(مقالہ:دس روزہ تربیتی پروگرام برائے اساتذہٴ مدارس (12- 21/ جنوری 2010ء)مرکز پیشہ وارانہ فروغ برائے اساتذہ ٴ اردو ذریعہٴ تعلیم، مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی، حیدرآباد۔زیر اہتمام: جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم، ضلع نندربار، مہاراشٹر)
مقالہ نگار: مفتی محمد جعفر ملی# رحمانی#
صدر دار الافتا ء جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا
الحمد للّٰہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونوٴمن بہ ونتوکل علیہ، ونعوذ باللّٰہ من شرور أنفسنا ومن سیاٰت أعمالنا، من یہد اللّٰہ فلا مضل لہ، ومن یضلل فلا ہادي لہ، ونشہد أن سیدنا ومولانا محمدًا عبدہ ورسولہ، فأعوذ باللّٰہ من الشیطان الرجیم۔ بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم:
﴿اقرأ باسم ربک الذي خلقo خلق الإنسان من علقo اقرأ وربک الأکرمoالذي علم بالقلمo علم الإنسان ما لم یعلمo﴾۔ (سورة العلق:۱-۵)
وقال تعالی: ﴿واللّٰہ أخرجکم من بطون أمہاتکم لا تعلمون شیئًا وجعل لکم السمع والأبصار والأفئدة لعلکم تشکرونo﴾۔ (سورة النحل: ۷۸)
محترم عالی جناب پروفیسر شاہ محمد مظہر الدین صاحب فاروقی، آپ کے دیگر رفقا اور معزز سامعین!
میرے مقالہ کا عنوان ہے ”عصری تعلیم کی افادیت اسلامی ماحول میں“۔میں اپنے اس مقالہ میں پہلے عصری تعلیم کی اباحت وعدمِ اباحت کے سلسلے میں سماج میں موجود؛دو فکری دھاروں اور ان کی دلائل (Prooff)کاتفصیل کے ساتھ ذکر کروں گا۔ پھر ان دلائل (پروف) کے تجزیہ وتنقیہ کے بعد عصری تعلیم کی اباحت اوراسلامی ماحول میں اس کی افادیت سے متعلق کچھ باتیں گوش گزار کروں گا۔ کیوں کہ اسلامی نقطہٴ نگاہ سے کسی بھی شی ٴ کی افادیت پر کلام اسی وقت صحیح ہوسکتا ہے، جب کہ شرعاً اس کی اباحت بھی موجود ہو۔ ورنہ حرمت وممانعت کے ساتھ کسی بھی شی ٴ کی افادیت ونافعیت خواہ کتنی بھی ہو،معتبر نہیں ہوا کرتی۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿یسئلونک عن الخمر والمیسر قل فیہمآ إثم کبیر ومنافع للناس وإثمہمآ أکبر من نفعہما﴾ (لوگ) آپ سے شراب اور قمار کی بابت دریافت کرتے ہیں، آپ کہہ دیجیے کہ ان میں بڑاگناہ ہے اور لوگوں کے لیے فائدے بھی ہیں۔اور ان کا گناہ اُن کے فائدوں سے کہیں بڑھا ہوا ہے۔
(سورة البقرة:۲۱۹)
ایک ضروری وضاحت:
میرے اس مقالہ کا پیغام مدرِک حضرات ہی سمجھ سکتے ہیں، مسبوق اور لاحق نہیں۔یعنی وہ افراد واشخاص جو از اول تا آخر بغور اسے سماعت کریں گے اور جو شخصیات؛ مقالہ کا کچھ حصہ گزر جانے کے بعد شریکِ اجلاس ہوں یا ابتداء ً تو شریک رہے ہوں، مگر درمیان میں اپنی کسی ضرورت سے تشریف لے گئے ہوں، وہ مقالہ کے مدعا اور مقصود کو نہیں سمجھ سکتے۔اس لیے درخواست ہے کہ تمام ہی حضرات بحیثیتِ مدرک مقالہ کے اختتام تک شریکِ مجلس رہیں۔فجزاکم اللہ أحسن الجزاء!
محترم سامعین! آج کل مسلم معاشرے میں دینی وعصری تعلیم کے سلسلے میں دو طرح کے نظریے پائے جاتے ہیں اور یہ دونوں نظریے افراط وتفریط پر مبنی ہیں۔
(۱)… مسلم معاشرہ وسماج میں ایک طبقہ وہ ہے جو محض دینی تعلیم ہی کو روشن مستقبل کا ضامن سمجھتا ہے، قطعِ نظر عصری تعلیم کے۔
(۲) … جو صرف عصری تعلیم ہی کو سب کچھ سمجھتا ہے۔ بل کہ بعضے نام نہاد، دانشورانِ قوم تو یہ تک کہہ گئے کہ:”ہمارا مستقبل اسی وقت روشن ہوگا، جب اس قوم میں ماہر ڈاکٹرس، انجنیئرس، آفیسرس، ججز اور سائنٹسٹ پیدا ہوں گے، صرف علما وفضلا تیار کرنے سے بات بننے والی نہیں ہے۔“
۱/…پہلا طبقہ اپنے نظر وفکر کے لیے ان دلائل کا سہارا لیتا ہے:
(۱) ارشادِ خداوندی ہے:﴿ولو أنہم اٰمنوا واتقوا لفتحنا علیہم برکٰت من السمآء والأرض﴾ اور اگر بستیوں والے ایمان لے آئے ہوتے اور پرہیز گاری اختیار کی ہوتی، تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتیں کھول دیتے۔(سورة الأعراف:۹۶)
اس آیت سے پتا چلا کہ مسلمانوں کو عصری علوم کی قطعاً ضرورت نہیں۔ کیوں کہ مسلمانوں کا روشن مستقبل، وجود وبقا، عزت وسرخ رُوئی، فلاح وترقی، ایمان، علمِ شرعی، عملِ صالح، تقویٰ وطہارت اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت پر موقوف ہے، نہ کہ دنیوی علوم پر۔بل کہ دنیوی علوم پر ”علوم“ کا اطلاق ہی غلط ہے۔
(۲) ارشادِ باری تعالیٰ ہے:﴿وأنتم الأعلون إن کنتم موٴمنین﴾۔ تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن رہے۔ (سورة آل عمران:۱۳۹)
یعنی ہماری عزت وسرخ رُوئی، رفعت وبلندی، فنا وبقا ایمانِ کامل کے ساتھ مشروط ہے۔
(۳) نیز ارشادِ خداوندی ہے:﴿وتلک القریٰ أہلکنٰہم لما ظلموا وجعلنا لمہلکہم موعِدًا﴾ اور یہ بستیاں وہ ہیں جنہیں ہم نے ہلاک کرڈالا، جب انہوں نے ظلم کیا اور ہم نے ان کی ہلاکت کے لیے ایک وقت متعین کیا تھا۔(سورة الکہف:۵۹)
پتا چلا کہ ہلاکت وبربادی، ذلت ونکبت اورپستی وپس ماندگی کا سبب ظلم وزیادتی ہے، نہ کہ علومِ عصریہ سے عدمِ واقفیت۔
(۴) ارشادِ باری تعالیٰ ہے:﴿ہو یحیي ویمیت﴾وہی زندگی اور موت دیتا ہے۔﴿قل اللّٰہم مٰلک الملک توٴتي الملک من تشآء وتنزع الملک ممن تشآء وتعز من تشآء وتذل من تشآء بیدک الخیر إنک علی کل شيء قدیر﴾ آپ کہیے: اے سارے ملکوں کے مالک تو جسے چاہے حکومت دے دے اور تو جس سے چاہے حکومت چھین لے۔ تو جسے چاہے عزت دے اور توجسے چاہے ذلت دے۔ تیرے ہی ہاتھ میں بھلائی ہے، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔ (سورہٴ آل عمران:۲۶)، یعنی اللہ ہی فناکے گھاٹ اتارتا ہے اور عزت وذلت بھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔
(۵) نیز ارشادِ خداوندی ہے:﴿قل ہل یستوي الذین یعلمون والذین لا یعلمون إنما یتذکر أولوا الألباب﴾آپ کہیے کہ کیا علم والے اور بے علم کہیں برابر بھی ہوتے ہیں؟ نصیحت تو بس وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں۔ (سورة الزمر:۹)
علامہ عبد الماجد دریابادی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ﴿الذین یعلمون والذین لا یعلمون﴾ محاورہٴ قرآنی میں”علم“ سے مراد علم حقائق سے ہوتی ہے اور بے علمی سے مراد اسی علم سے محرومی ہے۔ علم سے قرآن مجید نے کہیں بھی وہ چیزیں مراد نہیں لی، جنہیں دنیا میں علوم وفنون کہا جاتا ہے۔ (تفسیر ماجدی مع ترجمہ قرآن)
(۶)ارشادِ باری تعالیٰ ہے:﴿یرفع اللّٰہ الذین اٰمنوا منکم والذین أوتوا العلم درجٰت﴾۔ اللہ تم میں ایمان والوں کے اور ان کے جنہیں علم عطا ہوا ہے درجے بلند کرے گا۔ (سورة المجادلة:۱۱)
علامہ عبد الماجد دریابادی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
”یہ وعدہٴ درجاتِ عالی، مجموعہ ٴ مخاطبین میں سے صرف اہلِ ایمان اور اہلِ علم کے لیے، ان کے غایتِ خلوص وغایتِ خشیت کی بنا پر مخصوص رہ گیا۔“ (تفسیر ماجدی مع ترجمہ قرآن)
اسی طرح علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اپنی شہرہٴ آفاق کتاب”فتح الباری شرح صحیح البخاری:۱/۱۸۶“پر مذکورہ آیتِ شریفہ ﴿یرفع اللّٰہ الذین اٰمنوا منکم۔ الخ﴾ کی تفسیر میں یوں رقم طراز ہیں کہ ”ایمان وعلم کے سببِ رفعِ درجات کا مطلب کثرتِ ثواب ہے، جس کی وجہ سے درجات بلند ہوتے ہیں اور بلندیٴ درجات، درجاتِ معنوی وحِسّی دونوں کو شامل ہے۔یعنی اللہ رب العزت اہلِ ایمان وعلم کو دنیا میں بھی اونچے مقام ومرتبہ اور مقبولیتِ عامہ سے نوازتے ہیں اور آخرت میں بھی جنت میں ان کا مقام بلند وبالا ہوگا۔ اور علم سے مراد ”علمِ شرعی“ ہی ہے، جس کا مدار علمِ تفسیر، علمِ حدیث اور علمِ فقہ پر ہے۔“–علاوہ ازیں ”احکام القرآن للتھانوی“ ۵/۲۳پر ہے کہ علم سے علمِ شرعی ہی مرادہے، نہ کہ علمِ دنیوی۔
اسی طرح صحیح مسلم اورسنن ابن ماجہ کی دونوں حدیثوں:”من سلک طریقًا یلتمس فیہ علمًا سہّل اللّٰہ لہ بہ طریقًا إلی الجنة“۔ (صحیح مسلم: ۲/۲۴۵)، اور ”طلب العلم فریضة علی کل مسلم“۔(ابن ماجہ:ص/۲۰) میں علم سے مراد علمِ شرعی ہے، نہ کہ علمِ دنیوی۔
قولہ: ”طلب العلم فریضة علی کل مسلم“۔۔۔۔۔۔۔ وقال البیضاوي: المراد من العلم ہنا ما لا مندوحة للعبد عن تعلمہ کمعرفة الصانع والعلم بوحدانیتہ ونبوة رسولہ وکیفیة الصلاة، فإن تعلمہ فرض عین۔ (زجاجہ علی ہامش ابن ماجہ:ص/۲۰)
قال الشیخ أبو حفص السہروردي: وقیل ہو طلب علم الحلال حیث کان أکل الحلال فریضة، وقیل ہو علم البیع والشراء والنکاح والطلاق إذا أراد الدخول في شيء من ذلک یجب علیہ طلب علمہ۔ اہ۔ (زجاجہ علی ہامش ابن ماجہ:ص/۲۰)
غرضیکہ علم سے علمِ شرعی ودینی کا مراد ہونا، نہ صرف کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ سے ثابت ہے، بل کہ عرف ورواج بھی اس پر شاہد عدل ہے کہ لوگ جن فنون کو حاصل کرتے ہیں،انہیں ان ہی فنون کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ مثلاً: کہا جاتا ہے ڈاکٹر صاحب، انجینئر صاحب، پروفیسر صاحب وغیرہ۔
خلاصہ: یہ تھا پہلے طبقہ کا نظریہ اور ان کے مستدلات، جو بالتفصیل میں نے آپ لوگوں کے گوش گزار کردیا، اب ملاحظہ ہوں دوسرے طبقہ کا نظریہ اور ان کے دلائل۔
۲/… دوسرا طبقہ اپنے نظر وفکر کے لیے ان مستدلات سے استدلال کرتا ہے،مثلاً وہ:(۱) ارشادِ خداوندی: ﴿وعلمناہ صنعة لبوس لکم﴾اور ہم نے انہیں زرہ کی صنعت تمہارے (نفع) کے لیے سکھلادی تھی۔(سورة الانبیاء:۸۰)…اور ﴿وألنا لہ الحدید﴾اور داوٴد کے واسطے ہم نے لوہے کو نرم کردیا۔(سورہٴ سبا:۱۰)سے صنعتِ زرہ سازی کے لیے۔ اور ﴿وأسلنا لہ عین القطر﴾ اور ہم نے ان کے لیے تانبے کا چشمہ بہادیا۔(سورہٴ سبا:۱۲)سے مختلف مصنوعات، مثلاً: برتن اور دیگر ضروری اشیاء کی صنعت کے لیے۔…﴿واصنع الفلک بأعیننا ووحینا﴾اور تم کشتی ہماری نگرانی میں اور ہمارے حکم سے تیار کرو۔(سورہٴ ہود:۳۷)سے کشتی وجہاز سازی وغیرہ کی صنعت کی اباحت۔ اور ﴿وہو الذي مرج البحرین ہذا عذب فرات وہذا ملح أجاج وجعل بینمہا برزخًا وحجرًا محجورًا﴾اور وہ وہی (اللہ) ہے جس نے دو دریاوٴں کو ملایا ایک شیریں تسکین بخش ہے، اور ایک کھاری اور تلخ ہے، اور دونوں کے درمیان ایک حجاب اور ایک مانع قوی رکھ دیا۔(سورہٴ فرقان: ۵۳)،اور ﴿مرج البحرین یلتقیان بینہما برزخ لا یبغیان﴾اس نے دو دریاوٴں کو ملایا کہ باہم ملے ہوئے بھی ہیں(اور) دونوں کے درمیان ایک حجاب (بھی) ہے کہ دونوں (آگے) بڑھ نہیں سکتے۔(سورہٴ رحمن:۱۹،۲۰)سے سائنس وٹیکنالوجی کی تعلیم کی اہمیت، افادیت اور فضیلت کو ثابت کرنے کے لیے استدلال کرتاہے۔
(۲)اسی طرح اس کا کہنا یہ ہے کہ:﴿اقرأ باسم ربک الذي خلقo خلق الإنسان من علق﴾آپ پڑھئے اپنے پروردگار کے نام کے ساتھ جس نے (سب کو) پیدا کیا ہے، جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔(سورہٴ علق: ۱،۲) میں اگر لفظ”خلق“ کے معنی ومفہوم پر غور کیا جائے،تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ تحصیلِ علم کے لیے مخصوص علوم کا انتخاب نہیں کیا گیا، بلکہ علم کا میدان کھلا رکھا گیا ہے، اور ”الذي خلق“ کے اطلاق وعمومیت میں نصابِ تعلیم کی وسعت کا ذکر ہے، کہ اپنے رب کے نام سے ہر اس شی ٴ کا علم حاصل کر جسے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا۔(پتہ چلا کہ ”الذي خلق“ میں تمام علوم، خواہ وہ علومِ دینیہ شرعیہ ہوں یا علومِ عصریہ ہوں، شامل ہیں۔) نیز اسلام نے صرف قرآن مجید، تفسیر، حدیث، فقہ، تصوف وغیرہ تک ہی نصابِ علم کو محدود نہیں کیا، بلکہ اسلام سائنسی علوم اور اپنے عہد کی جدید ترین ٹیکنالوجی کو بھی شاملِ نصاب کیا ہے۔
اسی طرح لفظِ ”علق“ کا استعمال بھی سائنسی علوم کے نصاب علومِ دینیہ میں شامل ہونے کی دلیل ہے،کیوں کہ ”علق“ کا معنی جما ہوا خون بھی کیا جاتا ہے، یہ ایک حیاتیاتی اصول ہے، جس کا عملِ تخلیق کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ خلاصہٴ کلام یہ کہ اسلام کے تصورِ علم میں نصاب کی بھی کوئی حد نہیں ہے۔(یعنی تمام علوم کو شامل ہے۔)
تجزیہ وتنقیہ:
اب آئیے ہم دونوں طبقوں کے نظریات وافکار کا موازنہ کرتے ہیں،… یہ دونوں طبقے افراط وتفریط کے شکار ہیں، اورشریعتِ محمدی میں افراط وتفریط دونوں غیر محبوب ہیں، کیوں کہ یہ امت ِ وسط ہے، جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے: ﴿جعلنٰکم أمة وسطاً﴾ہم نے تمہیں ایک امت عادل بنادیا ہے۔(سورہٴ بقرہ: ۱۴۳) کہ امتِ محمدیہ افراط وتفریط سے الگ اعتدال کے راستے پر چلتی ہے،اورفقہ کا قاعدہ ہے:”خیر الأمور أوساطہا“۔ (قواعد الفقہ:ص/۸۰)
اس لیے ہم بھی علومِ دینیہ وعصریہ کے سلسلے میں اعتدال کا راستہ اپناتے ہوئے کہتے ہیں کہ”علومِ عصریہ کا حاصل کرنا نہ صرف مباح بلکہ فرضِ کفایہ ہے“۔جیسا کہ علامہ حصکفی رحمہ اللہ ”درمختار“ میں فرضیتِ تعلیم کے متعلق فرماتے ہیں:آدمی اپنے دین کے لیے جس قدر علم کا محتاج ہے، اس کا حاصل کرنا فرضِ عین ہے، (جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے: ”طلب العلم فریضة علی کل مسلم“)۔ اور اس سے زائد دوسروں کی نفع رسانی کے لیے جس علم کا محتاج ہے اس کا حاصل کرنا فرضِ کفایہ ہے“۔ (واعلم أ ن تعلم العلم یکون فرض عین؛ وہو بقدر ما یحتاج لدینہ۔ وفرض کفایة؛ وہو ما زاد علیہ لنفع غیرہ)۔
علامہ ابن عابدین رحمة اللہ علیہ اپنی معرکة الآراء تصنیف”رد المحتار“ المعروف بالشامی میں درمختار کی عبارت: (فرض کفایة؛ وہو ما زاد علیہ لنفع غیرہ)کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”فرضِ کفایہ علمِ دینی ودنیوی دونوں کو شامل ہے، علمِ دینی جیسے نمازِ جنازہ، اورعلمِ دنیوی جیسے ضروری مصنوعات کا علم،… صاحبِ تبیین المحارم فرماتے ہیں کہ: فرضِ کفایہ سے مرادہرایسا علم ہے،جس کے بغیر دنیوی امور انجام پذیر نہیں ہوسکتے،مثلاً: طب، حساب اور اصولِ صناعت وزراعت وغیرہ۔“
وفرض کفایة: یتناول ما ہو دیني کصلاة الجنازة، ودنیوي کالصنائع المحتاج إلیہا؛۔۔۔۔۔۔۔۔ قال في تبیین المحارم: وأما فرض الکفایة من العلم؛ فہو کل علم لا یستغنی عنہ في قوام أمور الدنیا کالطب والحساب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وأصول الصناعات والفلاحة کالحیاکة والسیاسة والحجامة۔ اھ۔ (رد المحتار:۱/۱۲۶)
اسی طرح شیخ الاسلام، فقیہ العصر حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیة نے اپنی کتاب ”آسان ترجمہٴ قرآن مع تشریحات“ میں، آیتِ کریمہ: ﴿وأعدوا لہم ما استطعتم من قوة﴾اور ان سے مقابلہ کے لیے جس قدر بھی تم سے ہوسکے سامان درست رکھو قوت سے۔(انفال:۶۰)کی تشریح کرتے ہوئے،تحریر فرمایا: ”یہ پوری امتِ مسلمہ کے لیے ابدی حکم ہے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کی شوکت قائم کرنے کے لیے ہر قسم کی دفاعی طاقت جمع کرنے کا اہتمام کرے، قرآن کریم نے ”طاقت“ کا عام لفظ استعمال کرکے بتادیا ہے کہ جنگ کی تیاری کسی ایک ہتھیار پر موقوف نہیں، بلکہ جس وقت، جس قسم کی دفاعی قوت کار آمد ہو، اُس وقت اُسی طاقت کا حصول مسلمانوں کا فریضہ ہے، لہٰذا اس میں تمام جدید ترین ہتھیار اور آلات بھی داخل ہیں، اور وہ تمام اسباب ووسائل بھی جو مسلمانوں کی اجتماعی، معاشی اور دفاعی ترقی کے لیے ضروری ہوں۔
افسوس ہے کہ اس فریضے سے غافل ہوکر آج مسلمان دوسری قوموں کے دستِ نگر بنے ہوئے ہیں، اور ان سے مرعوب ہیں، اللہ تعالیٰ ہم کو اس صورتِ حال سے نجات عطا فرمائے“۔ (آسان ترجمہٴ قرآن:۱/۵۴۵)
علامہ دریابادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”أي من کل ما یتقوی بہ في الحرب کائناً ما کان“(روح)”قوة“کا لفظ عام ہے، عددی قوت، سامانِ جنگ کی قوت، آلاتِ حرب کی قوت، سب کچھ اس کے اندر آگیا، یہاں تک کہ بڑھے ہوئے ناخن بھی۔
صاحب روح المعانی نے آیت کے تحت میں بندوق کا ذکر تصریح کے ساتھ کیا ہے، اور اگر (وہ)آج ہوتے تو مشین گن، طیارہ اور ٹینک اور جیپ اور ایٹم بم وغیرہ سب کے نام لکھ جاتے۔ (تفسیر ماجدی)
خلاصہٴ کلام یہ کہ علمِ دین کا حاصل کرنا فرضِ عین ہے، اسی میں ہماری بقا وفلاح اور عزت وترقی مضمر ہے، اور علومِ دنیویہ کا حاصل کرنا نہ صرف جائز ومباح، بلکہ فرضِ کفایہ ہے۔
اورہمارے اس موقف کی تائید فخرِ گجرات، مفتی ٴ بے مثال، حضرت مولانا قاری مفتی عبد الرحیم صاحب لاجپوری رحمہ اللہ کے ایک فتویٰ سے بھی ہوتی ہے، آپ اپنی شہرہٴ آفاق کتاب”فتاویٰ رحیمیہ“ میں ایک استفتاء کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
”ایسے اسکول قائم کرنا جس میں بقدر ضرورت گجراتی، انگریزی وغیرہ دنیوی علوم وفنون سکھلائے جائیں، اور صنعت وحرفت کے کلاس قائم کرنا، جس سے حلال روزی حاصل کرنے میں مدد مل سکے، بلاشبہ جائز اور کارِخیر وموجبِ ثواب ہے، لیکن دینی تعلیم کو اور دینی مدارس کی امداد کو مقدم سمجھا جائے۔“ #
تم شوق سے کالج میں پھلو پارک میں پھولو
جائز ہے غباروں میں اڑو چرخ پہ جھولو
بس ایک سخن بندہٴ ناچیز کا رہے یاد
اللہ کو اور اپنی حقیقت کو نہ بھولو
(مرحوم اکبر# الٰہ بادی)(فتاوی رحیمیہ:۳/۱۳۰، کتاب العلم والعلماء)
جب علوم وفنون کام نہیں آتے اور نجات دینے والا معمولی ہنر انسان کے کام آتا ہے:
دینی علوم کے ساتھ ساتھ عصری فنون وہنر کی تعلیم کی ضرورت تجربات وواقعات سے بھی ثابت ہوتی ہے،جیسا کہ علامہ ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب”انسانی علوم کے میدان میں اسلام کا انقلابی وتعمیری کردار“میں ایک سبق آموز قصہ نقل کیا ہے:
”راوی صادق البیان کہتا ہے کہ ایک بار چند طلبہ تفریح کے لیے ایک کشتی پر سوار ہوئے، طبیعت موج پر تھی، وقت سہانا تھا، ہوا نشاط انگیز وکیف آور تھی، اور کام کچھ نہ تھا، یہ نو عمر طلبہ خاموش کیسے بیٹھ سکتے تھے، غیر تعلیم یافتہ ملّاح ان کی دل چسپی کا اچھا ذریعہ اور فقرے بازی،مذاق وتفریحِ طبع کے لیے نہایت موزوں تھا، چنانچہ ایک تیز وطرّار صاحب زادے نے اس سے مخاطب ہوکر کہا: ”چچا میاں آپ نے کون سے علوم پڑھے ہیں؟“ملّاح نے جواب دیا: میاں میں کچھ پڑھا لکھا نہیں، صاحب زادے نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا: ”ارے آپ نے سائنس نہیں پڑھی؟“ ملّاح نے کہا: میں نے تو اس کانام بھی نہیں سنا۔ دوسرے صاحب زادے بولے: ”اقلیدس“ اور”الجبرا“تو آپ ضرور جانتے ہوں گے؟“ ملّاح نے کہا: حضور یہ نام میرے لیے بالکل نئے ہیں۔اب تیسرے صاحب زادے نے شوشہ چھوڑا: ”مگر آپ نے جغرافیہ وتاریخ تو پڑھی ہی ہوگی؟“ ملّاح نے جواب دیا: سرکار یہ شہر کے نام ہیں یا آدمی کے؟ ملّا ح کے اس جواب پر لڑکے اپنی ہنسی نہ ضبط کرسکے، اور انہوں نے قہقہہ لگایا، پھر انہوں نے پوچھا: چچا میاں تمہاری عمر کیا ہوگی؟ ملاّح نے بتایا:یہی کوئی تیس سال! لڑکوں نے کہا آپ نے اپنی آدھی عمر برباد کی، اور کچھ پڑھا لکھانہیں، ملاّ ح بے چارہ خفیف ہوکر رہ گیا، اور چپ سادھ لی۔
قدرت کا تماشہ دیکھئے کہ کشتی کچھ ہی دور گئی تھی کہ دریا میں طوفان آگیا، موجیں منہ پھیلائے ہوئے بڑھ رہی تھیں، اور کشتی ہچکولے لے رہی تھی، معلوم ہوتا تھا کہ اب ڈوبی تب ڈوبی، دریا کے سفر کا لڑکوں کو پہلا تجربہ تھا، ان کے اوسان خطا ہوگئے، چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں، اب جاہل ملاّح کی باری آئی، اس نے بڑی سنجیدگی سے منہ بناکر پوچھا: ”بھیّا تم نے کو ن کون سے علم پڑھے ہیں؟“
لڑکے اس بھولے بھالے جاہل ملاّ ح کا مقصد نہیں سمجھ سکے، اور کالج یا مدرسہ میں پڑھے ہوئے علوم کی لمبی فہرست گنانی شروع کردی، اور جب بھاری بھر کم اور مرعوب کُن نام گنا چکے، تو اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا: ٹھیک ہے یہ سب تو پڑھا، لیکن کیا پیراکی بھی سیکھی ہے؟ اگر خدا نخواستہ کشتی اُلٹ جائے توکنار ے کیسے پہنچ سکوگے؟ لڑکوں میں کوئی بھی پیرنا نہیں جانتا تھا، انہوں نے بہت افسوس کے ساتھ جواب دیا: ”چچا جان یہی ایک علم ہم سے رہ گیا، ہم اسے نہیں سیکھ سکے۔“
لڑکوں کا جواب سن کر ملاّح زور سے ہنسا اور کہا: میاں میں نے تو اپنی آدھی عمر کھوئی، مگر تم نے پوری عمر ڈبوئی، اس لیے کہ اس طوفان میں تمہارا پڑھا لکھا کچھ کام نہ آئے گا، آج پیراکی ہی تمہاری جان بچاسکتی ہے، اور وہ تم جانتے ہی نہیں۔“
دنیوی ترقیات کے حصول میں ہمارے اور غیروں کے اصول جدا گانہ ہیں!:
بعض دانش وریہ کہتے ہیں کہ اگر ہماری فلاح وبقا، عزت وترقی علومِ دینیہ پر منحصر ہوتی، تو غیروں نے کہاں علومِ دینیہ حاصل کیے، جب کہ آج وہ زندگی کے ہر میدان میں آگے ہیں، اور دن بدن ترقی کرتے جارہے ہیں،جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں بھی ترقی کے وہی اصول اپنانے ہوں گے، جو انہوں نے اختیار کر رکھے ہیں،لیکن یہ فہم وفکر قیاس مع الفارق اور خود فریبی ہے،کیوں کہ ہمارے اور غیروں کی ترقی کے اُصول جدا جدا ہیں۔ غیر چوں کہ احکامِ شرعیہ کے مکلف نہیں، اس لیے دنیوی ترقی کے لیے انہوں نے جوغیر شرعی اصول اپنارکھے ہیں،دنیا میں ان پر اس کا کوئی وبال نہیں ہوگا،اور وہ ترقی کی منزلیں طے کرتے چلے جائیں گے، جب کہ مسلمان شریعت کے مکلف ہیں، اگروہ اصولِ شرعیہ کو چھوڑ کر، غیر شرعی اصولوں کو اپناکر، ترقی کرنا چاہتے ہیں تو وہ کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتے،اور اگرکچھ ترقی کر بھی لی،تو وہ پائیدا ر نہیں ہوسکتی،کیوں کہ ہماری دنیوی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ ہم دنیوی فنون کی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی علوم بھی حاصل کریں، جس سے فکرِ آخرت پیدا ہوتی ہے۔
ا رشادِ خداوندی ہے:﴿یعلمون ظاہرًا من الحیوة الدنیا وہم عن الاٰخرة ہم غٰفلون﴾۔یہ تو دنیا کی ظاہر ی زندگی ہی کو جانتے ہیں، اور آخرت کی طرف سے غافل ہیں۔(سورہ ٴ روم:۷)، آیت کا مفہوم صاف ہے کہ علم ظاہر حیات کے ساتھ ساتھ فکرِ آخرت ضروری ہے۔
دوسری جگہ ارشاد ہے:﴿بل ادّٰرک علمہم في الاٰخرة بل ہم في شک منہا بل ہم منہا عمون﴾۔بلکہ آخرت (کے بارے) میں ان کا علم منتہی (پنکچر Punctur)ہوچکا ہے، بلکہ وہ اس کی طرف سے شک میں ہیں، بلکہ اس سے اندھے ہورہے ہیں۔ (سورہٴ نمل:۶۶)
لہٰذا آج کے ان بدلتے حالات میں، اسلامی ماحول میں عصری تعلیم دینا نہ صرف مباح بلکہ یہ قوم وملت کی اجتماعی، معاشی اور دفاعی ترقی کے لیے ضرورت بن چکی ہے، اس لیے کہ:
آج مسلم قوم کو… ضرورت ہے، اچھے دین دار، ایمان دار، مخلص ڈاکٹروں کی،
اسے ضرورت ہے اچھے دین دار، ایمان دار، مخلص، فارمیسٹوں اور کیمسٹوں کی،
اسے ضرورت ہے اچھے دین دار، ایمان دار، مخلص ٹیچروں اور پروفیسروں کی،
اسے ضرورت ہے اچھے دین دار، ایمان دار، مخلص انجینئروں کی،
اسے ضرورت ہے اچھے دین دار، ایمان دار، مخلص ماہرینِ اقتصادیات کی،
اسے ضرورت ہے اچھے دین دار، ایمان دار، مخلص ماہرینِ سیاست کی،
اسے ضرورت ہے اچھے دین دار، ایمان دار،مخلص سائنس دانوں کی،
اسے ضرورت ہے اچھے دین دار، ایمان دار، مخلص ججوں کی،
اسے ضرورت ہے اچھے دین دار، ایمان دار، مخلص اہلِ صحافت کی،
اسے ضرورت ہے اچھے دین دار، ایمان دار، مخلص کاشت کاروں کی،
اسے ضرورت ہے اچھے دین دار، ایمان دار، مخلصین منتظمین کی،
اور قوم کی یہ ضرورتیں اسی صورت میں پوری ہوسکتی ہیں، جب کہ ہم دینی ماحول میں، نونہالانِ قوم وملت کو، ان کے دین کی اساسی وبنیادی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کے لیے عصری تعلیم کا معقول انتظام کریں گے۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج اس فریضے سے غافل ہوکر مسلمان دوسری قوموں کے دستِ نگر بنے ہوئے ہیں، اور ان سے مرعوب ہیں۔
محترم قارئین! قوم وملت کی اسی ضرورت کو پورا کرنے اور اپنے فرض سے سبک دوش ہونے کے لیے، مفکرِ قوم وملت، خادمِ قرآن وسنت، حضرت مولانا غلام محمد صاحب وستانوی دامت برکاتہم نے اس عظیم دینی درس گاہ ”جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم“ کے احاطہ وکیمپس میں بی یو ایم ایس کالج،بی اینڈ ڈی فارمیسی کالج، آئی ٹی آئی کالج، بی ایڈ وڈی ایڈ مراٹھی کالج وغیرہ قائم کیے، اورمستقبل قریب میں بہت جلد ”بی ای انجینئرنگ کالج، اور ایم بی بی ایس کالج“ کے قیام کا عزم رکھتے ہیں۔
ان کالجوں کے بڑے اچھے اثرات ونتائج ہم اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے ان کالجوں کے فارغین نے نہ صرف خود اپنی دنیابنالی، بلکہ وہ قوم وملت کے لیے نفع رساں بھی ثابت ہورہے ہیں۔لیکن! یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ صرف دینی ماحول میں عصری تعلیم کا نظم کرنے سے قوم وملت کی وہ ضرورتیں پوری نہیں ہوسکتیں جن کا ذکر ہم نے اوپر کیا، بلکہ ان کالجوں میں پڑھنے والے طلبہ کی صحیح، اسلامی، فکری تربیت کی جانب خاص توجہ دینا لازمی وضروری ہے، اور ان میں اس احساس کو پیدا کرنا ضروری ہے،کہ وہ خیر امت کے افراد ہیں،ان کا مقصدِ حیات اللہ رب العزت کی عبادت، پوری دنیا میں اس کے کلمہ کی بلندی، اور اس کے دین کی تبلیغ واشاعت ہے۔
اگر ہم نے ان کی ذہنی وفکری تربیت کی طرف توجہ نہیں دی، اور کچھ ظاہری اسلامی آثار کو دیکھ کر خوش ہوتے رہے، جو ہمارے اس دینی ماحول کا اثر ہے، تو یہ خودفریبی سے کم نہ ہوگا،کیوں کہ جب وہ یہاں سے کسی اور ماحول میں جائیں گے، تو ان پر وہاں کی تہذیب وثقافت اور آدابِ زندگی غالب آجائیں گے، جو اُس ماحول کا اثر ہوگا،اور اس طرح ہماری تمام محنتیں رائگاں وبے کار ہوجائیں گی۔
اس لیے ہم اساتذہ کرام وٹیچرس حضرات پر واجب ہے کہ، ہم ان کی ظاہر ی تربیت سے زیادہ ذہنی وفکری تربیت پر توجہ دیں،کیوں کہ یہ بات تجربہ سے ثابت ہے کہ ”جب انسان اندر سے بدلتا ہے، تو اس کا ظاہر بھی بدلتا ہے، اورپھر اندرسے بدلے ہوئے انسان کو بدلنا انتہائی مشکل ہوتا ہے“،تو ہمیں وہی کام کرنا چاہیے جس کے نقوش واثرات کو دوسرا ماحول اور افراد نہ بدل سکیں،اور اس کے لیے ضروری ہوگا کہ خود استاذ وٹیچر،…؛
فکرِ اسلامی کا حامل ہو، مادی کا نہیں،
فکرِ اخروی کا حامل ہو، دنیوی کا نہیں،
نفعِ عام کی فکر کا حامل ہو، ذاتی وشخصی کا نہیں،
اور یہ کام منتظمین ومینجمنٹ کا ہے کہ وہ ایسے اساتذہ کا تقرر عمل میں لائیں، جو ان اوصاف سے متصف ہوں۔ ورنہ تعلیم کے نتائج ہمارے اور آپ کے سامنے ہیں کہ:
# ”طلبہ کے دلوں میں اساتذہ کی تعظیم نہیں، کیوں کہ طلبہ تعلیم حاصل نہیں کررہے ہیں، بلکہ خرید رہے ہیں،اور اساتذہ تعلیم دے نہیں رہے ہیں، بلکہ فروخت کررہے ہیں۔“
#”استاذ کی تعظیم طلبہ کے دلوں میں،اسکولوں کی دیواروں پر اقوالِ زرّین کندہ کرنے سے پیدا نہیں ہوتی، بلکہ یہ اس صورت میں پیدا ہوتی ہے، جب اساتذہ طلبہ کو اپنا حقیقی اثاثہ سمجھیں۔“
# ”تعلیم سے مالی مفادات وابستہ ہوچکے ہیں، اس لیے تعلیمی معیار گھٹ گیا، استاذ مالی منفعت کے لیے پڑھا رہا ہے اور طالبِ علم مالی منفعت کے لیے پڑھ رہے ہیں۔“
امام سرخسی رحمہ اللہ اور کنویں میں ”مبسوط“کی تالیف:
امام سرخسی رحمہ اللہ کے ایک عبرت آموز واقعہ پر اپنی اس مختصر تحریر کو ختم کرتا ہوں، امام سرخسی رحمہ اللہ (متوفی ۴۳۸ھ)کا پورا نام محمد بن احمد بن ابوبکر ہے، وہ پانچویں صدی کے ان علماء میں سے ہیں، جنہیں آیة من آیات اللّٰہ(اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی) کہنا چاہیے، آپ اصلاً خراسان کی ایک بستی ”سرخَس“کے رہنے والے تھے، اسی کی طرف نسبت کرتے ہوئے آپ کو ”سرخَسی“ کہا جاتا ہے، آپ تحصیلِ علم کے لیے”کرغیزستان“ کے شہر ”اوزجند“ تشریف لے گئے تھے،اور بعد میں آپ نے وہیں سکونت اختیار کی، آپ نے حاکمِ وقت کی مرضی کے خلاف کوئی فتویٰ دیا، یا کوئی بات نصیحت کے طور پر کہی جس کی وجہ سے حاکمِ وقت ”خاقان“نے آپ کو ایک کنویں نماگڑھے میں قید کردیا۔
ڈاکٹر صلاح الدین منجد نے ”شرح السیر الکبیر“ کے مقدمہ میں اس قید کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ خاقان نے اپنی ایک کنیزکو آزاد کر کے عدت سے پہلے ہی اس سے نکاح کرلیا تھا، امام سرخسی رحمہ اللہ نے اس پر اعتراض کیا، تو اس نے انہیں قید کردیا، اوروہ سالہاسال کے لیے اس کنویں نما گڑھے میں قید رہے، جہاں ان کے لیے چلنا پھرنا بھی ممکن نہیں تھا۔ظاہر ہے کہ ان کے شاگردوں کو اس واقعے سے کتنا دکھ ہوا ہوگا، انہوں نے اپنے استاذ کی دل بستگی کے لیے درخواست کی کہ ہم روزانہ اس کنویں کے منہ پر آجایا کریں گے، آپ ہمیں کچھ املا کرادیا کریں۔
علامہ سرخسی رحمہ اللہ پہلے سے چاہتے تھے کہ امام حاکم شہید رحمہ اللہ کی کتاب ”الکافی“ کی شرح لکھیں، چنانچہ انہوں نے اسی کنویں سے اپنی عظیم کتاب ”المبسوط شرح الکافی“ املا کرانی شروع کی، اور علم کی تاریخ کا یہ منفرد شاہ کار، اوزجند کے ایک کنویں نما قید خانے میں اس طرح وجود میں آیا کہ ۳۰/ ضخیم جلدوں کی یہ کتاب کنویں سے بول بول کر، کنویں کے منہ پر بیٹھے ہوئے شاگردوں کو لکھوائی گئی،جو آج فقہ حنفی کے لیے معتبر ومستند مرجع کی حیثیت رکھتی ہیں، اور کوئی بھی فقیہ اپنی بات کے اعتبار واعتماد کے لیے اس سے مستغنی وبے نیاز نہیں ہوسکتا۔
امام سرخَسی رحمہ اللہ کے تقریباً تمام تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ وہ کنویں سے جو املا کراتے تھے، وہ خالص اپنی یاد داشت کی بنیاد پر کراتے تھے، کسی کتاب کی مدد انہیں حاصل نہیں تھی، اور یہ بات ظاہر بھی ہے کہ کنویں میں قید ہونے کی حالت میں دوسری کتابوں سے باقاعدہ استفادہ بظاہر ممکن نہ تھا۔جن حضرات نے مبسوط سے استفادہ کیا وہ اس کرامت کا صحیح اندازہ کرسکتے ہیں، کہ اتنی تحقیقی کتاب جو بعد والوں کے لیے فقہ حنفی کامستند ماخذ بن گئی، کس تمام تر حافظے سے لکھوائی گئی ہے۔
امام سرخسی رحمہ اللہ کا یہ واقعہ مجھے اور آپ کو یہ درس دیتا ہے کہ:
(۱)استاذ میں اپنے کام کی دُھن اور لگن ہونی چاہیے، حالات خواہ موافق ہوں یا مخالف، فضا سازگار ہو یا ناسازگار، آدمی قید وبند کی صعوبت میں ہو یا آزاد۔
(۲) استاذ میں یہ جذبہ موج زن ہونا چاہیے کہ اس کے پاس جو بھی علم وفن ہے، وہ کسی نہ کسی طریق سے محفوظ ومعقول ہاتھوں اور ذہنوں وسینوں میں پہنچ جائے، کیوں کہ یہ علم وفن اس کے پاس اللہ کی امانت ہے، اورہر امانت کی حفاظت اس کے مناسبِ حال ہوا کرتی ہے، علم وفن جیسی امانت کی حفاظت یہی ہے کہ صاحبِ علم وفن،اُس علم وفن کے حامل افراد کو پیدا کریں، جسے ہم افراد سازی سے تعبیر کرتے ہیں۔
(۳)اس واقعے سے یہ بھی مستبنط ہوتا ہے، کہ استاذ ہمہ وقت اپنے پاس پڑھنے والے طلبہ واسٹوڈینٹس کے نفع ومفاد کومقدم رکھیں، نہ کہ اپنا نفع وآرامِ جان، اوریہی فقہ کا قاعدہ بھی ہے کہ”نفعِ عام کی خاطر ضررِ خاص کو برداشت کیا جاتا ہے“ ”یتحمل الضرر الخاص لدفع ضرر عام“۔
(درر الحکام:۱/۴۰، المادة:۲۶)
(۴)آج کل طلبہ میں تعلیمی رجحان کے کم ہونے کی جہاں بہت ساری وجوہات ہیں، انہیں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم اساتذہ کی پیشِ نظر طلبہ کا نفعِ عام نہ رہا، بلکہ اپنا نفع ہر وقت مقدم رہتا ہے، جس کا ہم اور آپ کھلی آنکھوں مشاہدہ کررہے ہیں، مثلاً: تعلیمی اوقات میں اگر استاذ کو اپنا کوئی ذاتی کام پیش آجائے، تو وہ طلبہ کے نفعِ عام کی خاطر اس کام کو موٴخر یا ملتوی نہیں کرتا، بلکہ تعلیمی حرج کو برداشت کرکے اپنے ذاتی کام کی تکمیل کی کوشش کرتا ہے۔
اسی طرح تعلیمی اوقات میں عین دورانِ درس کسی کے موبائل کی گھنٹی بجتی ہے، تووہ سلسلہٴ درس کوموقوف کرکے، کال ریسیو کرتا ہے، اور نہ صرف یہ کہ ضروری بات پر اکتفا کیا جاتا ہے، بلکہ لایعنی باتوں اور ہنسی مذاق میں طلبہ کا قیمتی وقت ضائع کیا جاتا ہے۔ اسی طرح معمولی معمولی کاموں کے لیے اسکولوں اور کالجوں سے چھٹیاں لی جاتی ہیں، جب کہ اس میں بھی زیرِ تعلیم طلبہ کا بڑا حرج ونقصان ہوتا ہے۔
یہ تمام باتیں ایسی ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خود ہم اساتذہ کے نزدیک ہمارے اس پیشہ کی اہمیت وعظمت باقی نہ رہی، اور نہ یہ خیال کبھی وہم وگما ن میں بھی آتا ہے کہ ہم قوم کے معمار ہیں، جب کہ”ماضی میں ایک استاذ اور ٹیچر اپنے آپ کو قوم کا معمار خیال کیا کرتا تھا، اور اس کا عمل بھی اپنے اس خیال کے عین مطابق ہوا کرتا تھا، آج نہ تو یہ خیال رہا اور نہ ہی عمل، اور اگر معدودے افراد میں یہ خیال ہو بھی، تو وہ خیال؛ محض ایک خیا ل ہے، کیوں کہ اس کے پیچھے عمل وکردار کی جو پختگی درکار ہے وہ موجودنہیں۔“
جب کہ ہمارے سامنے ہمارے اسلاف کے حالات وواقعات موجود ہیں، کہ انہوں نے کس طرح سے ہمیشہ اپنے پاس پڑھنے والے طلبہ کے نفع ومفاد کو مقدم رکھا، مثلاً:
(۱) حضرت مولانا رشید احمدگنگوہی رحمہ اللہ کے بیٹے کا انتقال ہوا، تجہیز وتکفین کے بعد اس روزبھی سبق کا ناغہ نہیں فرمایا، بلکہ یہ فرمایا: ”بیماری میں تو علاج کی وجہ سے تشویش اور مشغولی ہوتی تھی، اب تو ایسی تشویش نہیں رہی، سبق کا ناغہ کیوں کیا جائے۔“
(۲) حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میری بہن کا انتقال ہوگیا، اس پر سب طلبہ نے کہا ہم آج سبق نہیں پڑھیں گے، میں نے کہا: ”میاں پڑھو بھی، اس کا بھی ثواب ہوگا، فائدہ ہوگا۔“
(۳)حضرت مولانا قاری صدیق احمد صاحب باندوی رحمہ اللہ کی اہلیہ محترمہ کا انتقال ہوا، تجہیز،تکفین اور تدفین کے جملہ مراحل سے فراغت کے بعد اسباق جاری رکھے، اسباق پڑھانے کے بعد طلبہ سے فرمایا”کچھ پڑھ پڑھاکر بخش دینا۔“ (حیاتِ صدیق:ص/۲۲۰)
یہ ہیں ہمارے اسلاف کے چند واقعات جو”مشتِ نمونہ از خروارے“ پیش کیے گئے۔علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے: #
وائے ناکامی کہ متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
اللہ ہمیں اپنے اس عظیم منصب وذمہ داری کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)