28/ ربیع الثانی 1446ھ مطابق یکم نومبر 2024ء جامعہ محمدیہ قاسم العلوم سہڑی خواجہ پونچھ کے زیر اہتمام ”عظمتِ قرآن کانفرنس“ کا انعقاد کیا گیا، جس میں ناظم جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا مہاراشٹر حضرت مولانا محمد حذیفہ وستانوی حفظہ اللہ نے مہمان خصوصی کے طور پر شرکت کی۔
اس کا نفرنس میں کشمیر کے تمام ہی نامور ومتحرک علماء شریک رہے اور مدرسہ ہذا کے فضلاء، طلبہ اور عوام کی جم غفیر نے شرکت فرمائی۔
ناظم جامعہ نے اپنےخصوصی خطاب میں قرآن سے متعلق نہایت اہم باتیں پیش فرمائیں اور فتنے کےدور میں قرآن سے وابستگی کی اہمیت وضرورت کو اجاگر کیا۔آپ کے بیان کا خلاصہ بغرض افادیت پیش خدمت ہے۔
خلاصہ ٴبیان
ایمان کی عظمت اور مسلمانوں کی ذمہ داریاں:
ایمان، اللہ کی سب سے قیمتی نعمت ہے، جو انسان کو مقصدِ حیات عطا کرتی ہے اور دنیا و آخرت میں کامیابی کا ذریعہ بنتی ہے۔ یہ دنیا ایک آزمائش گاہ ہے، جہاں ہر انسان کو اس کی زندگی کے ہر لمحے، ہر عمل، اور ہر نعمت کا حساب دینا ہوگا۔ جو شخص ایمان کے ساتھ اپنی زندگی گزارتا ہے، وہی کامیاب ہوگا، جبکہ ایمان کے بغیر زندگی بے مقصد اور بے معنی ہے۔
زندگی کا مقصد اور دو طرح کے انسان:
دنیا میں دو طرح کے انسان ہیں: مومن اور غیر مومن۔ مومن کے پاس زندگی کا ایک واضح مقصد ہوتا ہے، اور وہ جانتا ہے کہ اسے اپنی آخرت کی تیاری کرنی ہے۔ دوسری طرف، غیر مومن اپنی زندگی بغیر کسی ہدف کے گزارتا ہے۔ وہ دنیاوی دولت، عزت، اور منصب کے پیچھے بھاگتا ہے، لیکن ان سب کے باوجود اسے حقیقی سکون نصیب نہیں ہوتا۔
فتنوں کا دور اور ایمان کی حفاظت:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے دور کی پیشن گوئی کی تھی جب فتنے بارش کے قطروں کی طرح برسیں گے۔ آج ہم اسی دور میں جی رہے ہیں، جہاں ایمان کو محفوظ رکھنا سب سے بڑی آزمائش بن چکا ہے۔ ماضی کے مومن ایمان بچانے کی فکر کرتے تھے، لیکن آج لوگ دنیاوی مفادات کے لیے ایمان بیچنے کو تیار ہیں۔ یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے اور مسلمانوں کو اس سے بچنے کی سخت ضرورت ہے۔
عملِ صالح کی اہمیت:
مسلمانوں کو دوسروں کی شکایت کرنے کے بجائے اپنی زندگی میں ایمان اور عمل صالح کو جگہ دینی چاہیے۔ جب ایک مسلمان مکمل طور پر دین پر عمل کرتا ہے اور اپنے اخلاق کو بہتر بناتا ہے، تو اللہ کی مدد اس کے شاملِ حال ہوتی ہے، اور وہ دنیاوی اور اخروی کامیابیاں حاصل کرتا ہے۔
شکر گزاری کی تعلیم:
اللہ نے انسان کو بے شمار نعمتیں عطا کی ہیں، لیکن اکثر لوگ ان نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتے۔ مومن کی شان یہ ہے کہ وہ خوشحالی میں اللہ کا شکر اور مشکلات میں صبر کرتا ہے۔ یہ رویہ نہ صرف اللہ کی رضا کا ذریعہ بنتا ہے، بلکہ مومن کی زندگی کو دوسروں کے لیے ایک مثال بھی بناتا ہے۔
علم اور قرآن سے وابستگی:
قرآن کریم کے مطابق، حقیقی انسان وہ ہے جو ایمان کے ساتھ علم رکھتا ہو۔ علم کے بغیر عمل مکمل نہیں ہوتا، اور علم کا اصل مقصد اللہ کی معرفت اور اس کی رضا حاصل کرنا ہے۔ ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ قرآن ِکریم کو سمجھے، اس پر عمل کرے، اور اسے اپنی زندگی کا حصہ بنائے۔
نوجوانوں کی تربیت:
آج کا نوجوان امت کا سرمایہ ہے، لیکن جدید دور کے فتنے اور گمراہی کے راستے انہیں ایمان سے دور کر رہے ہیں۔ والدین اور اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ نوجوانوں کو دینی تعلیم اور اخلاقی تربیت دیں؛ تاکہ وہ دنیاوی کامیابی کے ساتھ ساتھ اخروی کامیابی بھی حاصل کر سکیں۔
مدارس اور تعلیمی ادارے:
مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے مدارس، اسکول، اور کالج قائم کریں؛ تاکہ ان کی نسلوں کا ایمان محفوظ رہے۔ ایسے تعلیمی ادارے، جہاں دین اور دنیا کی تعلیم دی جائے، امت ِمسلمہ کی بقا کے لیے نہایت ضروری ہیں۔ یہ ادارے نہ صرف بچوں کو تعلیم فراہم کریں گے؛ بلکہ ان کے اخلاق اور کردار کو بھی سنواریں گے۔
دنیاوی زندگی کی حقیقت:
دنیاوی زندگی عارضی ہے، اور اس کی تمام نعمتیں ایک دن ختم ہو جائیں گی۔ اصل کامیابی اللہ کی رضا اور آخرت کی تیاری میں ہے۔ مومن کو چاہیے کہ وہ دنیاوی دولت کو اپنی زندگی کا مقصد نہ بنائے بلکہ اسے آخرت کا ذریعہ سمجھے۔
ذکرِ الٰہی اور دعا کی فضیلت:
اللہ کا ذکر اور دعا مومن کی روحانی زندگی کو تقویت دیتے ہیں۔ ذکر الٰہی نہ صرف دل کو سکون فراہم کرتا ہے، بلکہ انسان کو اللہ کے قریب بھی کرتا ہے۔ ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنی دعاوں میں اللہ سے ہدایت اور استقامت طلب کرے۔
معاشرتی اصلاح اور مدارس کی برکت:
معاشرے کی اصلاح کے لیے مسلمانوں کو اپنے کردار کو سنوارنا اور دوسروں کو قرآن و سنت کی طرف بلانا ضروری ہے۔ مدارس دین کی حفاظت کے قلعے ہیں اور مسلمانوں کے ایمان کو زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان مدارس کے ذریعے ہی مسلمانوں نے اپنے دین کو محفوظ رکھا ہے۔
قرآن کی تعلیم اور آخرت کی تیاری:
ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو قرآن کی تعلیم دلائے اور انہیں دین کی روشنی سے منور کرے۔ آخرت کی کامیابی دنیاوی تمام کامیابیوں سے افضل ہے، اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی زندگی کو قرآن اور سنت کے مطابق ڈھالیں۔