حضرت مولانا محمد سالم قاسمی ؔ
کتابِ فطرت قرآن کریم نے اقوام و امم کی ترقی و تنزلی کے لیے بہ طور ضابطہ فہرست ’’ان مع العسر یسرا‘‘کو پیش فرما یا ہے۔ یہ ایک اساسی اور فطر ی ربانی قانون ہے، لیکن ہماری ماضی کی مذہبی، تہذبی، تمدنی، معاشرتی اور سیاسی دائروں میںد و سو سال مسلسل ناکامیوں کی زور قلم سے اضافہ کردہ داستانیں،آج ہماری مبتدل ’’صحافت ‘‘کا مستقل موضوع بن گئی ہیں،جس نے زندگی میں کچھ کرنے کے حوصلہ و عزیمت پر مایوسی اور قنوطیت کو غالب کر دینے کی انتہا ئی نا مبارک روایت قائم کر دی ہے۔ ہرروایت ملکی پیمانے پر قومی دور کی ہے،لیکن آج کے بین الاقوامی دور میں محدود اندازفکر کو ترک کر کے ہماری اوّلین ضرورت یہ ہے کہ ارباب فکر ونظر دور حاضر میں عوامی ذہن سازی کے مؤثر ترین اور عالم گیر وسیلے پیپر اور الکٹرانک میڈیا کو نہ صرف اس یاس اور قنوطیت سے ملت کو یکسر نجات دلانے کو مقصدی حیثیت دیں ، بل کہ نئ نسل میں فطری قوت کو زیادہ سے زیادہ بیدار کرکے صرف اسلام کی بنیاد پر اپنے اسلامی وجود کی عظمت و اہمیت کے ساتھ برقراری کی ضرورت سے ان کو آج کے عالم گیر میڈیا کے ذریعہ آشنائی عطا فرمائیں۔ایک طرف یہ ضرورت ہے، وہیںدوسری طرف اس کو بھی سامنے رکھنا ہے کہ ملت کے اسلامی اورقومی وجود کے شعور کو حرف غلط کی طرح مٹادینے کے لیے اکیسویں صدی ،عالمی پیمانے پر بے پناہ مادی ، فکری ، نظریاتی اور ایجاداتی قوتوں کے ساتھ آپ کی نئ نسل پربہ طور خاص حملہ آور ہے ۔
یہاں غیر معمولی طور پر ایک قابل غور اور لائق توجہ بات یہ بھی سامنے آتی ہے کہ نئ نسل کے دینی و مربی علمائے کرام اگر چہ اپنی عظیم علمی وسعت اور وقیع مخلصانہ جذبۂ خدمت کے باوجود بالعموم نئ نسل کے مانوس طرز فکر اور محبوب زبان و بیان کی مؤثر تعبیر سے ناآشنا ہیں۔ اور طویل تجربات اس پر شاہد عدل ہیں کہ اس ناآشنائی اور ناواقفیت کے نتیجے میں ان کی خدمات کا معتدبہ حصہ بے اثر و بے نتیجہ رہ جاتا ہے ۔اس لیے پھر یہ سوال برمحل اہمیت حاصل کر لیتا ہے کہ عصرحاضر کی لازم کردہ یہ عظیم خدمت وضرورت تکمیل پذیر ہوگی کیسے؟ممکنہ نئے طرز فکر اورجدید تعبیر و بیان سے واقفیت کے ساتھ دینی ذوق و مزاج رکھنے والا عصری تعلیم سے آراستہ وہ طبقہ بھی موجود ہے کہ جسے ہم بہ سہولت اس اہم ملّی اور دینی خدمت میں استعمال کر سکتے ہیں ۔
یہ جواب ایک حد تک قابل قبول ضرور قرار دیا جاسکتاہے ،لیکن قابل لحاظ تجربات کی روشنی میں یہ کہنے کی کی اجازت دیجیے کہ اس طبقے کے ساتھ بذیل تعلیم جدید ،بالا رادہ یابلا ارادہ؛ مغربی تہذیب و تمدن سے فکری اثر پذیر ی اور جدت پسندی کے تھوڑے بہت وہ جراثیم بھی ساتھ ضرور آئیں گے،جواسلامی عقائد واعمال سے متعارف ہی نہیں، بل کہ برملا متصادم ہوتے ہیں۔ لہٰذا دینی مزاج اور جذبۂ خدمت کے باوجود اس طبقے کو دینی بنیادوں پر پیشِ نظر مقصد کے تحت نئ نسل کے لیے تربیت دینی کا مدار نہیں قراردیا جاسکتا۔ نیز آنے والے دور میں غیر معمولی ارتقا پذیر مادّیت کے بالمقابل نئ نسل کی مقصود تر بیت کا حق ادا کرنا بھی اس طبقے سے متوقع محسوس نہیں ہوتا ، اس لیے آغاز عمل کے ساتھ ساتھ پیش آنے والے اس دشوار ترین مر حلے کا کام یاب حل اس کے سوا دوسرا نہیں ہے ،کہ عصری اور دینی علوم کی جامع نئ درس گاہیں قائم کی جائیں ۔اورقدیم صالح اورجدیدنافع کے حامل ایسے علماتیارکیے جائیں جو اکیسویں صدی کی متوقع زبردست مادّی ترقی سے نئ نسل کے سامنے آنے والے نئے سوالات،نئے شبہات،نئے اعتراضات اورنئے اشکالات کے نہ صرف جوابات ہی سے، بل کہ ان کے مانوس افکارونظریات کو ملحوظ رکھ کر ان کی محبوب زبان و اصطلاحات کے ذریعہ انہیں مطمئن بھی کر سکیں اور نئے چیلنجوں کا کتاب وسنت کی روشنی میںتاروپودبھی بکھیر سکیں ۔
اسلام کی بنیاد پر نئمسلم نسل کی مستقبل سازی کے لیے اس کا سدباب بھی ضروری ہے ۔کہ گزشتہ صدی میں ایشیا پر چھائی ہوئی یورپین اقوام کی اسلام کی بر خلاف برپا کر دہ لا تعداد سازشوں میں سب سے زیادہ خطرناک ترین سازش یہ تھی کہ نفسیاتی طور پر مادّی علو م کو مقبول بنانے کے لیے ’’جدید‘‘ کی اصطلاح کو عالم گیر بنایا گیا اور انسانیت کو انسانیت کا حقیقی مقام رفعت وعظمت عطا کرنے والے اخلاق آمیز ’’علوم اسلامیہ ‘‘ کو ثانوی درجہ دے کر ناقابل التفات بنانے کے لیے ’’قدیم‘‘کی اصطلاح کو عالم گیر بنایا گیا۔ اور یہ کہنا کوئی مبالغہ نہ ہوگا کہ آج بھی ملت اسلامیہ کا ایک بہت بڑا طبقہ ان سازشی اصطلاحوں کاشکار ہے ۔ اس لیے عصر رواں میں اس کا توڑ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ امت کو مفسر ، محدث ،فقیہ ،مدرس اور مفتی عطا کرنے والے مصروف خدمت قدیم مدارس اسلامیہ کو چھیڑے بغیر دینی اور عصری تعلیم کی جامع نسل تیار کرنے کے لیے عالمی پیمانے پر ایسے مؤقر اورمؤثر نئے جامعات و مدارس کی تاسیس کو مستقل مقصدی حیثیت دی جائے ،جن سے اسلامی نقطہ فکر کے مطابق مستفید نسل مادّی و سائنسی ،اخلاقی اور روحانی دونوں قسم کے علوم سے بدرجہ کمال بہرہ ور ہو اور آنے والے دور کے بالمقابل پوری قوت فکری،ہمت علمی اور جرأت ایمانی کے ساتھ سینہ سپر ہو سکے ۔
آنے والے دور کے چند اہم ترین مطالبات پریہ عرض داشت بصد ادب و احترام پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آج دنیائے کفرو شرک کی اسلام کے بر خلاف مشترک و متحدہ عظیم انٹر نیشنل قوت ببانگ دہل خبر دے رہی ہے کہ اگر ارباب علم دانش ورانِ اسلام نے یہ پیش بندی نہ کی تو کوئی طاقت اس تاریک مستقبل کو روکنے والی نہیں ہوگی، جس میں مادّی تر قیاتی کی قیمت ملت اسلامیہ کو اپنی نئ نسل کے ایمان و اسلام کی صورت میں خدانخواستہ ادا کرنی پڑ جائے ۔
با لفاظ دیگر نئے، تیز رفتار اور انٹر نیشنل و سائل علم وخبر کی موجدو مالک قوتیں، نہ صرف اسلام دشمن اور مذہب بیزاری ہی کی داعی ہیں ،بل کہ انسانی فطرت کے ساتھ کامل مطابقت رکھنے والے دین اسلام سے ان کا خوف کھانا اس لیے بر محل ہے کہ فکری رفعتوں اور سائنسی ترقیوں کے اس دور میں نہ دے سکنے والے ان کے اپنی غیر مطابق فطرت مذاہب خود ان کی اپنی نگاہوں میں بے قیمت بن رہے ہیں۔اور آج اس زندہ حقیقت کا کھلی آنکھوں دنیا مشاہدہ کر رہی ہے کہ اسلام کے بر خلاف اپنے عالم گیر و سائل نشرو اشاعت کے بے تحاشا استعمال کے باوجود یورپ اور امریکہ میں بتائید خداوندی ،اسلام کے حلقہ بگوش ہونے والوں کی سالانہ تعداد دنیا کے تمام مذاہب کے مقابلے پر بدر جہازائد ہے۔
اس مختصر تحریر کے اختتام پر یہ بھی عرض کیے بغیراطمینان نہیں ہوتا کہ آج عوامی ذہن سازی کااس سے بڑا ذریعہ الکٹرانک اور پرنٹ میڈیا ہیں ،جن کی پر تاثیری محتاج بیان نہیں ہے ۔ لیکن بصد افسوس اس ناقابل انکار حقیقت کا اظہار بھی ناگزیر ہے کہ یہ ضروری ذرائع ابلاغ دنیا کے سب سے پہلے اور سب سے آخری بین الاقوامی دین فطرت ’’اسلام ‘‘کو کما حقہ میسر نہیں ہیں اور جس درجے میں میسر بھی ہیں تو ان کا استعما ل اسلام کے لیے بر محل نہیں ہو رہا ہے ۔اس لیے ضروری ہے کہ ارباب فکر اکیسویں صدی کے استقبالیہ ایجنڈے میں ’’اسلامک میڈیا‘‘کو اسی اہمیت کے ساتھ شامل فرمائیں کہ اسلام جس کا بجا طور پر ہی نہیں، بل کہ لازمی طور پر مستحق اور ضرورت مند ہے ۔
ان طالب علمانہ کلمات کے ساتھ دعا گوہوں کہ اللہ تعالیٰ اکیسویں صدی میں کلمہ اسلام کی سربلندی کے لیے مخلصانہ جد و جہد کی ہم سب کو توفیق مرحمت فرمائے اور ہماری حقیر خدمات کو قبولیت عامہ اور مقبولیت خاصہ ارزانی قرمائے ، آمین۔
معمار حرم بازربہ تعمیر جہاں خیز
از خواب گراں خواب گراں خیز