عصری تقاضے اورتفسیری جواہر پارے

انوار قرآنی:                                                                                 دسویں قسط:

 

مولانا حذیفہ مولانا غلام محمد وستانوی#

            ”الرحمن الرحیم کی تفسیرشروع کرنے سے قبل تفسیر روح القرآن کے حوالے سے لفظ”رب“پر نہایت عمدہ وضروری تفسیر“

معرفتِ رب کا اصل ذریعہ :

             اس سورہٴ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے کمزور بندوں کے لیے اپنی معرفت کا راستہ کھولا ہے۔ پہلے اپنے اسم ذات کو ذکر فرمایا اس کے بعد اس کی معرفت کے لیے تین صفات بیان فرمائیں؛ جن میں پہلی صفت ”ربوبیت“ ہے۔ لیکن اسے ایک اسم کے طور پر بیان فرمایا جا رہا ہے۔ اس لیے فرمایا: اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔

رب کی معنوی وسعت:

            ” رَبّ“ دراصل مصدر ہے جو فاعل کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے اس کے معنی میں انتہا درجے کا مبالغہ پیدا ہوگیا ہے؛ چناچہ جب ہم اس کی معنوی وسعت پر غور کرتے ہیں ،تو عقل حیران رہ جاتی ہے۔ اس کی وسعت کمیت کے اعتبار سے بھی ہے اور کیفیت کے اعتبار سے بھی؛ جہاں تک کمیت کا تعلق ہے تو وہ ذات جو رب ہے، وہ حقیقت میں رب العالمین ہے اور عالمین کا شمار کسی انسانی عقل کے بس میں نہیں۔ اس کی مخلوقات میں سے جو مخلوقات ہمارے سامنے ہیں اور جن میں سے ہر مخلوق کو ربوبیت کا فیضان پہنچ رہا ہے، ان میں سے صرف خشکی کی مخلوقات کو شمار کیا جائے تو یہ بھی ممکن نہیں۔ چہ جائیکہ سمندر کی مخلوقات‘ آسمانوں کی مخلوقات‘ پہاڑوں کی مخلوقات اور ان جہانوں کی مخلوقات جن کے ناموں سے تو ہم کسی حد تک واقف ہیں؛ لیکن ان کی حقیقت سے واقف نہیں۔ ان کا شمار کون کرسکتا ہے اور پھر اگر ایک ایک چیز کو غور سے دیکھا جائے مثلاً ایک درخت کے اندر جڑ‘ تنا‘ چھلکا‘ گودا‘ پھول‘ پھل‘ شاخ‘ پتوں کے اندر رنگ و روغن پھر تاثیر اور مزا اور پھر ان کی شکل و صورت۔ ان تمام کے اندر ایک جہانِ معنی موجود ہے جو ربوبیت کے فیضان کا اظہار کر رہا ہے۔ مگر اس کی حقیقت تک پہنچنا آسان نہیں۔

ربوبیت کا معنی ،مطلب اور حسی مثالیں:

            اسی طرح خود انسان کو اپنے جسم‘ جسم کے مختلف اعضاء، اعضاء کے اندر مختلف اعصاب اور پھر ہر ایک کی الگ الگ غذا۔ ان پر ہی غور کیا جائے تو حیرت واستعجاب کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ اسی طرح جہاں تک اس ربوبیت کی کیفیت کا تعلق ہے وہ صرف ایسا نہیں کہ محض پرورش کا جاری وساری عمل ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ بعض آئمہِ لغت نے اس کی تعریف میں یہ جو بات کہی ہے وہ حرف بحرف صحیح ہے کہ ربوبیت کی تعریف یہ ہے: ”ھوانشاء الشئ حالاً فحالاً الی حد التمام“ یعنی کسی چیز کو یکے بعد دیگرے اس کی مختلف حالتوں اور ضرورتوں کے مطابق اس طرح نشو و نما دیتے رہنا کہ وہ اپنی حد کمال تک پہنچ جائے۔ اگر ایک شخص بھوکے کو کھانا کھلا دے یا کسی محتاج کو روپیہ دے دے تو یہ اس کا کرم ہے، جود ہے، احسان ہے، لیکن وہ بات نہیں جسے ربوبیت کہتے ہیں، ربوبیت کے لیے ضروری ہے کہ پرورش اور نگہداشت کا ایک جاری اور مسلسل اہتمام ہو اور ایک وجود کو اس کی تکمیل و بلوغ کے لیے وقتاً فوقتاً جیسی کچھ ضرورتیں پیش آتی رہیں، ان سب کا سروسامان ہوتا رہے۔ نیز ضروری ہے کہ یہ سب کچھ محبت و شفقت کے ساتھ ہو؛ کیونکہ جو عمل محبت و شفقت کے جذبہ سے خالی ہوگا ربوبیت نہیں ہوسکتا۔ ربوبیت کی ایک ادنیٰ مثال ہم اس پرورش میں دیکھ سکتے ہیں جس کا جوش ماں کی فطرت میں ودیعت کیا گیا ہے۔ مثلاً جب بچے کا معدہ دودھ کے سوا کسی غذا کا متحمل نہیں ہوتا تو اسے دودھ ہی پلایا جاتا ہے۔ اور جب دودھ سے زیادہ قوی غذا کی ضرورت ہوئی تو ویسی ہی غذا دی جانے لگی۔ جب اس کے پاؤں میں کھڑے ہونے کی سکت نہ تھی تو ماں اسے گود میں اٹھائے پھرتی تھی۔ جب کھڑا ہونے کے قابل ہوا تو انگلی پکڑ لی اور ایک ایک قدم چلانے لگی۔

مجازی ربوبیت اور ربوبیت الہیہ کا موازنہ:

            پس یہ بات کہ ہر حالت اور ضرورت کے مطابق ضروریات مہیّا ہوتی رہیں اور نگرانی و حفاظت کا ایک مسلسل اہتمام جاری رہے۔ یہ وہ صورت حال ہے جس سے ربوبیت کے مفہوم کا تصور کیا جاسکتا ہے۔ مجازی ربوبیت کا یہ ناقص اور محدود عملی نمونہ سامنے رکھیے اور پھر ربوبیتِ الٰہی کی غیر محدود حقیقت کا تصور کیجیے، تو اس کا رب العالمین ہونے کا معنی یہ ہوا کہ جس طرح اس کی خالقیت نے کائناتِ ہستی اور اس کی ہر چیز پیدا کی ہے؛ اسی طرح اس کی ربوبیت نے ہر مخلوق کی پرورش کا سروسامان بھی کردیا ہے اور یہ پرورش کا سامان ایک ایسے عجیب و غریب نظام کے ساتھ ہوا ہے کہ ہر وجود کو زندگی اور زندگی کی بقا کے لیے جو کچھ مطلوب تھا وہ سب کچھ مل رہا ہے اور اس طرح مل رہا ہے کہ ہر حالت کی رعایت ہے‘ ہر ضرورت کا لحاظ ہے۔ ہر تبدیلی کی نگرانی ہے اور ہر کمی بیشی ضبط میں آچکی ہے۔

تقاضہٴ ربوبیت:

            پھر اسی ظاہری نظام ربوبیت پر بس نہیں بلکہ اس کی ربوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ اس نے انسان کے لیے صرف اسبابِ معیشت ہی پیدا نہیں کیے بلکہ ان سے فائدہ اٹھانے اور انھیں بروئے کار لانے کے لیے جس صلاحیت کی ضرورت تھی، وہ بھی عطا کی ؛ کیونکہ خارج میں زندگی اور پرورش کا کتنا ہی سرو سامان کیا جاتا وہ کچھ مفید نہ ہوتا، اگر ہر وجود کے اندر اس سے کام لینے کی ٹھیک ٹھیک استعداد نہ ہوتی، اور اس کے ظاہری اور باطنی قویٰ اس کا ساتھ نہ دیتے۔ ربو بیت کے اس پہلو پر جتنا بھی غور کیا جائے نئی نئی حقیقتیں منکشف ہوتی جاتی ہیں۔

کفار کواللہ کی صفت ِ ربوبیت میں کوئی شبہ نہیں تھا:

            لیکن قرآن پاک کے نزول اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت جن لوگوں سے آپ کو واسطہ پڑا وہ اللہ تعالیٰ کے خالق ومالک ہونے‘ رازق اور پروردگار ہونے کے منکر ہرگز نہیں تھے۔ انھیں اللہ کی صفت ِربوبیت میں کوئی شبہ نہیں تھا۔ وہ جانتے تھے کہ ہماری زندگی کی تمام ضروریات حتیٰ کے اس کے امکانات بھی اسی ذات کے ہاتھ میں ہیں، جسے رب العلین کہا جاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت سے انھیں شدید انکار تھا۔ انھوں نے آپ کا راستہ روکنے کے لیے کسی بھی ممکن تصادم سے گریز نہیں کیا۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ دعوتِ پیغمبری کے ساتھ ان کی مخالفت کی وجہ کچھ اور تھی۔ جب ہم قرآن ِحکیم میں غور کرتے ہیں تو ہمیں ان کے عقائد و اعمال میں دو بنیادی گمراہیوں کا سراغ ملتا ہے اور یہ گمراہیاں نئی نہیں؛ بلکہ زمانہء قدیم سے تمام گمراہ قوموں میں پائی جاتی رہیں۔ ایک طرف فوق الطبیعی ربوییت والہٰیت میں وہ اللہ کے ساتھ دوسرے الٰہوں اور ارباب کو شریک ٹھہراتے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ سلسلہ اسباب پر جو حکومت کار فرما ہے، اس کے اختیارات و اقتدارات میں کسی نہ کسی طور پر ملائکہ اور بزرگ انسان اور اجرام فلکی وغیرہ بھی دخل رکھتے ہیں۔ اسی بناء پر دعا اور استعانت اور مراسمِ عبودیت میں وہ صرف اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع نہیں کرتے تھے، بلکہ ان بناوٹی خداؤں کی طرف بھی رجوع کیا کرتے تھے۔

 کفار تمدنی و سیاسی رب اپنے پیشواؤں کو خیال کرتے تھے:

             دوسری طرف تمدنی و سیاسی ربوبیت کے باب میں ان کا ذہن اس تصور سے بالکل خالی تھا کہ اللہ تعالیٰ اس معنی میں بھی رب ہے۔ اس معنی میں وہ اپنے مذہبی پیشواؤں  اپنے سرداروں اور اپنے خاندان کے بزرگوں کو رب بنائے ہوئے تھے اور انہی سے اپنی زندگی کے قوانین لیتے تھے۔

اسی گمراہی کودور کرنے کے لیے انبیاء علیہم السلام کی بعثت ہوئی:

             اسی گمراہی کو دور کرنے کے لیے ابتداء سے انبیا آتے رہے ہیں اور اسی کے لیے آخر کار محمد ﷺ کی بعثت ہوئی۔ ان سب کی دعوت یہ تھی کہ رب کے ہر مفہوم کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی ذات ِحقیقی رب ہے اور اس کی یہ ربوبیت ناقابل تقسیم ہے۔ اس کا کوئی جز کسی معنی میں بھی کسی دوسرے کو حاصل نہیں ہے۔

            کائنات کا نظام ایک کامل مرکزی نظام ہے جس کو ایک ہی خدا نے پیدا کیا، جس پر ایک ہی خدا فرمانروائی کر رہا ہے۔ جس کے سارے اختیارات و اقتدارات کا مالک ایک ہی خدا ہے۔ نہ اس نظام کے پیدا کرنے میں کسی دوسرے کا کچھ دخل ہے  نہ اس کی تدبیر و انتظام میں کوئی شریک ہے اور نہ اس کی فرمانروائی میں کوئی حصہ دار ہے۔ مرکزی اقتدار کا مالک ہونے کی حیثیت سے وہی اکیلا خدا تمہارا فوق الفطری رب بھی ہے اور اخلاقی و تمدنی اور سیاسی رب بھی۔ وہی تمہارا معبود ہے، وہی تمہارے سجدوں اور رکوعوں کا مرجع ہے۔ وہی تمہاری دعاؤں کا ملجاو ماویٰ، وہی تمہارے توکل و اعتماد کا سہارا، وہی تمہاری ضرورتوں کا کفیل اور اسی طرح وہی بادشاہ ہے۔ وہی مالک الملک، وہی شارع و قانون ساز اور امرونہی کا مختار کل بھی ہے۔ ربوبیت کی یہ دونوں حیثیتیں جن کو جاہلیت کی وجہ سے تم نے ایک دوسرے سے الگ ٹھیرالیا ہے حقیقت میں خدائی کا لازمہ اور خدا کے خدا ہونے کا خاصہ ہیں۔ انھیں نہ ایک دوسرے سے منفک کیا جاسکتا ہے اور نہ ان میں سے کسی حیثیت میں بھی مخلوقات کو خدا کا شریک ٹھیرانا درست ہے۔

 اس دعوت کو قرآن جس طریقہ سے پیش کرتا ہے وہ خود اسی کی زبان سے سُنیے۔

 قرآن میں رب کا تصور :

            ﴿ اِنَّ رَبَّکُمُ الَّلہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّہِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ قف یُغْشِی الَّیْلَ اَلنَّھَارَ یَطْلُبُہ حَثِیْثًا لا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمَ مُسَخَّرَاتٍ م بِاَمْرِہ ط اَلاَ لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُط تَبٰرَکَ الّٰلہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ﴾ (الاعراف: 7۔ 54)

            ترجمہ: ”حقیقت میں تمہارا رب اللہ ہے جس نے آسمان و زمین کو چھ دن میں پیدا کیا اور پھر اپنے تخت ِسلطنت پر جلوہ افروز ہوگیا ،جو دن کو رات کا لباس اڑھاتا ہے اور پھر رات کے تعاقب میں دن تیزی کے ساتھ دوڑ آتا ہے  سورج اور چاند اور تارے سب کے سب جس کے تابع ِفرمان ہیں سنو! خلق اسی کی ہے اور فرمانروائی بھی اسی کی۔ بڑا بابرکت ہے وہ کائنات کا رب۔“

            ﴿ قُلْ مَنْ یَّرْزُقُکُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ اَمَّنْ یَّمْلِکُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَمَنْ یُّخْرِجُ الحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَیُخْْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ وَمَنْ یُّدَبِّرُالْاَمْرَط فَسَیَقُوْلُوْنَ الّٰلہُ ج فَقُلْ اَفلَاَ تَتَّقُوْنَ۔ فَذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمُ الْحَقُّ ج فَمَاذَا بَعْدَالْحَقِّ اِلاَّالضَّلٰلُ ج فَاَنّٰی تُْصرَفُوْنَ۔ (یونس: 32۔ 31)

            ترجمہ: ”ان سے پوچھو! کون تم کو آسمان و زمین سے رزق دیتا ہے؟ کانوں کی شنوائی اور آنکھوں کی بینائی کس کے قبضہ و اختیار میں ہے؟ کون ہے جو بیجان کو جاندار میں سے اور جاندار کو بیجان میں سے نکالتا ہے؟ اور کون اس کار گاہ عالم کا انتظام چلا رہا ہے؟ وہ ضرور کہیں گے اللہ۔ کہو! پھر تم ڈرتے نہیں ہو؟ جب یہ سارے کام اسی کے ہیں تو تمہارا حقیقی رب اللہ ہی ہے۔ حقیقت کے بعد گمراہی کے سوِا اور کیا رہ جاتا ہے؟ آخر کہاں سے تمہیں یہ ٹھوکر لگتی ہے کہ حقیقت سے پھرے جاتے ہو؟“

            ﴿ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ ج یُکَوِّرُالَّیْلَ عَلَی النَّھَارِ وَیُکَوِّرُالَّنھَارَ عَلَی الَّیْلِ وَسَخَّرَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ط کُلٌّ یَّجْرِیْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّی… ذٰلِکُمُ اللُّہُ رَبُّکُمْ لَہُ الْمُلْکُ ط لَآ اِلٰہَ اِلاَّہُوَ ج فَاَنّٰی تُصْرَفُوْنَ﴾۔ (الزمر: 5۔ 6)

            ترجمہ: ”اس نے زمین و آسمانوں کو برحق پیدا کیا ہے۔ رات کو دن پر اور دن کو رات پر وہی لپیٹتا ہے۔ چاند اور سورج کو اسی نے ایسے ضابطے کا پابند بنایا ہے کہ ہر ایک اپنے مقررہ وقت تک چلے جا رہا ہے…. یہی اللہ تمہارا رب ہے بادشاہی اسی کی ہے اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ آخر یہ تم کہاں سے ٹھوکر کھا کر پھرے جاتے ہو؟“

            ﴿ اللّٰہُ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الَّیْلَ لِتَسْکُنُوْا فِیْہِ وَالنَّھَارَ مُبْصِرًا ط۔۔۔ ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ خَالِقُ کُلِّ شَیْ ءٍ م لَآاِلٰہَ اِلاَّ ھُوَ ز ج فَاَنّٰی تُوْفَکُوْنَ۔۔۔ اَللّٰہُ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ قَرَارًا وَّالسَّمَآءَ بِنَآءً وَّ صَوَّرَکُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَکُمْ وَرَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ ط ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ ج فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَیِمْنَ ھُوَالْحَیُّ لَآاِلٰہَ اِلاَّ ھُوَفَادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ﴾ (المومن: 61۔ 65)

            ترجمہ: ”اللہ وہ ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی کہ اس میں تم سکون حاصل کرو۔ اور دن کو روشن کیا…وہی تمہارا اللہ، تمہارا رب ہے  ہر چیز کا خالق وہی اور معبود اس کے سوا نہیں  پھر یہ کہاں سے دھوکا کھا کر تم بھٹک جاتے ہو؟…اللہ جس نے تمہارے لیے زمین کو جائے قرار بنایا  آسمان کی چھت تم پر چھائی  تمہاری صورتیں بنائیں اور خوب ہی صورتیں بنائیں اور تمہاری غذا کے لیے پاکیزہ چیزیں مہیا کیں  وہی اللہ تمہارا رب ہے۔ بڑا بابرکت ہے وہ کائنات کا رب۔ وہی زندہ ہے کوئی اور معبود اس کے سوا نہیں اسی کو تم پکارو اپنے دین کو اس کے لیے خالص کر کے۔“

 یہود و نصاریٰ کا تصور رب :

             ان تمام آیات پر غور کیجئے صاف معلوم ہوتا ہے کہ قرآن ِکریم کا سارا زور اس بات پر ہے کہ تم نے پروردگار کو صرف اپنا پالنے والا اور ضروریات مہیا کرنے والا سمجھ رکھا ہے۔ لیکن اس کے اختیارات اور اس کی صفات میں تم اسے یکتا ماننے کے لیے تیار نہیں ہو اور مزید تم یہ سمجھتے ہو کہ اللہ کو کسی بھی حیثیت سے زبان سے یاد کر لینایا اس سے دعائیں مانگ لینا یا اس سے مناجاتیں کرلینا اور کبھی کبھی اس کے سامنے سرِ نیاز جھکا دینا، اس کے ماننے کے لیے کافی ہے اور رہی یہ بات کہ رب کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ وہی امرونہی کا مختار اقتدار اعلیٰ کا مالک ہدایت و رہنمائی کا منبع قانون کا ماخذ اور مملکت کا رئیس ہوتا ہے۔ یہ بات تمہیں قبول نہیں اور یہی تمہاری گمراہیوں کی بنیاد ہے۔ چونکہ یہود و نصاریٰ باوجود اس کے کہ اپنے آپ کو اہل کتاب کہتے تھے اسی گمراہی کا شکار تھے۔ انھوں نے اپنے اہل علم اور دینی رہنماؤں کو زندگی کی مکمل راہنمائی کا حق د ے دیا تھا اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ انھیں حلت و حرمت کا اختیار حاصل ہے۔ قرآن ِکریم نے ان پر تنقید فرماتے ہوئے فرمایا کہ تم نے اپنے دینی راہنماؤں کو یہ اختیار دے کر انھیں اپنا رب تسلیم کرلیا ہے۔ کیونکہ یہ اختیارات رب کو ہی زیب دیتے ہیں اور جس کو بھی یہ اختیارات تفویض کردیئے جائیں وہ ربوبیت کے منصب پر فائز ہوجاتا ہے۔ اس لیے تم اگر اللہ کو رب مانتے ہو تو اس کی ربوبیت کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ جس کی تربیت کے فیض سے تم زندگی کا سرو سامان پا رہے ہو اسی کو اپنا حاکم ومالک اور الٰہ سمجھو۔ اور زندگی میں رہنمائی کے اختیار کا مالک اور حسن و قبح کا معیار اسی کو جانو۔ اسی کے دیئے ہوئے قانون (شریعت) کو حرف آخر سمجھو، اسی کو حاکم حقیقی سمجھ کر اپنی حکومت اور حکمرانی کو اس کی اطاعت میں دے دو،اپنی ہر پالیسی اسی کی روشنی میں طے کرو۔ اسی کے رسول کو شخصیت سازی کے لیے آئیڈیل بناؤ‘ اسی کی زندگی کے اطوار اور اسی کے ذوق و مزاج سے تہذیب و ثقافت اخذ کرو۔

اللہ صرف رب نہیں رب العالمین ہے:

             یہ بھی ذہن نشین کرلو کہ وہ صرف رب نہیں بلکہ﴿رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ﴾ہے۔ اسی کی ربوبیت کا فیض سب کو برابر پہنچ رہا ہے۔ اسی کا سورج سب کو روشنی دے رہا ہے، اسی کا چاند سب کے لیے حلاوت بانٹ رہا ہے۔ اسی کی زمین سب کے لیے بچھونا بنائی گئی ہے، اسی کی روئیدگی کے خزانے سب کے لیے وقف ہیں۔ اس کی ہوا اور پانی صرف امیروں کے لیے نہیں، غریبوں کے لیے بھی ہیں۔ اسی کے مون سون کا فیض جس طرح جاگیرداروں کو پہنچتا ہے، اسی طرح غریب کسان اور ایک شودر کے آنگن اور کھیت کو بھی فیضیاب کر رہا ہے۔ تم نے جو انسانوں میں طبقات پیدا کردیئے ہیں اور انسانوں کو مختلف درجات میں تقسیم کردیا ہے۔ یہ اللہ کی صفت ربوبیت کے یکسر خلاف ہے۔ اگر تم واقعی اپنے پروردگار کو رب العالمین سمجھتے ہو تو اپنی اصلاح کرو اور ایک رب سے وہ تعلق پیدا کرو، جو بندہ اور آقا کے درمیان ہوتا ہے۔

کیا پروردگار کی اپنے بندوں سے کوئی ضرورت متعلق ہے؟

             ہر غور و فکر کرنے والے کی نظر جب تمام مخلوقات پر عموماً اور نوع انسانی پر خصوصاً پروردگارِ عالم کے فیضان ربوبیت کے حوالے سے پڑتی ہے تو وہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ تربیت کا یہ ہمہ گیر اور ہمہ جہت فیضان جس کی وسعت اور گہرائی کا اندازہ کرنا بھی کسی کے لیے ممکن نہیں کا آخر سبب کیا ہے؟ ہمارے جسموں کو پروان چڑھایا جا رہا ہے، ہمارے دل و دماغ کی صلاحیتوں کو جلا بخشی جا رہی ہے، ہمارے احساسات میں گہرائی اور ہمارے انفعالات میں شائستگی اور پاکیزگی ودیعت کی جارہی ہے، ہمارے ماحول کو ہمارے لیے سازگار اور ضرورتوں اور نعمتوں سے گراں بار کیا جا رہا ہے۔ کیا پروردگار کی اپنے بندوں سے کوئی ضرورت متعلق ہے، جس کے لیے انھیں پروان چڑھایا جا رہا ہے، جس طرح ریوڑ کا مالک اپنی بھیڑوں‘ بکریوں کی حفاظت کرتا ہے اور انھیں غذا فراہم کرتا ہے؛ تاکہ ان کے دودھ اور گوشت پوست سے فائدہ اٹھائے۔ باربرداری کے جانور اس لیے پالے جاتے ہیں تاکہ ان کا مالک ان سے باربرداری کا کام لے سکے۔ گھوڑوں کی پرورش میں جان کھپائی جاتی ہے تاکہ وہ سواری اور جنگی ضرورتوں میں کام آئیں۔ کسان اپنی کھیتی کی دیکھ بھال میں شب و روز محنت کرتا ہے تاکہ غذائی ضرورتوں کو پورا کرسکے۔ کیا ہمارے پروردگار کی بھی ہم سے کوئی ایسی ضرورت وابستہ ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسا خیال، تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ جس ذات کے اشارے سے ہر چیز کو وجود ملتا اور ہر وجود کی ضرورتیں مہیا ہو رہی ہیں اسے ہم جیسے ناچیز ذروں سے کیا حاجت ہوسکتی ہے۔

بے پناہ پروردگاری کی وجہ:

             یا پھر دوسری صورت یہ ہے کہ ہمارا کوئی حق اللہ کے ذمہ ہو جس کی ادائیگی کے لیے کائنات کا ایک ایک ذرہ شب و روز مصروفِ عمل ہے۔ ظاہر ہے ایسی کوئی بات بھی ممکن نہیں۔ کیونکہ ہمارا تو وجود ہی پروردگار کا مرہون منت ہے کسی طرح کا کوئی حق کس طرح اس کے ذمے ہوسکتا ہے۔ جب تک ہم پر عدم طاری تھا تو کسی استحقاق کا سوال خلافِ عقل اور خلاف ِفطرت تھا اور جب عدم سے نکل کر وجود میں آئے تو وجود دینے والے کے حقوق ہمارے ذمے عائد ہوگئے کیونکہ وہ خالق ٹھہرا۔ اس کے بعد فیضان ربوبیت کی بارش شروع ہوئی تو ہم اس کے حقوق سے گراں بار ہوتے گئے۔ مختصر یہ کہ ان دونوں باتوں میں سے کوئی بات بھی نہیں ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ اس بے پناہ پروردگاری کی وجہ آخر کیا ہے؟ قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ رحمان اور رحیم ہے اس کی رحمانیت کا جوش ہے کہ اس نے ہمیں وجود بخشا اور یہ اس کی رحیمیت کا فیض ہے کہ وہ برابر ہماری دیکھ بھال کر رہا ہے۔ اس لیے یہاں ربوبیت کے بعد صفت رحمت کا ذکر فرمایا جا رہا ہے۔(جاری…)