا کا دشمن ہے تو اس سے بے زار ہوگئے۔

            اللہ ہم تمام مسلمانوں کو اس عقیدہ ٴمبارکہ کو سمجھنے اور اسی کے مطابق زندگی گزارنے اور بوقت ِمرگ اسی پر جان جانِ آفریں کے سپرد کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔آمین