عقائد کی درستی کی ضرورت واہمیت:

            عقائد کی درستی کی ضرورت واہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ:

            ۱- دین اسلام میں عقائدہ کی مثال بنیادوں اور جڑوں کی ہے، جب کہ اعمال کا درجہ شاخوں کا ہے۔

            ۲- عقائد مقدم ہیں اعمال پر، اس لیے عقائد کی درستی اعمال سے زیادہ اہم اور ضروری ہے۔

            ۳- عقائد سے اعمال وجود پاتے ہیں، اس لیے اگر عقائد درست ہوں تو ان کی وجہ سے درست اعمال وجود پائیں گے، لیکن اگر عقائد غلط ہوں تو ان کے نتیجے میں غلط اعمال ہی وجود پائیں گے۔

            ۴- کفر اور اسلام کا فیصلہ عموماً عقائد ہی کی بنیاد پر ہوتا ہے، اسی طرح حق اور گمراہی کا فیصلہ بھی عقائد ہی کی بنیاد پر ہوتا ہے۔

            ۵- اہل السنة والجماعة میں شامل ہونے یا گمراہ ہونے کا تعلق بھی عموماً عقائد ہی کے ساتھ ہے۔

            ۶- عقائد کے بگاڑ کی وعید اور سزا اعمال کے بگاڑ سے زیادہ ہے، حتی کہ کفر اور شرک کی صورت میں تو دائمی جہنم نصیب ہوتی ہے، اللہ تعالی حفاظت فرمائے۔

            ۷- عقائد کی درستی وحدت اسلامی کو قائم رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے، جبکہ عقائد کا بگاڑ وحدت کو پارہ پارہ کر دیتی ہے۔

            یہی وجہ ہے کہ امت کے تمام جلیل القدر اہلِ علم اور بزرگانِ دین سب سے زیادہ عقائد کی درستی پر زور دیتے ہیں۔

عقائد سیکھنے کے فوائد:

عقائد سیکھنے کے متعدد فوائد سامنے آتے ہیں جیسے:

  •             = عقائد میں اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات، رسالت، آسمانی کتب اور آخرت جیسے اہم امور سے متعلق علم حاصل کیا جاتا ہے، اور چوں کہ یہ امور اہمیت کے حامل ہیں اس لیے ان سے متعلق علم حاصل کرنا بھی اہمیت رکھتا ہے۔
  •              عقائد سیکھنے سے کفر و اسلام اور حق و باطل کی پہچان نصیب ہو جاتی ہے اور ان سے بچنا آسان ہو جاتا ہے۔
  •              عقائد سیکھنے سے ایمانیات کا علم ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے ایمان کی حفاظت آسان ہو جاتی ہے۔
  •              عقائد سیکھنے سے اہل حق اور اہل السنة والجماعة کی پہچان اور ان میں شمولیت نصیب ہو جاتی ہے۔
  •          عقائد سیکھنے سے اپنے عقائد کے درست ہونے پر اطمینان نصیب ہو جاتا ہے۔
  •            عقائد سیکھنے سے ملحدین، متجددین اور دیگر گمراہ افراد کے فتنے سے بچنا آسان ہو جاتا ہے۔
  •             عقائد سیکھنے سے دین کی بنیاد اور جڑیں مضبوط ہو جاتی ہیں۔
  •              عقائد سیکھنے سے دنیا اور آخرت کی کامیابی عطا ہوتی ہے۔

عقائد میں بنیادی طور پر چھ چیزوں کی درستی کی اہمیت:

            ویسے تو عقائد کا باب نہایت ہی وسیع ہے، جس کا تقاضا یہ ہے کہ اس کو تفصیل سے سمجھنے کی کوشش کی جائے، کیوں کہ دین میں عقائد کو بنیادی حیثیت اور اہمیت حاصل ہے اور ان کی درستی اعمال سے مقدم ہے، البتہ ان میں سے بنیادی طور پر چھ چیزیں ایسی ہیں کہ جن کے بارے میں کم از کم ہر مسلمان کے عقیدے کا صحیح ہونا نہایت ہی اہمیت رکھتا ہے:

            ۱- اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کے بارے میں عقائد۔

            ۲- تقدیر کے بارے میں عقائد۔

            ۳- حضرات انبیائے کرام اور حضراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین جیسی مقدس شخصیات کے بارے میں عقائد۔

            ۴- آسمانی کتابوں کے بارے میں عقائد۔

            ۵- فرشتوں اور جنات کے بارے میں عقائد۔

            ۶- موت، قبر، برزخ، آخرت اور جنت و جہنم کے بارے میں عقائد۔

(آئیے اسلامی عقائد سیکھئے:۸-۱۰)

اہلُ السنة والجماعة کے ساتھ وابستگی کی اہمیت:

            ما قبل میں ضروری عقائد کی دوسری قسم کا بھی ذکر ہوا، جو کہ اہل السنہ والجماعة سے متعلق ہے، اس سے بخوبی معلوم ہو جاتا ہے کہ ایک مسلمان کے لیے ایمان کے بعد اہل السنہ والجماعت کے ساتھ وابستگی نہایت ہی ضروری ہے، اس میں اس کے ایمان اور عقائد کا تحفظ ہے، جبکہ اہل السنہ والجماعة سے انحراف گمراہی ہے۔ یہ ایک تشویش ناک صورتحال ہے کہ عرصے سے جس طرح امتِ مسلمہ کو الحاد، کفر اور شرک کی خطرناک وادیوں میں ڈھکیلنے کی کوششیں جاری ہیں ،اسی طرح اہل السنة والجماعت کو صراط مستقیم سے ہٹا کر گمراہی کی پریشان کن وادیوں میں بھٹکانے کی مہم بھی جاری ہے، گویا کہ یہ باور کرایا جاتا ہے کہ ایمان کے بعد اہل السنة سے وابستگی کی کوئی ضرورت نہیں، جس کا انجام بدیہی ہونا تھا کہ بہت سے مسلمانوں کے دلوں میں اہل السنة والجماعة کی حقیقت اور ضرورت سمجھنے اور ان سے وابستہ رہنے کی اہمیت ہی باقی نہ رہی، جس کے نتیجے میں متجددین اور گمراہ طبقات کو یہ موقع سہولت سے میسر آگیا ہے کہ وہ ان سادہ لوح مسلمانوں کو اہل السنہ سے دور کر کے اپنے سے وابستہ کر کے صراط مستقیم سے ہٹا دیں اور ان بہتر گمراہ فرقوں میں شامل کر دیں، جن کے لیے جہنم کی وعید سنائی گئی ہے؛الغرض بہت سے مسلمان کسی مذہبی سکالر یا متجدد کا بیان سنتے وقت یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ ان کا تعلق اہل ُالسنة والجماعة سے ہے یا نہیں۔

            اس لیے ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اہل السنة والجماعة کی حقیقت اور اہمیت کو سمجھے اور ان کے ساتھ وابستگی رکھتے ہوئے اپنے عقائد کا تحفظ کرے اور ہر قسم کی کھلی اور پوشیدہ گمراہی سے اپنے آپ کو بچانے کی بھر پور کوشش کرے اور صرف انہی مستند اہلِ علم کے بیانات سنا کرے، جن کا تعلق اہل السنة والجماعة کے ساتھ ہو۔

            ذیل میں اہل السنة والجماعة کی حقیقت، علامت اور اوصاف اور دیگر اہم امور ذکر کیے جارہے ہیں جن سے بہت سے شبہات اور مغالطوں کا ازالہ ہو سکے گا ان شاء اللہ۔

اہل السنة والجماعة ہی حق جماعت ہے:

            حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ”بنی اسرائیل ۷۲/ فرقوں میں بٹے تھے، جبکہ میری امت میں ۷۳/ فرقے بنیں گے، ان میں ایک کے سوا باقی سب جہنم میں جائیں گے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! وہ ایک کامیاب اور بر حق جماعت کون سی ہو گی؟ تو حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ: ” مَا أَنَا عَلَیْہِ وَأَصْحَابی“ ،”یعنی جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقے پر ہو گی۔“

            سنن الترندی میں ہے:۲۶۴۱ – عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ یَزِیدَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ ﷺ: ”لَیَأْتِیَنَّ عَلَی أُمَّتِی مَا أَتَی عَلَی بنی إسرائیل حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ، حَتَّی إِنْ کَانَ مِنْہُمْ مَنْ أَتَی أُمَّہُ عَلَانِیَةً لَکَانَ فِی أُمَّتِی مَنْ یَصْنَعُ ذَلِکَ، وَإِنَّ بنی إسرائیل تَفَرَّقَتْ عَلَی ثِنْتَیْنِ وَسَبْعِینَ مِلَّةً، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِی عَلَی ثَلَاثٍ وَسَبْعِینَ مِلَّةً، کُلُّہُمْ فِی النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً“، قَالُوا: وَمَنْ ہِیَ یَا رَسُولَ اللَّہِ؟ قَالَ: ”مَا أَنَا عَلَیْہِ وَأَصْحَابِی۔“

            یہ حدیث احادیث کی متعدد کتب میں مختلف الفاظ کے ساتھ روایت کی گئی ہے۔

مذکورہ بالا حدیث سے حاصل ہونے والی راہنما اور مفید باتیں:

            اس حدیث کی روشنی میں چند باتیں سمجھنے کی ہیں، جن سے حقیقت پوری طرح واضح ہونے کے ساتھ ساتھ بہت سے شبہات کا ازالہ بھی ہو سکے گا، ان شاء اللہ۔

حق جماعت کا نام اہل السنة والجماعة:

            اس حدیث میں حق جماعت کی جو علامت بیان فرمائی گئی ہے وہ ہے: ” مَا أَنَا عَلَیْہِ وَأَصْحَابِی“، یعنی وہ جماعت حق پر ہو گی جو حضور اقدس ا کی سنت اور حضرات صحابہ کی پیرو کار ہو۔

            ۱- اس سے اس حق جماعت کا نام بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کا نام ”اہل السنة والجماعة“ہے، اس نام میں سنت سے مراد حضور اقدس ا کی سنت ہے جب کہ جماعت سے مراد حضرات صحابہ کی جماعت ہے، گویا کہ یہ نام اسی حدیث سے ماخوذ ہے۔

            ۲- یہ نام حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی ثابت ہے، چنانچہ سورہٴ آل عمران آیت نمبر ۱۰۶/ کی تفسیر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں کہ: قیامت کے دن اہل السنة والجماعت کے چہرے روشن ہوں گے جبکہ بدعتی اور گمراہ لوگوں کے چہرے سیاہ ہوں گے، ملاحظہ فرمائیں:

 تفسیر ابن أبی حاتم:

            ۳۹۵۰: عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما فی قولہ: ﴿یوم تبیض وجوہ وتسود وجوہ﴾ قال: تبیض وجوہ أہل السنة والجماعة…..

            ۳۹۵۱: وبہ عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما: ﴿وتسود وجوہ﴾ قال: تسود أہل البدع والضلالة.

 تفسیر ابن کثیر:

            وقولہ تعالی: ﴿یَوْمَ تَبْیَضُ وُجُوہٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوہُ﴾ یعنی: یوم القیامة، حین تبیض وجوہ أہل السنة والجماعة، وتسود وجوہ أہل البدعة والفرقة، قالہ ابن عباس رضی اللہ عنہما.

            ۳- یہ نام خیر القرون یعنی اسلام کے ابتدائی تین زمانوں میں بھی معروف تھا ؛جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے مذکورہ قول سے بھی معلوم ہو جاتا ہے، اسی طرح امام محمد بن سیرین تابعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ پہلے لوگ حدیث کی سند کے بارے میں تحقیق کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تھے، لیکن جب فتنہ عام ہو گیا تو اس تحقیق کی ضرورت پیش آگئی کہ اہل السنة کی احادیث قبول کی جائیں گی؛ جب کہ اہل بدعت کی احادیث قبول نہیں کی جائیں گی۔

            صحیح مسلم کے مقدمہ میں ہے:

            ۲۷ – حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَاحِ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ زَکَرِیَّاءَ عَنْ عَاصِمِ الْأَحْوَلِ عَنِ ابْنِ سِیرِینَ قَالَ: لَمْ یَکُونُوا یَسْأَلُونَ عَنِ الإِسْنَادِ فَلَمَّا وَقَعَتِ الْفِتْنَةُ قَالُوا: سَمُّوا لَنَا رِجَالَکُمْ فَیُنْظُرُ إِلَی أَہْلِ السُّنَّةِ فَیُؤْخَذُ حَدِیثُہُمْ، وَیُنْظَرُ إِلَی أَہْلِ الْبِدَعِ فَلَا یُؤْخَذُ حَدِیثُہُمْ.

            اس اہم فرمان سے درج ذیل باتیں سامنے آتی ہیں:

            وٴ تابعین کے دور میں بھی اہل السنة ایک معروف نام تھا۔

            وٴ احادیث صرف اہل السنہ کی قبول کی جائیں گی، ان کے علاوہ دیگر گمراہ شخصیات اور طبقات سے حدیث نہیں لی جائے گی۔

            وٴ اس سے معلوم ہوا کہ احادیث سمیت دین کے ہر معاملے میں صرف اہل السنة ہی کی بات معتبر سمجھی جائے گی۔

            اسی طرح امام ترمذی رحمہ اللہ ایک روایت کے تحت اللہ تعالیٰ کی صفات سے متعلق مذاہب بیان فرماتے ہوئے ذکر کرتے ہیں کہ یہ اہل السنة والجماعة کا مذہب ہے۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ نام خیر القرون میں معروف تھا۔

 سنن الترندی میں ہے:

            ۶۶۴ – حَدَّثَنَا أَبُو کُرَیْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ العَلَاءِ قَالَ: حَدَّثَنَا وَکِیعٌ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ: حَدَّثَنَا القَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا ہُرَیْرَةَ یَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ ا: ”إِنَّ اللَّہَ یَقْبَلُ الصَّدَقَةَ وَیَأْخُذُہَا بِیَمِیْنِہِ فَیُرَبِّیہَا لِأَحَدِکُمْ کَمَا یُرَبِّی أَحَدُکُمْ مُہْرَةُ، حَتَّی إِنَّ اللُّقْمَةَ لَتَصِیرُ مِثْلَ أُحُدٍ، وَتَصْدِیقُ ذَلِکَ فِی کِتَابِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ: ﴿ہُوَ یَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِہِ وَیَأْخُذُ الصَّدَقَاتِ﴾ (التوبة: ۱۰۴)، و﴿یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبَا وَیُرْبِی الصَّدَقَاتِ﴾ (البقرة: ۲۷۶). ہَذَا حَدِیثُ حَسَنٌ صَحِیحٌ، وَقَدْ رُوِیَ عَنْ عَائِشَةَ عَنِ النَّبِیّ ا نَحْوَ ہَذَا، وَقَدْ قَالَ غَیْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَہْلِ العِلْمِ فِی ہَذَا الحَدِیثِ وَمَا یُشْبِہُ ہَذَا مِنَ الرِّوَایَاتِ مِنَ الصِّفَاتِ وَنُزُولِ الرَّبِّ تَبَارَکَ وَتَعَالَی کُلَّ لَیْلَةٍ إِلَی السَّمَاءِ الدُّنْیَا، قَالُوا: قَدْ تَثْبُتُ الرِّوَایَاتُ فِی ہَذَا وَیُؤْمَنُ بِہَا وَلَا یُتَوَہَّمُ وَلَا یُقَالُ: کَیْفَ؟ ہَکَذَا رُوِیَ عَنْ مَالِکٍ وَسُفْیَانَ بْنِ عُیَیْنَةَ وَعَبْدِ اللَّہِ بْنِ الْمُبَارَکِ أَنَّہُمْ قَالُوا فِی ہَذِہِ الأَحَادِیثِ أَمِرُّوہَا بِلَا کَیْفٍ، وَہَکَذَا قَوْلُ أَہْلِ العِلْمِ مِنْ أَہْلِ السُّنَّةِ وَالجَمَاعَةِ…

اہل السنة والجماعة کی علامت:

            ما قبل کی حدیث میں حق جماعت کی جو علامت بیان فرمائی گئی ہے وہ ہے: ”مَا أَنَا عَلَیْہِ وَأَصْحَابی“ یعنی وہ جماعت حق پر ہوگی جو حضور اقدس ا کی سنت اور حضرات صحابہ کرام کی پیروکار ہو۔ یہ ایک واضح معیار اور پیمانہ ہے اپنے عقائد و نظریات، اعمال، اخلاق، کردار اور زندگی کے تمام امور کو جانچنے اور پرکھنے کا کہ اگر یہ تمام باتیں سنت اور صحابہ کرام کے مطابق ہیں تو کامیابی ہے ورنہ تو ناکامی ہی ناکامی ہے۔ یقینا اس معیار کو اپنانے سے بہت سی بدعات سمیت فرقہ واریت کا خاتمہ بھی ہو سکتا ہے۔

صرف اہل السنة والجماعة نام رکھ لینا کافی نہیں:

            اس حدیث سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ صرف اہل السنة والجماعة نام رکھ لینے سے کوئی اہل السنة نہیں بن جاتا، بل کہ اس کے لیے سنت اور صحابہ کرام کی مکمل پیروی ضروری ہے۔

کیا تمام فرقے صحیح ہیں؟

            اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اس امت میں تہتر فرقے بنیں گے، جن میں سے صرف ایک جماعت حق پر ہو گی، اس سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ امت میں موجود تمام فرقے حق پر نہیں ہو سکتے، اس سے ان حضرات کی غلطی واضح ہو جاتی ہے جو کہ یہ سمجھتے ہیں کہ سارے فرقے اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں، اس لیے کسی بھی فرقے کو غلط نہیں سمجھنا چاہیے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح وَحدت ِادیان فتنہ بل کہ کفر ہے کہ یہ کہا جائے کہ دنیا میں موجود تمام ادیان اپنی اپنی جگہ بر حق ہیں تو اسی طرح وَحْدَتِ فرَق بھی فتنہ اور گمراہی ہے کہ یہ کہا جائے کہ سارے فرقے اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں، اس لیے کسی بھی فرقے کو غلط نہیں سمجھنا چاہیے۔

کیا سارے فرقے غلط ہیں؟

            اس حدیث سے ان حضرات کی غلطی بھی معلوم ہو گئی جو یہ سمجھتے ہیں کہ تمام فرقے غلط ہیں، اس لیے کسی بھی فرقے کو نہیں ماننا چاہیے؛ بل کہ ہم صرف مسلمان ہیں اور ہمارا کسی بھی طریقے اور جماعت سے کوئی تعلق نہیں۔ ان حضرات کی یہ بات اس لیے درست نہیں کہ حضور اقدس ا نے اس حدیث مبارک میں یہ واضح فرمادیا کہ ان تہتر فرقوں میں سے ایک جماعت ضرور حق پر ہو گی، اس لیے ہر مسلمان کو اسی حق جماعت کے ساتھ وابستگی نہایت ہی ضروری ہے۔

حق جماعت اہل السنة والجماعة کے ساتھ وابستگی کی ضرورت:

            اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ ہر مسلمان کے لیے ایمان کے بعد گمراہی سے بچتے ہوئے حق جماعت اہل السنة والجماعة کے ساتھ وابستگی نہایت ہی ضروری ہے، یہی اس کی کامیابی اور نجات ہے، جب کہ اس سے غفلت کے نتیجے میں یہ قوی اندیشہ ہے کہ وہ گمراہ فرقوں میں شامل ہو کر اس حدیث کی وعید کا مصداق بن جائے۔

اہل السنة والجماعة سے انحراف جرم ہے؟

            اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس حق جماعت اہل السنة والجماعت کے عقائد سے ہٹ کر باطل اور گمراہ کن عقیدے ایجاد کرنا نہایت ہی سنگین جرم ہے، بل کہ ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ حق عقائد اور حق جماعت ہی کے ساتھ وابستہ رہے۔

فرقہ واریت کی شدید مذمت:

            اس حدیث سے فرقہ واریت کی نہایت ہی مذمت ثابت ہوتی ہے کہ مسلمان حق جماعت اہل السنہ والجماعت کا دامن تھامے رکھیں اور نئے فرقے ایجاد کرنے سے بچیں۔

اہل السنة والجماعة کی طرف دعوت فرقہ واریت نہیں:

            اس حدیث سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ اہل السنة والجماعةہ جب حق جماعت ہے، تو اس کی طرف دعوت فرقہ واریت ہر گز نہیں، بل کہ یہ تو اس حدیث کا منشا ہے کہ اس کی طرف دعوت حضور اقدس ا کے اس ارشاد سے معلوم ہوتی ہے اور یہ تو ہدایت کا تقاضا ہے کہ حق جماعت اہل السنة والجماعة کی وابستگی کی ترغیب اور تاکید کی جائے، جس طرح حق دین اسلام کی طرف دعوت دینا ایک اہم عمل ہے اسی طرح حق جماعت اہل السنة والجماعة کی طرف دعوت دینا بھی ایک اہم عمل ہے۔

            البتہ یہاں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ اہل السنة والجماعہ کی طرف دعوت دینے میں حکمت اور مناسب اسلوب کی رعایت رکھنی چاہیے؛ جیسا کہ قرآن و سنت کی تعلیمات ہیں۔ اسی طرح باہمی افتراق، انتشار اور فرقہ وارانہ تنازعات سے بھی بالکلیہ اجتناب کرنا چاہیے۔

اہل السنة والجماعة کے عقائد و نظریات واضح کرنے کی ضرورت:

            اس حدیث سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ جب اہل السنة والجماعة حق جماعت ہے اور اس کے ساتھ وابستگی ضروری ہے تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ اہل السنة والجماعة کے عقائد و نظریات، اعمال وغیرہ واضح طور پر بیان کیے جائیں؛ تاکہ لوگ ان کی پیروی کرتے ہوئے اہل السنة والجماعة کے ساتھ وابستہ ہو جائیں اور گمراہی سے محفوظ ہو جائیں۔