ضرورت، حفاظت، دفاع اور تجاویز
محاضرہ بہ موقع: یک روزہ تربیتی اجتماع، تحفظِ عقائد ِ اسلامیہ، بہ تاریخ: 30، جنوری، 2025
جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا
حضرت مولانا مفتی محمد جعفر صاحب ملیؔ رحمانیؔ
صدر مفتی و قاضی دار الافتاء والقضاء جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا
الحمدُ للّٰہِ واجبِ الوجودِ، ذی الکرمِ والفضلِ والجودِ، الأوّلُ القدیمُ بلا ابتدائٍ، والآخر الکریمُ بلا انتہائٍ، لم یزل ولا یزالُ صاحبَ نُعوتِ الکمالِ، من صفاتِ الجلالِ والجمالِ،المنزہُ عن سماتِ النقصانِ والحدوثِ والزوالِ، والصلاۃُ والسلامُ علی أکملِ مظاہرِ الحق فی مَرأَی الخلقِ، نبیِ الرحمةِ وشفیع الأمةِ، وعلی آله وأصحابه الطیبیین الطاہرین، وعلی أتباعه وأشیاعه، إلی یوم الدین۔ أما بعدُ!
محترم سامعین و ناظرین!
دینِ اسلام وحی خداوندی پرمبنی دین ہے، جس کی پوری تفصیل اللہ رب العزت نے قرآن ِ پاک میں اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیثِ مبارکہ میں بیان فرمائی ہے، اس دین کے بنیادی چند عقائد ہیں، توحید، رسالت، اورآخرت۔
عقیدہ کی تعریف:
عقیدہ، عقد سے ماخوذ ہے، جس کا معنی گرہ اور گانٹھ کے ہیں، یعنی عقیدہ نہ بدلتا ہے نہ ہی کھلتا ہے، بہ حیثیتِ مسلمان ’’ہمارا پورا دین‘‘ ہمارا عقیدہ ہے۔
عقیدہ اور نظریہ میں فرق:
دین ِاسلام ہماراعقیدہ ہے،نظریہ نہیں، کیوں کہ عقیدہ وہ ہے جو وحیِ الٰہی کے ذریعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط سے امت کو ملا ہے، اوراس میں تا قیام ِ قیامت کوئی تبدیلی واقع نہیں ہو سکتی، جبکہ نظریہ اس فکر ونظر کو کہا جاتا ہے، جو انسانی علم: مشاہدہ، مفروضہ، تجزیہ، اورتجربہ کے مراحل سے گذرکر حاصل ہوتا ہے، اوراس میں، وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی بھی رونما ہوتی رہتی ہے۔
علاوہ ازیں عقل و دلائل کے ذریعہ کسی نظریہ سے اختلاف اوراس کا رد تو ممکن ہے، مگر ’’عقیدہ اور دین‘‘ تجربات کا نتیجہ نہیں ہے، کہ عقل ودلائل کے ذریعہ اس کی نفی کی جاسکے، اگر کسی کی عقل، سائنس،فلسفہ ’’عقیدہ اور دین‘‘ کو قبو ل نہ کرے تو اسے یہ حق نہیں پہونچتا کہ وہ دین وعقیدہ کو رد کردے، کیوں کہ عقیدے اوردین کی بنیاد وحیِ الٰہی ہے، جہاں جا کر عقل ِانسانی کی پرواز ختم ہوجاتی ہے، اورعقل وقیاس کواس میں دخل کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ بہ قول علامہ اقبال مرحوم:
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبانِ عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
اسلام کے تین بنیادی عقائد ہیں:
عقیدۂ توحید، عقیدہ ٔ رسالت، عقیدۂ آخرت۔
عقیدۂ توحید:
عقیدۂ توحید کا مطلب یہ ہے کہ انسان یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ تبارک وتعالی اپنی ذات و صفات اورجملہ اوصاف وکمالات میں، یکتا و بے مثال ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ہے، وہ وحدہ لا شریک لہ ہے، ہرشیء کا مالک اوررب ہے، کوئی اس کا ہم پلہ اورہم رتبہ نہیں ہے، صرف وہی بااختیار ہے، تمام عبادتوں کے لائق وہی پاکیزہ ذات ہے، اس کے علاوہ تمام معبود باطل ہیں، وہ ہرصفت ِکمال سے متصف ہے، اورہرقسم کے عیب ونقص سے پاک ہے، اس کی نہ کوئی اولاد ہے، اور نہ ہی وہ کسی سے پیدا ہوا ہے۔ قرآن ِ کریم کی درجِ ذیل آیات سے، یہ عقیدہ ثابت ہے: (1) {قُلْ ہُوَ اللّٰہُ أحَدٌ اَللّٰہُ الصَّمَدُ لَمْ یَلِدْ وَ لَمْ یُوْلَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَّه‘ کُفُوًا أَحَدٌ}(سورۃ الاخلاص)
(2) {قُلِ الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ یَکُن لَّه‘ شَرِیکٌ فِی الْمُلْکِ وَلَمْ یَکُن لَّه‘ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَکَبِّرْہُ تَکْبِیرًا} (اسراء: 111)
(3) {وَإِلَٰہُکُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ، لَّا إِلَٰهَ إِلَّا ہُوَ الرَّحْمَٰنُ الرَّحِیمُ} (سورۃ البقرۃ: 163)
(4) {إِنَّمَا اللَّہُ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ سُبْحَانَه‘ أَن یَکُونَ لَه‘ وَلَدٌ لَّه‘ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ وَکَفَیٰ بِاللَّہِ وَکِیلًا} (سورۃ النساء: 171)
(5) {وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِیَعْبُدُوا إِلَٰہًا وَاحِدًا ، لَّا إِلَٰهَ إِلَّا ہُوَ ، سُبْحَانَه‘ عَمَّا یُشْرِکُونَ} (التوبۃ:31)
عقیدۂ توحید کی اہمیت:
عقیدۂ توحید اسلام کی اساس اوربنیاد ہے، اورتمام عقائد کی جڑ اوراصل الاصول ہے، اور یہی کلمۂ توحید ’’لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ مومن ومشرک کے مابین حدِ فاصل ہے، قرآنِ کریم نے خالص توحیدِ الٰہی کا عقیدہ جس انداز سے بیان کیا اور فطری دلائل سے اس کو ثابت کیا، دیگر الہامی کتابوں میں اس کی نظیرنہیں ملتی، اللہ پاک نے جتنے انبیاء اور رسول اس دنیا میں مبعوث فرمائے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کرنبی آخر الزماں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک سب نے عقیدۂ توحید کی دعوت دی۔
اسی عقیدہ توحید کی عظمت و فضیلت کو بیان کرتے ہوئے علامہ اقبال مرحوم نے کہا تھا:
توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے
آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا
عقیدۂ رسالت:
عقیدۂ رسالت کا مطلب یہ ہے کہ خالقِ کائنات اللہ رب العزت کی طرف سے مخلوق کی ہدایت ورہنمائی کے لیے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر محمدٌ رّسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک جتنے بھی نبی ورسول آئے ان سب کے سچے اوربرحق ہونے کا عقیدہ رکھا جائے، کیوں کہ خدائی احکام، اوراس کی مرضی اور نا مرضی کا علم، ان ہی نبیوں اوررسولوں کے ذریعہ حاصل ہوا ہے، اگران کی رسالت وصداقت پرایمان نہ ہوتواحکام الٰہی کی صداقت بھی مشکوک و مشتبہ ہوجاتی ہے، اورانسانوں کے سامنے نیکی ومعصومیت، اورکرداروعمل کا ایسا کوئی آئیڈیل ونمونہ نہیں رہتا جو ان کے لیے عمل کا محرک بن سکے۔
اللہ رب العزت نے اپنی کتاب میں عقیدہ ٔرسالت کو بڑے صاف اورواضح طورپرذکرفرمایا ہے، اس کا فرمان ہے:
{آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنزِلَ إِلَیْهِ مِن رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ ،کُلٌّ آمَنَ بِاللَّہِ وَمَلَائِکَتِهِ وَکُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِهِ }(سورۃ البقرہ: 285)
اسی طرح اس کا یہ فرمان:
{قُلْ یَا أَ یُّہَا النَّاسُ إِنِّی رَسُولُ اللَّہِ إِلَیْکُمْ جَمِیعًا الَّذِی لَه‘ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَا إِلَهَ إِلَّا ہُوَ یُحْیِی وَیُمِیتُ فَآمِنُوا بِاللَّہِ وَرَسُولِهِ النَّبِیِّ الْأُمِّیِّ الَّذِی یُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَکَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوہُ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُونَ}۔ (الأعراف: 158)
عقیدۂ ختم نبوت ورسالت:
سلسلۂ رسالت کے سب سے آخری نبی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، کیوں کہ آپ کو خاتم النبیین بنا کر بھیجا گیا۔ فرمانِ ربّانی ہے:
{ مَّا کَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِکُمْ وَلَٰکِن رَّسُولَ اللَّہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّ ، وَکَانَ اللَّہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیمًا}}۔ (الاحزاب: 40)
اور خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’لا تقومُ الساعةُ حتی تلحقَ قبائلٌ من أمّتی بالمشرکینَ، وحتی یَعْبُدُوا الأوثانَ، وإنه سیکونُ فی أمّتی ثلاثونَ کذابونَ کلّہم یزعُم: أنه نبی، وأنا خاتَمُ النبیینَ، لا نبِیّ بعدی۔‘‘(جامع الترمذی: 2/441)
آپ پرنازل کی گئی کتاب ’’قرآن ِ مقدس‘‘ آپ کے ارشادات ’’احادیثِ مبارکہ‘‘ اورآپ کے اعمالِ مبارکہ’’اسوۂ حسنہ‘‘ ہمیشہ ہمیش کے لیے پوری انسانیت کے لیے مینارہ ٔ نور ہیں، جن سے وہ اپنی زندگی میں رشد و ہدایت حاصل کرسکتی ہے۔
عقیدۂ ایمان بر ملائکہ و کتب ِ سماویہ:
عقیدۂ رسالت کے ساتھ، ملائکہ اورآسمانی کتابوں پرایمان لانا بھی عقیدۂ توحید کا جزئِ لاینفک ہے۔
فرشتوں پرایمان اس لیے کہ وہ اللہ اوراس کے رسولوں کے درمیان قاصد وسفیر ہیں، اورآسمانی کتابوں پرایمان اس لیے کہ ہمیں جو ربانی ہدایات واحکام موصول ہوئے وہ ان ہی کتابوں کے ذریعہ موصول ہوئے ہیں،معلوم ہوا کہ فرشتوں اورآسمانی کتابوں پرایمان کے بغیر، ربّانی ہدایات و احکام کے موصول ہونے کا کوئی اور ذریعہ نہیں ہے، اوران پرایمان لانا عقیدۂ توحید ورسالت کا لازمی جزو ہے، اللہ رب العزت نے اپنی کتاب میں اس عقیدہ کو بڑے صاف اور واضح طورپر ذکر فرمایا ہے، اس کا فرمان ہے:
{یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللَّہِ وَرَسُولِهِ وَالْکِتَابِ الَّذِی نَزَّلَ عَلَیٰ رَسُولِهِ وَالْکِتَابِ الَّذِی أَنزَلَ مِن قَبْلُ ، وَمَن یَکْفُرْ بِاللَّہِ وَمَلَائِکَتِهِ وَکُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِیدًا}(سورۃ النساء: 136)
اس لیےعقیدۂ رسالت ہمارے ایمان کا جزاور اس کی شہادت اوراطاعتِ رسول ہماری نجات کا دار و مدار ہے، جب تک ہم تمام انبیاء کو نبی، اور حضرت محمد ٌ رّسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء نہیں مانتے ہم مومن نہیں ہوسکتے۔ عرشی کیا ہی خوب کہہ گئے:
نبوت ختم ہے تجھ پر، رسالت ختم ہے تجھ پر
ترا دیں ارفع واعلی، شریعت ختم ہے تجھ پر
عقیدۂ آخرت:
دنیا فانی ہے، اوریہاں ہرآنے والے انسان کو فنا و موت کا مزا چکھنا ہے، اس عارضی زندگی کے بعد، ایک دائمی و ابدی زندگی ہے، جس کے لیے مرنے والے تمام انسان ایک دن دوبارہ اٹھائے جائیں گے، اورہرانسان سے اس کی دنیوی زندگی کے تمام اعمال کے بارے میں سوال ہوگا، اچھے اورنیک اعمال پراجروثواب اوربرے اعمال پراسے سزا دی جائے گی، اسی کوعقیدۂ آخرت کہا جاتاہے۔ ارشادِ خداوندی ہے:
{فَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَرَہُ وَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَرَہُ} (سورۃ الزلزال7/8)
عقیدۂ آخرت کی ضرورت و اہمیت:
یہی وہ عقیدہ ہے جو انسان کو اس کی خلوت و جلوت میں اس کی ذمہ داریاں محسوس کراتا ہے، اسے خیر پرآمادہ کرتا ہے، اورشر سے محفوظ رکھتا ہے،یہ عقیدہ انسانوں کو جانوروں سے ممتازبناتا ہے کہ انسان اللہ کے سامنے جواب دہ ہے، اورجانورجواب دہ نہیں ہے، عقیدہ ٔ آخرت سے خالی انسان، انسان نہیں، درحقیقت جانور ہے، بل کہ اس سے بھی بد تر۔
عقیدۂ آخرت ہی انسان کو شترِ بے مہار بننے نہیں دیتا۔فرمانِ باری تعالی ہے: { وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ، لَہُمْ قُلُوبٌ لَّا یَفْقَہُونَ بِہَا وَلَہُمْ أَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُونَ بِہَا وَلَہُمْ آذَانٌ لَّا یَسْمَعُونَ بِہَا ، أُولَٰئِکَ کَالْأَنْعَامِ بَلْ ہُمْ أَضَلُّ، أُولَٰئِکَ ہُمُ الْغَافِلُونَ}(الأعراف: 179)
اسلا م میں عقیدۂ آخرت اس قدراہم ہے کہ اللہ رب العزت نے قرآن ِ کریم میں بیشتر مقامات پراس کا ذکرایمان باللہ کے ساتھ کیا ہے:
{یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللَّہِ وَرَسُولِهِ وَالْکِتَابِ الَّذِی نَزَّلَ عَلَی رَسُولِهِ وَالْکِتَابِ الَّذِی أَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ وَمَنْ یَکْفُرْ بِاللَّہِ وَمَلائِکَتِهِ وَکُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلالا بَعِیدًا} (سورۃ النساء:136)
اسلام کے اخلاقی اور اجتماعی نظام کی پوری عمارت’’عقیدۂ آخرت‘‘ کے سنگِ بنیاد پر ہی کھڑی ہے،احتساب اورجزا و سزا کے عقیدہ کے بغیردنیا کا کوئی کام ایسا نہیں، جو دیانتداری کے ساتھ کیا جاسکے، تمام اخلاق کا انحصار چاہے وہ انفرادی ہوں یا اجتماعی، جزاء وسزا کے تصورپرمبنی ہے، جزا وسزا کے اسی تصور کو بیان کرنے کے لیے یہ شعر زباں زد ہے:
جیسی کرنی ویسی بھرنی نہ مانے تو کرکے دیکھ
جنت بھی ہے دوزخ بھی ہے نہ مانے تو مرکے دیکھ
لہٰذا کوئی شخص اس وقت تک مسلمان ہو ہی نہیں سکتا، جب تک کہ اسے آخرت پرایمان کامل نہ ہو، اوراس کا اس زندگی کے بعد اخروی زندگی پرایسا ہی یقین ہو جیساکہ موجودہ زندگی پر ہے، ان تین بنیادی عقائد کے ساتھ ساتھ، ہمیں تقدیر کے خیروشر ہونے پرایمان لانا بھی ضروری ہے جوایمان ِ مفصل میں مذکور ہے۔
قَالَ: فَأَخْبِرْنِی عَنِ الْإِیمَانِ، قَالَ: أَنْ تُؤْمِنَ بِاللہِ، وَمَلَائِکَتِهِ، وَکُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَالْیَوْمِ الْآخِرِ، وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ، خَیْرِہِ وَشَرِّہِ، قَالَ: صَدَقْتَ،۔ (صحیح مسلم: 8)
عقائد کی ضرورت و اہمیت:
الغرض اسلامی عقائد ہی انسان کو حقیقی معنی میں انسان بنائے رکھتے ہیں، اوراس کی موجودہ زندگی، میں چین، سکون، اوراطمینان کا باعث اوراخروی زندگی میں نجات و کامیابی کے ضامن ہیں۔
اسلامی عقائد کی تعلیم وتفہیم اوراس کی طرف دعوت دینا ہردورکا اہم فریضہ رہا ہے، کیوں کہ اعمال کی قبولیت عقیدہ کی صحت پرموقوف ہے، اوردنیا وآخرت کی بھلائی و خوش نصیبی اسی پرمضبوطی کے ساتھ قائم رہنے میں منحصر ہے۔
عقائدِ اسلامیہ کی حفاظت و دفاع اور چند تدابیر و تجاو یز:
عقائد کی جتنی ضرورت و اہمیت ہے اتنے ہی ہم عقائد کے معاملہ میں غافل اوراس کے لیے کی جانے والی محنتوں سے دور ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج جگہ جگہ فتنوں کی کثرت ہو رہی ہے اور نئے نئے ارتدادی فتنے وجود میں آرہے ہیں، مثلاً:
فتنۂ قادنیت، فتنہ شکیلیت، فتنہ گوہر شاہی، فتنۂ انکارِ حدیث، اورانجینئرعلی مرزا وغیرہ کے باطل عقائد ونظریات۔
ان تمام فتنوں سے ملتِ اسلامیہ کو محفوظ رکھنے کے لیے دفاعی کوشش کرنا ہم میں سے ہر صاحبِ علم پرفرض ہے، ارشادِ ربانی ہے:{یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَکُمْ وَأَہْلِیکُمْ نَارًا} (التحریم: 6)
ارشادِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
’’کلُّکم راعٍ وکلُّکم مسؤولٌ عن رعیتِهِ‘‘ (البخاری: 2554)
اس لیے درج ذیل تجاویز کو عملی جامہ پہنانے کی سخت ضرورت ہے:
1. اہل ِ سنت و الجماعت کے عقائد کوعام کیا جائے اورہرمسلمان کوان سے واقف کرایا جائے، جس کے لیے ائمہ مساجد مسجدوں کے منبروں کو، خطباء اورواعظین اپنے خطبوں اوروعظوں کے اسٹیجوں کو، اساتذہ، مدرسین اور مکاتب کے معلمین اپنی مسندوں اوردرسگاہوں کو خوب سے خوب استعمال کریں، اورعقائدِ اسلام کوعام کریں۔
2. جو لوگ تعلیمی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں وہ معتبر کتبِ عقائد مثلاً: حضرت تھانویؒ کی کتاب ’’اسلام کی بنیادی تعلیمات‘‘۔ ’’بہشتی زیور‘‘۔ ’’حیات المسلمین‘‘ مولانا عاشق الٰہیؒ کی کتاب ’’تحفۃ المسلمین‘‘ مفتی کفایت اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’دینی تعلیم کا رسالہ‘‘ مولانا عبد الحق صاحبؒ کی کتاب ’’اسلامی عقائد‘‘ وغیرہ کے مطالعہ کا اہتمام کریں، اوراپنے گھروں میں ان کی تعلیم اورمذاکروں کی مجلس کی پابندی کریں۔
3. اپنے بچوں کی دینی تربیت کی جائے، جدید افکار ونظریات ِ باطلہ سے انہیں دوررکھا جائے، گھر میں ادعیہ ماثورہ و مسنونہ کا اہتمام کیا جائے۔
4. عوام اپنے آپ کو علما، صلحا اوربزرگانِ دین سے وابستہ رکھیں۔
5. اسکولوں اورکالجوں میں جہاں مسلم انتظامیہ ہے، اوران کے لیے مسلم بچوں کو دین کے بنیادی عقائد وفرائض کی تعلیم دینا ممکن ہے، وہ اسے اپنے اوپرلازم کرلیں۔ اوراگر ممکن نہیں ہے تو ممکن بنانے کی کوشش کریں۔
6. گاؤں اوردیہاتوں میں موجود مسلمانوں کے عقائد کی خصوصی فکرکی جائے، اور اس کے لیے منظم نظام بنایا جائے۔ بالخصوص مسلم معاشرہ میں موجود، دینی، ملی تنظیموں کہ یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس کام کو اپنے ترجیحی منصوبوں میں شامل کریں۔
7. سوشل میڈیا پرفعال حضرات، شرعی حدود کا خیال رکھتے ہوئے، اس کے ذریعہ عقائد ِ اہل سنت کی ترویج و اشاعت کا اہتمام کریں۔
8. اہلِ مدارس و مساجد جس طرح دیگر عناوین پرمحافل ومجالس کا اہتمام کرتے ہیں، اسی طرح عقائدِ اسلام کے عنوان پر بھی محفلوں اور مجلسوں کا اہتمام کریں۔
9. اصحابِ ِقلم حضرات عقائد ِاہل سنت و الجماعت پرمحقق و مدلل اورعقلی ومنطقی انداز واسلوب میں تحریریں لکھیں، اوران تحریروں کو بھر پور انداز میں عام و شائع کیا جائے۔
10. نئے فضلائے مدارس کو دور ِحاضر کے غلط و فاسد افکارونظریات سے واقف کرایا جائے اورانہیں ان کا طریقہ دفاع بھی سکھا یاجائے۔فقط
ہذا ما ظہر لی واللّٰہ الموفق للصواب وما علینا إلا البلاغ
