عفت و پاک دامنی

ہذہ اخلاقنا                                                                                                                                                                                                                                                         ۱۳؍ویں قسط

ترجمانی : مولانا الطاف حسین اشاعتی ؔ / استاذ جامعہ اکل کوا

لفظ’’ عفت‘‘ آئینۂ قرآنی میں:

            قرآن کریم کی سورۃ النساء میں لفظ عفت کا مشتق وارد ہوا ہے،جس سے یتامیٰ کے مالداراولیا کو ان کی خبرگیری اور پرورش کی بنا پر اجرت اور معاوضہ لینے سے اجتناب کرنے کے معنی مراد لیے گئے ہیں، یتیموں کے اولیا کو حکم ہے کہ وہ ان کے ساتھ ہمدردی وخیرخواہی کرتے رہیںاور جب تک وہ سنِ رشد کو نہ پہنچ جائیں ان کے مال کی حفاظت کریں، بل کہ اس میں سرمایہ کاری اور انوسٹمینٹ (Investment)جاری رکھیں، پھر عقل ورشد کی پختگی کے مرحلے میں قدم رکھنے کے بعد ان کا مال انہیں سونپ دیںاور اس پر کسی قسم کی اجرت یا معاوضہ نہ لیںارشاد ربانی ہے:

            { وَابْتَلُوا الْیَتٰمٰی حَتّیٰٓ اِذَا بَلَغُوا النِّکَاحَ ج فَاِنْ اٰنَسْتُمْ  مِّنْھُمْ  رُشْدًا  فَادْفَعُوْٓا اِلَیْھِمْ اَمْوَالَہُمْ ج وَلَا تَاْکُلُوْھَآ اِسْرَافًا  وَّبِدَارًا اَنْ  یَّکْبَرُوْا ط وَمَنْ کَانَ  غَنِیًّا  فَلْیَسْتَعْفِفْ ج وَمَنْ کَانَ  فَقِیْرًا  فَلْیَاْکُلْ  بِالْمَعْرُوْفِ ط فَاِذَا دَفَعْتُمْ  اِلَیْھِمْ اَمْوَالَھُمْ فَاَشْھِدُوْا عَلَیْھِمْ ط وَکَفٰی بِاللّٰہِ حَسِیْبًا}(النساء: ۶)

            اور یتیموں کو بالغ ہونے تک کام کاج میں مصروف رکھو پھر (بالغ ہونے پر) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو تو ان کا مال ان کے حوالے کردو اور اس خوف سے کہ وہ بڑے ہوجائیں گے (یعنی بڑے ہو کر تم سے اپنا مال واپس لے لیں گے) اس کو فضول خرچی اور جلدی میں نہ اڑا دینا۔ جو شخص آسودہ حال ہو اس کو (ایسے مال سے قطعی طور پر) پرہیز رکھنا چاہیئے اور جو بے مقدور ہو وہ مناسب طور پر (یعنی بقدر خدمت) کچھ لے لے اور جب ان کا مال ان کے حوالے کرنے لگو تو گواہ کرلیا کرو اور حقیقت میں تو خدا ہی (گواہ اور) حساب لینے والا کافی ہے.

عفت وپاک دامنی کی پاسداری میں خواتین کا کلیدی کردار:

            سورہ نور میں ایک مقام پراللہ رب العزت نے عفت وپاکدامی کی عظیم وجلیل صفت سے اسلامی معاشرے کو مزین کرنے کے لیے،معاشرے میں تعمیرِ سیرت وکردار اور اخلاق حمیدہ کے کلیدی رکن عورتوں کو عفت وعصمت کی پاسداری اور حجاب وتستر کے زریں احکام کی بجاآوری کاحکم فرمایا۔اور روئے سخن ان عمر رسیدہ خواتین کی طرف رکھا، جنہیں اب نکاح کی امید نہ رہی ہو، تاکہ عفت وپاک دامنی کی اہمیت اور خدا کے ہاں اس کی محبوبیت کو خوب واضح کیا جاسکے، اور بقیہ پورا معاشرے اس خلق عظیم کی قدر ومنزلت جان لے، اوراسے اپنانے کے لیے کوشاں رہے۔ارشاد فرمایا:

            { وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَآئِ الّٰتِیْ  لَا یَرْجُوْنَ  نِکَاحًا   فَلَیْسَ  عَلَیْھِنَّ  جُنَاح’‘   اَنْ   یَّضَعْنَ ثِیَابَھُنَّ  غَیْرَ  مُتَبَرِّجٰتٍ م بِزِیْنَۃٍ ط وَ اَنْ  یَّسْتَعْفِفْنَ  خَیْر’‘   لََّھُنَّ ط وَاللّٰہُ  سَمِیْع’‘  عَلِیْم’‘ }(النور:۶۰)

            اور بڑی عمر کی عورتیں جن کو نکاح کی توقع نہیں رہی، وہ (اپنے زائد از ستر) کپڑے اتارلیں تو ان پر کچھ گناہ نہیں بشرطیکہ اپنی زینت کی چیزیں ظاہر نہ کریں۔اور اس سے بھی بچیں تو یہ ان  کے حق میں بہتر ہے اور خدا سنتا اور جانتا ہے۔

سورہ نور نظامِ عفت و پاک دامنی کے اصول و ضوابط اور حدود وقیود کا حسین مرقع:

             نظام عفت وپاک دامنی کو ترویج دینے اور برقرار رکھنے کے لیے حق تعالیٰ نے سورہ نور میں اس عظیم صفت کے بارے میں بہت اہم احکام وحدود بیان فرمائے ہیں۔آغاز سورت میں ہی کسی کی عفت وپاک دامنی پر حملہ آور ہونے والوں کودنیا وآخرت کی رسوائی اور درد ناک عذاب کی وعیدِ شدید سنائی ہے، پھر استیذان کے مفصل احکام اسی صفت کی پاسداری کرتے نظر آتے ہیں۔اس کے معًا بعد مرد وعورت ہر دو کو علا حدہ علاحدہ نگاہوں کو پست رکھنے اور شرم گاہوں کی حفاظت کی نہایت زریں ہدایات دی گئی ہیں۔

عفیفۂ کائنات ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا:

            سورہ نور ہی کی بعض آیات میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عفت و پاک دامنی کی گواہی اور برأت خود رب کائنات نے بہ ذریعہ وحی نازل فرمائی، جس سے جہاں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے مقام ومرتبہ کاپتہ چلتا ہے، اور تاقیامت ان کی عفت و پاک دامنی کی شہادت پر مہر ثبت ہوتی ہے، وہیں اس صفت عظیمہ کی اہمیت وحساسیت بھی واضح ہوتی ہے کہ جب بھی کسی عفیف وپاکدامن پر الزام لگتا ہے خداوند قدوس اس کی برأت کا خود انتظام واعلان فرماتے ہیں۔نیزجب بھی عفت وپاک دامنی کا ذکر ہوگا، عفیفۂ کائنات امی عائشہ رضی اللہ عنہا کا ذکر خیر ضرور ہوگا۔

رسول اللہ نے رکھا ہے صدیقہ لقب تیرا

فقط فرشی نہیں،عرشی بھی کرتے ہیں ادب تیرا

تیری پاکیزگی پر نطق فطرت نے شہادت دی

تجھے عظمت عطا کی،عافیت بخشی، فضیلت دی

اگر تیری سحر پرور رِدا پر داغ آجاتا

خدا کا انتخابی فیصلہ مخدوش کہلاتا

خدائے لم یزل کا بارہا تجھ کو سلام آیا

مبارک ہیں وہ لب جن پر ادب سے تیرا نام آیا

تیرا جوہر تھا حق گوئی،تیرا شیوہ تھا حق بینی

تیری فطرت حیا پرور، تیری خو صبر آگینی

بنات ملت بیضا نے سیکھا علم دیں تجھ سے

خدا راضی تھا، اور راضی تھے ختم المرسلیں تجھ سے

کسے معلوم تو نے مبدا فطرت سے کیا پایا

نگاہ پاک، قلب مطمئن،ذہن رسا پایا

تیری عظمت کا اندازہ یہ دنیا کر نہیں سکتی

کہ ادراک حقیقت عقل تنہا کر نہیں سکتی

عفت وپاک دامنی کی ایک مجسم دیدہ زیب صورت:

            قرآن کریم نے سورہ قصص میں حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹیوں کی شرم و حیا اور عفت وپاک دامنی کو ایک مجسم صورت اور بہترین نمونے کے طور پر پیش کیا ہے،جس سے یہ بھی صاف معلوم ہوتاہے کہ صلحاوشرفا کے معاشرے میں عفت وپاک دامنی کا کلچر ہمیشہ رہا ہے،جس میں اجنبی مردوں کے ساتھ عورتوں کااختلاط ہرگز قابل قبول نہیں رہا؛ جب وہ دو لڑکیاں اپنی بکریوں کو پانی پلانے کے لیے گئیں تو ہجوم کی وجہ سے ایک طرف الگ کھڑی ہوگئیں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پوچھنے پر وجہ یہی بتائی کہ مردوں کا ہجوم ہے، ہم اپنے جانوروں کو پانی اسی وقت پلائیں گی جب یہ لوگ فارغ ہوکر چلے جائیں گے۔

شرم وحیا اور عفت کی ایک اور دلکش قابل تقلید تصویر:

            پھر جب ان میں سے ایک حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بلانے کے لیے آئیں تو اس وقت بھی اس کی چال ڈھال، عفت وپاک دامنی، شائستگی اور میانہ روی کاحسین مظہر تھی۔ اللہ رب العزت کو ان کا یہ شرمیلا پن اتنا پسند آیا کہ اس کا تذکرہ بھی نہایت دلکش اسلوب میں فرمایا دیا، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

            فَجَائَ تْہُ إِحْدَاہُمَا تَمْشِي عَلَی اسْتِحْیَائٍ  (القصص :۲۵)

            اور آئی ان کے پاس ان میں سے ایک لڑکی شرماتی ہوئی۔

اسلام کا نظامِ پردہ عفت وپاک دامنی کا بہترین ضامن: 

            اسی صفت حسنہ کی تکمیل کے لیے شریعتِ مطہرہ نے خواتین کو باپردہ رہنے کا حکم دیا،اور باپردہ زندگی گزارنے سے ہی معاشرہ میں حیا و عفت اور امن و سکون باقی رہتا اور اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیںاور بے پردگی سے معاشرہ میں جتنے مفاسد اور برائیاں جنم لیتی ہیں ان کو شمار میں لانا مشکل ہے، اور عورتوں کا بے پردہ رہنا ہی مردوں کی بدنظری اور حیاسوزی کا باعث بنتاہے، جس سے گناہوں کا لا متناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ۔

عفت مآب نوجوان اسوہ ٔیوسفی کے امین:

             عفت و پاک دامنی ہی ایسی صفت ہے ،جس کے ذریعے انسان بے ہودہ، قبیح اور ناپسندیدہ کاموں سے رک جاتا ہے، اس صفتِ عظیمہ سے متصف نوجوان معاشرے کو پرامن بنانے میں اہم کردارادا کرتے ہیںاور منکرات و فواحش کے قریب جانے سے رکتے ہیں، جس سے انارکی اور فساد کی جڑیں بیخ وبُن سے اکھڑنے لگتی ہیں۔ اسی عفت و پاک دامنی سے خاندانی اور ازدواجی زندگی پرسکون اور کامیاب رہتی ہے، عفت وپاک دامنی طبعی خواہشات پورا کرنے کے لیے ہرفردکو اپنے رفیقِ سفر تک محدود رکھتی اور اسے اِدھر اُدھر منہ مارنے سے روکتی ہے، عفت و پاک دامنی سے خاندانی تعلقات ٹوٹنے سے بچ جاتے ہیں اور ازدواجی تعلقات مضبوط رہتے ہیں۔

عفت وپاک دامنی سے خالی معاشرہ کی قبیح صورت:

            اگر معاشرے سے عفت وپاک دامنی نکل جائے اور جنسی بے راہ روی عام ہو کر معاشرے اور ماحول میں رائج ہوجائے تو نوجوان گھر بسانے کے متعلق سوچیں گے بھی نہیں، اس لیے کہ جب خواہشات پوری ہورہی ہیں تو بیوی بچوں کی ذمہ داریاں اپنے سر لینے کی کیا ضرورت؟اسی جنسی بے راہ روی سے خاندانی نظام کا شیرازہ بکھر جاتا ہے، معاشرے میں بہت زیادہ بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے،وہ افراد جو ہوا و ہوس اور جنسی خواہشات میں مگن ہوجاتے ہیں لوگوں کے نزدیک قابل وثوق نہیں رہتے۔ زندگیوں میں یاس و ناامیدی در آتی ہے،کوئی کسی کا سہارا بننے کو تیار نہیں ہوتا، بس ہر کوئی اپنا مطلب نکال کر سب اپنی راہ چل پڑتے ہیں، جس سے مایوس ہوکر بہت سے لوگ خودکشی پر مجبور ہوکر اپنی جانیں تک گنوا دیتے ہیں۔

عفت وپاک دامنی انسان کو عند اللہ اور عند الناس محبوب بناتی ہے:

             عفت و پاک دامنی گھروں کو مضبوط بناتی ہے،انسان کو معزز اور معتبر بنا دیتی ہے۔عفت و پاک دامنی کی وجہ سے انسان کے قول و فعل میں حسن و جمال پیدا ہوتا ہے۔ عفت وپاک دامنی کا پیکر انسان مخلوق کی نظر میں بھی پرکشش بن جاتا ہے اور پروردگار عالم کے ہاں بھی مقبول ومحبوب ہوتا ہے۔

دور فحاشی وعریانیت میں عفت وپاک دامنی کی ترویج ہماری ذمہ داری:

             ان تمام قرآنی ہدایات اور ربانی ارشادات کوسامنے رکھ کر ہم موجودہ حالات کا جائزہ لیں کہ کس طرح ہمارے حیا و عفت والے معاشرے کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یورپ کے ننگے اور شرم و حیا سے عاری معاشرے میں ڈھالنے کی مذموم کوششیں کی جا رہی ہیں۔ دن رات فلموں،ڈراموں، اخباروں،حیا سوز لٹریچروں،مغربی مخلوط تہواروں اور مخلوط طرزِ تعلیم کے ذریعے ہماری نوجوان نسلوں کومادر پدر آزاد معاشرے کی طرح آوارگی کا درس دیا جارہا ہے۔

            اگر یہ سب کچھ یوں ہی جاری رہا اور اس پر شرفااور نیک لوگ خاموش تماشائی بن کر بیٹھے رہے تو ایک دن ہم سب ننگِ دین و ننگِ ملت بن کر شرم و حیا اور عفت وپاک دامنی سے عاری ہو جائیں گے اور اپنے وقار و تہذیب سے محروم ہوجائیں گے ، لہذا ہمیں حیا، عفت وپاک دامنی کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس کا سب سے پہلا اور مؤثر مرحلہ یہ ہے کہ ہم خود اپنی ذات سے آغاز کریںاور خود کو حیا و پاک دامنی کے زیور  سے آراستہ وپیراستہ کریں،پھر دوسروں کو بھی اسی روش پر گامزن کرنے کی مقدور بھر کوشش کریں۔ اگر ہم من حیث الفرد والجماعت اس کے لیے تگ ودو شروع کردیں، تب ایک پاکیزہ اور عفت مآب معاشرے کی تشکیل نو کی امید کی جاسکتی ہے کیوں کہ صرف خوابوں کی دنیا بسا نے سے کچھ نہیں ہوتا ۔

(جاری …)