عصری تقاضے اورتفسیری جواہر پارے

۱۲/ہویں قسط:                      انوار قرآنی:                                                    

                            

مولانا حذیفہ مولانا غلام محمد وستانوی

﴿مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ﴾

”جزا اور سزا کے دن کا مالک“

            امام بیضاوی نے ”مٰلک“ کا معنی بیان کرتے ہوئے فرمایا :

            المتصرف فی اعیان المملوکة کیف شاء۔”وہ ذات جو اپنی مملوکہ چیزوں میں جس طرح چاہے تصرف کرنے کی قدرت رکھتی ہو۔“

            یعنی اسے ایسا قبضہ حاصل ہو کہ اس کے تصرف کو نہ کوئی روک سکے اور نہ اسے ناجائز کہہ سکے۔

             اس آیتِ کریمہ میں پروردگار نے اپنے آپ کو جزا اور سزا کے دن کا مالک قرار دیا ہے؛ حالاں کہ اس دنیا اور دنیا کی ہر چیز اور پھر آنے والی دنیا اور اس کی ہر چیز کا بھی اللہ ہی مالک ہے، تو پھر بطورِ خاص اپنے آپ کو روزِ جزا کا مالک کہنے سے کیا مراد ہے؟

            بات یہ ہے کہ یوں تو پروردگار کائنات کے ذرے ذرے کا مالک ہے ،ہر چیز کو اسی کے حکم سے وجود ملا ہے،اسی کی عنایت سے اس کی زندگی وابستہ ہے اور ہر چیز کی بقا اللہ ہی کے رحم و کرم پر ہے؛ لیکن یہ اس کی حکمت ہے کہ اس نے مخلوقات کو کسی نہ کسی حد تک ملکیت کا حق دے رکھا ہے۔ جنگل کے جانور طاقت کے بل بوتے پر جس بھٹ،بِل یا آشیانے پر قبضہ کرلیں وہ اس کو اپنی ملک سمجھتے ہیں۔ اسی طرح انسان بھی بعض حوالوں سے بہت ساری چیزوں کو اپنی ملکیت خیال کرتا ہے اور شریعت نے بھی ہر جائز ملکیت کے حقوق تسلیم کیے ہیں؛ لیکن ایک تو یہ ملکیت چند روزہ ہے، زندگی کے خاتمے کے ساتھ ختم ہوجائے گی اور دوسری یہ بات کہ یہ ایک ناقص ملکیت ہے، اگر کامل ملکیت ہوتی تو قیامت کے دن اس کے بارے میں جواب دہی نہ کرنا پڑتی۔ پروردگار نے اس ناقص ملکیت کا بھی لحاظ فرمایا، اس لیے انسانی زندگی اور اس کے زیر ِتصرف چیزوں پر کامل ملکیت رکھنے کے باوجود بھی ملکیت کا ذکر نہیں فرمایا،بل کہ اپنے آپ کو”یوم الدین“ کا مالک کہا ،جس سے اشارہ اس جانب ہے کہ وہ دن ایسا ہوگا ،جس دن اللہ کی صفت عدالت پوری طرح ظہور میں آچکی ہوگی اور وہ ہر شخص کو عدالت کے کٹھرے میں بلا کر جواب طلبی کرے گا۔ اس دن ناقص ملکیت رکھنے والے جو اپنی محدود ملکیتوں پر ناز کرتے تھے، وہ اس کے سامنے دست بستہ کھڑے ہوں گے اور وہ بڑے بڑے حکمران ،جنھیں ان کے اقتدار نے فریب میں مبتلا کر رکھا تھا، اس کے سامنے سرجھکائے سہمے ہوئے ایستادہ ہوں گے۔ پھر وہ اس دن اعلان فرمائے گا کہ باوجود اس کے کہ دنیا میں بھی اصل ملکیت اور حکومت میری تھی اور میں فی الحقیقت مالک ہوتے ہوئے ہر چیز کا حکمران تھا؛ لیکن تم نے اپنی ناقص حکمرانی سے دھوکہ کھا کر میری حکمرانی کو نظر انداز کیا۔ آج بتاؤ وہ تمہاری حکمرانیاں کہاں گئیں اور آنکھیں کھول کے دیکھو کہ آج کس کی حکومت ہے کہ اس کے مقرب بندے بھی سر جھکائے کھڑے ہیں اور اس کے انبیا و رسل بھی زبان کھولنے کی ہمت نہیں کر پا رہے۔ اسی بارے میں قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا:

﴿ یَوْمَ ھُمْ بَارِزُوْنَ ج لاَ یَخْفٰی عَلَی اللہِ مِنْھُمْ شَیْءٌ ط لِمَنِ الْمُلْکَ الْیَوْمِ ط لِلّٰہِ الْوَاحِدِالقَھَّارo اَلْیَوْم تُجْزیٰ کُلُّ نَفْسٍ م بِمَا کَسَبَتْ ط لاَ ظُلْمَ الْیَوْمَ ط اِنَّ اللہ َ سَرِیْعُ الْحِسَابِ﴾۔

            ”جس دن سب لوگ (خدا کے) سامنے آموجود ہوں گے (کہ) ان کی کوئی بات خدا سے (صورةً) بھی مخفی نہ رہے گی‘ آج کے روز کس کی حکومت ہوگی؟ بس اللہ ہی کی ہوگی‘ جو یکتا اور غالب ہے۔ آج ہر شخص کو اس کے کیے کا بدلہ دیا جائے گا‘ آج کسی پر ظلم نہ ہوگا‘ اللہ تعالیٰ بہت جلد حساب لینے والے ہیں۔“(المومن )

            اس آیت ِکریمہ کا دوسرا لفظ ہے: ﴿یوم الدین﴾ ”جزا و سزا کا دن“۔

            اس لفظ پر غور کرتے ہوئے سب سے پہلی بات جو ذہن میں آتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ جزا اور سزا کا دن وہ ہوگا، جب اس دنیا کی بساط لپیٹ دی جائے گی اور ہم سب اللہ کی بارگاہ میں جواب دہی کے لیے کھڑے ہوں گے اور جہاں تک اس دنیا کا تعلق ہے، جس میں اب ہم رہ رہے ہیں، یہ جزا و سزا کا دن نہیں، یہ دار العمل ہے۔ یہاں ہمیں مہلت ِعمل میسر ہے ،تاکہ ہم آنے والے دن کی تیاری کرسکیں۔ یہاں جو کچھ ہم کریں گے، اس کا صلہ آنے والے دن میں پائیں گے نیکی کریں گے،تو اس کا صلہ اچھا ملے گا اور برائی کریں گے تو اس کے نتیجے میں برائی ملے گی۔ اس لیے اس دنیا میں ہر زندہ شخص کو یہ سوچ کر زندگی گزارنی ہے کہ یہاں میں صرف اعمال کا مکلف ہوں اللہ نے مجھ پر جو ذمہ داریاں عائد کی ہیں مجھے اپنی زندگی میں انھیں ادا کرنا ہے۔ وہ چاہے انفرادی ذمہ داریاں ہوں چاہے اجتماعی ذمہ داریاں، ان کی ادائیگی مجھ پر واجب ہے اور اسی حوالے سے کل کو مجھے جزا اور سزا ملے گی۔ آج کسی عمل کے بارے میں بھی مجھے یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ اسی دنیا میں مجھے اس کی جزا بھی ملے گی،اس بات کو سمجھ لینے سے آدمی ایک بڑی غلط فہمی سے بچ جاتا ہے۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ اگر کوئی نیکی کرنے والا شخص کسی مصیبت میں گرفتار ہوتا ہے تو وہ خود بھی اور اسے جاننے والے بھی اس غلط فہمی میں مبتلا ہونے لگتے ہیں کہ نیکی کا صلہ تو اللہ بہتر اجر کی صورت میں دیتا ہے، یہ نیک شخص آخر اس مصیبت میں مبتلا کیوں ہے۔

            اس سوچ کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یا تو اس نیک شخص کے بارے میں بدگمانی پیدا ہونے لگتی ہے اور یا اللہ کے بارے میں آدمی بدگمان ہوجاتا ہے کہ مذہب غلط کہتا ہے کہ نیکی کا صلہ اجر وثواب کی صورت میں ملتا ہے اور دنیا میں ایک اچھی زندگی عطا ہوتی ہے، اگر ایسا ہوتا تو نیک لوگ مصیبتوں میں مبتلا کیوں ہوتے۔

            اسی طرح اگر کوئی برا آدمی دولت میں کھیلتا ہے اور آئے دن اس کے کاروبار میں ترقی ہوتی ہے یا اس کا عہدہ و منصب بڑھتا ہے تو تب بھی لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہونے لگتے ہیں کہ اگر برائی کا نتیجہ برا ہوتا تو اس شخص کو یہ آسانیاں اور سہولتیں تو میسر نہیں آنی چاہئیں تھیں۔ اس لیے یہاں فرمایا گیا ہے کہ تم جس دنیا میں زندگی گزار رہے ہو یہ دار الجزاء نہیں، دارالعمل ہے۔ تمہارا کام یہاں اچھے سے اچھا عمل کرنا ہے،اس کی جزا تمہیں قیامت میں ملے گی۔ اس لیے اگر آج نیکی کی جزا نہیں مل رہی تو مایوسی کی کوئی وجہ نہیں اور اگر کسی کو گناہ یا ظلم کی سزا نہیں مل رہی تو اس میں بھی ظالم کی خوشی کا کوئی موقع نہیں؛ البتہ ایک بات اور سمجھ لینی چاہیے کہ بعض دفعہ یہاں کبھی نہ کبھی نیکی کا صلہ مل بھی جاتا ہے اور کبھی کسی مجرم کو دنیا ہی میں سزا سے بھی دوچار ہونا پڑتا ہے۔ اس کے بارے میں قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ دنیا میں کسی نیکی کا صلہ در حقیقت جزا نہیں؛ بل کہ نیکی کرنے والے کی حوصلہ افزائی ہے۔ اس کا تعلق قانون جزا سے نہیں بل کہ اللہ کے فضل و رحمت سے ہے۔ اسی طرح کسی بدعملی کی سزا کا ملنا وہ بھی حقیقت میں جزا اور سزا کے قانون کا ظہور نہیں، بل کہ محض متنبہ کرنے کے لیے ہوتا ہے جو اصل سزا اور عذاب ہوگا، وہ تو قیامت کے دن ہی ہوگا قرآن کریم نے اس کے بارے میں ہمیں بتایا ہے:

            ﴿وَلَنُذِیْقَنَّھُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰی دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَکْبَرِ لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ۔﴾

            ”یعنی ہم لوگوں کو (آخرت کے) بڑے عذاب سے پہلے (بعض اوقات) دنیا میں ایک عذاب چھوٹے عذاب قریب کا مزہ چکھا دیتے ہیں تاکہ وہ باز آجائیں۔“(سجدہ 32: 21)

            ﴿کَذٰلِکَ الْعَذَابُ ط وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَکْبَرُ م لَوْکَانُوْا یَعْلَمُوْنَ

             ”ایسا ہوتا ہے عذاب اور آخرت کا عذاب بہت بڑا ہے‘ کاش وہ سمجھیں۔“(قلم 28: 33)

            الغرض دنیا کی راحت و مصیبت بعض اوقات تو امتحان اور آزمائش ہوتی ہے اور کبھی عذاب بھی ہوتی ہے، مگر وہ عمل کا پورا بدلہ نہیں ہوتا، بل کہ ایک نمونہ ہوتا ہے؛ کیوں کہ یہ سب کچھ چند روزہ اور محض عارضی ہے۔ اصل بدلہ وہ راحت و کلفت ہے، جو ہمیشہ قائم رہنے والی ہے اور جو اس عالم سے گزرنے کے بعد عالم آخرت میں آنے والی ہے؛ اسی کا نام روز ِجزاء ہے اور جب یہ معلوم ہوگیا کہ نیک و بد عمل کا بدلہ یا پورا بدلہ اس دنیا میں نہیں ملتا اور عدل و انصاف اور عقل کا تقاضا ہے کہ نیک و بد اچھا اور برا برابر نہ رہے؛ بل کہ ہر عمل کی مکمل جزا یا سزا ملنی چاہیے۔

            اس لیے ضروری ہے کہ اس عالم کے بعد کوئی دوسرا عالم، ہو، جس میں ہر چھوٹے بڑے اور اچھے برے عمل کا حساب اور اس کی جزا یا سزا، انصاف کے مطابق ملے۔ اسی کو قرآن کی اصطلاح میں روز ِجزا یا قیامت یا آخرت کہا جاتا ہے۔ قرآن نے خود اس مضمون کو سورہٴ مومن میں وضاحت سے بیان فرمایا ہے۔

            ﴿وَمَا یَسْتَوِی الْاَعْمٰی وَالْبَصِیْرُ لا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَلَا الْمُسِیْٓءُ ط قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ۔ اِنَّ السَّاعَةَ لَاٰ تِیَةٌ لاَرَیْبَ فِیْھَا وَلٰکِنَّ اَکْثَرَالنَّاسِ لاَ یُوْمِنُوْنَ﴾(الموٴمن)

             ”یعنی بینا اور نابینا اور (ایک) وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے اچھے کام کیے اور (دوسرے) بدکردار؛ باہم برابر نہیں ہوسکتے۔ تم لوگ بہت ہی کم سمجھتے ہو‘ قیامت تو ضرور ہی آکر رہے گی (تاکہ ہر ایک عمل کا پورا بدلہ ہر عمل کرنے والے کو مل جائے) اس کے آنے میں کسی طرح کا شک ہے ہی نہیں، مگر اکثر لوگ نہیں جانتے“۔

            سورہٴ فاتحہ میں آخرت یا قیامت کو یوم الدین کے نام سے ذکر فرمایا گیا ہے، اس میں نزول ِقرآن کے وقت لوگوں کی ایک عام غلط فہمی کا ازالہ کرنا مقصود تھا، جس کا ذکر میں آگے چل کر کروں گا۔ سب سے پہلے آخرت کا تعارف کرانا چاہتا ہوں۔

آخرت کا تعارف:

            اسلامی عقائد کی آخری کڑی آخرت پر ایمان لانا ہے۔ قرآن پاک میں ایمان باللہ کے بعد اس کی اہمیت پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے؛ کیوں کہ موجودہ دنیا کے تمام اعمال اور ان کے نتائج کی اصلی اور دائمی بنیاد اسی آئندہ دنیا کے گھر کی بنیاد پر قائم ہے؛ اگر یہ بنیاد متزلزل ہوجائے تو اعمال ِانسانی کے نتائج کا ریشہ ریشہ بیخ و بن سے اکھڑ جائے۔ قرآن کریم نے اسے الیوم الآخر یا آخرت کے نام سے تعبیر کیا ہے۔ مراد اس سے آخرت کا گھر یا آخرت کی زندگی ہے۔

            عربی میں طریقہ یہ ہے کہ اوصاف کو موصوف کا قائم مقام کر کے اکثر موصوف کو حذف کردیتے ہیں۔ اس طریقے کے مطابق قرآن کریم نے ”ا لآخرت“ کا لفظ استعمال کیا ہے جو ”الحیاة“ یا ”الدار“ کی صفت ہے، مراد اس سے آخرت کا گھر یا آخرت کی زندگی ہے۔ قرآن پاک میں تقریباً 113 مقامات پر یہ لفظ انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ الآخر یا آخرت کا معنی ہے پچھلی زندگی یا پچھلا گھر یا پچھلی دنیا۔ اس پچھلی دنیا سے مراد موت کے بعد کی دنیا ہے، جسے قرآن کریم نے دو دوروں میں تقسیم کیا ہے،پہلے دور سے مرادموت سے لے کر قیامت تک کا دور ہے اور دوسرے دور سے مراد قیامت سے لے کر ابد تک کا دور، جس میں پھر موت اور فنا نہیں۔ پہلے دورکا نام برزخ ہے اور دوسرے دور کا نام بعث بعد الموت یا حشر و نشر اور قیامت ہے اور ان کے معنی جی اٹھنے‘ اکٹھے کیے جانے اور کھڑے ہونے کے ہیں، ان سب سے مقصود ایک ہی حقیقت کی طرف اشارہ ہے اور وہ موجودہ دنیا کے خاتمے کے بعد دوسری دنیا کی زندگی ہے؛ جسے قرآن کریم میں الدار الآخرة اور عقبی الدار وغیرہ کے ناموں سے یاد کیا گیا ہے۔ 

(تفسیر روح القرآن:ج/ ص:۸۴تا۸۷)               

    (جاری…)