عظمتِ صحابۂ اوران کا معیارِحق ہونا

از:حسین احمدقاسمی معروفی خادم جامعہ اکل کوا

صحابی :صحبت سے ماخوذہے اس کا لغوی مفہوم :دوافرادکا باہمی تعلق ہے،طویل ہویامختصر، حقیقی ہویا مجازی۔

            اللہ تعالیٰ کاارشاداسی مفہوم کوواضح کرتاہے’’فقال لصاحبہ وہویحاورہ‘‘ پھربولااپنے ساتھی سے جب باتیںکرنے لگااس سے۔

            اور’’قال لہ صاحبہ  وہویحاورہ‘‘کہا اس کے دوسرے ساتھی نے جب بات کرنے لگااس سے۔

صحابی:اصطلاح میںایسے شخص کوکہاجاتاہے’’جس نے بہ حالت ایمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی، پھر ایمان پراس کا خاتمہ ہوا (’’ملاقات‘‘ کی تحت وہ تمام افرادآتے ہیں:جوطویل وقفے کے لیے آپ کی مجلس میں رہے یا مختصروقفے کے لیے؛آپ سے روایت نقل کی ہو یانہ کی ہو؛کسی غزوہ میں شریک ہوئے ہوں یانہ ہوئے ہوں؛ جس نے آپ کو ایک بار دیکھا ؛لیکن ہم نشینی کا شرف نہ ملاہواورجوکسی وجہ سے ( مثلاً وہ نابیناتھا،آپ ؐکا دیدار کرنے سے قاصررہاہو؛لیکن آپ ؐ کی مجلس میںبیٹھاہو،اس تعریف میںداخل ہے،اسی طرح انسان وجنات،مردوعورتیں،آزادوغلام سب داخل ہیں ) ۔

             لہٰذاجس نے بہ حالت ایمان آپؐ سے ملاقات کی پھرمرتد ہوگیا،اورحالت ِارتدادہی میںمرگیا؛ وہ اس تعریف سے خارج ہے، جیسے عبداللہ بن خطل اورعبیداللہ بن جحش جوامّ حبیبہ رضی اللہ عنہا کے شوہرتھے۔

            البتہ جس نے بہ حالت ایمان آپؐ سے ملاقات کی ،پھرمرتدہوگیا، پھرآپؐ کی رحلت سے قبل دوبارہ مشرف بہ اسلام ہوگیا(خواہ آپؐ سے دوبارہ ملاقات کی ہو یانہ کی ہو) وہ صحابی کی تعریف میںداخل ہے، مثلاًاشعب بن قیس،اورقُرَّہْ بن ہبیرہ،جن کوصحابی شمار کرنے اورمسانید، سنن اورصحاح کی کتابو ں میںان کی احادیث کی تخریج کرنے پرمحدثین کا اتفاق ہے۔

 صحابۂ کرام کی امتیازی خصوصیات:

            چوںکہ اصحابِ نبی ،نبی کی ان کوششوںکا ثمرہ تھے ،جوانھوںنے ان کی تربیت ، ان کے احساسات وجذبات اورعادات واخلاق میںانقلاب برپا کرنے کے لیے صرف کیں؛لہٰذا اس باب میںرسولِ عربی امی ہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم کو ملنے والی کام یابی اور دوسرے سابقہ انبیا ورسل کو ملنے والی کام یابی کے مابین، دوررس ، گہرے اورحیرت انگیز فرق کا اندازہ لگایاجاسکتاہے ۔

            آئیے موازنہ کریں،ایک طرف حضرت موسیٰ علیہ السلام کے رفقا ہیں،جن سے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا تھا،ایک مرتبہ ایک لڑائی(جوکہ معلوم تھی) کے متعلق کہا تو ان کی قوم نے جواب دیاتھاکہ ہم ہرگزوہاںنہیںجاویںگے، تم اورتمہارارب جاکر لڑو ہم تو یہیں بیٹھے رہیںگے ۔تواللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ کی تسلی کے لیے فرمایا’’تحقیق وہ زمین حرام کی گئی ان پر چالیس برس، سرمارتے پھریں گے ملک میں، سو تو افسوس نہ کر، نافرمان لوگوںپر ۔ (تفصیل سورۂ مائدہ آیت ۲۰۔۔تا۔۔۲۶؍میںملاحظہ فرمالیں)

            دوسری طرف حضرات صحابہ کرام ؓہیںکہ ایک مرتبہ بلاکسی سابقہ تیاری کے اچانک ان کی مڈبھیڑ ہوگئی، توآپؐ نے مشورہ لیتے ہوئے فرمایا’’لوگو مجھے مشورہ دو، توحضرت ابوبکروعمر نے توعمدہ بات کہی ہی،دیگر حضراتِ صحابہؓ نے بھی عہدوپیمان کیا کہ ہم موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں کی طرح جواب نہیں دیںگے ، بل کہ ہم تو جی جان سے لڑیں گے کہ آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں،یہ سن کر آپؐ باغ باغ ہوگئے اورفرمایا’’چلو اللہ نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ ان دوجماعتوںمیںسے کسی ایک کو ہمارے ہاتھ لگادے گا، خدا کی قسم جیسے میں ان کافروںکے قتل ہوہوکرگرنے کی جگہیںدیکھ رہاہوں ‘‘۔ (مستفاداز :صحابۂ رسول اسلام کی نظرمیںص:۷۷بحوالہ: سیرت ابن ہشام)

            اسی طرح سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو لے لیجیے انہوںنے اپنی پوری زندگی اپنے رفقااورحواریین کے دلوںمیںمحبت، مہربانی،نرم خوئی،خوش خلقی، حسن معاملہ کابیج بونے میںصرف کردی؛ لیکن ان کے حواریین نے خدااوررسول خدا کی کماحقہ ٗقدرنہ کی؛  چناںچہ انھوںنے ان سے معجزہ دکھانے کا مطالبہ کیا،پروردگار کی قدرت کا ثبوت پیش کر نے کو کہا اوراپنی نبوت میںسچا ہونے کی دلیل میںمائدہ کا مطالبہ کیا۔ ( سورۂ مائدہ ۱۱۲،۱۱۳؍)

            اس کے برعکس ،  صحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی یہ درخواست نہیںکی، کہ اپنی نبوت کا ثبوت پیش کریںاورپروردگار کی قدرت کی دلیل دیںاور نہ انہوںنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی ایسامعجزہ مانگاجس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوائے نبوت کی تائید ہو؛اس لیے کہ یہ کم نگاہی،ناقدری،بے ادبی،بے وفائی اور جاں نثا ر ی اورفرماںبرداری کے فقدان کا مظہرہے۔

             رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کے دلوںمیں،پھران کے واسطے سے مسلمانوںکے دلوںمیںجوانقلاب برپاکیاتھا،وہ انسانی تاریخ میں ہرپہلوسے اورکم و کیف ؛ ہرلحاظ سے ایک انوکھا انقلاب تھا:ایساانقلاب جس نے تمام دانش ورانِ عالم کو انگشت بدنداںکردیا اورکرتارہے گا۔

            آپؐ کی مستحکم ومکمل تعلیم وتربیت نے جس نے انسانی طبائع کارخ،شرسے کلی طور پرخیرکی طرف موڑدیاتھا، ایساانسان پیداکیا،جو ہر امتحان و آزما ئش  میں پورااترا۔

اس انقلاب کااثر محاسبۂ نفس کا استحضار:

            اس انسان نے اپنے راسخ ایمان اورپاکیزہ قلب کے سبب اپنے نفس کو اپنا نگراں ومحافظ بنالیاتھا، کہ اگرکوئی معصیت سرزدہوگئی توخود ان کا نفس ان کو ملامت کرتا ، اس کو مقررہ سزا کا سامنا کرنے پر مجبور کرتا،اس باب میںقابل وثوق اسلامی تاریخ ایسے عجیب و غریب واقعات سے بھری ہوئی ہے ۔ مثلاً: حضرت ماعزبن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور غامد یہ کی ایک عورت رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے واقعے بہت مشہورہیں۔(مسلم )

اصول وعقیدے کی راہ میںقربانی:

            صحابۂ کرام کی اصول وعقیدے کی راہ میںجان ومال کی قربانی تواتنی ہیںکہ اس کے لیے خود ایک مستقل کتاب کی ضرورت ہے(رضی اللہ عنہم ورضواعنہ)۔

 صحابۂ کرام سے محبت وعظمت سے متعلق اہل سنت والجماعت کے عقائد:

(۱)        اہل سنت والجماعت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے محبت کوعلامتِ ایمان شمار کرتے ہیں ۔

(۲)        صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کسی سے براء ت کا عقیدہ نہیں رکھتے۔

(۳)        صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو برا کہنے اور صحابہ کرام پر طعن وتشنیع کرنے والوںکو منافق،فاسق اورفاجر گردانتے ہیں،کیوںکہ عظمت صحابہ ،قرآن وحدیث، آثار صحابہ اوراقوال ائمہ و مشائخ سے ثابت ہے،اس کے باوجود اگر کوئی ان کی شان اقدس میں گستاخی کرتا ہے تواس کی گمراہی میںکوئی دورائے نہیں،ہم اس کے لیے صرف ہدایت کی دعا ہی کرسکتے ہیں۔

            اسی طرح امت مسلمہ کایہ متفقہ عقیدہ ہے ’’ الصحابۃ کلہم عدول‘‘ صحابہ تمام کے تمام عدول ہیں،یعنی صحابہ میں سے کوئی نہ جھوٹا ہے نہ اپنی خواہشات کو اللہ اور اللہ کے رسول کی خواہشات پر ترجیح دینے والا ہے،اور نہ ہی ناانصافی کرنے والا ہے، اور نہ ہی قرآن کے اوامر اور نواہی کے خلاف کرنے والا ہے۔

            بہرحال اولاً ہم عظمت ِصحابہ سے متعلق دلائل بیان کرتے ہیںتاکہ اس کی روشنی میں ہرصاحب بصیرت اورصاحب ایمان کے لئے فیصلہ کرنا آسان  ہوجائے۔

عظمت صحابہ قرآن کریم کی روشنی میں:

(۱)        اللہ تعالیٰ ارشادفرماتے ہیں’’الصراط المستقیمoصراط الذ ین انعمت علیہم‘‘صراط مستقیم کی تفسیر، صراط القرآن، صراط اللہ یاصراط الرسو ل  سے نہیں فرمائی ،اس لیے کہ لوگ اس کی تعیین میںاختلاف کرتے۔

            لہٰذا حق تعالیٰ نے صراط مستقیم کی تفسیر ’’صراط الذ ین انعمت علیہم‘‘ سے فرمائی، یعنی صراط مستقیم، منعم علیہم کی جماعت کا راستہ ہے، یہی جماعت ’’صراط مستقیم‘‘ کی تعیین کرے گی، جس طرح کتاب اللہ کوبدون سنت رسول اللہ سمجھنا محال ہے، اسی طرح سنت رسول اللہ کو بدون واسطہ صحابہ کرامؓ  سمجھنا محال ہے۔

            حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں’’ومن یشاقق الرسول من بعد ما تبین لہ الہدٰی ویتبع غیر سبیل المؤمنین نولہ ما تولّٰی ونصلہ جہنم وساء ت مصیرًا‘‘ ۔(پ ۵؍سورہ نساء آیت ۱۱۵)

            یشاقق الرسولپریتبع غیر سبیل المؤمنین کا عطف تفسیری ہے، یعنی رسول اللہ کی سبیل کی تعیین ، صحابہ کرام کی ایک جماعت اپنے قول وعمل سے کرے گی، ان کے راستے سے انحراف ، رسول کے راستے سے انحراف اورموجب ِجہنم ہوگا۔

(۲)        کنتم خیرامۃاخرجت للناس تأمرون بالمعروف وتنہون عن المنکروتؤمنون باللہ۔

 (پ۴؍آل عمران آیت۱۱۰؍)

            ’ ’اخرجت للناس‘‘فرماکرصحابہ کرام کی اتباع کو واجب اوران کے طریق کو لوگوںکے لیے حجت قراردے دیا، یہ بات ہر شخص کو اچھی طرح سے معلوم ہے کہ اسلام عہدِرسالت میںان ہی دیوانوںسے پھیلا، جنہوںنے خدااوررسول کے عشق میںاپنی جان و مال اورعزت سب کچھ لٹادیا، اورسخت سے سخت آزمائش کے مقابلے میں آگے بڑھتے رہے ۔

            صحابہ کرام کی شان اوران کا شرف خود ان کے لفظِ صحابی سے نمایاںہے کہ انہوں نے سیدالانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھااورجس ذات گرامی پرقرآن پاک نازل ہوا،ان ہی کی زبان مبارک سے سنا،اوراسی ذات گرامی کے فیضان ِصحبت سے صحابہ کرام کی نفوس کوبراہ راست تزکیہ کا شرف حاصل ہوا، جن کے معلم،مربی اورمزکی براہ راست خود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوںتوپھر استاذ کی بلندیٔ شان تربیت کاا ثرشاگردوںپرکیا ہوگا ۔ 

(۳)        لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِہِمْ فَاَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْہِمْ وَاَثَابَہُمْ فَتْحًاقَرِیْبًا، ومغانم کثیرۃ یأخذونہاوکان اللہ عزیزًاحکیمًا۔

(پارہ۲۶،سورۂ فتح، آیت۱۸؍)

            اس آیت کریمہ میں اللہ رب العزت نے اصحاب بیعت تحت الشجرۃ کے سلسلے میں اپنی رضامندی کا اعلان کیا(اوراسی وجہ سے اس کو بیعت رضوان کہتے ہیں) کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ مبارک پر صلح حدیبیہ کے موقع پر ایک درخت کے نیچے دم ِعثمان کے سلسلہ میں بیعت کی تھی، ان کی تعداد تقریباً ۱۴۰۰؍ تھی۔

(۴)        وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہٰجرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُمْ بِاِحْسَانٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْاعَنْہُ وَاَعَدَّ لَہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَہَاالْاَنْہٰرُخٰلِدِیْنَ فِیْہَا اَبَدًاط ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ۔ (پارہ۱۱،سورۃ توبہ،آیت۱۰۰؍)

            اس آیت کریمہ میںصحابۂ کرام کو دوطبقوںمیںتقسیم کیاگیا:سابقین اولین کا طبقہ اوربعد والوںکاطبقہ ؛دونوںکے بارے میںاعلان کیاگیا کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہے اوروہ اللہ سے راضی ہیں؛اوریہ دونوںہی طبقے ہمیشہ کے لیے جنت میںجائیںگے۔

            آیت کریمہ بتاتی ہے کہ شہادت الٰہی کے بموجب صحابۂ کرام بحالت ایمان اس دنیا سے رخصت ہوئے ، چناںچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:’’اللہ کی رضا ایک قدیم صفت ہے خداکسی ایسے ہی بندے سے راضی ہوگا،جس کے بارے میںاس کومعلوم ہو کہ وہ رضاکے تقاضوں کو پورا کرے گا اور اللہ جس سے راضی ہوگیااس سے کبھی ناراض نہیں ہوسکتا‘‘ ۔

(۵)        اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْاوَہَاجَرُوْاوَجاَہَدُوْافِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمَْ اَعْظَمُ دَرَجَۃً عِنْدَ اللّٰہِ وَاُولٰئِکَ ہُمُ الْفَائِزُوْن oیبشرہم ربہم برحمۃ منہ ورضوان وجنت لہم فیہانعیم مقیمo (پارہ۱۰،سورۃ التوبۃ،آیت۲۰،۲۱؍)

             آیت کریمہ بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صحابۂ کرام کو رحمت، رضامندی اور جنتوں کی بشارت دی ہے، جہاںدائمی، لازوال، کبھی ختم نہ ہونے والے آرام میںمزے سے رہیںگے، اس سے بڑھ کر اورکیا نعمت ہوسکتی ہے اوراس بشارت کی بعد، انھیںکسی بھی چیز کی کوئی ضرورت نہیں، خواہ کتنی ہی بیش بہا اور عالی قدرکیوںنہ ہو۔

(۶)        لِلْفُقَرَآئِ الْمُہٰجِرِیْنَ اَلَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ وَاَمْوَالِہِمْ یَبْتَغُوْنَ فَضْلاً مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَاناً وَّیَنْصُرُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُطاُولٰئِکَ ہُمُ الْصّٰدِقُوْنo وَالَّذِیْنَ تَبَوَّؤاالدَّارَوَالْاِیْماَنَ مِنْ قَبْلِہِمْ یُحِبُّوْنَ مَنْ ہَاجَرَ اِلَیْہِمْ وَلاَ یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِہِمْ حَاجَۃً مِّمَّآاُوْتُوْاوُیُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِہِمْوَلَوْکَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌطوَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسَہٖ فَاُولٰئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنoالَّذِیْنَ جَائُ وْامِنْ بَعْدِہِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَااغْفِرْلَنَا وَلَاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَابِالْاِیْماَنِ وَلَاتَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلاًّ لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْارَبَّناَ اِنَّکَ رَئُ ْوفٌرَحِیْمo( پارہ۲۸، سورہ ٔحشر، آیت۸، ۹، ۱۰ ؍ ) 

            ان آیاتِ کریمہ میں بھی اللہ رب العزت نے پہلے مہاجرین پھرانصارپھر بعد میں مسلمان ہونے والے لوگوں(صحابہ کرام) کی فضیلت کو بیان کیا ہے ، بایںطور کہ عہد رسالت کے تمام موجوداورآئندہ آنے والے مسلمانوںکاتین طبقہ کرکے ذکرکیاہے،پہلا مہاجر ین کا جن کے بارے میںحق تعالیٰ نے یہ فیصلہ فرمایا ’’اولٰئک ہم الصادقون‘‘ دوسرا انصارکا جن کی صفات وفضائل ذکرکرنے کے بعد قرآن نے فرمایا’’اولٰئک ہم المفلحون‘‘  تیسر ا طبقہ ان لوگوںکاہے جومہاجرین اورانصارکے بعد قیامت تک آنے والا ہے ۔

عظمتِ صحابہ احادیث کی روشنی میں:

(۱)        ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشا دنقل کرتے ہیں’’لاتسبوااصحابی فوالذی نفسی بیدہ لوانفق احدکم مثل اُحَدٍذَہَبًامَابَلَغَ مُدَّاَحَدِہِمْ ولانَصِیْفَہْ(بخاری)

            مسلم شریف کی روایت میں’’لاتسبوا ‘‘کے بعد ’’احدامن ‘‘ہے۔

            اس روایت کریمہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کوتنبیہ کی کہ اے لوگو! میرے صحابہ کو برا مت کہوکیوں کہ تم میں سے کوئی آدمی احدپہاڑ کے برابر سونااللہ کی راہ میں خرچ کرے،توصحابہ کے ایک مد بل کہ آدھے مدکے برابربھی نہیںہو سکتا۔

(۲)        حضرت عبداللہ بن مغفل ص کہتے ہیںکہ میںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سنا’’اللہ اللہ فی اصحابی،لا تتخذوہم غرضا من بعدی،فمن احبہم فبحبی احبہم،ومن ابغضہم فببغضی ابغضہم،ومن اٰذاہم فقداٰذانی،ومن اٰذانی فقدآذیٰ اللہ،ومن آذیٰ اللہ فیوشک ان یأخذ‘‘ ۔(ترمذی،مسند احمد) ان کو’’ نشانہ نہ بناؤ ‘‘کا مطلب یہ ہے کہ صحابۂ کرام کونشانہ بنا کر ان پراپنی زبان کا تیرنہ چلاؤ۔

(۳)        ایک حدیث میںہے ’’ابوبکرجنت میںہیں،عمرجنت میںہیں، عثمان جنت میںہیں، علی جنت میںہیں، طلحہ جنت میںہیں،زبیرجنت میںہیں، عبدالرحمن بن عوف جنت میںہیں، سعدبن ابی وقاص جنت میںہیں، سعید بن زید جنت میںہیں،اورابوعبیدہ بن جراح جنت میںہیں‘‘ ث ( تر مذ ی)

(۴)        حضرت ابوہریرہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں’’اطلع اللہ علٰی أہل بدر،فقال اعملوماشئتم فقدغفرت لکم ‘‘ ۔ ( ابو داؤد)

            اللہ تعالیٰ نے(آسمان پرسے)بدروالوںکودیکھااورفرمایا:اب تم جو چاہوکرو،  میں نے تم کو بخش دیاہے۔ 

(۵)        حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہماکہتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’لایَدْخُلُ النَّارَاحدٌ مِمَّنْ بایع تحت الشجرۃ ‘ ‘ ( مسلم )

(۶)        مامن احد من اصحابی یموت بارض الابُعِث قائدًاونورًالہم یوم القیامۃ (ترمذی/مشکوٰۃ) ۔

(۷)        ایک حدیث میںہے ’’ مثل اصحابی فی امتی کالملح فی الطعام لا یصلح الطعام الابالملح ‘‘(شرح السنۃ بحوالہ مشکوٰۃ)یعنی صحابۂ کرام کے ساتھ اچھا عقیدہ رکھے بغیر امت کی اصلاح ہوہی نہیںسکتی۔

(۸)        علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المہدیین تمسکوابہاعضواعلیہابالنواجذ۔اس حدیث میں یہ وضاحت کردی گئی کہ میری سنت صرف وہی ہوگی جس کی تعیین خلفاء راشدین کریںگے۔

            مستند رستے وہی مانے گئے                        جن سے ہوکرتیرے دیوانے گئے

(۹)        عن عمربن الخطابؓ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال الاوان اصحابی خیارکم فاکرموہم(کنزالعمال مختصرًا)۔

(۱۰)      عن جابررضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال لاتمس النارمسلمًارآنی اورأی من رأنی(ترمذی)۔

عظمتِ صحابہ:آثارصحابہ کی روشنی میں:

(۱)        عن البراء رضی اللہ عنہ قال لاتسبوااصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوالذی نفسی بیدہ لَمقام احدہم مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم افضل من احدکم عمرہ(کنزالعمال)۔

(۲)        عن عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماانہ قال یایہاالناس لاتسبوااصحاب محمدصلی اللہ علیہ وسلم فان مقام احدہم مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ساعۃ خیر من عملکم اربعین سنۃ ‘‘۔

            حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ نے ایک مرتبہ وعظ کے درمیان لوگوںسے عرض کیاکہ ’’اے لوگو! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو گالی مت دو، اس لئے کہ صحابہ کرام کا ایک گھڑی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گذارنا تمہارے چالیس سال کے اعمال سے بہتر ہے۔

 عظمتِ صحابہ،ائمہ ٔکرام اورمشائخ عظام کے اقوال کی روشنی میں:

(۱)        حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ارشادفرماتے ہیں’’صحابۂ کرام کا ذکرہمیشہ خیر سے ہی کرنا چاہیے‘‘۔

(۲)        حضرت امام احمدرحمۃ اللہ علیہ ارشادفرماتے ہیں’’جوشخص کسی صحابی ؓپرعیب یا نقص کا الزام لگائے تواس پرشرعی سزا واجب ہے‘‘۔

(۳)        قاضی عیاض ؒ فرماتے ہیں’’اہل بیت ،ازواج مطہرات اورصحابۂ کرام کوبرا کہنا حرام ہے ایسا کرنے والاملعون ہے ‘‘۔

(۴)        حضرت رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں’’جب حق تعالیٰ کسی کی پردہ دری کرنا چاہتے ہیں تو رسوائی سے قبل اس کے اندر پاک اور مقبول بندوں پر اعتراض کامیلان پیدا ہوتا ہے ‘‘۔

(۵)        حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:     ؎

 اک صحابی سے بھی ہے گرسوئِ ظن                       ہے وہ بے شک لائق ِگردن زدن

(۶)        مولانا محمداحمدصاحب پرتاب گڈھیؒ فرماتے ہیں’’ اگر کسی استاذ کے سو شاگرد ہو ںاورسب کے سب فیل ہوجائیں تو استاذ پر بالیقین حرف آئے گا ؛لہٰذا جملہ صحابۂ کرام کو معیار حق سے گرادینا یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی اعتراض کو لازم کرتا ہے‘‘ ۔

            خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ان تمام آیاتِ کریمہ احادیث نبویہ،آثار صحابہ اوراقوال ائمہ ومشائخ کی روشنی میںیہ بات عیاںہوگئی کہ صحابہ کرام کا مقام و مرتبہ کیاہے اوران تمام خوبیوں کے ثبوت کے بعداب دنیامیں کسی کو یہ مجال نہیں کہ وہ صحابہ کرام کی مقدس ہستیوں پر طعن وتشنیع کرے اور ان کو اپنا ہدف تنقید بنائے، اگربناتاہے تواپنے ایمان کی خیر منا ئے ۔

            ابوعروہ زبیری ؒ کہتے ہیں’’میں ایک روز حضرت امام امالک رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں تھا،لوگوںنے ایک شخص کا ذکرکیا،جوصحابہؓ کوبرا کہتاتھا،امام مالک نے سورۂ فتح کی (آیت۲۹؍) ’’ذٰلک مثلہم فی التوراۃومثلہم فی الانجیل کزرع اخرج شطأہ فآزرہ فاستغلظ فاستوی علٰی سوقہ یعجب الزراع لیغیظ بہم الکفار‘‘ تک تلاوت فرمائی پھرفرمایاکہ جس کے دل میںرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میںسے کسی کے متعلق غیظ ہو،وہ اس آیت کی زد میںآتاہے(یعنی اس کا ایمان خطرے میںہے) کیوںکہ آیت میںکسی صحابی سے غیظ ،کفارکی علامت قراردی گئی ہے۔(حلیۃ الاولیاء)

            اتنے صاف اورواضح دلائل کے بعد صحابہ کرام کے معیارحق ہونے میںاگر کسی کوشبہہ ہو تویہ اس کے گم راہ ہونے کے لیے کافی ہے،ہم اس کی ہدایت کے لیے صرف دعا ہی کرسکتے ہیں۔

            رہا حضرات صحابہؓ کی لغزشیں تو وہ تکوینی طورسے کرائی گئی ہیں ،جیسے کہ ایک حدیث میں خود آپؐ نے اپنے بارے میں فرمایاکہ میں نماز میں بھولتا نہیں بل کہ جبراً بھلایا جاتاہوں،تاکہ طریقہ بتلاؤںیعنی تمہارے لیے نماز میں بھولنے کے احکام سجدۂ سہو وغیرہ کا طریقہ بتاؤں۔(اوجزالمسالک ج:۱؍ص:۳۱۷)

            اوریہ سب معاملات ’’تومشق ناز کر خون دوعالم میری گردن پر‘‘کی قبیل سے ہے ۔

یہ مضمون تفصیل طلب ہے جن کو تفصیل مطلوب ہومندرجہ ذیل کتابیں ملاحظہ فرمائیں:

            (۱)شان صحابہ ؓ۔۔۔۔۔۔۔۔از:حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی ؒ ۔

            (۲)مقام صحابہ ؓ۔۔۔۔۔۔۔از:حضرت مولانامفتی محمدشفیع صاحب دیوبندیؒ۔

            (۳)عظمت صحابہؓ ۔۔۔۔۔از:حضرت مفتی عبدالرحیم صاحب لاج پوریؒ۔

             (۴)صحابۂ رسولؐاسلام کی نظرمیں۔۔۔۔۔از:مولانانورعالم خلیل امینی مدظلہٗ۔

            (۵)محسنین اسلامؓ۔۔۔۔۔۔۔از:پیرفقیر مولانا ذوالفقار احمدصاحب نقشبندی مدظلہ ۔

            (۶)نمازاحناف ۔۔۔۔۔۔۔۔از: مفتی حبیب الرحمن صاحب الٰہ آبادی مدظلہٗ۔

            (۷)توہین صحابہؓکاانجام۔۔۔۔۔۔۔۔از: مفتی محمدعمر صاحب جونپوری دامت برکا تہم۔