عقل اور دل سے رہنمائی

حصول معرفت کا پہلا طریقہ

            عقلِ سلیم جو گرد و پیش کی آلودگی سے متاثر ہوئے بغیر کوئی فیصلہ کرتی ہے یا کوئی رائے قائم کرتی ہے، اس میں شک نہیں کہ اس کا فیصلہ باو زن اور حق بجانب ہوتا ہے۔ عقل کی بجائے اگر انسان کے ظاہری حواس جیسے، آنکھ، ناک اور کان وغیرہ کوئی فیصلہ صادر کرتے ہیں، اپنی قوت احساس سابقہ تجربات یا تحقیق و تلاش کے بعد کوئی حکم نافذ کرتے ہیں، تو بسا اوقات بعد میں ان کی خامی کا احساس ہوتا ہے، اور یہ پتہ چل جاتا ہے کہ پہلا فیصلہ عجلت اور جلد بازی کا نتیجہ تھا؛ چناں چہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آنکھ ساکن اور متحرک شی میں فرق نہیں کرتی ،کان انسانی اور حیوانی آواز میں اور ناک مختلف قسم کی بو اور مہک میں تمیز نہیں کرتی، قوت ِذائقہ کسی چیز کو کڑوا بتاتی ہے۔ بعد میں وہی چیز اسے شیریں یا ترش معلوم ہوتی ہے۔

            علمی تجربے اور اس کے نتائج میں بھی آئے دن رد و بدل اور انقلاب آتے رہتا ہے؛ یہاں تک کہ مختلف فنی تحقیقات جن کی بنیاد طویل مشاہدے اور جستجو پر مبنی ہوتی ہے، ان کے مختلف زاویوں میں تبدیلی رونما ہوتی رہتی ہے اور یہ سب اس لئے ہوتا ہے کہ علم ایک سمندر ہے۔ کوئی اس کے حصول میں عمریں کھپا دے، اس کی حد اور انتہا کو نہیں پہنچ سکتا؛ جیسے دریا کی گہرائی اور اس کا کنارا تلاش کرنا دشوار ہے! لیکن مشاہدہ شاہد ہے کہ عقلِ سلیم اور فہم مستقیم جو مسائل حل کرتی ہے یا جو فیصلے صادر کرتی ہے۔ ان کے اندر تناقض اور باہم ٹکراؤ نہیں ہوتا، خواہ ان مسائل کا تعلق موجودات ممکنات، یا نا ممکنات سے کیوں نہ ہو۔

            مثال کے طور پر موجودات کے بارے میں عقلِ سلیم یہ فیصلہ کرتی ہے کہ کوئی امر موجود اگر معلول ہے، تو اس کی علت کا پایا جانا ضروری ہے۔ امکان جیسے: ساکن اشیاء کے لئے حرکت اور متحرک اشیاء کے لئے سکون، دونوں کا عقل کے نزدیک امکان ہے، چناں چہ حرکت کی علت پر حرکت اور سکون کی علت پر سکون کا پایا جانا لازمی ہے۔ امتناع کی مثال یوں ہے جیسے کہا جائے کہ کھڑا ہونے والا بیٹھا نہیں ہے۔

            مذکورہ بالا امور کی طرح بدیہی اور نظری مسائل میں بھی عقل ِسلیم صحیح فیصلہ کرتی ہے اور خطا سے محفوظ رہتی ہے؛ چناں چہ دو کا آدھا ایک ہونا مرد کا مرد ہونا بھرے ہوئے برتن کا بھرا ہونا بدیہی ہے۔ بدیہی نہایت واضح ہوتا ہے، اس کے لئے کسی دلیل کی حاجت نہیں ہوتی ؛البتہ نظری امور میں قدرے غور و فکر کی حاجت ہوتی ہے، جیسے تین چوبیس کا آٹھواں حصہ ہے ایک بارہ کا بارہواں حصہ ہے، عالم حادث ہے اور معلول کے لئے علت کا ہونا ضروری ہے یہ سب نظری ہیں۔ ان میں فکر و نظر اور غور فکر کی ضرورت ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ان میں خطا اور غلطی نہیں ہوتی۔

            غرض انسانی عقل و شعور کے صحیح استعمال سے بہت ساری گتھیاں سلجھ جاتی ہیں، خدا پر ایمان لانے اور اس تک رسائی کے لئے بھی عقل ایک اہم ذریعہ ہے۔ ذیل میں ایسے چند ذرائع اور ضابطے درج کئے جاتے ہیں:

(۱)قانون ِعلت:

            انسان کو آغازِ تمیز سے جن بدیہی باتوں کا علم ہوتا ہے، ان میں ایک یہ ہے کہ وہ جانتا ہے کہ حالت، صفت یا وجود میں تبدیلی کے لئے کسی نہ کسی علت کا پایا جانا ضروری ہے، اور چوں کہ یہ قاعدہٴ کلیہ ہے، اس لئے کوئی شیٴ اس سے مستثنیٰ نہیں ہے، دور کیوں جائیں اپنے سامنے رکھی ہوئی صراحی یا کسی مشین کا پرزہ دیکھ کر ہر کوئی اپنی عقل سے سوچ لیتا ہے کہ ہو نہ ہو کسی نے صراحی لا کر رکھ دی ہے! اور پرزے کا کوئی نہ کوئی بنانے والا ہے! اس لئے کہ یہ یقین ہے کہ صراحی اپنے آپ اس جگہ پر آ نہیں سکتی، نہ ہی پرزہ خود بخود بن کر اپنی جگہ فٹ ہو سکتا ہے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ جب ایک معمولی سی صراحی یا چھوٹے سے چھوٹا پر زہ کسی رکھنے یا بنانے والے کے بغیر اپنی جگہ نہیں لے سکتا، تو یہ کیوں کر ممکن ہے کہ نظام شمسی اور یہ پوری کائنات آپ سے آپ بن جائے۔

            اس صاف اور سیدھے طریقے سے ہر کوئی سمجھ سکتا ہے اور عقل بھی تفصیل سے بتاتی ہے، جسے تسلیم کئے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ چھوٹی سے چھوٹی چیز ہی نہیں کائنات کے ذرے ذرے کا وجود اور اس کے اندر ہونے والی ہر صفت، کیفیت، حرکت اور تبدیلی آپ سے آپ رونما نہیں ہو سکتی، ان گنت اوربے شمار مخلوقات جو خشکی اور تری میں زندگی کے سفر میں مصروف ہیں، آخر کوئی علت تو ہے جو انہیں عدم سے نکال کر وجود میں لاتی ہے، اور ایک حال سے دوسرے میں لے جانے کا سبب بنتی ہے، عقل یہ بھی کہتی ہے کہ کار کردگی کے لحاظ سے یہ علت ناکافی اور کمزور نہیں، ورنہ یہ ایجاد و اختراع ناتمام ہوگی اس لئے یہ علت انتہائی زبر دست توانا اور سب سے اعلیٰ و ارفع ہے، اس لئے کہ مظاہر ِقدرت اور اس پوری کائنات کو دیکھنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ سارا کارخانہ جس علت کے سبب حرکت و عمل میں مصروف ہے، اور یہاں کی ہر چیز خواہ وہ کتنی ہی چھوٹی ہو، جس طرح خلق و تکوین، ایجاد و اختراع، حکمت و تدبیر اور نظم و ترتیب کے مراحل سے گذر کر ایک مستحکم وجود موزوں ساخت اور بے مثال رنگ و روپ اختیار کرتی ہے، یہ ضروری ہے کہ وہ علت بذات خود زبردست قدرت، بے نظیر علم و حکمت اور کافی ووافی قوتِ ارادی کی حامل ہو، ورنہ بصورت دیگر معجز اور درماندگی لازم آئے گی، اب عقل گذشتہ تمام مفروضوں کو ایک ایک کرکے پیش کرتی ہے، اور پوچھتی ہے کہ ”کیا مادہ اور طبیعیات وہ علت ہے جو یہ سب کر رہی ہے؟“ ہرگز نہیں، اس لئے کہ مادہ قصد وارادہ اور علم و حکمت سے خالی ہے، پھر کیا یہ سب اتفاقات کا نتیجہ ہے، نہیں ہرگز نہیں، اس لئے کہ کوئی چیز کتنی ہی موزوں ساخت یا مناسب ہیئت کی ہو آپ سے آپ اس صورت کو پہنچنا اس کے لئے ممکن نہیں، پھر کیا یہ سارا کرشمہ احتیاج و ضرورت کا ہے، نہیں ہرگز نہیں، اس لئے کہ وہ ذہنی اپج ہے، جسے باہوش اور سنجیدہ آدمی سننا بھی گواراہ نہیں کرتا، عقل کہتی ہے کہ ان تمام نظریوں کے باطل ہو جانے کے بعد اب ایک حقیقت رہ جاتی ہے کہ وہ علت کوئی اور نہیں خود باری تعالیٰ کی ذات ہے، جس نے رنگ و نور سے آراستہ اس دنیا کو آباد کیا اور تمام جہانوں کو پیدا فرمایا، جو ہر عیب سے پاک اور سب سے بزرگ و برتر ہے، اس میں شک نہیں کہ باری تعالیٰ کے وجود پر عقل ِسلیم اس طرح راست اور درست فیصلہ صادر کرتی ہے، ایمان والے اپنے خالق و مالک کو مان کر اس کے ناموں اور صفتوں کے ساتھ اس پر ایمان لاتے ہیں، اور جن کی فطرت ان کی عقل کی طرح سلیم ہوتی ہے، عقل و ضمیر کے اس فیصلے کو وہ بھی من و عن تسلیم کرتے ہیں۔

(۲)قانون وجوب:

            اس نظریے کا حاصل یہ ہے کہ کل عالم علوی اور سفلی اور کائنات کی ایک ایک چیز جیسے: انسان، حیوان، نباتات و جمادات کا وجود تین حالتوں سے خالی نہیں، اس لئے کہ حکماء کا یہی فیصلہ ہے کہ ہر چیز کا وجود یا تو واجب ہو گا یا ممتنع یا ممکن ۔واجب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شیٴ ازل سے ابد تک ہو، اور اس کے معدوم ہونے کا تصور عقل کے نزدیک بھی محال ہو ۔ممتنع ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی چیز جو نہ کبھی موجود تھی نہ آئندہ موجود ہو سکتی ہے اور اس کے وجود کا تصور عقلی طور پر محال ہو۔ جائز جسے ممکن بھی کہا جاسکتا ہے، وہ شیٴ ہے جو ہمیشہ سے نہیں ہے، لیکن وجود میں آئی اور فنا ہو جائے گی، گویاشیٴ کا عدم اور وجود یکساں ہے۔

            ان تینوں نظریات کو مد نظر رکھتے ہوئے دیکھنا چاہئے کہ کائنات کا وجود کس نوعیت کا ہے، جواب یہ ہے کہ جہاں تک پہلے دونوں مفروضوں (واجب اور ممتنع) کا تعلق ہے یہ دونوں فیصلے غلط ثابت ہوتے ہیں، اس لئے کہ کائنات کا واجب الوجود ہونا، یعنی ازلی اور لافانی ہونا اور ممتنع یعنی وجود کا تصور بھی محال ہونا دونوں باطل ہے، اس لئے کہ فی الوقت کائنات موجود ہے۔ اور جب کائنات اور کل عالم کے لئے وجوب اور امتناع کا حکم ثابت نہ ہو سکا تو لا محالہ عالم کا ممکن الوجود ہونا ثابت ہوا۔

             اس لئے کہ حالتیں تین ہیں، ان کے علاوہ کوئی اور حالت نہیں اور جب ممکن الوجو دہونا ثابت ہوا تو ہم کہیں گے کہ جب کائنات کا وقوع ممکن ہے، تو وہ سرِدست ہے اور جب ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کے وجود کا موجب کون ہے؟ اگر جواب یہ ہو کہ اس کے وجود کے لئے کوئی نہ کوئی علت کا ہونا ضروری ہے اس لئے کہ علت کے بغیر معلول اور سبب کے بغیر مسبب کا پایا جانا محال ہے، جسے عقل بھی تسلیم نہیں کرتی تو یہ سوال در پیش ہو گا کہ کیا وجود کی علت مادہ اور طبیعیات ہے؟ جو شعور اور ارادے سے خالی اور تنِ مردہ کی طرح ہے یا اس کی علت اتفاقی حوادث ہیں، جب کہ پہلے گزر چکا کہ ایجاد و اختراع موزونیت اور حسن ِقامت نکتہ سنجی اور باریک بینی اور اس سب کے ساتھ خلق و تکوین جیسے عظیم شاہکار کے لئے فکر و نظر، شعوری ذہن، و افر عقل و بصیرت، لا محدود قوت ارادی اور اس سب کے بعد ذات واجب الوجوب کا ہونا ضروری ہے رہا اتفاقی حوادث کا نظریہ تو یہ سراسر باطل ہے اور اس کے اندر کامل عقل، محکم عزم اور حکمت و تدبیر جیسے اوصاف کا تصور اور اس کی تلاش عبث ہے، اسی طرح احتیاج و ضرورت بھی اس کی علت نہیں، اس لئے کہ یہ یکسر باطل اور لا یعنی تخیل ہے، اسے نظریہ کہنا بھی ٹھیک نہیں جب کہ یہ محض وہم ہے، جس کا قائل کوئی صاحب الرائے نہیں ہو سکتا۔ اس لئے جیسا کہ عرض کیا گیا یہ صرف باری تعالیٰ کی ذات مجمع صفات اور اس کی عنایات کا کرشمہ ہے، جس نے کائنات کو وجود بخشا اور محض اپنی حکمت و تدبیر اور نظم و ترتیب سے اس کارگاہِ عالم کو مقرر وقت تک کے لئے رواں دواں رکھا۔ بنا بریں کائنات کو عدم سے وجود میں لانے کے لئے باری تعالیٰ کی ذات سے بڑھ کر اعلیٰ وارفع اور لائق و فائق کوئی ذات نہیں ہے، جس نے کسی کجی اور ٹیڑھ کے بغیر کائنات کو راست اور درست پیدا کیا، تا آں کہ کل عالم اور جہانوں کا حیرت انگیز نظام جس انوکھی ترتیب، حکمت و تدبیر، قوت ایجاد،فطری مظاہر،دقت نظر اور پختگی کے ساتھ آنکھوں کے سامنے ہے یہ حق تعالیٰ کی شان کی کبریائی کی روشن دلیل ہے۔

            اس طرح عقل کے راستے اہلِ دانش خدا تک رسائی حاصل کرتے ہیں، ایمان لانے والے اس پر ایمان لاتے ہیں، اس کی پرستش اور اس سے محبت کرتے ہیں، اور اس کی بارگاہ میں تقرب پاتے ہیں۔

(۳)قانون حدوث:

             زندہ و پائندہ خلائق اور کل کائنات سے متعلق یہ نظریہ مسلم ہے کہ یہ سب حادث ہیں۔ اور انسان وہ مخلوق ہے جس پر حدوث سب سے زیادہ طاری ہوتا ہے، چناں چہ حکماء اور طبقات الارض کے ماہرین بھی اس کا اعتراف کرتے ہیں، اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کل کائنات حادث ہے اور کل اس لئے کہ بیک وقت بعض کا حدوث اور بعض کا قدم متضاد نا قابل قبول اور عقل کے خلاف ہے۔

            رہا کل کائنات کا حدوث تو از روئے عقل یہ ثابت ہے اور جیسا کہ کہا گیا ماہرین طبیعیات بھی اس کے منکر نہیں، البتہ حدوث ثابت ہونے کے بعد یہ ضروری ہے کہ جس علت کو اسکا موجب تسلیم کیا گیا وہ اس کے لئے کافی ہو، اس لئے کہ معلول یعنی حدوث مناسب علت کے بغیر تناقض کا باعث اور عقل سلیم کے خلاف ہے، لہٰذا یہ لازم آتا ہے کہ اس کے لئے ایسی لازمی اور مناسب علت ہو، جو انتہائی قوی بے نیاز و غیر محتاج منظم و مدبِر ازلی اور لافانی ہو۔ اور خود اس پر حدوث طاری نہ ہو۔ اس لئے کہ جو علت خود فانی یا دوسروں کی محتاج ہو وہ دوسروں کو فنا نہیں کر سکتی۔ اور اگر کوئی علت دوسروں کی محتاج ہو تو اس سے دَور یا تسلسل لازم آئے گا جو عقل کی رو سے باطل اور محال ہے۔

            اس بحث و تمحیص کا حاصل بھی یہی نکلتا ہے کہ وہ لافانی ذات جو اپنے وجود میں کسی کی محتاج نہیں، اور جو ازل سے ابد تک ہے، باری تعالیٰ کی ذات ہے جس نے عالم کی تخلیق کی اور جو اس جیسے نہ جانے کتنے جہانوں کا پروردگار اور پالنہار ہے۔

 (۴)قانون نظام:

            خدا کو عقل کے ذریعہ پانے اور پہچاننے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ دنیا اور کائنات کی ہر چھوٹی بڑی چیز سے سبق لیا جائے؛ چناں چہ ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ جس طرح ایک خوبصورت گھڑی ہوتی ہے جو صحیح وقت، دن، تاریخ، مہینہ اور گرمی سردی کا درجہ بتاتی ہے کائنات کے اندر قدرت کا بنایا ہوا ایک شمسی نظام بھی ہے جو اس گھڑی سے کہیں زیادہ صحیح اور درست طریقہ پر روز و شب، صبح و شام، ہفتہ، مہینہ، برس، صدی، سمت اور موسم نہ صرف بتاتا ہے،بلکہ ان تمام چیزوں کو بناتا ہے۔ قدرت کی اس عظیم گھڑی کی نقالی میں جو انسانی گھڑی بنائی گئی، جس کے بارے میں اغلب یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ سو برس، دو سو برس چلے گی، پھر اس کے پرزے گھس کر ختم ہو جائیں گے، لیکن ہزاروں صدیاں گزر گئیں، دنیا نہ جانے کتنی بار اُجڑی اور بسائی گئی، لیکن قدرت کے اس نظام اور اس کی بنائی ہوئی گھڑی کا نہ کوئی پرزہ خراب ہوا نہ اس میں کوئی فرق آیا۔ پہلی گھڑی کو دیکھ کر انسانی ذہن فوراً اس کے بنانے اور ایجاد کرنے والے کی طرف جاتا ہے۔ اہل خرد ذرا سوچیں! کہ اس سے زیادہ ستم ظریف بھلا کون ہو گا؟ جو کسی معمولی گھڑی کو دیکھ کر تو اس کے بنانے والے کا قائل ہو جائے، لیکن چاند، سورج، مریخ، عطارد، زہرہ، مشتری، زمین،آسمان اور قدرت کے اس مستحکم نظام کو دیکھے اور سمجھے اس کے باوجود ہٹ دھرمی سے کام لے اور یہ خیال کرے کہ یہ سارا کارخانہ آپ سے آپ چل رہا ہے۔ یا نیچر، مختلف عناصر، اتفاقی حوادث یا احتیاج و ضرورت جیسے مختلف نظریات کے نام سے اس کا کوئی چلانے والا ہے تو وہ علم و حکمت، ارادہ و دانش اور نظم و ترتیب کی دولت سے یکسر محروم ہے!

            صدقِ احساس اور فکر و تجسس کے ساتھ انسان ذرا سوچے کہ کیا یہ گنبد نما نیلا آسمان اس کی رفعت اور پختہ بناوٹ یہ جگمگاتے تارے اور ہر ایک کا درمیانی فاصلہ یہ دہکتا سورج اور ٹھنڈا چاند اور یہ رات دن کی منظم گردش کیا یہ سب باری تعالیٰ کی عظمت اس کی الوہیت اور اس کی شان ربوبیت کی زبردست نشانیاں نہیں؟

            زمین کا یہ فرشِ خاکی کہیں دریا کہیں ندی، کہیں پہاڑ کہیں وادی، کہیں رفعت کہیں پستی، کہیں جابجا سبزہ کی چادر، کہیں لہلہاتے مرغزار، کہیں پودے کہیں جھاڑی، جنگلوں اور پہاڑوں میں سمندروں اور دریاؤں میں انواع و اقسام کے حیوانات۔ کیا یہ سب خدا کی نشانیاں اور اس تک پہنچنے کا ذریعہ نہیں؟

            عجائباتِ عالم اور اس کی نیرنگیوں سے ہٹ کر انسان خود اپنے جیسے انسانوں کا جائزہ لے کہ کہنے کو سب انسان ہیں، لیکن تمام انسانوں کی رنگت، ان کی ساخت، ان کی زبان ان کے خدوخال اور قدو قامت میں کس قدر تنوع اور جدت آفرینی ہے کہ کوئی دو انسان ہی نہیں کسی ایک ہی انسان کی ہر انگلی کے نقوش دوسری انگلی سے قطعی جدا گانہ اور مختلف ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ یہ گوناگوں فرق اور تفاوت عقل انسانی کے لئے لمحہٴ فکریہ ہے، جو اسے رک کر یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ اس ایجاد و اختراع کے پیچھے ایک ایسا شعوری اور فکری ذہن کار فرما ہے، جو ہر لحاظ سے بے پناہ تخلیقی صلاحیتوں کا مالک زبردست قدرت اور حکمت والا ہے۔ جو اکیلا ہے، اس کے سوا کوئی دوسرا نہ پرورش کرنے والا ہے نہ ہی پرستش کے لائق ہے۔ چنانچہ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:

            ”أَفَلَمْ یَنْظُرُوا إِلَی السَّمَاءِ فَوْقَہُمْ کَیْفَ بَنَیْنَاہَا وَزَیَّنَّاہَا وَمَالَہَا مِنْ فُرُوجِ، وَالْأَرْضَ مَدَدْنَہَا وَالْقَیْنَا فِیہَا رَوَاسِیَ وَأَنْبَتْنَا فِیہَا مِنْ کُلِّ زَوْجٍ بِہِیْجٍ، تَبْصِرَةً وَّذِکْرَی لِکُلِّ عَبْدٍ مُّنِیْبٍ“۔(قٓ:۶تا۸)

            ترجمہ:”کیا انہوں نے اپنے اوپر آسمان کی طرف نہیں دیکھا کہ ہم نے اس کو کیسا اونچا اور بڑا بنایا اور ستاروں سے اس کو آراستہ کیا اور اس میں کہیں شگاف نہیں ہے۔ اور ہم نے زمین کو پھیلایا اور اس میں پہاڑوں کو جما دیا اور اس میں ہر قسم کی خوشنما چیزیں اگائیں (جو ذریعہ ہے) بینائی اور دانائی کا ہر رجوع ہونے والے بندے کے لئے۔“

            اور اگر واقعی انسان حق کا متلاشی اور اس کا ذہن عبرت و نصیحت کا خواستگار ہو تو اس میں شک نہیں کہ اس کی قدرت کے ادنی مظاہر جیسے دن کا اجالا اور رات کی اندھیاری، مشکبار ہوائیں اور کالی گھٹائیں گھر کے آنے والے بادل اور موسلا دھار بارش اور پھر پانی اور اس کے ذریعہ نشو و نما پانے والے جملہ حیوانات و نباتات غرض سب ہی انسان کو فکر و عمل کی دعوت دیتے ہیں اور خدا کی وحدانیت اور اس کی الوہیت کے لئے واضح اشارہ کرتے ہیں؛ یہی نہیں، بلکہ اگر عقل سلیم بیدار ہو جائے تو کائنات کا ذرہ ذرہ وجود باری کا ثبوت اور اس کی حکمت و تدبیر قوتِ تخلیق اور ایجاد و اختراع کی روشن دلیل بنتا ہے۔

(۵) قانون نوازش الٰہی:

            اس قانون کی تفصیل ذکر کرنے سے پہلے اس حقیقت کا اظہار ضروری ہے کہ حق تعالیٰ نے کائنات کی خلق و تکوین میں ذرہ برابر نا انصافی یا ظلم و زیادتی نہیں کی نہ ہی کسی چیز کو بیکار اور رائیگاں پیدا فرمایا؛ چناں چہ انسان دیکھ سکتا ہے کہ چیزوں کی شکل و صورت بدل جاتی ہے، لیکن اس کے باوجود ہر اسٹیج پر کسی نہ کسی مصرف میں اس کا استعمال ضرور ہوتا ہے۔ چناں چہ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:

            ”وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا لَا عِبِینَ مَا خَلَقْنَاہُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَکِنَّ أَکْثَرَہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ)۔

(دخان:۳۸،۳۹)

            ترجمہ:”اور ہم نے آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں میں ہے کھیل نہیں بنایا؛ بلکہ ہم نے ان دونوں کو کسی حکمت ہی سے بنایا ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔“

            نیز فرمایا:”وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا بَاطِلًا ذٰلِکَ ظَنُّ الَّذِینَ کَفَرُوا“۔(ص:۲۷)

            ترجمہ:”اور ہم نے آسمان اور زمین کو اور جو چیزیں ان کے درمیان ہیں، ان کو خالی از حکمت نہیں پیدا کیا۔ (یعنی خالی از حکمت ہونا) ان لوگوں کا گمان ہے جو کافر ہیں۔

            اس مختصر تمہید کے بعد انسان غور کرے کہ یہ دنیا اور دنیا کی ہر چیز

            (۱)جہاں کسی خلل یا خرابی کا شکار نہیں۔

            (۲)وہیں کل کائنات جیسے زمین، آسمان، چاند، سورج، ہوا اور بادل، غرض پورا نظام کمالِ اطاعت اور جذبہ احسان کے ساتھ مسلسل حرکت و عمل میں مصروف ہے۔ یہ حرکت و عمل صرف اس لئے ہے کہ نازشِ خلق اور افضلِ خلائق کہلانے والا یہ معمولی قد و قامت کا انسان اپنی دو وقت کی روٹی پاسکے، اور اپنے پیدا کرنے والے کو پہچان کر اس کی پرستش کرے۔

            انسان اور کل کائنات کی مثال ایسی ہے جیسے کسی عظیم المرتبت بادشاہ نے ایک عالی شان اور بے نظیر محل تعمیر کیا۔ ہر قسم کی خوبصورتی اور رعنائی کا اسے نمونہ بنایا۔ راحت و آرام کے تمام اسباب جو کہیں ہو سکتے تھے، سب اس میں فراہم کرنے کے بعد اس کو ایک مثالی اور لاثانی محل کی شکل میں کھڑا کیا۔ پھر اپنی رعایا میں سے بظاہر حقیر و ناتواں نظر آنے والی ایک رعیت کو محض اپنے لطف و کرم سے اپنا مہمان بنایا اور اسے یہ شرف بخشا کہ وہ آئے اور اس محل میں رہے، خود کو اور اپنی نسلوں کو اس میں آباد کرے اور ہر قسم کے اسباب راحت سے فیض اُٹھائے۔ مہمان نے بسر و چشم اس میزبانی کو قبول کیا اور محل کو آباد کیا، لیکن عیش و راحت جس کا خاصہ ہے کہ دل کو یاد الٰہی اور دماغ کو خوفِ خدا سے آزاد کر دیتی ہے! یہ مہمان بھی اس مرض کا شکار ہوا اور بجائے اس کے کہ اپنے منعم حقیقی کا احسان مانے، اس کی نعمتوں کی قدر کرے۔ اس نے اس کی ناقدری کی اور اپنے محسن کو بھول کر اس بے نظیر محل کی تعمیر کی نسبت ایسوں کی طرف کرنی شروع کی، جنہوں نے اپنے ذہن میں ادنی چیزوں کی خلق و تکوین کا بھی کبھی تصور نہ کیا تھا۔

            اس تمثیل میں بادشاہ سے مراد باری تعالیٰ ہے، محل سے مراد دنیا اور مہمان سے مراد حضرتِ انسان ہے، جو انکار و الحاد کا مرتکب ہو کر خدا اور مذہب سے بیزار اور گمراہ اور اپنے رب کی نافرمانی کا شکار ہوتا جا رہا ہے، جب کہ قرآن پاک اسے آواز دیتا ہے:

            ”اللَّہُ الَّذِی سَخَّرَ لَکُمُ الْبَحْرَ لِتَجْرِی الْفُلْکُ فِیْہِ بِأَمْرِہ وَلِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِہ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ۔وَسَخَّرَ لَکُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ جَمِیعًا مِنْہُ إِنَّ فِی ذَلِکَ لَآیَتٍ لِقَوْمٍ یَتَفَکَّرُونَ“(جاثیة:۱۲،۱۳)

            ترجمہ:”وہ اللہ ہی تو ہے، جس نے دریا کو تمہارے کام میں لگایا تاکہ اس کے حکم سے اس میں کشتیاں چلیں، اور تاکہ تم اس کے فضل سے روزی تلاش کرو اور شکر گزار بن جاؤ اور اسی طرح جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، سب کو اپنے حکم سے تمہارے کام میں لگا دیا جو لوگ غور کرتے ہیں ان کے لئے اس میں اللہ کی قدرت کی نشانیاں ہیں۔“

            ذیل میں بندوں پر نوازش انہی کی ہلکی سی جھلک پیش کی جاتی ہے۔

(۱) آسمان میں:

            یہ دھرتی جس کے اوپر انسان کا پورا کنبہ آباد ہے، اس سے بہت اوپر تاحد نظر پھیلی ہوئی آسمان کی نیلگوں چھت اپنے جلو میں بے شمار اجرامِ سماوی، روشن ستارے، سیارے چاند سورج اور اس کے پورے نظام شمسی کو سمیٹے ہے، جن سے ایک طرف اگر نیلے آسمان کو زینت حاصل ہے، تو دوسری طرف زمین کے کل کاروبار زراعت، تجارت، صنعت و حرفت اور معیشت کا ان سے گہرا تعلق ہے۔ چاند نہ نکلا ہو تو تاروں بھری رات میں انسان، تاروں کی مدد سے سمتوں اور راہوں کا تعین کرتا ہے، چاند کے طلوع و غروب، اس کے گھٹنے بڑھنے اور اس کی برجوں اور منزلوں سے ماہ و سال کا حساب لگاتا ہے۔ طلوع آفتاب سے روز و شب کا اندازہ اور روز مرہ کے کاموں کی تکمیل کرتا ہے۔ دن کے چھوٹے بڑے ہونے سے موسم کی تبدیلی اور فصلوں کی آمد و گذشت کا تعین کرتا ہے۔ دھوپ کی مدد سے زمین حرارت اور توانائی پاتی ہے۔ اس لئے کہ یہ نہ ہوتی تو زمین برف کی طرح سرد ہو کر نا قابل رہائش قرار پاتی۔ دھوپ سے آبی بخارات بادل بن کر بارش کی شکل میں سوکھی دھرتی کو سیراب اور جل تھل بنا دیتے ہیں۔ دور آکاش سے آنے والی یہ موسلا دھار بارش اور پانی کے قطرے زمین کے منھ میں نہ گرتے تو یہاں نہ زندگی کی رمق ہوتی اور نہ انسان حیوان اور نبات کا دُور دُور کہیں نام و نشان ہوتا۔

            در حقیقت آسمان کی پہنائیوں میں اس کے چھوٹے بڑے ستاروں سیاروں میں چاند سورج اور سارے نظام شمسی میں خدا کی حکمت، قدرت، اس کی بے پناہ نعمت اور اس کی معرفت کے بے شمار دلائل موجود ہیں، جو انسانوں کو ہدایت اور فکر و نظر کا احساس دلاتے ہیں۔

(۲)زمین میں:

            رہی زمین جس کے فرش خاکی پر اس کا اپنا گھر ہے۔ دست قدرت نے اس کے تین چوتھائی حصوں کو پانی سے لبریز رکھا جس کی وجہ سے جابجا نہریں، دریا اور سمندر موجیں مارتے ہوئے رواں ہیں۔ خشکی میں جگہ جگہ روز مرہ کی زندگی میں کار آمد مختلف اشیاء کے ذخیرے کانوں کی شکل میں دبے پڑے ہیں۔ اونچے اونچے پہاڑ، ٹیلے، ہرے بھرے جنگلوں میں درختوں اور جانوروں کی صورت جنگلاتی دولت بافراط موجود ہے۔ باغوں اور کھیتوں سے پھلوں اور غلے کی پیداوار کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے، جس سے غذا اور معاش کی مختلف ضرورتیں پوری ہوتی ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ یہ پورا کارخانہ انسانوں اور صرف انسانوں کا تابع اور مسخر ہے۔ اس کے کسی حصہ پر انسانوں کے سوا کسی کا اجارہ نہیں، اور انسان جس قدر بھی چاہے اس خزینے سے اپنی ضرورت کی چیزیں نکال کر ان سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

            آسمان کی پہنائی اور زمین کی وسعت جو اپنے خزانوں کے ساتھ انسان کی خدمت کے لئے کمربستہ اور ہمہ تن آمادہ ہے، یہ خود اس کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ ان تمام چیزوں، اس پوری کائنات اور خود حضرت انسان کا بنانے والا اور پیدا کرنے والا باری تعالیٰ ہے، جس کا وجود برحق ہے۔ جس نے اس پورے نظام ربوبیت کو جاری کرنے کے بعد حضرت انسان کو وجود بخشا اور محض اس کے اعزاز و اکرام کی خاطر پوری کائنات کو اس کا تابع فرمان بنایا۔ اس قادرِ مطلق کی کس کس عنایت کا ذکر کیا جائے؟ جو اس نے بارش کے قطروں کی طرح انسانوں پر نچھاور فرمائی ہے۔ اس کی ایک ایک عنایت اپنے اندر نوازش و مہربانی کا خزانہ، اور تذکیرو یاد دہانی کا دفتر لیے ہے۔ اور زبانِ حال سے انسانوں کو متوجہ کرتی ہے کہ وہ مزید جہالت اور سرکشی کا شکار نہ ہوں۔

            چنانچہ جیسا کہ عرض کیا گیا، نباتات میں تخم ریزی اور حیوانات میں بار آوری بھی قدرت کا ایک عجیب نظام ہے، جس سے انسان کی مختلف ضرورتوں کی بآسانی تکمیل ہوتی ہے۔اور جس طرح آپ سے آپ یہ اہم کام انجام پاتا ہے، اس پر دانشوروں کی عقلیں حیران ہیں۔ چنانچہ ماہرین اس کو تسلیم کرتے ہیں کہ حیوانات کی طرح نباتات میں بھی قدرت نے نر اور مادہ کا فرق قائم رکھا ہے، اور ایک ضابطے کے تحت سال کے مخصوص دنوں میں ان پودوں اور ان کے بیجوں میں باقاعدہ افزائش کا عمل رونما ہوتا ہے۔ حیوانات میں بار آوری کا عمل محتاج بیان نہیں، البتہ یہ چیز قدرت کے دقیق نظام کا کس قدر انوکھا مظہر ہے کہ حیوانوں میں نر، مادہ کی طرف خود بخود مائل ہوتا ہے، لیکن بار آوری کا مرحلہ تکمیل پا جانے کے بعد پھر خود بخود بیگانہ ہو جاتا ہے۔ تا آنکہ مادہ بچہ جننے اور دودھ پلانے کے عمل سے فارغ ہوتی ہے اور جب یہ مدت پوری ہوتی ہے تو نر حسب سابق پھر اس کی طرف مائل ہوتا ہے!

            ان انسانوں سے کوئی پوچھے کہ یہ اور قدرت کے بے شمار مظاہر اور کاریگری آخر کس کے لئے ہے؟ کیا یہ سارا غیبی خزانہ انسانوں اور صرف انسانوں کی غذا، لباس اور معاش کے بندوبست کیلئے نہیں؟ اور اگر اس قدر صاف صاف رہنمائی کے بعد بھی حضرت انسان محض اپنی ناعاقبت اندیشی کی بنا پر وجود باری اور قدرت الٰہی کو تسلیم نہ کرے اور ان واضح اشاروں کو سمجھ نہ سکے، تو اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ اس کے بعد تاریخ انسانی کا وہ سیاہ ترین دور شروع ہو گا، جس کے اندر عقل انسانی کے لیے کسی رہنما اور فکر و نظر کے لئے کسی رہبر کی ضرورت نہ ہوگی نہ دور دور تک ان کا کہیں وجود ہو گا۔ پھر نہ کوئی حق کا خواستگار ہو گا اور نہ کہیں یہ سامان ہدایت دستیاب ہو گا۔ اور وہ وقت آئے گا کہ دلالت اور ہدایت کے معمولی نمونے بھی دُنیا سے ناپید ہوں گے؛ چنانچہ دھواں ہو گا مگر آگ کا نشان تک نہ ہو گا! بیج ہوں گے، لیکن پتے، پھل، پودے اور درختوں کا پتہ نہ ہو گا۔ حرکت ہوگی، مگر جانداروں میں زندگی کی رمق اور جینے کا مزہ باقی نہیں رہے گا! اور جب کل جُگ کا یہ دور شروع ہو گا تو عقل انسانی بھی ہوش و خرد کی سرحد سے بہت دور جذب و جنون کی وادی میں سرگرداں ہوگی، اور دنیا بالکل آخری بار گہری تاریکی اور پھر فنا کے گھاٹ اتر کر ہمیشہ کے لئے نیست و نابود ہو جائے گی!