عصری تقاضے اور تفسیری جواہر پارے

انوار قرآنی                                                                                              چھٹی قسط:

مولانا حذیفہ مولانا غلام محمدوستانویؔ

فضائل سورہ ٔفاتحہ:

            سورہ ٔ فاتحہ کے فضائل سے احادیث لبریز ہیں۔ اہمیت خاص اسی سے ظاہر ہے کہ نماز کی ہر رکعت میں اس کا پڑھنا واجب ہے،بل کہ شافعیہ کی تحقیق میں فرض ہے۔ کوئی نماز قرآن کے اس جزو کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔

             ایک حدیث میں آیا ہے کہ شیطان چار مرتبہ خاص طور پر رویا چلایا ہے، اور ان چار میں سے ایک موقع نزولِ سورہ ٔفاتحہ کا ہے۔ سورہ ٔفاتحہ گو صورۃً مختصر ہے، لیکن بلحاظِ معنویت و جامعیت گویا دریا کوزہ میں بند ہے۔ منکرین و مخالفین تک، ایجازِ فاتحہ کے اعجاز کے قائل ہیں۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا میں ہے۔ ’’حمد باری کی یہ زبردست مناجات۔ سلیس اتنی کہ مزید تشریح سے بے نیاز۔ اس پر معنویت سے لبریز‘‘۔

(تفسیر ماجدی)

رکوع :

            سورۂ فاتحہ میں ایک رکوع ہے۔( سورۃ کے اندر کی ایک بڑی تقسیم کا نام رکوع ہے)بڑی سورتوں میں اکثر رکوع دس دس آیتوں پر رکھے گئے ہیں اور یہ اتنی مقدار ہے جو ایک رکعت میں بہ آسانی پڑھی جاسکتی ہے۔ سورۂ فاتحہ کے علاوہ پارہ  30  کی  34  چھوٹی سورتوں میں بھی کل ایک ہی رکوع ہے۔ قرآن مجید میں رکوع کی تعداد 558 شمار کی گئی ہے۔

 آیت:

            سورۂ فاتحہ میں  7  آیاتیں ہیں ۔آیۃ کے لفظی معنی نشان کے ہیں۔ اصطلاح میں سورت کے اندر کی سب سی چھوٹی تقسیم کا نام آیت ہے۔ ہر فقرہ جس میں کوئی حکم ہو یا وہ ایک مستقل عبارت ہو، ایک آیت ہے۔ وقیل لکل جملۃ من القرآن دالۃ علی حکم ایۃ (راغب) وقد یقال لکل کلام منہ منفصل بفصل لفظی ایۃ (راغب) قرآن مجید کی کل آیتیں شمار کرلی گئی ہیں اور ان کی میزان بقول اصح 6666  ہے (اتقان)

لفظ:

            اس سورۂ مبارکہ میں کل انتیس الفاظ ہیں۔ قرآن مجید کے کل الفاظ بھی شمار کرلیے گئے ہیں۔ اور ان کی میزان بقول اصح  77934  ہے (اتقان)

حرف:

             سورہ ٔفاتحہ کے حروف ایک سو اکتالیس ہیں ۔کل حروف قرآنی بھی شمار کرلیے گئے ہیں اور ان کی میزان بقول اصح  323760  ہے۔ (اتقان)

             اللہ اللہ کلام الہی کے عاشق وشیدائی کیسی کیسی دیدہ ریزیاں اس کے واسطے کرگئے ہیں! (تفسیر ِماجدی بتغیریسیر) قرآن مجید کے شیدائیوں نے اس جیسی بہت سی عرق ریزیاں کی ہیں، جو آج بھی ان کے عشق کی نشاندہی کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو اجر عظیم عطا فرمائے۔ آمین۔ ہاں! یہ باتیں تخمیناً ہیں۔

سورۂ فاتحہ میں استعمال نہ ہونے والے حروف:

            سورۂ فاتحہ میں درج ذیل سات حروف استعمال نہیں ہوئے اور اتفاق یہ ہے کہ ساتوں حروف معجمہ ہیں، وہ حروف یہ ہیں ثا، جیم، خا، زا، شین، ظا، اور فا، (ث، ج، خ، ز، ش، ظ، اور ف) ۔مفسرین نے اس کی بڑی عجیب عجیب وجوہ بیان کی ہیں اور خصوصاً امام رازی نے اس کا سبب یہ بیان کیا ہے کہ یہ ساتوں حروف مقامات عذاب ہیں اور پھر ان سے نکلے ہوئے وہ الفاظ درج کیے ہیں، جو عذاب پر دلالت کرتے ہیں مثلاً: ثا سے’’ثبور‘‘ (۴۵: ۱۴) جیم سے ’’جہنم‘‘ (۱۵: ۴۳)، (۷: ۱۷۸) خاسے’’ خزی‘‘ (۱۶: ۲۷) زاسے’’ زفیر‘‘ (۱۱: ۱۰۶)، (۴۴: ۴۳) شین سے ’’شہیق‘‘ (۱۱: ۱۰۶) ظاء سے ظل اور ظلیل (۷۷: ۳۰، ۳۱) فا سے’’ یفرقون‘‘ (۳۰: ۱۴) اور ’’افتری‘‘ (۲۰: ۶۱) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان سے مراد جہنم کے سات دروازے ہیں جیسے (الحجر: ۴۴)۔ میں بیان کیا گیا ہے؛ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اس سورت سے سات حرف ساقط فرمائے ہیں اور ساتوں حروف عذاب پر دلالت کرتے ہیں اور اس پر اشارہ ہے کہ جو شخص اس سورۃ کو پڑھے گا وہ دوزخ کے ان سات دروازوں یعنی ساتوں طبقات دوزخ سے امان پائے گا۔ (کامل علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے اور وہی اصل حقیقت کو جانتا ہے)۔ (تفسیرعروۃ الوثقی)

 متنِ قرآن :

            اس کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ سورت ایک حیثیت سے پورے قرآن کا متن ہے اور پورا قرآن اس کی شرح؛ یہ سورت اپنے مضمون کے اعتبار سے ایک دعا ہے، ایک طالب ِحق کو چاہیے کہ حق کی تلاش و جستجو کرتے وقت یہ دعا بھی کرے کہ اسے صراط مستقیم کی ہدایت عطا ہو۔دراصل سورۂ فاتحہ دعاء ہے، جو ہر اس شخص کو سکھائی گئی ہے جو حق کا متلاشی ہو۔ اس بات کو سمجھ لینے کے بعد یہ بات خودبخود واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن اور سورۂ فاتحہ کے درمیان صرف کتاب اور اس کے مقدمہ کا ساہی تعلق نہیں؛ بل کہ دعا اور جواب دعا کا سا بھی تعلق ہے۔یہ بندے کی جانب سے ایک دعاہے، اور قرآن اس کا جواب ہے؛ خدا کی جناب میں، بندہ دعا کرتا ہے کہ اے پروردگار! تو میری رہنمائی کر، جواب میں اللہ تعالیٰ پورا قرآن اس کے سامنے رکھ دیتا ہے کہ یہ ہے وہ ہدایت اور رہنمائی ،جس کی درخواست تو نے مجھ سے کی ہے۔

سورۂ فاتحہ قرآن کے پانچوں مضامین کوشامل ہے:

            اس سورۃ کی آیات پر سرسری نظر ڈالنے سے ہی از خود یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ اس میں پورے قرآن کا خلاصہ یا اجمالی ذکر کیا گیا ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ علمائے تفسیر نے قرآن کے مضامین کو پانچ اقسام میں تقسیم کیا ہے جو یہ ہیں:

 (1)… تذکیر بالآء اللہ: یعنی اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کا بیان جو انسانی زندگی اور اس کی بقا کے لیے ضروری تھیں اور اس میں زمین، آسمان، چاند، سورج اور ہواؤں اور بادلوں وغیرہ کا ذکر سب کچھ آجاتا ہے۔

(2)… تذکیر بایام اللہ: یعنی مخلوق کے ساتھ واقعات اور حوادث کا بیان اس میں قصص الانبیااور نافرمانی کی بنا پر ہلاک شدہ قوموں کا ذکر شامل ہے۔

 (3)… تذکیر بالموت و مابعدہ: یعنی موت کے بعد آخرت کے احوال۔ اس میں اللہ کے ہاں باز پرس اور جنت و دوزخ کے سب احوال شامل ہیں۔

 (4)… علم الاحکام یعنی احکام شریعت: تذکیر بالآء اللہ، تذکیر بایام اللہ اور تذکیر بالموت، سب کا مقصد حقیقی یہی ہے کہ ان کے ذکر سے انسان کو برضا ورغبت احکام ِشریعت کی بجا آوری پر آمادہ کیا جائے۔

 (5) …علم المخاصمہ: یعنی گمراہ فرقوں کے عقائد باطلہ کا رد۔

سورہ ٔفاتحہ سے متعلق مزید معلومات:

             سورہ ٔفاتحہ کی سات آیتوں میں سے پہلی تین آیات میں اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا ہے اور آخری تین میں انسان کی طرف سے دعا و درخواست کا مضمون ہے جو رب العزت نے اپنی رحمت سے خود ہی انسان کو سکھایا ہے۔ اور درمیانی ایک آیت میں دونوں چیزیں مشترک ہیں، کچھ حمد وثنا کا پہلو ہے کچھ دعا و درخواست کا۔ صحیح مسلم میں بروایت حضرت ابوہریرہ ؓ منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :کہ حق تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ نماز (یعنی سورۂ فاتحہ) میرے اور بندے کے درمیان دو حصوں میں تقسیم کی گئی ہے، نصف میرے لیے ہے اور نصف میرے بندے کے لیے اور جو کچھ میرا بندہ مانگتا ہے، وہ اس کو دیا جائے گا ۔پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: کہ بندہ جب کہتا ہے{ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ} تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری حمد کی ہے اور جب وہ کہتا ہے{ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ} تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری تعریف وثنا بیان کی ہے اور جب بندہ کہتا ہے{ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ }تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی ہے اور جب بندہ کہتا ہے{  اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ }تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ آیت میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے ؛کیوںکہ اس میں ایک پہلو حق تعالیٰ کی حمد وثنا کا ہے اور دوسرا پہلو بندے کی دعاو درخواست کا، اس کے ساتھ یہ بھی ارشاد ہوا کہ میرے بندے کو وہ چیز ملے گی ،جو اس نے مانگی پھر جب بندہ کہتا ہے{ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ }(آخرتک) تو حق تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ سب میرے بندے کے لیے ہے اور اس کو وہ چیز ملے گی جو اس نے مانگی۔

 (مظہری،معارف القران شفیعی)

سورۂ فاتحہ کے ۷ مضامین:

            قرآن مجید کے حسب ذیل مضامین ہیں: (۱) توحید: نزول قرآن کے وقت دنیا میں بالعموم بت پرستی کا دور دورہ تھا اور کفار عرب توحیدکے دعوی دار ہونے کے باوجود اپنے زعم میں اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے بتوں کی عبادت کرتے تھے؛ اس لیے قرآن کا مطالبہ یہ ہے کہ صرف خالق اور رب ہونے کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ کو واحد ماننا کافی نہیں ہے؛ بل کہ استحقاقِ عبادت کے اعتبار سے بھی اس کو واحد ماننا ضروری ہے‘ یعنی اس کے سوا اور کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے۔

 (۲) …نبوت: عام انسان کی عقل اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی وحدانیت کو جاننے کے لیے ناکافی ہے اور اللہ تعالیٰ کے احکام حاصل کرنے سے عاجز ہے،اس لیے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے انبیاء (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا اور نبی چوںکہ اللہ کا نمائندہ ہوتا ہے،اس کو ماننا اللہ کو ماننا اور اس کا انکار کرنا اللہ کا انکار کرنا ہوتا ہے،اس لیے قرآن نے نبی کے ماننے کو ضروری قرار دیا ہے۔

(۳)… عبادت: بدن‘ مال اور ان دونوں کو اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق صرف کرنا عبادت ہے‘ قرآن نے یہ بتایا ہے کہ انسان خود اور اس کا مال اس کی ملکیت نہیں ہے‘ اللہ کی ملکیت ہے۔ اب وہ کس طرح اپنی جان اور مال کو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق صرف کرے، یہ قرآن نے تفصیل سے بتایا ہے۔

 (۴)…وعد وعید:  اس وعد اور وعید کو اللہ تعالیٰ نے تفصیل سے قرآن مجید میں بیان فرمایا ہے۔

 (۵) …قصص اور امثال: گزشتہ امتوں کے صالحین کے واقعات اور نافرمانوں پر عذاب کی عبرت انگیز مثالیں۔ (۶)… معاد: مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے اور مومنین کے لیے جزاء اور کفار کے لیے سزا کا بیان۔

 (۷)… دعا: تمام عبادات کا خلاصہ اور حاصل اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں انسان کو ہدایت عطا فرمائے اور اس پر تاحیات برقرار رکھے اور آخرت میں عذاب سے نجات‘ جنت نعیم‘ اپنی خوشنودی‘ رضا اور دیدار عطا فرمائے۔ سورۂ فاتحہ میں ان تمام مضامین کو اجمال‘ اختصار سے بیان کردیا گیا ہے۔

 (۱) سورۃ فاتحہ کے شروع میں فرمایا: ’’الحمد للہ رب العلمین‘‘۔ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لائق ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے‘‘۔ یعنی حمد کا مستحق صرف اللہ تعالیٰ ہے،کیوں کہ زمین‘ پہاڑ‘ سمندر‘ جمادات‘ نباتات‘ حیوانات‘ انسان اور جن یہ سب اپنے وجود میں کسی موجد کے اور اپنی بقا میں کسی رب کے محتاج ہیں‘ اور یہ سب ممکنات ہیں‘ اس لیے ان کو پیدا کرنے والا اور ان کو باقی رکھنے والا ممکن نہیں ہوسکتا؛ کیوں کہ ممکن تو پھر انہی کی طرح اپنے وجود اور بقا میں محتاج ہوگا‘ اس لیے ضروری ہے کہ ان کا موجد اور ان کا رب واجب بالذات ہو۔اس کائنات ِرنگ وبو میں جو حسن اور کمال ہے وہ اسی کا دیا ہوا ہے اور حمد‘ حسن اور کمال پر ہوتی ہے تو تمام محامد کا وہی مستحق ہے اور تمام تعریفیں اسی کے لائق ہیں۔ اس آیت میں جہاں یہ بتایا ہے کہ تعریف کا مستحق صاحب کمال نہیں ہے خالقِ کمال ہے‘ وہاں یہ بھی بتادیا ہے کہ تمام کائنات کا خالق اور مربی اللہ تعالیٰ ہے اور یہ قرآن کا وہ پہلا مضمون ہے جس کا ہم نے ذکر کیا ہے۔

(۲) سورۃ فاتحہ کی چھٹی آیت میں ہے: ’’۔ صراط الذین انعمت علیہم‘‘۔ ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا۔ اور جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا ان کا بیان اس آیت میں ہے:

             ’’انعم اللہ علیہم من النبین والصدیقین والشھدآء والصلحین‘‘۔ (النساء ۴۹) جن پر اللہ نے انعام کیا وہ انبیاء‘ صدیقین‘ شہداء اور صالحین ہیں۔ نیز فرمایا:’’ اولٓئک الذین انعم اللہ علیہم من النبین من ذریۃ ادم‘‘ (مریم: ۵۸) جن پر اللہ نے انعام کیا وہ نسل آدم سے انبیاء ہیں۔ قرآن مجید کا دوسرا اہم مضمون نبوت ہے اور اس کی طرف اشارہ (آیت) ’’صراط الذین انعمت علیہم‘‘ میں ہے۔

 (۳) قرآن مجید کا تیسرا اہم مضمون ’’عبادت ہے‘‘: اور اس کا ذکر’’ایاک نعبد‘‘ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں۔ میں ہے۔

 (۴) وعد اور وعید کی طرف اشارہ ’’مٰلک یوم الدین‘‘ میں ہے۔

(۵) گزشتہ امتوں کے واقعات اور مثالیں‘ نیکوں پر انعام اور بدکاروں پر غضب اور عذاب: اس کی طرف اشارہ چھٹی اور ساتویں آیت ’’صراط الذین انعمت علیہم غیر المغضوب علیہم ولا الضالین‘‘ میں ہے۔

(۶) مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے اور مومنین کے لیے جزاء اور کفار کے لیے سزا :کی طرف اشارہ بھی  مٰلک یوم الدین‘‘ میں ہے۔

 (۷) قرآن مجید کا بہت اہم مضمون اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا ہے: اور اس سورت میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے کس طرح دعا کی جائے اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء کی جائے، جس کا ذکر ’’الحمد للہ رب العلمین، الرحمن الرحیم‘‘ میں ہے۔ پھر خضوع اور خشوع کا اظہار کیا جائے، جس کا ذکر  ’’ایاک نعبد وایاک نستعین‘‘ میں ہے ۔پھر اپنے عجز اور احتیاج کو بیان کیا جائے جس کا بیان بھی ’’ایاک نعبد وایاک نستعین‘‘ میں ہے۔پھر حرف مدعا زبان پر لایا جائے اور اس سے مانگا جائے‘ نیز یہ بھی بتایا کہ اللہ تعالیٰ سے کیا مانگا جائے اور کیا نہ مانگا جائے ۔تو بتلایا اس سے صراط مستقیم پر برقرار رہنے کی ہدایت مانگو! وہ راستہ جو اللہ تعالیٰ کے انعام یافتگان کا راستہ ہے، نہ ان کا راستہ جن پر اللہ تعالیٰ نے غضب فرمایا اور نہ گمراہوں کا۔پھر جیسے ہی ہدایت کی دعا ختم ہوتی ہے تو اس کے جواب میں فورا ًہدایت آجاتی ہے۔ ’’الم ذلک الکتاب لا ریب فیہ ھدی للمتقین‘‘ یعنی تم نے ہم سے ہدایت مانگی تھی، تو یہ پوری کتاب تمہارے لیے ہدایت ہے اور اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقہ سے دعا کرو گے تو اس دعا کی استجابت یقینی ہے۔(تبیان القران)