عصر جدیدمیں مسلمانوں کو درپیش چیلنجز اور اس کے مقابلے کا طریقہٴ کار

اداریہ:    دوسری قسط:

 حذیفہ غلام محمد صاحب وستانوی

(مدیر شاہراہ علم ومدیر تنفیذی جامعہ اکل کوا)

۴-ہمہ تہذیبی معاشرہ کے چیلنج:

            نئی دنیا کی ایک اہم خصوصیت اس کی ہمہ تہذیبیت ہے۔ اس وقت بھی عالمی مسلم آبادی کا تقریباً ایک تہائی حصہ ان ملکوں میں آباد ہے، جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں۔ مہاجرت کے تیز رفتار سلسلے اس تناسب کو اور بڑھائیں گے۔ عالم ِاسلام کی آبادی میں نوجوانوں کا بڑا تناسب اور دوسری طرف یورپ اور جاپان جیسے ملکوں میں بوڑھوں کا تیزی سے بڑھتا ہوا تناسب، مہاجرت کے رجحان کو تیزی سے فروغ دے رہے ہیں۔ متعدد مطالعات میں یہ اندازہ کیا جا رہا ہے کہ مستقبل قریب میں فعال اور با صلاحیت نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد یورپ، امریکہ و کناڈا اور آسٹریلیا و نیوزی لینڈ جیسے مغربی ملکوں میں آباد ہوگی۔ یورپ کے کئی ملکوں میں مسلمان بہت جلد ایک با اثر اقلیت بن جائیں گے اور پورے برِ اعظم یورپ میں مسلمانوں کا تناسب تقریباً وہی ہوگا، جو اس وقت ہمارے ملک ہندوستان میں ہے۔ خود ہمارے ملک میں مسلمان ایک بڑی اقلیت کے طور پر رہ رہے ہیں، پھر اس وقت دنیا کے مختلف معاشرے ٹکنالوجی اور ایک دوسرے پر انحصار کی وجہ سے باہم جڑ رہے ہیں اور مسلمان ملکوں میں بھی وہ تہذیبی حصار تیزی سے ختم ہوتا جارہا ہے، جس کے ہم صدیوں سے عادی رہے ہیں، اس کے نتیجہ میں پوری دنیا ایک واحد ہمہ تہذیبی سماج کا روپ لیتی جا رہی ہے۔

مسلمانوں کے لیے ہمہ تہذیبی معاشرہ نامانوس نہیں:

            اسلامی تاریخ کے لیے ہمہ تہذیبی معاشرہ کوئی نا مانوس چیز نہیں ہے۔ نبی ٴکریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے ہی میں مدینہ اور اس کے اطراف میں مشرک قبائل بھی تھے اور ان کے علاوہ با اثر یہودی قبائل بھی تھے، جن کی معاشرت، تہذیب اور دین و طرز زندگی، دیگر عربوں سے بالکل مختلف تھی۔ خود مسلمانوں میں مہاجرین و انصار کے رہن سہن اور تہذیبی طور طریقوں میں بڑا فرق تھا۔ خلفائے راشدین کے ادوار میں جب فارس و روم کے علاقے فتح ہوئے، اور اس کے بعد امویوں اور عباسیوں کے دور میں تو غیر معمولی تہذیبی تنوع(Cultural Diversity) اسلامی علاقوں میں پیدا ہو گیا۔ مذہبی اعتبار سے مسلمانوں کے ساتھ، یہودی، عیسائی، زرتشی، ہندو، مشرکین اور افریقہ وایشیا کے بہت سے مقامی مذاہب کے ماننے والے اسلامی علاقوں میں رہنے لگے۔

             امام ابن تیمیہ، مجددالف ثانی، شاہ ولی اللہ جیسی بلند پایہ اسلامی شخصیتوں کو ایک ہمہ تہذیبی سماج کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ترکی کی سلطنت ِعثمانیہ اور ہندوستان کی سلطنت ِمغلیہ نے کئی سو سالوں تک مختلف مذاہب کے ماننے والوں پر حکومت کی ہے۔ چناں چہ تکثیری سماجوں کے تجربہ کے معاملہ میں اسلامی تاریخ، بہت مالا مال ہے اور غالباً عہدِ وسطیٰ (Medieval Period) کی کوئی اور تاریخ اس معاملہ میں اتنے تجربات نہیں رکھتی جتنے اسلامی تاریخ کے پاس ہیں۔(عصر حاضر میں اسلام کو درپیش چیلنجز:۲۶ تا ۲۷)

دورِ زوال کے اثرات:

            جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا کہ مسلمانوں کو بڑے زبردست چیلنجز کا سامنا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان چیلنجز سے کیسے نمٹا جائے؟ تو اس سلسلے میں مسلمانوں کی مرکزی قیادت کے فقدان کی وجہ سے بڑا انتشار پایا جاتاہے، مختلف علمی و فکری سطح کے افراد مختلف انداز میں سوچتے ہیں، ان میں سے بعض تو وہ ہیں جو مکمل مرعوبیت اور نیچریت کا شکار ہیں، جن کو ”ماڈرن“ یا ”جدت پسند“ کہا جا سکتا ہے۔ ان کا تو ماننا ہے کہ اسلام کو مغربی تہذیب کے مطابق ڈھال دیا جانا چاہیے۔ اسی لیے ایسے افراد اسلامی علمی مصادر کے مسلمہ اصول سے روگردانی کرتے ہیں، وہ نہ تو سنت ِنبوی ا اور احادیثِ رسول ا کو حجت تسلیم کرتے ہیں ،نہ فقہا کے اجتہادی اصول پر کاربند ہیں، بل کہ ان کے اجتہاد کے ،اپنے ہی وضع کردہ اصول ہیں، جس میں سہولت کے نام پر آزادی ہی آزادی ہے۔ مثلاً: عورتوں کے لیے پردے کی چھوٹ ،اختلاط و مرد و زن کی گنجائش، سود کا جواز، عقائد کے باب میں ملائکہ اور فرشتوں کے وجودِ خارجی کا انکار، تقدیر کا انکار، قیامِ قیامت ،عذابِ قبر وغیرہ کا انکار، موسیقی کا جواز، سلف صالحین یہاں تک کہ صحابہٴ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین پر تنقید کا جواز اور ان کی تقدسیت کا انکار۔

             غرض کہ ظہور میں آنے والی ہر نئی چیز کا اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق جواز فراہم کرنا اور اس سلسلے میں اسلامی مسلمہ اصول سے سر ِمنہ انحراف کرنا۔ ویسے تو یہ سلسلہ معتزلہ سے شروع ہوا اور عصرِ حاضر میں مسلمانوں کے سیاسی زوال کے بعد سر سید، چراغ علی، عنایت اللہ مشرقی ،تمنا عمادی، اسلم جئے راجپوری، عبداللہ چکڑالوی، غلام احمد پرویز، جاوید احمد غامدی،راشد شاذ جیسے افراد، اب تو دن بہ دن ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، خاص طور پر انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے اس دور میں، جب کہ لوگوں تک رسائی آسان ہو گئی ہے اور امت کا بڑا طبقہ دینی علم سے بھی ناواقف ہے اور تعیش کے نام پر اس دور میں سہولت پسندی کے متلاشی رہتے ہیں کہ کہیں سے تھوڑی بھی لچک مل جائے!!! جب کہ اس دنیا میں مطلوب مجاہدہ ہے ۔قرآنِ کریم کا اعلان ہے: ﴿وَجَاہِدُوْا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِہَادِہ ﴾”جیسا مجاہدہ مطلوب ہے ویسا مجاہدہ کرو۔“

             اللہ راحت طلبی سے ہماری حفاظت فرمائے اور دینِ متین پر استقامت نصیب فرمائے، آمین!

            دوسرا طبقہ وہ ہے جو نیم نیچری ہے، یعنی مکمل طور پر تو جدت پسند نہیں، مگر جدت پسندی کے جراثیم ان میں چھپے ہوتے ہیں۔ یہ طبقہ ویسے تو دین دار نظر آتا ہے، فکر مند معلوم ہوتا ہے ،مگر ان کی کمزوری یہ ہوتی ہے کہ ہر میدان میں نئے اصول کا متلاشی ہوتا ہے، جب کہیں نئے اصول نہیں ملتے، تو کچھ اصول اور کچھ اپنے اصول وضع کر لیتا ہے اور قدامت و جدت کے درمیان کی راہ پر چل دیتا ہے، ان میں علما بھی ہوتے ہیں اور جدید تعلیم یافتہ وہ طبقہ جو علمِ دین میں پختہ نہیں ہوتا، مگر اپنے آپ کو پختہ تصور کرنے لگتا ہے۔ ایسے افراد بھی آپ کو بہت مل جائیں گے ،مثلاً حمید الدین فراہی، شبلی نعمانی، مودودی، اصلاحی، اسرار احمد اور اہل سنت والجماعت کی ڈگر سے قدرے منحرف جماعت اور ان کے رہنما۔اللہ ہمیں صراطِ مستقیم پر برقرار رکھے اور ہر قسم کی ضلالت و گمراہی سے حفاظت فرمائے، آمین!

اسلام کامل و مکمل دین:

            اسلام کامل و مکمل دین ہے، لہٰذا کتاب و سنت میں قیامت تک پیش آنے والے فکری، عملی، اخلاقی، اجتماعی، انفرادی، معاشرتی اور اقتصادی ہر مسئلہ حل کرنے کے اصول بیان کر دیے گئے ہیں۔ اب نہ کسی نبی کی ضرورت ہے، نہ کسی نئی شریعت کی، نہ کسی قسم کے اصول کی، نہ کسی طرح اسلام کی تشکیلِ نو کی ، نہ نئے بیانیہ کی۔

رسوخ فی العلم کے حامل علما کی جانب رجوع وقت کی ضرورت:

             ضرورت ہے تو علمائے راسخین کی جانب متوجہ ہونے کی، اللہ نے جنہیں علمِ راسخ، فکرِ صحیح اور تقویٰ و تزکیہ، اخلاص و للہیت اور مکمل اسلام کی ظاہری و باطنی تعلیمات پر عمل کی توفیق دی ہے اور ساتھ ہی سلف ِصالحین اور فقہا و اصولیین کے منہج پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دی ہو۔ اور ہر زمانہ میں ایسے علما پائے جاتے ہیں ،جو امت کی رہنمائی کا فریضہ محض اللہ کی توفیق سے ادا کرتے رہتے ہیں۔

            تو آئیے ایسے علمااور ان کے کارناموں سے واقف ہونے سے پہلے مختصر یہ جانتے ہیں کہ ماضی قریب کی فکری تحریکات یعنی جدیدیت کی تمام شاخوں میں اور اب مابعد جدیدیت یا ما بعد استعمار یا ڈیجیٹل دنیا کے مسائل میں کیا فرق ہے؟ تاکہ اس کے صحیح ادراک کے بعد صحیح حل معلوم کیا جا سکے۔

۱-نظام یا تہذیب؟

            جدیدیت نے دنیا کو نظریات اور نظاموں کی حکمرانی فراہم کی تھی۔ قومی ریاست، قوت و طاقت کا سب سے بڑا مرکز تھی۔ قومی ریاست کے اقتدار ِاعلیٰ (Sovereignty)کا تصور جدید سیاست کا اہم ترین تصور تھا۔ ان حالات میں اسلامی مفکرین نے بجا طور پر ریاست اور سیاسی نظام کو اپنے بیانیہ کابھی اور اسلامی نصب العین کا بھی اہم ترین عنوان قرار دیا تھا۔ بدلی ہوئی دنیا میں جب کہ سیاست کے بالکل نئے روپ سامنے آرہے ہیں، نیشن اسٹیٹ کی آہنی دیواریں تیزی سے زمین بوس ہو رہی ہیں، افکار و نظریات کے بڑے نظام معدوم ہوتے جارہے ہیں، اور تجارتی مفادات، ٹکنالوجی کے کرشمے اور تہذیبی قدریں زیادہ ترنئی دنیا کی صورت گری کر رہی ہیں۔ ایسے میں چند سوالا پیدا ہوتے ہیں کہ:

جدیددنیا کے اہم مسائل:

            میڈیا اور سوشل میڈیا کی اخلاقیات کیا ہوں؟

            جدید ترین ٹکنالوجی کے حوالے سے اسلامی موقف کیا ہو؟

            انسانوں کی نگرانی اور ان کے حق ِانتخاب پر نیز ان کے ضمیر اور ان کی رائے پر ٹکنالوجی کے کنٹرول کے سلسلے میں اسلام کی رہنمائی کیا ہے؟

             ٹکنالوجی کے موجودہ دور میں شہری تنظیم کے اصول کیا ہوں؟

            عصری مالیاتی طریقوں کے سلسلے میں اسلامی اپروچ کیا ہو؟

            فنونِ لطیفہ اور تفریحات کا اسلامی پیرا ڈائم کیا ہو؟

            الگورتھم کی حکمرانی کو اسلامی فلسفہ کس نگاہ سے دیکھتا ہے؟

            یہ اور اس طرح کے متعدد سوالات نہایت عمیق غور و فکر کے متقاضی ہیں۔

(عصر حاضر میں اسلام کو در پیش چیلنجز:۲۸-۲۹)

            جماعتِ اسلامی کے موجودہ امیر جناب سعادت اللہ حسینی کایہ مطالبہ ہے کہ ان مسائل پر نئے انداز میں غور وخوض ہونا چاہیے اور محض فتووٴں کی نہیں بل کہ نئے طرز پر غور کرکے ان مسائل کو عصری تقاضوں کے مطابق حل کیا جائے !! نصوص سے اصول مستنبط ہو، فقہا اس کی روشنی میں مسائل کا استخراج کریں گے اور کون کرے گا؟ عام طور پر ہمارے فقہا کسی بھی مسئلہ کے حکم شرعی کو بیان کرنے سے قبل ماہرین سے اس کی مکمل تفصیلات معلوم کرنے کے بعد ہی فتویٰ دیتے ہیں، لہٰذا اس کی تخفیف در اصل جدت پسندی کے جانب میلان کے مترادف ہے۔

            الحمدللہ! ہر زمانے میں علما وفقہا انفرادی یا اجتماعی طور پر اس عظیم خدمت کو انجام دیتے آئے ہیں، ہاں! اگر کسی کو اپنی مرضی کے احکام جس میں سہولت ہو چاہے تو وہ ممکن نہیں لہٰذا وہ اس طرح مطالبہ کرتے ہیں۔ امت کے سیاسی زوال کے اس نازک دور میں بھی علماء کی ایک بڑی جماعت بلاتردد، بلا خوف لومة لائم اس خدمت میں مصروف ِعمل ہیں۔

۲- قانون یا اقدار؟

            گزشتہ صدی میں قومی ریاست اور اس کا قانونی نظام، ایک ہمہ گیر قوت کے طور پر سامنے آیا تھا۔ دنیا کے سامنے یہٍ سوال سب سے اہم سوال بن گیا تھا کہ جدید دنیا کا قانونی نظام کیا ہو؟ اس وقت ہمارے بزرگوں نے اسلامی شریعت اور اسلام کے قانونی نظام کو وضاحت کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اب دنیا ایک ایسے دور میں قدم رکھ رہی ہے، جہاں انسانوں پر حکومتوں کے قوانین سے زیادہ غیر حکومتی عناصر (Non State Players) یعنی کارپوریٹ، ٹکنالوجی، میڈیا وغیرہ کا استبداد بڑھ رہا ہے۔(عصر حاضر میں اسلام کو در پیش چیلنجز:۳۰)

۳- روحانی تسکین:

            ٹکنالوجی کے اس دور میں انسان کی بڑی ضرورت روحانی تسکین ہے۔ اس ضرورت کا بہت سی غیر اسلامی تحریکیں بری طرح استحصال کر رہی ہیں۔ روحانیت کے نام سے دسیوں ادارے اب عالمی برانڈ بن چکے ہیں۔ عہد ِوسطیٰ میں اسلام کی کشش کا ایک بڑا سبب اس کی روحانی طاقت تھی۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ جدید حالات و مسائل کے تناظر میں اسلام کو روحانی ارتقا اور روحانی تسکین کے ایک مؤثر فلسفے کے طور پر پیش کیا جائے۔(عصر حاضر میں اسلام کو در پیش چیلنجز:۳۰)

            موصوف کا یہ مطالبہ قابلِ تعجب ہے۔ الحمدللہ! تصوف کے سلاسل نقشبندیہ، چشتیہ،سہروردیہ وغیرہ صدیوں سے اس خدمت کو بھی انجام دے رہے ہیں، جہاں اس میں افراط و تفریط آتی ہے۔ اللہ مجدد الف ثانی ، شاہ ولی اللہ اور حکیم الامت حضرت تھانوی جیسے جلیل القدر افراد سے اصلاح کا کام لیتے رہتے ہیں۔

۴- مذاہب کو مخاطب کرنے کی ضرورت:

             بیسویں صدی کے تحریکی ڈسکورس میں اصلاً جدید نظریات کو مخاطب کیا گیا تھا؛ جیسا کہ اوپر کی سطروں میں واضح کیا گیا ہے، بدلتے ہوئے حالات میں مذہب کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے اور مذہب پر مبنی روحانی، اخلاقی، تہذیبی اور تمدنی فلسفے دنیا کو متوجہ کر رہے ہیں۔ ان حالات میں اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ مذہب اور مذہبی فلسفوں کو مخاطب کیا جائے۔ عیسائیت کے ساتھ ساتھ، بدھ مت، ہندوازم، اور چین و جاپان کے مذہبی اورنیم مذہبی فلسفے، کہیں روحانیت کے نام پر، کہیں تناوٴ سے پاک خوشگوار زندگی کے نام پر، کہیں ماحولیات کے تحفظ کے نام پر اور اس طرح مختلف عنوانات سے ایک نئے عالمی تمدن کی صورت گری میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان سب کا جواب دینا تو دور کی بات ہے، ان کاسنجیدہ، گہرا مطالعہ بھی ابھی ہماری جانب سے باقی ہے۔خود ہمارے ملک میں قوم پرستی کے نام پر ،احیا پرستی اور نسل پرستی کی ایک طاقت ور تحریک غیر معمولی، سیاسی و سماجی قوت سے مالا مال ہو چکی ہے۔ اس تحریک کے اثرات اب ہمارے ملک سے نکل کر ساری دنیا میں عام ہونے لگے ہیں۔ اس تحریک کا ایک پہلو تو سیاسی ہے ، لیکن ایک بہت بڑا پہلوتہذیبی، تمدنی اور سماجی ہے۔(عصر حاضر میں اسلام کو در پیش چیلنجز:۳۰-۳۱)

            الحمدللہ! قرونِ اولیٰ سے اب تک ہمارے علما خاص طور پر متکلمین اس خدمت کو انجام دیتے چلے آئے ہیں۔ امام ابو حنیفہ امام احمد ابن حنبل ، علامہ اشعری ، امام ماتردی ،امام طحاوی، امام غزالی، امام الحرمین الجوینی ، عبد القاہر بغدادی، امام شہر ستانی، امام ابن حزم ، امام اسفرائنی، امام نسفی، حکیم الامت حضرت تھانوی ، علامہ نانوتوی، مولانا رحمت اللہ کیرانوی وغیرہ مصروف عمل رہے۔

            خلاصہ یہ ہے کہ اس وقت نہ تو نئے اصولوں کی ضرورت ہے، نہ تشکیلِ نو کی ضرورت ہے ، بل کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر میدان کے علمائے سلف کے مدون کردہ اصول کی روشنی میں موجودہ دور کے ایسے علما جو تقویٰ، طہارت کے حامل اوررسوخ فی العلم رکھتے ہوں، جو کتاب و سنت کے نصوص کی سلفِ صالحین کے فہم کے مطابق حامل ہو، ان کی طرف رجوع کیا جائے ، ان پر اعتماد کیا جائے، سہولت پسندی سے دور رہ کر اتباعِ شریعت کا عزم کیا جائے تو ان شاء اللہ! دارین کی کامیابی حاصل ہوگی ۔

            مسلمانوں کی کامیابی کا اصل راز اتباعِ سنت ہے، اسباب ظاہریہ پر اعتماد کے بجائے مسبب الاسباب اللہ کی ذات پر نظر ہونی چاہیے۔ ان تمام مشکلات اورمسائل اور چیلنجز کا حل مرعوبیت کے مہلک مرض سے اپنے آپ کو بچانا اور ﴿اُدْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَافَّةً﴾ پورے پورے طور پر اسلام میں عمل پیرا ہونا جس کے لیے اتباعِ سنت اوراتباعِ سنت کے لیے دین کا علم سیکھنا جو کتاب اللہ، سنت رسول اللہ اور سلفِ صالحین کے صحیح طریقے کے فہم کے مطابق ہو، مغربیت جدت پسندی سے پاک ہو۔

ماہِ ربیع الاول کی مناسبت سے مسلمانوں کے نام ایک خاص پیغام:

            اگر ہم دیکھیں کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنے جامع ترین قول و عمل اورہمہ گیر اُسوہ سے کیادرس دیاتو ہم پائیں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کے مکمل سفر کے ہرکردار میں ثابت قدمی، عزم ِراسخ اور استقامت و استقلال کا نمونہ پیش کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کبھی کمزوری دکھائی، نہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے، نہ باطنی شکست سے دوچار ہوئے، نہ معنوی ہار کا احساس کیا،نہ ذہنی سقوط کو اپنے ارد گرد پھٹکنے دیااور نہ ہی کسی بھی مرحلے اور موقع پر،کفر اور اس کے ہم نواوٴوں کے شر و فساد، مکاری و چال بازی، دغا بازی و سفاکی اور تاریک رات میں بھوتنیوں کے ناچنے سے زیادہ بری موت کے رقص والی جنگوں کی دہشت کو اپنے وہم وخیال میں آنے دیا۔اگر کوئی یہ خیال کرتا ہو کہ یہ اہل کفر، اپنی ظاہری واسبابی قوت وطاقت ا ور حوصلے و ہمت کی وجہ سے، ناقابل ِتسخیر محسوس ہوتے ہیں، تو ان سے مزاحمت کرکے اپنی جان و مال، اسباب و سامان، اور اپنے وقت کا ضیاع، کیا کوئی عقل مندی کی بات ہوگی؟! اس لیے ان کی جیت کو تسلیم کرکے، اپنی کوششوں کی بساط کو لپیٹ کر، کسی اورموقع اور خدائی فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے۔

            تو اسے چاہیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو دیکھیں! کہ آپ آغازِ سفر سے انجام ِسفر تک، ٹھوس ارادے، ناقابل ِتسخیر صبر، ثابت قدمی اور بے مثال اولوالعزمی کے ساتھ سرِگرم عمل رہے، ہر طرح کی تکلیف سہتے رہے اور تکلیفوں کا یہ سہنا، ہفتہ، مہینہ ، سال ، دو سال نہیں، بلکہ سالہا سال تک رہا ، یہاں تک کہ آپ اپنے رفیق ِاعلیٰ سے جاملے۔ اور اہل ِحق کا، اہلِ کفر کی طرف سے، تکلیفوں کے سہنے کا یہ سلسلہ، ہر دور میں، الگ الگ نوعیت سے چلتا رہا، چل رہا ہے اور چلتا رہے گا۔﴿ اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یَّقُوْلُوْا آمَنَّا وَہُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ

            مگر یہ حقیقت ہے کہ حق، ایک نا ایک دن، باطل پر غالب آکر رہتا ہے، اور جیت حق ہی کی ہوتی ہے، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے، اپنی جد وجہد اور صبر و ثبات کا ثمرہ و نتیجہ، اپنی وفات سے قبل، بصورت ِتکمیل ِدین و غلبہٴ حق، اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا، اور باطل منہ بسور کر رہ گیا۔

﴿اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دَیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ اْلإِسْلَامَ دِیْنًا﴾

 (سورة المائدة: ۳)

            ﴿إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ وَرَأَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِی دِیْنِ اللّٰہِ أفَوَاجاً﴾۔

 (سورة النصر: ۱)

﴿وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ کاَنَ زَہُوْقاً﴾۔ (سورة بنی إسرائیل: ۸۱)

آج کی رات کل کی رات سے کتنی مشابہ ہے؟

            پوری دنیا میں آج کفر کے سارے پنڈے، باطل کے سارے بندے اور شیطان کے سارے چیلے، اسلام کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں، امریکہ ان کا قائد بنا ہوا ہے، عالمی صہیونیت انہیں ہدایت دے رہی ہے، صہیونیت زدہ مسیحیت اور عالمی صنم پرست، ان کے شانہ بہ شانہ موجود ہیں، سب ایک جٹ ہوکر، دینِ اسلام پر حملہ آور ہیں، اور وہ اپنی ذلت و خواری اور جگ ہنسائی کے باوجود، پشت پھیر کر نہیں بھاگ رہے ہیں، اور نہ ہی اپنی شکست مان رہے ہیں، تو جاں نثاران ِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور سپاہِ اسلام کے لئے یہ بات، زیادہ اولی و لائق ہے کہ وہ ان سے نبرد آزماہوں، ہار نہ مانیں، کمزور نہ پڑیں،سستی نہ دکھائیں اور ان کی مزاحمت سے پیچھے ہٹنے کی ذرا بھی نہ سوچیں، تا آں کہ انہیں اپنے بِلوں میں چلے جانے اور اپنی ہار مان لینے پر مجبور نہ کردیں! اور یہ تب ہوگا جب انہیں کاری زخم لگے گا، ان کے ضمیروں کو صدمہ پہنچے گا، جان و مال کا بڑا خسارہ انہیں لاحق ہوگا، اور انہیں ان کی دنیا، ان کے ہاتھوں سے چھوٹتی دکھائی دے گی،تب کہیں جاکر، یہ دنیا کے خواہی، شیطان کے پجاری، احساس ِزیاں کی ہیبت میں شکست و پسپائی قبول کریں گے۔

            لہٰذا اے مجاہدین ِحق! اے جنود ِمحمد صلی اللہ علیہ وسلم!اے بحر و بر میں جاہلیت اور باطل کے پجاریوں سے برسرپیکارو! تم جمے رہو، ڈٹے رہو، ثابت قدم رہو اور زخم کھاکر، مصیبت جھیل کر، تکلیف سہہ کر، ہر طرح کی سفاکی کا مقابلہ کرتے ہوئے، حق کی پاسبانی کرتے رہو، ہرگز پیچھے نہ ہٹو۔

            دیکھنا! تقویٰ، خوف ِخدا اور رضائے الٰہی کے ساتھ، تمہاری مورچہ بندی کے سامنے دنیا کی کوئی طاقت نہیں ٹک سکے گی۔ ان شاء اللہ تعالی ! کیوں کہ اعلان حق ہے:

             ﴿وَلِلّٰہِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُوْلِہ وَلِلْمُوٴْمِنِیْنَ﴾۔ (المنافقون: ۸)

مدد، اللہ کا وعدہ ہے، بشرطیکہ تم مدد کی شرط پوری کرلو!

            جب ہم سیرت کی روشنی میں اپنے اندر، علم ِدین، تقویٰ، طاعت، عبادت، ریاضت، مجاہدہ، تزکیہٴ نفس، حسن ِاخلاق، اعلیٰ کردار، ظاہری و باطنی گناہوں سے اجتناب، نیکی پر تعاون، برائی کی عدم ِحمایت، اور حسد، کینہ کپٹ سے خلاصی جیسے اوصاف پیدا کرلیں گے؛ تب ہم نصرت ِالٰہی کے سزاوار ہوں گے ۔ (ان شاء اللہ)

ائے مجاہدین ِ اسلام!

            دشمنانِ خدا کو خوف زدہ کرنے والی تیاری، اور اُن کے خلاف، لڑنے کی حکمت ِعملی اور انہیں شکست دینے والی جرأت، تمہارا سب سے بڑا اور کارگر ہتھیار ہے، جس کے سامنے باطل کے پاسباں نہ پہلے کبھی ٹھہرسکیں ، نہ آج ٹھہرسکیں گے۔

            اللہ تمہارا حامی و ناصر ہو! اوراس کی توفیق تمہارے ہم رکاب ہو!

                        (جاری……)