انوار قرآنی آٹھویں قسط:
مولانا حذیفہ مولانا غلام محمدوستانوی#
سورہ ٴفاتحہ کے مقاصد:
جیسے جیسے زمانہ آگے بڑھتا جارہا ہے قرآنی علوم مزید منکشف ہوتے چلے جارہے ہیں ۔ عصر حاضر میں قرآنِ کریم سے شغف رکھنے والوں نے قرآنِ پاک کے اس پہلو کی جانب بھی خاص توجہ دی ہے کہ ہر سورت کے بنیادی مقاصد کیا ہیں ؟ اسے معلوم کیا جائے اوراس کے بنیادی مضامین کو طے کرکے اس کی روشنی میں تفسیر کی جائے، تو آئیے سورہٴ فاتحہ کے مقاصد کو معلوم کرتے ہیں :
سورہٴ مبارکہ کے مقاصد ِاساسیہ تین ہیں :
۱- ربِ ذوالجلال اورمعبودِ برحق کی تعریف اوراس کا تعارف ۔
۲- عبودیت اورعبادت کے طریقہ کی تعیین ۔
۳- عبادت اور حق کے بارے میں لوگوں کے اصناف و اقسام ۔
یہ تو ہوئے مقاصد ۔ اب اس کے بنیادی موضوعات اور مضامین کیا ہیں اسے بھی معلوم کرتے ہیں ۔
موضوعات اور مضامینِ سورہٴ فاتحہ :
۱- اللہ کی صفات ِاساسیہ کا ذکر ۔
۲- آخرت اور یومِ جزا کا ذکر ۔
۳- عبادت اور استعانت میں اللہ کی وحدانیت کا اثبات۔
۴- صراطِ مستقیم یعنی سیدھے ہدایت کے راستے کا ذکر ۔ ماضی میں اس راہ پر کون لوگ تھے ،اس جانب اشارہ کے ساتھ۔
۵- گمراہی اور گمراہ لوگوں کے اصناف اور ان کا تذکرہ ۔
ہر نماز کی ہر رکعت میں جو سورت پڑھی جاتی ہے اس پر غور وتدبر کیوں نہیں ؟
سورہٴ فاتحہ انتہائی جامع سورت ہے، اسی لیے ہرنماز کی ہر رکعت میں انسان کو اس کے پڑھنے کا مکلف کیا گیا ہے ۔ مگرافسوس کے آج کا مسلمان اس کو صرف طوطے کی طرح پڑھتاہے، اس کے معانی ومطالب پر غور نہیں کرتا ہے۔ اس کی نماز میں جان نہیں ، اس کی تلاوت میں روح نہیں ، اس کے عقیدہ میں پختگی نہیں ؛ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسےBy Chance مسلمان ہوگئے ہیں ۔ تو آئیے !ہم اس سورہ ٴ مبارکہ کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اورآئندہ اس کے معانی کے استحضار کے ساتھ اس کی تلاوت کا عزم کرتے ہیں۔ ان شاء اللہ ! اس طرح ایمان میں قوت پیدا ہوگی اور ہم نام کے نہیں؛ بل کہ کام کے مسلمان ہوں گے۔
امت کو فہم قرآنی سے وابستہ کرنے کے لیے ایک پروگرام کا آغاز:
بندے نے ارادہ کیا ہے کہ امت کو قرآن سے وابستہ کیا جائے، اسی کے لیے سب سے پہلے نماز میں پڑھی جانے والی سورتوں کی تفسیر ،موٴثر انداز میں امت کے روبرو پیش کی جائے گی؛ تو سب سے پہلے سورہٴ فاتحہ سے اس کا آغاز کرتے ہیں اور ان شاء اللہ رمضان کے خصوصی شمارے کے لیے ابھی سے قصار مفصل اوساط مفصل اورطوال مفصل کی سورتوں کی تفسیر کے لیے تیار ی شروع کی جائے گی ۔ اللہ تعالیٰ مدد فرمائے اور پایہٴ تکمیل تک پہنچائے ۔
سورہٴ فاتحہ کے مقاصدکا تفصیلی جائزہ
اللہ کا تعارف:
اللہ کی تعریف اورتعارف سے سورت کا آغاز ہوتا ہے ، اس لیے کہ فطری طور پر انسان کا جس چیز سے بھی واسطہ پڑتا ہے، تووہ پہلے اس کا تعارف ہی جاننے کی کوشش کرتا ہے ۔ تو خالق ومالک نے بھی رب العالمین ، الرحمن الرحیم ، مٰلک یوم الدین کے ذریعہ اپنا تعارف پیش کیا۔
عام طور پر کسی بھی کتاب کو پڑھنے سے پہلے پڑھنے والا صاحب کتاب کے بارے میں جاننا چاہتا ہے کہ وہ کون ہے ؟ اورکیا ہے ؟ لہٰذا کتاب کے تعارف سے پہلے صاحب ِکتاب کا تعارف پیش کیا گیا۔
سوال ہوتا ہے کہ صاحبِ کتاب کی تعریف اورثنا سے کیوں آغاز کیا ؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ کتاب اور صاحبِ کتاب دونوں منفرد ہیں اور صاحبِ کتاب اتنی عظیم ہستی ہے، جس نے قاریٴ کتاب کے وجود اور اس کی تمام ضرورتوں کو مہیا کیا۔
اللہ کی حمد و ثنا اور اس کی حکمت :
مخاطب کو پہلے قدم پر اس کا اعتراف ہوجائے کہ میں کچھ نہیں ہوں ،سب کچھ اسی ذات کا فضل وکرم ہے؛ تاکہ اس کی عظمت دل میں بیٹھے اور سب سے مہلک مرض فخر اور کبر سے علم ومعرفت کے بعد ہ دوچارنہ ہو؛ اس لیے کہ عام طور پر علم کے ساتھ دبے پاوٴں تکبر انسان کی ذات میں داخل ہونے کی بھر پور کوشش کرتا ہے۔لہٰذا جب تہہِ دل سے اس کے دل میں اللہ کی کبریائی اور عظمت بیٹھ جائے، تو اس کے لیے علوم ومعارف کے دریچے کھل جاتے ہیں اور رب کی معرفت اور اس کے پیغام پر عمل در آمد آسان ہوجاتا ہے۔ اس طرح دفع مضرت کا گویا بندو بست کردیا گیا۔
کلمہٴ حمد:
﴿اَلْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ﴾
ترجمہ: ” سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا پرورش کرنے والا ہے ۔“
یہاں پر لفظ﴿اَلْحَمْدُ﴾جنس کے درجے میں مطلق ہے اورمطلب یہ ہے کہ ازل سے لے کر ابد تک تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہیں ۔
حمد کا معنی تعریف ہے ۔ اور امام ابن جریر اسے شکر پر پر بھی محمول کرتے ہیں ، گویا حمد‘شکر کا معنی بھی دیتا ہے ، لہٰذا یہ شکر کا کلمہ بھی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ بہت ہی پسندیدہ کلمہ ہے ، کیوں کہ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے انعامات کا شکریہ بھی ادا ہوتا ہے ۔﴿اَلْحَمْدُ﴾ دعا کا کلمہ بھی ہے ۔ جب ان الفاظ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کی جاتی ہے، تو اللہ تعالیٰ کی مہربانیاں انسان کی طرف متوجہ ہوجاتی ہیں ، اسے دعا کرنے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی اور اس کا مقصد خود بہ خود پورا ہوجاتا ہے ؛ چناں چہ حضور علیہ الصلوة والسلام کا فرمان ہے : ” اَفْضَلُ الذِّکْرِ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَفْضَلُ الدُّعَاءِ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ “ یعنی سب سے افضل ذکر کلمہٴ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا ذکر ہے اور تمام دعاوٴں میں افضل دعا اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ہے۔ اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سجدے کی حالت میں ان الفاظ کے ساتھ دعا کیا کرتے تھے ۔ اَللّٰہُمَّ لَا اُحْصِی ثَنَاءً عَلَیْکَ اَنْتَ کَمَا اَثْنَیْتَ عَلٰی نَفْسِکَ․” اے مولائے کریم ! میں تیری تعریف بیان نہیں کرسکتا ، تو ویسا ہی ہے جیسے تونے خود اپنی تعریف بیان فرمائی ہے “۔ مخلوق میں کون ہے جو پورے طریقے سے اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کرسکے ، پوری مخلوق اللہ تعالیٰ کی کما حقہ تعریف کرنے سے عاجز ہے ، تاہم ہرشخص حتی المقدور اپنے پرور دگار کی حمد بیان کرتا ہے جس سے اس کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے ۔
مسند احمد کی روایت میں آتا ہے : ” اِنَّ رَبَّکَ یُحِبُّ الْحَمْدَ “ تیرا پرور دگار حمد اور تعریف کو پسند فرماتا ہے ۔ حضور علیہ الصلوة والسلام کا یہ فرمان بھی ہے کہ جب کوئی بندہ کوئی چیز کھاتا پیتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کرتا ہے اور کہتا ہے الحمدللہ تو اللہ تعالیٰ اپنی خوشنودی کا اظہار فرماتا ہے اور کہتا ہے :حَمِدَنِیْ عَبْدِیْ میرے بندے نے میری تعریف بیان کی ہے اور میرا شکر ادا کیا ہے۔ صحیح حدیث(مسند احمد) میں حضور علیہ الصلوة والسلام کا یہ فرمان بھی موجود ہے :اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ تَمْلَاُ الْمِیْزَانَ یعنی کلمہ ٴالحمدللہ سے اللہ تعالیٰ کا میزان پُر ہوجاتا ہے ۔ نیز یہ بھی کہ سبحان اللّٰہ اور الحمدللّٰہ کو ملاکر پڑھنے سے زمین و آسمان کی درمیانی فضا پُر ہوجاتی ہے ، ان کلمات کے اتنے اثرات اورثمرات ہیں ۔ اس کے علاوہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں جہاں بھی اہل ایمان کی صفت بیان کی ہے ، وہاں خدا تعالیٰ کی تعریف بیان کرنے کو ان کی ایک صفت کے طور پر ظاہر کیا ہے ۔ جیسے فرمایا : ﴿التَّائِبُوْنَ الْعَابِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ ﴾(التوبة)اللہ تعالیٰ نے غلطی کے ارتکاب پر توبہ کرنے والوں ، عبادت گزاروں اور اس کی حمد بیان کرنے والوں کی تعریف کی ہے ۔ ایک حدیث میں حضور علیہ الصلوة والسلام کا یہ بھی ارشاد ہے کہ آخری امت کے لوگوں کا ایک لقب حمّادون ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بہت زیادہ تعریف بیان کرنے والے ہوں گے۔
ہر حالت میں حمد :
حضور علیہ الصلوة والسلام کا یہ فرمان ہے کہ مومن ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کرتا ہے حتیٰ کہ اگر اس کا کوئی عزیز بھی اس کی آنکھوں کے سامنے جان دے رہا ہو، تو مومن پھر بھی الحمدللہ ہی کہتا ہے ۔ جب کوئی شخص پورے اعتقاد کے ساتھ یہ کلمہ ادا کرتا ہے ،تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ اس شخص کے لیے جنت میں بیت الحمد تعمیر کردو ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ مومن ہمیشہ یہی کہتا ہے اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَلٰی کُلِّ حَالٍ وَاَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنْ حَالِ اَہْلِ النَّارِ ہر حالت میں اللہ تعالیٰ ہی کی حمد وثنا ہے ۔ اور دوزخ والوں کے حال سے اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ پناہ چاہتا ہوں ۔ خدا تعالیٰ اس حالت میں کسی کو نہ لے جائے ۔
صفت ربوبیت :
امام ابن جریر اوربعض دوسرے مفسرین فرماتے ہیں کہ الحمدللہ شکر کا کلمہ اس طرح ہے کہ جب کوئی شخص دیکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے وجود بخشا ہے ، جسم دیا ہے ، صحت و تندرستی عطا کی ہے ، پاک روزی اور نیک اولاد دی ہے ،ان ظاہری نعمتوں کے ساتھ ساتھ باطنی انعامات کے طور پر ایمان لانے کی توفیق بخشی ہے ۔ علم عطا کیا ہے ، سمجھ دی ہے ، اچھی نیت اور اچھا اخلاق مرحمت فرمایا ہے ، تو اس کی زبان سے بے ساختہ اَلْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ادا ہوجاتا ہے ، یعنی سب تعریفیں اس مالک الملک کے لیے ہیں ،جو تمام جہانوں کا پرورش کرنے والا ہے۔ اس طرح گویا انسان اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے۔
رب کا لفظی معنی :
رب کا لفظی معنیٰ تربیت کرنے والا ہے اور مراد ہر چیز کو آہستہ آہستہ بتدریج حدِ کمال تک پہنچانا ہے ۔ ہرصفت کا اپنا اپنا مفہوم ہوتا ہے جیسے” ابداع“ کا معنیٰ ایجاد کرنااور ”خلق“ کا معنیٰ پیدا کرنا ، اسی طرح ربوبیت کا معنیٰ تربیت کرنا ، پرورش کرنا حالاً فحالاً آہستہ آہستہ بتدریج‘ یعنی جس سٹیج پر جس چیز کی ضرورت ہو اس کو بہم پہنچاکر حدِ کمال تک پہنچانا۔
(معالم العرفان ص ۱۰۸-۱۱۱)
اللہ اوررب العالمین کی حکمتیں:
﴿للہ رب العالمین﴾ ثنا کے ساتھ اسم ذات اللہ کو اس لیے لایا گیا کہ انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ اپنے ” الٰہ“ کی تلاش میں ہوتا ہے تو کہا کہ کہیں اِدھر اُدھر بھٹکنے کی ضرورت نہیں لو یہ ہے آپ کا الٰہ ِبرحق ۔
فوراً الٰہ کے تصور کے بعد ایک اورعقلی سوال جنم لیتا ہے کہ چلو ٹھیک ہے ” الٰہ“ اور”خالق“ تو مل گیا ، مگر اس کا چلانے والا کون ہوسکتا ہے؟ جیسے دیگر مذاہب اس میں بھٹک چکے ہیں کہ ” الٰہ“ دنیا کو بناکر اب وہ اس سے جدا ہوچکا ہے تو کہا نہیں ”رب العالمین “ تمام جہانوں کا پالنہار وہی ہے ، وہی نظام عالم کو تھامے ہواہے ؛ یہاں ”عالَم“ کو جمع لاکر بے حدو حساب عالموں کے اپنے زیر اثر ہونے کی طرف اللہ نے اشارہ کیا۔
﴿العالمین﴾میں مفسرینِ فلاسفہ ٴجدیدہ وقدیمہ سب سرگرداں ہے کہ عالمین کی کیا تفسیر کریں ؟ کیوں جمع لائے ؟ کتنے عالم ہوں گے؟وغیرہ وغیرہ سوالات نے سر اٹھا رکھا ہے ۔
العلمین کی حکمتیں:
مفسر ِدوراں صوفی عبد الحمید صاحب سواتی نور اللہ مرقدہ تحریر فرماتے ہیں : ” یہاں پر لفظ عالمین ذکر کیا گیا ہے جوکہ عالم کی جمع ہے ۔ لفظ عالم علامت کے مادے سے ہے۔ کائنات میں جتنے بھی جہان ہیں اوران جہانوں میں جو چیزیں پائی جاتی ہیں ، وہ سب اللہ تعالیٰ کی صناعی اورکاریگری کی علامت ہیں ، اس لیے اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ ہر جہان کو عالم سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ہر مصنوع اپنے صانع کی علامت اورنشانی ہوتی ہے ،تو کائنات کی تمام چیزوں کو دیکھ کر آدمی سمجھ جاتا ہے کہ یہ کسی کاریگر کی بنائی ہوئی ہیں ؛ لہٰذا وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان لانے پر مجبور ہوجاتا ہے ، پھر جب کوئی شخص مزید غور و فکر کرتا ہے تو وہ جان لیتا ہے کہ ہرمخلوق کی تمام ضروریات مہیا کرنے والا بھی صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اور وہ پکار اٹھتا ہے ” لارب سواہ “ کہ اس کے علاوہ کوئی رب نہیں ۔ ہر چیز کو بتدریج حدِ کمال تک پہنچانے والی وہی ذات ہے۔
عالموں کی تعداد:
امام ابن جریر ، امام ابن کثیر ، امام رازی اور بعض دوسرے مفسرینِ کرام بیان کرتے ہیں کہ عالموں کی کل تعداد اٹھارہ ہزار ہے ، ہم انسانوں کے جہان میں رہتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ملائکہ کا جہان ہے ، جنات کا جہان ، برزخ ، حشراور آخرت کے جہان ہیں۔ اور پھر اس سطحِ ارضی پر ، درندوں ، پرندوں اور چرندوں کے الگ الگ جہان ہیں ۔ اور کوئی مکھیوں کا جہاں ہے ، کوئی کیڑوں کا جہان ہے ۔ نباتات اورجمادات کے جہان ہے ۔ اور پھر پانی کے اندر مچھلیوں اور دیگر بے شمار آبی جانور وں کے جہان ہیں ؛ہم چوں کہ انسانی عالم میں رہتے ہیں اس لیے ہم اس سے بحث کرتے ہیں ۔ قرآنِ کریم کا موضوع بھی عالم انسانیت کی تکمیل ہی ہے ؛ لہٰذا باقی جہانوں کو زیربحث لانا مقصود نہیں ہے ۔ بہر حال لفظ رب العالمین سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ تمام کے تمام جہانوں کی پرورش کرنے والا وہی خداتعالیٰ ہے ، لہٰذا تمام تعریفیں بھی اسی کے لیے ہیں ۔
( معالم العرفان/ص:۱۱۱تا۱۱۲)
لفظ” عَالَمِیْنَ“ پر ہمارے قدیم مفسرین کے کلام کے بعد آئیے جس عالم میں ہم انسان بسے ہوئے ہیں ، وہ عالم کیا ہے اورکیسا ہے ؟ اس بارے میں جدید حیرت انگیز فلکیاتی انکشافات پر بھی ایک نظر ڈالتے ہیں تاکہ ہمارے کمزور ایمان کو قوت ملے ۔
عالمین کا ایک مظہر کہکشاں وں کی دنیا
ملکی وے.(galaxy)ہم ملکی وے کہکشاں)MilkyWay Galaxy(میں رہتے ہیں۔ یہ ہمارا گھر ہے اور ہم اسی کہکشاں کے باشندے ہیں۔ یہ کہکشاں اربہا ارب ستاروں کی عظیم الشان مملکت ہے۔
ایک اندازے کے مطابق، ہماری ساری قابل مشاہدہ کائنات)Observable Universe(میں لگ بھگ دو کھرب سے بھی زیادہ کہکشائیں موجود ہیں۔)یہ ایک محتاط اندازہ ہے، بعض دیگر اندازوں کے مطابق یہ تعداد چارکھرب کہکشائیں بھی بتائی جاتی ہیں۔ ان میں سے ہر کہکشاں اپنی اپنی جگہ منفرد، متحرک، اور نہایت عظیم الشان ہے۔
ہماری اپنی کہکشاں یہ ایک عظیم الشان ٹکیہ)Disk(کی مانند ہے جس کے مرغولہ نما)Spiral(دیوہیکل بازو ہیں؛ اور ٹکیہ کے بیچوں بیچ ایک گومڑ)Bulge(سا موجود ہے)ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر:۱(۔ یہ اُن اربوں کھربوں کہکشاؤں میں سے صرف ایک ہے جو ہماری کائنات میں موجود ہیں وہ کہکشائیں جن میں سے کئی کے بارے میں اتنی ترقی کے باوجود ہمیں آج تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ان کی اصل تعداد کتنی ہے۔ہر کہکشاں دراصل ستاروں کا مجموعہ ہوتی ہے۔ ایک اوسط کہکشاں میں لگ بھگ ایک کھرب)۱۰۰ اَرب ہماری کہکشاں میں بھی ارب ہا ارب ستارے ہیں؛ اور ان میں سے اکثریت کے سیارے اور چاند بھی ہیں یعنی ہمارے نظامِ شمسی جیسے اربوں دوسرے نظام ہائے شمسی صرف اس ایک کہکشاں میں موجود ہیں۔ تو پھر پوری کائنات کا کیا عالم ہوگا؟خیر! خاصے عرصے تک ہمیں کہکشاؤں کے بارے میں کوئی علم نہ تھا۔ ایک صدی پہلے ہی کی بات ہے جب ہم صرف ملکی وے کہکشاں ہی کو ساری کی ساری کائنات سمجھتے تھے۔ سائنس دانوں نے اس کا نام“جزیرہ کائنات”رکھا ہوا تھا۔ ان کے مطابق کوئی دوسری کہکشاں وجود ہی نہیں رکھتی تھی! ۴۲۹۱ء میں ایڈوِن ہبل)Edwin Hubble(کی دریافت نے ہر چیز بدل کر رکھ دی۔ہبل اس وقت کی جدید ترین دوربین سے خلائے بسیط کا مشاہدہ کررہا تھا۔ اس دوربین کے آئینے کا قطر ۱۰۰ اِنچ تھا؛ اور یہ امریکی شہر لاس اینجلس کے نزدیک، ماؤنٹ ولسن)Mount Wilson(پر ایک رصدگاہ میں نصب تھی۔ اس نے خلاء میں، دور بہت ہی دور، روشنی کے دھندلے سے گولے دیکھے۔ وہ سمجھ گیا کہ یہ کوئی ستارے نہیں۔ ہماری کہکشاں سے بہت زیادہ فاصلے پر، یہتو ستاروں کی پوری کی پوری بستیاں تھیں۔ماہرین فلکیات کے لیے یہ ایک بہت بڑا دھچکا تھا۔ صرف ایک سال پہلے تک ہماری پوری کائنات صرف ملکی وے پر مشتمل تھی؛ مگر اب وہ لاتعداد کہکشاؤں کا گھر بن گئی تھی۔ ہبل نے فلکیات کے میدان میں ایک عظیم الشان دریافت کرلی تھی۔ کائنات میں صرف ایک نہیں بلکہ لاتعداد کہکشائیں تھیں!کہکشاؤں کی مختلف قسمیں ہوتی ہیں جنہیں ان کی ساخت کے اعتبار سے نام دیئے جاتے ہیں۔ جیسے کہ گردابی کہکشاں)Whirlpool Galaxy(، بیضوی کہکشاں)Elliptical Galaxy(، چھلے)Ring(کی شکل والی کہکشاں، مرغولہ نما)Spiral(کہکشاں وغیرہ۔ مثلاً ایک کہکشاں جسے“میسنر کٹیلاگ کی 87 ویں کہکشاں”یا مختصراً صرف M-87 کہا جاتا ہے، ایک بیضوی کہکشاں ہے۔ یہ اب تک دریافت ہونے والی، قدیم ترین کہکشاؤں میں سے ایک ہے۔ اس کے ستاروں کی روشنی سنہری مائل ہے۔ ایک اورکہکشاں“سومبریرو”)Sombrero(کہلاتی ہے۔ اس کا نظارہ نہایت شاندار ہے۔ اس کامرکز نہایت بڑا اور روشن ہے جس کے اطراف گیس اور گرد کے بادلوں کا ایک بڑا سا ہالا بنا ہوا ہے۔ کہکشائیں دیکھنے میں بے حد حسین نظر آتی ہیں۔ یہ خلاء میں عظیم الجثہ پھرکیوں کی طرح چکراتی اور وسیع و عریض خلاء میں تیرتی دکھائی دیتی ہیں۔ یہ ایسی شاندار آتش بازی کا نمونہ لگتی ہیں جو صنّاعِ فطرت نے گویا اپنے ہاتھوں سے ترتیب دی ہے۔ ہمارے لیے کہکشاؤں کی وسعت کا تصور کرنا نہایت ہی مشکل ہے۔ زمین پر ہم فاصلہ میلوں میں طے کرتے ہیں۔ مگر خلاء میں فاصلہ“نوری سال”میں ناپا جاتا ہے۔ روشنی جو فاصلہ ایک سال میں طے کرتی ہے، وہ ایک نوری سال(Light Year)کہلاتا ہے۔ یہ فاصلہ ساٹھ کھرب میل سے ذرا ہی کم بنتا ہے۔ اپنی کہکشاں یعنی ملکی وے کے مرکز(کہکشانی مرکز)سے خود ہمارافاصلہ بھی پچیس ہزار نوری سال سے کچھ زیادہ ہے۔ اگر ملکی وے کی ہی بات کریں، جس کا شمار اوسط جسامت والی کہکشاؤں میں ہوتا ہے، تو اس کی چوڑائی بھی تقریباً ایک لاکھ نوری سال بنتی ہے۔ اپنی اس عظیم الشان وسعت کے باوجود یہ کائناتی صحرا میں ریت کے ایک معمولی ذرّے کی مانند ہے۔ اگرچہ ہمیں یہ کہکشاں بہت بڑی لگتی ہے، لیکن یہ کائنات میں موجود دوسری کہکشاؤں کے مقابلے میں خاصی چھوٹی ہے۔ مثلاً اینڈرومیڈا)Andromeda(کہکشاں جسے عربی میں“مراة المسلسلہ”بھی کہا جاتا ہے، اور جو ہماری پڑوسی کہکشاں ہے، اس کی چوڑائی(قطر)تقریباً دو لاکھ نوری ہے۔ اس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہوا کہ وہ ہماری کہکشاں سے دوگنے رقبے پر پھیلی ہوئی ہے۔M-87 کا تذکرہ ہم کچھ پہلے کرچکے ہیں۔ یہ ایک بیضوی کہکشاں ہے جو اینڈرومیڈا کے مقابلے میں بھی خاصی بڑی ہے۔ لیکن پھر بھی IC-1101 نامی کہکشاں کے مقابلے میں نہایت چھوٹی سی ہے۔ IC-1101کہکشاں اب تک کی دریافت ہونے والی، سب سے بڑی کہکشاں ہے۔ یہ ہماری کہکشاں سے تقریباً ساٹھ گنا بڑی ہے۔اب تک ہم جان چکے ہیں کہ کہکشائیں بہت وسیع و عریض ہوتی ہیں؛ اور یہ خلاء میں ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں۔ لیکن ایسا کیوں ہے؟ یہ فلکی طبیعیات کا اہم سوال ہے کہ کہکشائیں کہاں سے آئی ہیں۔ ہم اب تک پوری طرح سے یہ نہیں سمجھ سکے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ کائنات کی ابتداء آج سے 13.7 اَرب سال پہلے، بگ بینگ سے ہوئی تھی۔ یہ انتہائی گرم اور بے انتہاء کثافت والا مرحلہ تھا۔ ہم جانتے ہیں کہ تب کہکشاں جیسی کوئی چیز موجود ہی نہیں ہوسکتی تھی۔اس کا صاف مطلب ہے کہ کہکشائیں بہت بعد ہی میں پیدا ہوئی ہوں گی۔ ظاہر ہے کہ کوئی بھی کہکشاں اپنے آپ میں ستاروں کا مجموعہ ہوتی ہے؛ اور کائنات میں اوّلین ستارہ، بگ بینگ کے بیس کروڑ سال بعد وجود میں آیا تھا۔ قوتِ ثقل(Gravity)نے ایسے اربوں اوّلین ستاروں کو بتدریج یکجا کرنا شروع کیا اور آخرکار کائنات میں اوّلین کہکشائیں وجود میں آگئیں۔ ہبل خلائی دوربین(Hubble Space Telescope)ہمیں ماضی کے اس اوّلین دور میں جھانکنے کا موقع فراہم کرتی ہے کہ جب کہکشائیں وجود میں آنا شروع ہوئی تھیں۔ آسمان میں ستاروں کی روشنی کو ہم تک پہنچنے میں ہزاروں، لاکھوں، بلکہ اربوں سال تک لگ جاتے ہیں۔ ستاروں کی روشنی جو ہم دیکھتے ہیں، وہ دراصل ان ستاروں کا ماضی ہوتا ہے: وہ ہم سے جتنے نوری سال دور ہوں گے، آج کی تاریخ میں اُن سے ہم تک پہنچنے والی روشنی اتنے ہی سال پہلے کی ہوگی اور وہ روشنی ہمیں ان ستاروں کے اتنے ہی قدیم ماضی کی خبر دے رہی ہوگی۔ جب ہم“ہبل ڈیپ فیلڈ”(Hubble Deep Field)(نامی دوربین میں جھانکتے ہیں)جو ہبل خلائی دوربین ہی کا ایک اہم حصہ ہے ،تو ہمیں کہکشائیں چھوٹے چھوٹے دھبوں کی صورت میں نظر آتی ہیں۔وہ دور دراز ماضی کی کہکشائیں، آج کی قریبی کہکشاؤں سے بہت مختلف ہیں۔ وہ کہکشائیں روشنی کے چھوٹے دھبوں جیسی لگتی ہیں جن میں ہم بمشکل فرق کر پاتے ہیں، ایسے ہر دھبے میں کروڑوں یا اربوں ستارے ہیں، جنہوں نے قوّت ثقل کے زیر اثر ایک جگہ جمع ہونا شروع کردیا تھا۔ یہ دھندلے دھبے اوّلین کہکشائیں ہیں؛ جو بگ بینگ کے لگ بھگ ایک ارب سال بعد بننا شروع ہوئیں۔ لیکن ہبل ڈیپ فیلڈ بھی کائناتی ماضی میں بس اسی قدر دوری تک جھانک سکتی ہے۔ اس میں اورزیادہ آگے تک، کائنات کے مزید قدیم تر ماضی میں دیکھنے کی صلاحیت ہی نہیں۔ اگر ہمیں مزید دور تک ماضی میں جھانکنا ہو، تو اس کے لیے ہمیں مختلف قسم کی، اس سے بھی کہیں زیادہ طاقتور دوربین کی ضرورت ہوگی۔ یا ایک ایسی دوربین ہونی چاہئے جو ابتک کی سب سے بڑی دوربین ہو۔
آج کل عام طور پر جدید تحقیقات نے پوری دنیا کو حیران کررکھا ہے اور ہر چیز کو مشاہدہ تجربہ اورعقل کے پیمانے پر تولنے اور پرکھنے کی کوشش کی جارہی ہے ، جس سے مسلمان بھی متاثر ہوگیا ہے ۔ بعض مغربیت زدہ افراد یا تو کھینچ تان کر قرآن کی سائنسی تفسیر کرتے ہیں، جو اصولِ تفسیر اور اہل سنت والجماعت کے طریقے کے خلاف ہے ۔ اور بعض جدید تحقیقات کا مقارنہ قرآن کے ان مفاہیم سے کرتے ہیں ،جو ان کے اپنے متعین کیے ہوئے ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قرآن اور سائنسی حقائق میں تعارض ہے!! دونوں رویے غلط ہیں ۔ اس کی سائنسی تفسیر یا قرآن سے اس کا مقابلہ کرنے سے قبل یہ چند اصول جو بنیادی ہیں، پیش نظر ہونے ضروری ہیں:
۱- جس آیت کی تفسیر کرنی ہو ، اس کا علوم عربیہ کے اعتبار سے مکمل گہرائی کے ساتھ جائزہ لیا جائے ۔ لغت کے اعتبار سے فروقِ لغویہ، اشتقاق اور وجوہ نظائر کا ملحوظ رکھنا ضروری ہے اور اس کے اعراب کے جائزہ کے لیے نحو وصرف کے اعتبار سے مکمل واقفیت مکمل اہمیت کا حامل ہے ۔
۲- اس کے معانی کا جائزہ: جس کے لیے فصاحت وبلاغت بیان و معانی کے اصول کو پیش نظررکھنا ضروری ہے ؛تاکہ کونسا لفظ کب حقیقت پر محمول کیا جاتا ہے اور کب مجاز پر اور پھرمجاز پر دلالت کرنے کے لیے کیا کیا اصول وضوابط ہیں ان کا جاننا بھی ضروری ہے ۔ یہ ایک انتہائی وسیع باب ہے جس کا احاطہ آسان نہیں ہے ، البتہ ناممکن بھی نہیں ۔ معلوم ہوا کہ قرآن کی سائنسی تفسیر کے لیے مفسر کا عربیت یعنی علومِ عربیہ پر مکمل دسترس اور مہارت حاصل کرنا شرطِ اول ہے ۔
۳- سائنسی تفسیر کرنے کے لیے اصولِ فقہ اوراصول ِتفسیر کی رعایت بھی انتہائی ضروری ہے؛ تا کہ آیت ِکریمہ سے جو استنباط ہو وہ درست ہو، اور اللہ کے مراد کے مطابق ہو ۔
۴- سائنسی تفسیر کے لیے مفسر کا علومِ قرآن سے واقف ہونا بھی ضروری ہے ، جس میں اسبابِ نزول ، ناسخ و منسوخ کا علم ، آیت اور سورت کا مکی یا مدنی ہونا ، قرأتِ قرآنیہ کے اختلاف کا علم، اس کے بغیر اللہ کی صحیح مراد کے قریب پہنچنا ممکن نہیں ہے ۔
۵- تفسیر ِقرآن کے صحیح طریقے کا جاننا بھی ضروری ہے : مثلاً تفسیر القرآن بالقرآن ،یعنی کونسی آیت کہاں تفصیل کے ساتھ اور کہاں اجمال کے ساتھ ہے ۔ تفسیر القرآن بالحدیث کس آیت کی تفسیر احادیثِ مبارکہ میں کیا ہے ؟ وغیرہ ۔ (جاری……)