عفت و پاک دامنی

ہذہ اخلاقنا                                                                                                                                                                                          ۱۴؍ویں قسط

ترجمانی : مولانا الطاف حسین اشاعتی ؔ / استاذ جامعہ اکل کوا

لفظِ عفت سنت نبویہ کے آئینے میں:

             احادیثِ مبارکہ میں کلمہ’’ عفت‘‘ کا استعمال متعدد معانی میں ملتا ہے۔ گرچہ اکثر مقامات میں اپنے معنی عام فعل قبیح سے رکنے،دوسروں کے سامنے دست سوال دراز کرنے اور طلبِ اعانت سے بچنے میں وارد ہوا ہے۔

حرام کمائی اور حرام خوری سے بچنا:

             بہت سی احادیث میں لفظِ عفت حرام مال کمانے اور حرام وناحق مال کو استعمال میں لانے سے پرہیز کرنے کے معنی میں وارد ملتا ہے۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

             أَرْبَعٌ إذا کُنَّ فیک فلا علیک ما فاتک مِنَ الدنیا: حفظُ أمانَۃٍ،وَصِدْقُ حَدیثٍ،وَ حُسْنُ خَلیقَۃٍ،وَعِفَّۃُ طُعْمۃٍ.(رواہ أحمد)۔

            اگر تمہارے اندر چار خوبیاں پیدا ہوجائیں تو پھر تمہیں ساری دنیاکے ہاتھ سے نکل جانے کی کوئی پرواہ نہیں:امانت کی حفاظت وپاسداری، بات کی سچائی، اخلاق کی خوب صورتی، کھانے میں حلال کا اہتمام اور حرام سے مکمل پرہیز۔

            مسند احمد کی یہ حدیثِ پاک ایک مسلمان کی فلاح وبہبودی کے لیے نہایت اہم اصول پر مشتمل ہے۔ انہیں اپنا کر مسلمان دارین کی سرخروئی اور کامیابی حاصل کرسکتا ہے۔ حدیث پاک میں مذکور چوتھی صفت جو ہمارا موضوع سخن بھی ہے، انتہائی اہم اور مہتم بالشان ہے۔ اس کے ظاہر وباطن پر بہت گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں، جو شخص حلال کمائی اور حلال خوری کا اہتمام کرتا ہے، اس کے اعمال نورانی پاکیزہ ہوجاتے ہیں۔ اس میں قناعت شعاری کی خو پیدا ہوتی ہے، وہ دوسروں کے مال کو ہڑپنا تو درکنار اسے ناحق چھونا بھی گوارا نہیں کرسکتا۔

عفت مجسم سرور عالم تعلیم امت کی خاطر بارگاہ ایزدی میں عفت وپاک دامنی کی دعاکرتے ہوئے:

             نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعاؤں میںبہ کثرت اللہ رب العزت سے ان پاکیزہ کلمات میں عفت و پاک دامنی مانگا کرتے تھے:

             ’’اللَّہُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ الْہُدٰی وَالتُّقٰی وَالْعفافَ والْغِنٰی۔(رواہ مسلم)

            اے اللہ میں آپ سے ہدایت، تقویٰ، پاک دامنی اور بے نیازی کا سوال کرتا ہوں۔

            اس جامع حدیث میں کلمہ ’’عفاف ‘‘ اپنے وسیع تر مفہوم کے ساتھ مستعمل ہوا ہے۔ ستر کی حفاظت، بے حیائی سے اجتناب، تہمت وشک کی جگہوں سے اعراض، ہرنامناسب اور غیر اَولیٰ قول وفعل سے مکمل پرہیز، الغرض صفتِ عفت وپاک دامنی سے مزین ومتصف ہونا مانگا گیا ہے اور اللہ کے ساتھ عہد وپیمان کیا گیا ہے کہ میں بے حیائی سے بچنے اور عفت وپاک دامنی کا دامن تھامنے کی ہر ممکن سعی کروں گا۔ آپ اس کار مشکل میں میری اعانت ونصرت فرمائیں اور مجھے اپنی خصوصی توفیق سے نوازکر عفیف وپاک دامن رکھیں۔

دور فحاشی میں اپنے دامن عفت کو تارتار ہونے سے بچائیے:

            ہمیں اس مذکورہ بالا جامع نبوی دعا کو ورد زباں بنالینا چاہیے اورعفت و پاک دامنی سے متصف ماحول تیار کرنے میں بھرپور عملی کردار ادا کرناچاہیے، بالخصوص دورِحاضر؛ جو فحاشی وبے حیائی اور جنسی بے راہ روی کا دور ہے، جس میں ہر طرف عریانیت اور حیاسوزی کے مناظر دکھائی دیتے ہیں اوراس میں سوشل میڈیا کا کردار جلتی پر تیل چھڑکنے کا ہے۔اس بے حیائی کے ماحول میں ایک پاک دامن غیور مومن کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے کہ وہ اپنے آپ اپنے اہل وعیال اورپورے گھرانے کو فحاشی کی تند وتیز ہواؤں کے بگولوں کی زد میں آنے سے بچائے رکھے، عریانیت و بے حیائی کی ممکنہ جگہوں پر جانے سے بھی مکمل احتیاط کرے۔آلاتِ جدیدہ کے صحیح استعمال کا التزام ہو، عریاں تصویروں، گانوں، فلموں اور ڈراموں کو دیکھنے سننے کی پابندی پر سختی سے کاربند رہے؛ تاکہ اس کا گھر اور ماحول بے حیائی کی آماجگاہ نہ بننے پائے۔

عفیف و پاک دامن شخص کو بزبانِ رسالت جنت کی بشارت:

             نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

             أَہْلُ الْجَنَّۃِ ثَلاثَۃٌ: ذُو سُلْطَانٍ مُقْسِطٌ مُتَصَدِّقٌ مُوَفَّقٌ،وَرَجُلٌ رَحِیمٌ رَقِیقُ الْقَلْبِ لِکُلِّ ذِي قُرْبٰی وَمُسْلِمٍ، وَعَفِیفٌ مُتَعَفِّفٌ ذُو عِیَالٍ. (رواہ مسلم)۔

            تین قسم کے لوگ اہل جنت میں شمار ہوتے ہیں، ہر باتوفیق، صدقہ وخیرات کرنے والا، عدل گستر بادشاہ وذمہ دار، رشتہ داروں اور عام مسلمانوں کے لیے مہربانی اور نرم گوشہ رکھنے والا اوراہل وعیال والاپاک دامن عفت مآب شخص۔

            اس حدیث پاک میں اہل جنت کے اوصاف ِکریمانہ میں سے عفت وپاک دامنی کو نمایاں طور پر بیان فرمایا ہے اوراہل وعیال والے ایسے لوگ جو اپنی ذات اور اپنے اہل خانہ کو ظاہری اور باطنی طور پر عفت وپاک دامنی کا خوگر بنائے رکھتے ہیں،بے حیائی سے دور رکھتے ہیں، فحاشی کو پنپنے کا کوئی موقع نہیں دیتے، صرف حلال اور پاکیزہ لقمہ ہی پیٹ میں اتارتے ہیں، حرام بل کہ شائبہ حرام سے بھی بچتے ہیں، ایسے پاکیزہ عفت مآب لوگ جنت کے اہل ہیں اور رب کریم کے جوارِ رحمت کے سزاوار ہیں۔

عفت وپاکبازی کا اثر متعدی ہوتاہے:

             اگر گھر کے ذمہ دار اور بڑے حضرات عفت وپاکبازی کو اپنا شیوہ بنالیں تو اس کا اچھا اثر ان کے تمام افرادِ خانہ تک متعدی ہوگا اور وہ بھی عفت مآبی کی زندگی بسر کریں گے اور اگر خدانخواستہ بڑے ہی اس صفتِ عظیمہ سے عاری ہوگئے تو پھر اس کے برے نتائج بھی بڑے دور رس ہوتے ہیں۔ ایک حدیث میں فخر ِموجودات امام الانبیا علیہ الصلاۃ والسلام کا گرامی قدر ارشاد پاک ہے:

             بَرُّوْا آبَائَکُمْ تَبَرَّکُمْ أَبْنَاؤُکُمْ، وَعِفُّوا تَعِفَّ نِسَاؤُکُمْ۔(المستدرک للحاکم)۔

            تم اپنے ماں باپ کے اطاعت شعار بنو تمہاری اولاد تمہاری تابع فرمان ہوگی، تم پاک دامن رہو تمہاری عورتیں پاک دامن رہیں گی۔

            یہ عظیم حدیث معاشرے کو عفت وپاک دامنی کی صفت سے آراستہ کرنے کا ایک سہل طریقہ بیان کررہی ہے۔ نیز سنۃ اللہ ’’الجزاء من جنس العمل ‘‘  کی ایک واضح مثال پیش کرتی ہے۔باحیا وپاک دامن شخص دوسروں کی عزت وآبروں سے تعرض کرنے سے بچتارہتا ہے، جس کے بدلے میں اللہ خود اس کی عزت وآبرو کو محفوظ ومامون رکھتے ہیںاور جو بے حیائی اور بے شرمی سے دوسروں کی عزت وآبرو پر حملہ آور ہوتاہے تو یہ برے کرتوت اس کے ذمہ قرض ہوجاتے ہیں، جس کی ادائیگی اسے دیر سویر ضرور کرنی پڑتی ہے۔ امام محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ اس حقیقت کو اپنے ان اشعار میں پیش فرمارہے ہیں:

عِفّوا تَعِفَّ نِساؤُکُم في المَحرَمِ

وَتَجَنَّبوا ما لا یَلیقُ بِمُسلِمِ

إِنَّ الزِنا دَینٌ فَإِن أَقرَضْتَہُ

کانَ الوَفا مِن أَہلِ بَیتِکَ فَاعلَمِ

مَن یَزْنِ یُزْنَ بِہِ وَلَو بِجِدَارِہِ

إِن کُنتَ یا ہَذا لَبیباً فَافْہَمِ

            تم پاک دامن رہو تمہاری عورتیں پاک دامن رہیں گی۔ اور بے حیائی سے بچو۔ بے حیائی مومن کی شان کے خلاف ہے۔ زنا ایک قرض ہے،اچھی طرح جان لوکہ اگر تم یہ قرض لوگے تو ضرور اسے اپنے گھر والوں سے چکانا پڑے گا، جو زنا کرے گا اس سے زنا کیا جائے گا گرچہ اس کی دیوار کے ساتھ کیا جائے۔ اے عقل مند شخص اس بات کو پلے باندھ لے۔

  اللہ تعالیٰ ہمیں اس صفت ِجلیلہ کی اہمیت کو سمجھنے اور اس سے متصف ہونے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین!