عقائد سے متعلق بنیادی و ضروری اصطلاحات

اداریہ :

(ایمان ،ضروریات دین، اسلام، قرآن،سنت،کفر،شرک،نفاق،ارتداد، فسق،گناہ، ضلالت،بدعت،الحاد کی تعریفات )

مولانا حذیفہ بن مولانا غلام محمد وستانوی

            اللہ کا بے پناہ شکر و احسان ہے کہ اس ذاتِ بابرکت نے گھٹاٹوپ تاریک فتنوں کے اس نازک ترین دور میں ہمیں ایمان اور اسلام جیسی نعمتِ بے بہا صرف اور صرف اپنے فضل و رحمت سے عطا فرمائی، اس وقت روئے زمین پر ۸۵۰/ کروڑ انسان آباد ہیں، جن میں تقریباً دو سو کروڑ اور اس سے کچھ زائد ہی اس نعمت سے مالامال ہیں باقی۰۰ ۵ کروڑ انسان اس عظیم اور قیمتی ترین نعمت سے محروم ہیں، دنیا والے کہتے ہیں: جان ہے تو جہان ہے، مگر ہم مسلمانوں کا شعار نعرہ یہ ہونا چاہیے کہ” ایمان ہے تو دونوں جہان ہے“۔

             سائنس و ٹیکنالوجی کے دور کا انسان صرف روٹی کپڑا ، مکان اور پر تعیش زندگی کے بارے میں فکر مند ہے؛ جب کہ اسلام ہمیں تحفظ دین کی تعلیم دیتا ہے ؛اسی طرح تحفظِ جان، تحفظِ مال، تحفظِ نسل اور تحفظِ عرض یعنی دین،جان،مال ، نسل،عقل اور عزت کی حفاظت کیسے کی جائے؟ اس کے اصول و ضوابط اسلام نے صاف صاف اورواضح طور پر ذکرکیے ہیں؛ مگر افسوس کے ساری دنیاصرف نظر ان اصولوں کے محض مال کی دوڑ میں سرگرداں اور مدہوش ہے؛ لہذا ہم نے اس بارشمارے میں یہ قصد کیا کہ ایمان پر ثابت قدمی اور فلاح دین ودنیا کے لیے جن بنیادی امور سے واقفیت ضروری ہے؟ اسے شاہراہ کے اس خصوصی شمارے کے ذریعہ امت تک پہنچا دیا جائے، اس لیے ایمان، اسلام اور قرآن کے متعلقات ہم بفضلہ تعالیٰ ہم بیان کررہے ہیں !

            ضروری اصطلاحات سے قبل عقیدہ سے متعلق چند بنیادی امور پیش خدمت ہیں:

عقیدہ کی تعریف-:

            مضبوط گرہ کو کہتے ہیں، اصطلاح میں وہ بات یا خبر جو دل میں خوب جم جائے کہ اس کے خلاف سوچنے یا کرنے کی نہ ہمت ہو نہ جی مانے۔ اس کے خلاف سننے یا دیکھنے سے دل پر چوٹ لگے، لالچ یادباؤ سے بھی اس سے نہ ہٹے، مخالف کی بحثوں کا چاہے جواب نہ دے سکے، مگر دل کا یقین نہ بدلے۔

اعتقاد :-

             اعتقاد یعنی دل میں جمے ہوئے یقین ہی کی بات کو زبان سے نکالنا اور اس کے موافق عمل کرنا چاہیے، دنیا و آخرت میں ایسے ہی شخص کی عزت ہوتی ہے۔

            دل میں الله و رسول کا اعتقاد نہ ہو پھر بھی ان پر اعتقاد ظاہر کرنا نفاق اور منافقت کہلاتا ہے، یہ دل کی بدترین بیماری اور کفر وشرک سے بھی بدتر ہے۔ خدا اس سے ہم سب کو بچائے۔

(بحوالہ سراج العقائد: ص/۵)