پہلی قسط:
مولانا حذیفہ مولانا غلام محمد صاحب وستانوی#
الحمداللہ! اللہ نے ہم پر عظیم احسانات کیے۔ سب سے پہلے جمادات،نباتات میں نہ بنا کر حیوان بنایا، حیوان میں بھی( حیوان ِناطق) یعنی سب سے افضل انسان بنایا اور انسان میں بھی سب سے افضل مسلمان بنایا اور مسلمان میں بھی سب سے افضل امت ِمحمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے بنایا اور امت ِمحمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی اہل سنت والجماعت اور اس میں بھی دین سے محبت کرنے والا اسے سیکھنے سکھانے کا شوق رکھنے والا بنایا، عزت و عافیت کی زندگی نصیب فرمائی۔ ان انعامات اور احسانات کا صرف تصور کیجیے کہ کس قدر عظیم ہیں؟!
اب ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اس صحیح ایمان واسلام کو موت تک سنبھال کر لے جائیں اور اللہ ہمارا خاتمہ ایمان پر فرمائیں؛ تاکہ مقصدِ حیات میں کامیابی حاصل ہو اور ہمیشہ ہمیشہ کی آخرت کی زندگی میں کامیاب وکامران ہوجائیں۔
انسان اور دین فطرت کی ضرورت:
انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سب سے نرالا اور حیرت انگیز بنایا اور پیدا کیا، کیوں کہ وہ صرف اس دنیا کے لیے نہیں پیدا کیا گیا ؛بل کہ آخرت کے لیے بھی پیدا کیا گیا؛دیگر مخلوق کو اللہ تعالیٰ نے تخلیق ِعمومی سے پیدا کیا ہے اور انسان کو تخلیق ِخصوصی سے۔ دنیا کے تمام عجائبات کا اسے مجموعہ بنایا اور اشرف الخلائق کے رتبے سے نوازا ہے ؛اسے عقل،شہوت،حواس اور فطرت سب سے مالامال کیا ہے اور ساتھ ہی کمزور اور ضرورت مند بنایا ہے؛ لہذا وہ ہمیشہ ایسے سہارے کا محتاج ہوتاہے، جو برتر اور عظیم ہو، جس کے آغوش میں اسے سکون حاصل ہو، اس کے ذہن ودماغ میں پیدا ہونے والے تمام سوالات کے اطمینان بخش جوابات اسے حاصل ہوں؛ لہذا دین اور وحی اس کی سب سے اہم اور بنیادی ضرورت ہے، مگر مغربیت نے انسان کو اس سے دور کردیا ہے، تو آیے انسان کے دماغ میں جنم لینے والے بڑے بڑے سوالات کیا ہیں اور اسلام ان کے جوابات کیسے دیتاہے؟اسے عصری اسلوب میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
انسان کے ذہن میں گردش کرنے والے بنیادی اور اہم سوالات:
دجود وعدم کیا ہے؟کون مقدم ہے؟زندگی کیا ہے؟کب شروع ہوئی؟کیسے شروع ہوئی؟کیوں شروع ہوئی؟انسان اور کائنات کی حقیقت کیاہے؟کس مقصد سے اسے وجود بخشا گیا؟کس نے وجود بخشا؟موت کے بعد کیا ہوگا؟
یہ بنیادی اور اہم سوالات ہیں جو ہر ذی شعور انسان کے ذھن ودماغ میں گردش کرتے ہیں، اگر نہ کرے تو انسان کی زندگی ہی بے معنی ہوجاتی ہے۔
ان سوالوں کے صحیح جواب ہی پر انسان کی انسانیت اور بشریت موقوف ہے، انسان کا تعلق کسی بھی گوشہ سے ہو یہ سوالات اس کے لیے اہم ہوتے ہیں اور اس سے زیادہ ضروری ان کے صحیح جوابات ہیں، اس کے بغیر انسان کی زندگی بے فائدہ اور بیکار ہے؛ کیوں کہ ا س کے بغیر انسان حق وباطل اور صحیح وغلط خیر وشرکے درمیان تمیز ہی نہیں کرسکتا اور جب یہ نہ ہوگا، تو انسان لغویات اور منھیات کا دلدادہ ہوجاتاہے اور مقصد ِحیات سے محروم ہو کر دنیا وآخرت کے خسارہ میں مبتلا ہوجاتاہے؛لھذا انسان پر سب سے بڑا فریضہ اور اہم ذمہ داری ایمانیات کی معرفت ہے تاکہ مقصد ِحیات سے واقفیت حاصل ہو اور زندگی خسارہ سے بچ جائے اس کے لیے دین کی بینادی تعلیمات کا صحیح علم ضروری ہے اس کے بعد عمل ِصالح۔
ایمان کے حقائق کی معرفت سے انسان کی سوچ اور فکر میں درستگی پیدا ہوتی ہے، اعمال کی طرف رغبت ہوتی ہے ،اخلاق میں سدھارپیدا ہوتاہے، اس طرح زندگی خوشگوار اور منضبط ہوجاتی ہے۔
ارکانِ ایمان سے واقفیت کیوں ضروری؟
جیسا کہ بیان کیاگیا کہ دین وحی اور ایمان یہ مقصد ِزندگی کے لیے ضروری ہے کیوں کہ انسان صرف جسم اور مادہ کانام نہیں ہے بل کہ جسم روح اور عقل کے مجموعہ کا نام انسان ہے۔جس میں سے روح نفس اور قلب سب سے اہم ہے اور اسکو انشراح اور طمانیت صرف اور صرف اللہ کی معرفت اور اس کے ذکرسے حاصل ہوتی ہے اس کی اصلاح سے انسان صحیح راہ پر آجاتاہے ، اس کو اپنے اسباب ِ وجود کا علم ہوتاہے اور جن اصولوں پر جینا ہے اور مرناہے اس سے بہر اور ہوتاہے،لھذا ارکان ِایمان ہی کی برکت سے قلب اور عقل کو غذا میسر آتی اور زندگی کاحقیقی لطف اور لذت حاصل ہوتی ہے،نفسانی خواہشات سے جو عارضی سکون حاصل ہوتاہے اور دائمی پریشانی اس سے نجات حاصل ہوتی ہے۔گویا علم ِصحیح اور عمل ِصالح انسان کے لیے پرندے کی دو پر کی طرح ہے اور نیت روح ہے اس طرح وہ ان تینوں کی برکت سے اپنی دنیا وآخرت کی اونچی پرواز میں آگے بڑھتااور اپنی منزل مقصود تک پہنچ جاتاہے۔
احسان کیاہے؟
جب ایمان میں پختگی اور عمل کی درستگی ہوتی ہے، تو انسان سب سے اعلیٰ اور ارفع روحانی رتبہ احسان تک رسائی حاصل کرلیتاہے حدیث میں”ان تعبداللہ کأنک تراہ “کہ اللہ کی عبادت اس طرح کر کہ وہ تجھے اپنی نظر کے سامنے نظر آئے۔
لھذا ایمان میں پختگی کے بعد اگر بندہ عبادت کودل جمعی کے ساتھ اس کے لوازمات کے ساتھ اداکرتاہے تو کیفیت ِاحسان سے مال مال ہو جاتاہے اور اس کو احسان کہتے ہیں اور وہ اللہ اور مخلوق کے حقوق کو بھی پوری تندہی کے ساتھ اداکرنے کی کوشش کرتاہے؛ کیوں کہ اسے ہرجگہ اللہ نظر آتے ہیں اور جب ہر جگہ اللہ نظر آئے گا تو وہ ہر چیز کو محض اللہ کی مرضی کے زاویہ سے دیکھتا ہے، کسی سے محبت بھی اللہ کے خاطر کرتاہے اور بغض بھی اللہ کے خاطر ،کسی کو کچھ دیتا ہے تو وہ بھی اللہ کے خاطر اور منع کرتاہے تتو وہ بھی اللہ کے خاطر گویا اس کی پوری زندگی اللہ کے احکام کے تابع ہوجاتی ہے اور جب اس کا سب اللہ کے تابع ہوجاتاہے، تو اس کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ نعمت پر شکر اور مصیبت پر صبر کرتاہے اور اس کی پوری زندگی نیکیوں سے عبارت ہوجاتی ہے۔
خلاصہ یہ کہ جو انسان زندگی کی سعادت اور حقیقت سے لطف اندوز ہونا چاہتاہو، اسے ایمان اور اسلام کی تفصیلی معلومات حاصل کرنی چاہیے اور اسی کے مطابق عمل کرناچاہیے، اسے اللہ تک بھی رسائی حاصل ہوگی اور وہ زندگی کے ہدف اور مقصد کوپالے گا اپنے وجود اور کائنات کے وجود سے بھی واقف ہوجائے گا۔
اس تمہید کے بعد اب اگلی قسط میں جانیں گے کہ علم ومعرفت کی حقیقت کیا ہے؟اس کے مصادر کیا ہیں؟صحیح دین کا معیار کیا ہے؟عقل اور دین کا تعلق کس نوعیت کاہے؟فلسفہ اور سائنس اور دین کے درمیان کیا رشتہ ہے؟جیسے عصر حاضر کے اہم سوالات کے صحیح جوابات جاننے کی کوشش کریں گے۔
اس کے بعد اہل سنت کے نزدیک عقائد کے مصادر کیا ہیں؟
صرف قرآن پر اکتفا درست ہے یا نہیں؟
سنت اور حدیث کی کیوں ضرورت ہے؟
سلف ِ صالحین کی پیروی کیوں ضروری ہے؟
اور اس کے بعد ارکان ِایمان پر تفصیلی گفتگوکریں گے ان شاء اللہ۔
جاری……………