عقل و نقل کی باہمی نسبت اور مسلمان مفکرین

 

حکیم فخر الاسلام مظاہری

             مناسب یہ ہے کہ تجدد پسندانہ افکار کے منابع یعنی مغربی افکار کے اصولوں پر بھی نظر ہو۔مطلب یہ کہ مغربی اصول کی وضع و تدوین میں عقلیات کے اِستعمال کوسمجھنے کے لیے فلسفہ جدیدہ کے بانیین اور واضعین اصول مثلاً ڈیکارٹ، اِسپینوزا،لائبنز،لاک،برکلے،ہیوم،روسو،والڑیئر،کانٹ،ہیگل،کارل مارکس وغیرہ کے اُن افکار و اصول پر بھی نظر ہو جو عصری اداروں کے نصابات میں شامل ہیں؛مگر اِن کی عقلیات کا جائزہ لیتے وقت اِن کا تتبع اختیار کرنے سے بچنا ضروری ہے۔

            خیال رہے کہ عقل ونقل کی باہمی نسبت کو لے کر تین گروہ پیدا ہو ئے:

            ۱-ایک گروہ نے یہ کہا کہ:”عقل ونقل دو متخالف و متعارض عناصر یا بہ الفاظ دیگر دو متوازی خطوط ہیں جو کبھی مل نہیں سکتے۔ “اِس گروہ نے نصوص کے معانی میں پیدا ہونے والے بعض قطعی عقلی شبہات یا مشہور تحقیق کی راہ سے واقع ہونے والی مزاحمت کی طرف بھی اِلتفات نہیں کیا اوراس طرح- یہ دیکھ کر کہ عقلی گفتگو کرنے والے قیاسی گھوڑے دوڑاتے ہیں اور بے جا توجیہات کے درپے ہوتے ہیں،-اُن امور میں بھی جہاں عقلی استدلال کے بغیر چارہ نہیں عقلی دلائل کو بے کار و لا یعنی قرار دیتے ہیں۔پھر ضرورت کے موقع پر بھی صحیح عقلی اصولوں سے اِنتفاع نہ ہو گا ،تو خواہی،نہ خواہی درج ذیل تین بلاوٴں میں سے کسی نہ کسی بلا میں اِبتلا ہوگا۔

            الف-اصل حقیقت کے لیے جھول اور لوچ بھری تعبیراختیار کی جائے گی،جس سے منصوص واقعہ کو دب کر ماننے اور معترضیں کو اعتراض کا موقع دینے کی طرح پڑے گی۔

            ب-عصریات سے نمٹنے کے صحیح اصول ہیں نہیں،اِس لیے اُس کی غیر شعوری اثر پذیری اپنا اثر دکھائے گی۔

            ج-الفاظ کے ظاہری معنی سے بے جا عدول کی نوبت آئے گی اور گمان یہ رہے گا کہ یہ نکتہ آفرینی در حقیقت وہ معانی ہیں جن کے متعلق صادق و مصدوق کی پیشن گوئی ہے کہ قیامت آ جائے گی اور قرآن کے علوم کا اعجاز ختم نہ ہوگا۔

            ۲-دوسرے گروہ نے ہمیشہ نقل کو عقل کے تابع رکھا اور اعتزا ل و نیچر کی راہ چلا ،تطبیقات کا دپے ہوا اور عقل کے صحیح اصولوں کی مطلق پروا نہ کی۔

            ۳-تیسرا گروہ عصر نو کے اِیجابی فلسفے کے ساتھ ”عقل“و ”فطرت“ پر ایمان لا یا۔اور مغربی فلسفے کے سامنے پورے طور پر سر نگوں ہو گیا ۔ اِس کی تفصیل یہ ہے کہ ” اٹھارہویں صدی میں …ایسے متنوع ایجابی فلسفے ظاہر ہوئے جن کا مرکزو محور فقط دو لفظ”عقل“اور ”فطرت“تھے۔در حقیقت یہ دو بت تھے جن کو کلیسا کی قید سے بھاگنے والوں نے گھڑ لیا۔“”عقل …نے اپنی ذات کی تلاش شروع کر دی تا کہ اپنے الگ رستے پر ویسے چل سکے جیسے کوئی بالفعل الٰہ ہو تا ہے۔فلاسفہ اور محققین کی آوازیں بلند ہوئیں کہ عقل ہی واحدفیصلہ کن اتھارٹی ہے،عقل کے سوا سب کچھ وہم اور خرافات ہے۔وحی عقل کے مخالف ہو تو وہ لا زماً جھوٹی خرافات ہے۔معجزات عقل کے مطابق نہیں ہو تے ،لہذااُن پر ایمان ممکن نہیں۔… عقل جدید دنیا کا سب سے بڑا راز تھا۔ عقل وہ چیز تھی جو لوگوں کو فطرت کے فہم کی طرف لے جا تی تھی اورفطرت دوسرا سب سے بڑا راز تھا ۔ “یہ دونوں چیزیں فطری مذہب کی مبادیات تھیں جو نکھرتی گئیں،حتی کہ ۱۹ویں صدی میں کامٹے(۱۷۹۸تا۱۸۵۷ء) نے انسانی دین کی بنیاد رکھی،جس سے متعدد مادی اصول نکلتے تھے جو کائنات کی مادی یا آلاتی تفسیر کرتے تھے جن کو ”قوانینِ فطرت“کا نام دیا گیا۔( ڈاکٹر سفر الحوالی،مترجم محمد زکریا رفیق”سیکو لرزم“ص۱۲۱،۱۲۲، بیت الحکمت لاہور ۲۰۰۷ء)

            اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اِس کو اُس عقل صحیح سے کیا واسطہ جس کو الامام محمدقاسم نانوتوی بیان کر رہے ہیں اور جو ہمیشہ سے اہلِ حق متکلمین کے ہاں زیرِ گفتگو رہی ہے،جسے صحیح رخ پر استعمال کیا گیا ہے۔ الامام نانوتوی  کے الفاظ میں وہ رُخ یہ ہے کہ: ”عقل رہبر دین و دنیا ہے“،اگر اِس کی بات نہ مانی جائے، ”توپھروہ کیا چیز ہے جس کی اتباع کی جائے۔“ (امام محمد قاسم نانوتوی:مذاہب کا تقابلی جائزہ ص۴۰ ،مجمع الفکر القاسمی الدولی ۲۰۲۲ء)

            وہ مزید فرماتے ہیں کہ خدا تعالی نے عقل کو اپنی طرف سے اپنی مخلوقات پرحاکم بنایا ہے اور ہر باب میں قوانین حکم رانی عطا فرمائی ہے۔ اِس صورت میں: ”بے شک اگر خدا کی طرف سے کوئی حکم آتا ہو گا تو اُسی کے کرنے نہ کرنے کاآتا ہوگا کہ جسے عقل صائب اور ذہن ثاقب نافع یا مضر بتلائے اور اُس کے کرنے نہ کر نے کی سجھائے…(۱)اس صورت میں عقل کچھ اپنی طرف سے حکم نہیں کرتی؛ بلکہ ہر کسی(شی) کی پیشانی پرتجویز خدا وندی اور حکم الہی یعنی نافع ہونایا مضر ہونا -جو اُس کی نسبت لکھا ہوا ہے-لکھا دیکھ کراطلاع کردیتی ہے۔“(۱)

—————————————————————————–

(۱)قرآن کریم کی آیت: ”وَلِیَذَّکَّرَ اُولوالْاَلْباب“کی تفسیر کے ضمن میں محقق و مفسر عبد الماجددریابادی-عقل کی اہمیت اور اُس کے درجے کی وضاحت کرتے ہوئے – لکھتے ہیں:”آیت سے اِدھر بھی اشارہ ہو گیا کہ انسان کو درجہٴ شر ف و فضیلت جو کچھ بھی حاصل ہے وہ عقل اور اُس کے صحیح استعمال ہی سے ہے۔“(تفسیر ماجدی جلد ۲ ص ۷۲۶ مجلس تحقیقات و نشریات اسلام لکھنوٴ ۲۰۰۸ء)

عقل صحیح کے اِستعمال کا عقلی فیصلہ

            اب یہاں یہ سوا پیدا ہو تا ہے کہ عقل کی جب یہ حیثیت ہے،تواُسے کسی کی اِتباع کی کیا ضرورت رہی؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ :”ہر عقل کونہ یہ صفائی ہے کہ ہر بھلا برا جدا جدا کر دے اور نہ رسائی ہے کہ ہر دور و نزدیک کی باتوں کی خبر دے۔ اِس جگہ عقل کامل چاہئے۔… سو ،اگر کسی شخص کا کامل ہونا طب روحانی (دین و مذہب) میں کسی طرح ثابت ہو جائے، تو اُس کے نسخہ تجویز کردہ میں کمی و بیشی ایسی ہی بے جا ہوگی جیسے کسی کامل طبیب جسمانی کی بات میں ہم کو تم کو دخل دینا؛ بلکہ اِس سے بھی زیادہ، کیوں کہ طب جسمانی کا کمال چنداں کمال نہیں اور طب روحانی کا کمال تو کمال، حصول بھی ہر کسی کو(عادةً)محال ہے ،کسی کسی کو ہی حاصل ہوپاتا ہے)۔(تقریر دل پذیر ص۱۴۴)

اتباع ِ اصول – اِستنباط فروع

            ہاں، اگر کوئی طبیب کسی کو شربت بنفشہ، یا خمیرہ بنفشہ مرکبات دواؤوں میں سے بتلائے اور وہ مرکبات اُس کو میسر نہ آئیں، تو لازم ہے کہ اُس کے مفردات کو بہم پہنچائے اور اُس کے بنانے میں آگ، پانی، برتن وغیرہ جس جس چیز کی ضرورت پڑے، سب فراہم کرکے اُس دوائے مرکب کو تیار کرے اور اِس سے نہ ڈرے کہ طبیب نے فقط خمیرہ بنفشہ ہی بتلایا تھا اور اِس بکھیڑے کے کرنے کو نہیں کہا تھا،کیوں کہ اُس کا خمیرہ بنفشہ کو بتلانا اِس سارے بکھیڑے ہی کا بتلانا ہے،اِس کے کرنے میں کچھ اُس کے کہے سے کمی بیشی نہیں، اِسی طرح کوئی طبیب روحانی اگر ایسی بات بتلائے کہ اُس کا ہونا بہت سے سامان پر موقوف ہو، تو اُس سامان کا فراہم کرنا، کچھ کمی بیشی میں داخل نہیں؛ بل کہ اِس سامان کا کرنا اُسی کے حکم کا بجالانا ہے۔ علی ہذا القیاس، جیسے طبیب کے کہے کو یاد رکھنا، یا لکھ لینا، کچھ کمی بیشی میں داخل نہیں؛ بل کہ کمال ِمتابعت کی نشانی ہے، ایسے ہی طبیب روحانی کے کہنے کو یاد رکھنا، یالکھ لینا کمی بیشی میں شمار نہ ہوگا۔

             اِس بات کو یاد رکھنا چاہیے، کہ بہت کار آمد ہے۔ اور جو کسی دین والے بابت کمی بیشی کے آپس میں تکرار کریں، تو حق پرستوں کو لازم ہے کہ اِس قاعدے کے موافق اُن کا فیصلہ کردیں (کہ اگر وہ کمی بیشی دین کا موقوف علیہ ہے،تو درست،ورنہ نہیں)۔ اگر وہ دین اصل سے حق ہے، توبے شک ایسی کمی بیشی کے سبب(جو طبیب کے تجویز کردہ نسخے میں ہو)، سب قسم کی کمی بیشی غلط ہوگی۔ (ایضاً۱۴۵،۱۴۶)(۱)

—————————————————————————–

حاشیہ:(۱)حق ہونے کا معیار عقیدہ ہے،اگر عقیدہ حق ہے،تو دین حق ہو گا ،اگر عقیدہ باطل ہے،تو دین باطل۔ (دیکھیے:امام محمد قاسم نانوتوی:مذاہب کا تقابلی جائزہ ص۴۰ ،مجمع الفکر القاسمی الدولی ۲۰۲۲ء)

(خلاصہ انتباہات کے آخر میں[