عصری اداروں میں الحاد کے بجائے توحید کا رنگ پیدا کرنا

محمد سلیمان اختر فاروقی /استاذ جامعہ اکل کوا

الحاد کا مفہوم اور اس کی شکلیں:

            الحاد صرف خدا کے انکار یا محض خدا کی خالقیت کے انکار کا نام نہیں ہے، بل کہ الحاد دین اسلام کی تعلیمات سے نفرت،قرآن وسنت کی تعلیمات سے بیزاری اور اس کے اندر قرآن وسنت کے لیے شکوک وشبہات پیدا ہوجائیں، انسان کے اندر یہ شک پیدا ہونا شروع ہوجائے کہ قرآنِ مجید تو اللہ کی کتاب اور وحی ہے لیکن جو حدیث وسنت کے نام سے ہمارے علماء نے اس کو اسلام میں داخل کرنے کی سعی کی ہے اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، یا اسلام کے بعض احکامات اب فرسودہ ہوچکے ہیں،ان کی جگہ موڈرن دور کے قوانین اور طرزہائے حیات ہی ترقی و کامیابی کے ضامن ہیں، یہی وجہ ہے کہ کسی دور میں ایک کتاب ”دو اسلام“ نامی لکھی گئی تھی ،وہ اسی نظریے کے تناظر میں لکھی گئی تھی کہ ایک اسلام تو قرآن ہے تو اس اسلام کے مقابلے میں حدیث اور سنت کا اسلام کسی بھی طور سے قابل قبول نہیں ہے، بل کہ یہ کوئی اور شے ہے، یہ ساری چیزیں اور افکار الحاد میں داخل ہیں۔اصولِ حدیث کی روشنی میں ثابت ہونے والی احادیث کو کوئی شخص رد کردے یا اس کے تعلق سے اس میں تشکیک جیسی کیفیت پیدا ہوجائے، تو اسے سمجھ لینا چاہیے کہ اس کے ذہن و دماغ کی دہلیز پر الحاد دستک دے چکا ہے اور اب اگر اس نے اس کا درست عقیدے اور سچے ایمان باللہ سے علاج نہیں کیا تو وہ مکمل طریقے سے الحاد ی فتنوں کا اسیر ہوکر رہ جائے گا اور پھر خطرہ اس بات کا بھی آن پہنچے گا کہ وہ سرے سے ایمان سے ہی ہاتھ دھو بیٹھے اور اسلامی نام و کام کے باوجود اسلامی روح اور عقیدے سے عاری ہوکر خالص کفر پر موت آجائے۔ نعوذ باللہ من ذلک۔

            اسی طرح اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ قرآن نے صرف ہماری آخرت کی کامیابی کے لیے کچھ اصول بتائے ہیں؛ لیکن اگر ہم کو دنیاوی ترقی چاہیے تو قرآنی اصولوں اور احکامات کو خیر باد کہنا ہوگا۔ قرآن ہمارے لیے ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے،جس طرح یورپ نے اپنے مذہب کو چھوڑا تو انہوں نے ترقی کی ،جب تک ہمارے سامنے یہ قرآن اور اس کے حقوق اور پابندیاں رہیں گی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور احادیث کو ہم اپنے لیے بندش بنا کر رکھیں گے اتنی دیر تک ہم دنیا میں ترقی نہیں کرسکتے۔گویا قرآنی تعلیمات، سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم، دینی احکامات کو اپنی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتا ہے ،وہ شخص بھی بری طرح الحاد کی بیماری کا شکار ہوچکا ہے۔ مغربی الحادی فکر نے ہماری عوام بلکہ پوری دنیا کو اپنی یلغار میں لے لیا ہے، مسلم نوجوانوں کے سینوں کو ان کے خالق کے خلاف آلودہ اور پراگندہ کرکے ان میں ایک فکری آزادی اور قدرت ِالہی سے بیگانگی پیدا کردی ہے۔ دین ِ اسلام کے مخالفین نے ان کے دلوں کو کینہ سے بھر دیا۔ انہیں ان کی نرم و ملائم فطرت سے بیگانہ کردیا۔اسلام، مسلمان اور قرآنِ کریم کے ساتھ ملحدوں کی شدید عداوت کی وجہ سے تمام مادہ پرست گروہوں اور ان کے ہم نوا دوستوں نے اسلامی عقیدے کو عبث اور بیکار قرار دینا شروع کردیا ہے۔ اس سب کے پیچھے ان کا اصل ہدف اس دین ِ حنیف کے ارکان میں ارتعاش و ضعف پیدا کرنا، اسے بد نما و بد شکل قرار دینا اور اس کے نشانات ِ راہ کو مسخ کرنا ہے؛ تاکہ ایک مسلمان اس دنیا سے محرومِ ایمان ہوکر جائے۔ دراصل شیطان کی یہی چال اور اس کا یہی مقصد ہے کہ کس طرح نو عِ انسانی کو توحید سے نکال کر الحادی اور بے دینی ہی نہیں؛ بل کہ شرک کے راستے پر لگا دے، چناں چہ جب وہ اعلانیہ شرک کی لعنت میں گرفتار نہیں کرپاتا ہے تو تشکیک کی صورت اپناتا ہے اور پھر رفتہ رفتہ اسے الحاد کی حدود میں لاکر خدا سے بیزار کردیتا ہے، اس کی خالقیت اور حقیقی مسبب الاسباب کی تصویر کو پوری طرح مسخ کرکے ان کے دلوں میں فطرت اور نیچر نیز اسباب ہی کو خالق ہونے کے عقیدے کو راسخ کردیتا ہے۔

            یہ ملحدین اور بے دین اپنے مقصد و ہدف کو پانے کے لیے مختلف طریقے اپناتے ہیں، کبھی مکر و فریب کے لبادہ میں، کبھی دھوکہ و تدلیس کے پردہ میں اور بیشتر تو یہ لالچ اور دھمکی کے ساتھ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں؛ جن لوگوں کے دلوں میں مرض ہوتا ہے وہ ان ملحدوں کے تابع بن جاتے ہیں۔ دراصل یہی لوگ مغربی تہذیب اور اس کی سراب نما چمک دمک سے حیران و ششدر ہوجاتے ہیں، چوں کہ الحاد ہماری زندگی میں ایک امر ِ واقع بن گیا ہے جسے ٹی وی چینلز پھیلاتے ہیں اور انٹرنیٹ کے صفحات فروغ دیتے ہیں‘ اسی لیے براہِ راست اس کی حقیقت کو عیاں کرنا، اس سے برتاوٴ اور علاج کے طریقوں پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔

الحاد کا مطلب:

            درا صل الحاد (Atheism)درست راستے سے ہٹ کرگمراہی کا راستہ اختیار کرنا ہے؛چناں چہ عربی میں الحاد کے الفاظ اس شخص کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں جو مذہب کے معاملے میں بے راہ روی کے راستے پر گامزن ہو اور جس میں خالق ِحقیقی کے بجائے کسی اور کو خالق سمجھنے کا تصور موجود ہو، اس کو ملحد اور اس کے اس عمل کو الحاد کہتے ہیں۔

            ملحدین (Atheists)سے مراد وہ لوگ ہیں، جو اس کائنات کے رب اور اس کے خالق کا انکار کرتے ہیں، وہ خداوند قدوس جو عظیم طاقت اور قوت والا ہے، اس کو خالق نہ مان کر محض اسباب ہی کو فاعلِ حقیقی اور اصل خالق مانتے ہیں۔ جب کہ وہ خدا ہی ہے جو اس کائنات میں تصرف کرنے والا ہے؛جس کے علم اور حکمت سے اس کائنات کا نظام چل رہاہے؛ جس کے ارادہ و قدرت کے ساتھ اس کائنات کے واقعات و حادثات پیش آتے ہیں۔ ملحدین سمجھتے ہیں کہ کائنات یا اس کامادہ ازلی ہے؛ کائنات کے تغیرات امر ِاتفاقی کے تحت طے پاتے ہیں یا مادہ کی طبیعت اوراس کے قوانین کے تقاضوں کے تحت پورے ہوتے ہیں؛ زندگی اور زندگی کے تابع فکر وشعور ایسی سب چیزیں مادہ کی ذاتی ترقی کا نتیجہ ہیں، جب کہ سائنس یہاں از خود اپنے ہی وضع کردہ اصول کی خلاف ورزی کررہا ہے، کیوں کہ اس کا مسلمہ اصول ہے کہ ہر شے کا ایک سبب ہوتا ہے اور ظاہر ہوتا ہے، اس پر اس وقت تک اعتبار نہیں کیا جاسکتا ہے، جب تک وہ نظر نہ آجائے؛ یہاں کوئی بھی سبب نہیں دکھ رہا ہے، پھر بھی ملحد اسے بغیر خدا کے مان لیتا ہے، خدا کو خالق نہیں مانتا، ظاہر ہے کہ یہ ملحدین کی ہٹ دھرمی اور بلاوجہ کی اسلام دشمنی ہے۔

الحاد کے مصادراور مقامات:

            یوں تو الحاد کی کوئی بستی آباد نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ملک ایسا ہے جسے کلی طور پر ملک ِالحاد سے تعبیر کیا جاسکے، لیکن اس بات کی توثیق تو کی جاسکتی ہے کہ الحاد کا جرثومہ کہاں جنم لیتا ہے اور پھر وہاں سے ترقی کرکے کس طرح نہ صرف ایک فرد، ایک گھر اور خاندان کو متاثر کرتا ہے؛ بل کہ پوری بستی کو الحاد زدہ کرکے ملک ِالحاد بسادیتا ہے۔ دراصل جس طرح جہل انسان کو بے دینی کی طرف لاتا ہے اور انسان جہالت کی تاریکی کی وجہ سے خدا کی معرفت سے محروم رہ کر ستاروں، سیاروں اور چاند سورج اور دنیا کی مخلوقات کو خدا مان لیتا ہے اور شرک کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے، ٹھیک اسی طرح آج کے دور میں انسان جب سائنس، جغرافیہ اور ٹیکنالوجی کی موڈرن اور اعلی تعلیم حاصل کرتا ہے، تو اس کے ذریعے سے شرک کے بجائے سرے سے خدا کے ہی انکار کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، چوں کہ تعلیم ہی اشیاء کی حقیقت اور ان کی علل کو تلاش کرنے کا زینہ اور ذریعہ ہے، لیکن جب اس کی تلاش خدائی ہدایات اور ایمان بالغیب کی پاسبانی سے ہٹ کر ہوتی ہے، تو اگلا راستہ الحاد ہی کا ہوتا ہے، اس لیے ایک نوجوان جو عصری اور موڈرن تعلیم میں آگے بڑھ کر ترقی اور کامیابی کی اوج ِثریا پر پہنچ جاتا ہے، لیکن تحقیق و جستجو کے اس سفر میں اسلامی شریعت کی پاسبانی اور قرآن و حدیث کی رہ نمائی اور رفاقت نہ ہونے کی وجہ سے شیطانی ٹولہ اسے راستے ہی میں لوٹ لیتا ہے، اس کی فکر پر شب خون مارتا ہے اور رفتہ رفتہ اس کے ایمان کو سلب کرلیتا ہے اور اس کی جگہ اس میں تشکیک اور الحاد جیسی کیفیات پیوست کردیتا ہے،

بقول شاعر:

خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر

لب خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ

ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم

کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ

گھر میں پرویز کے شیریں تو ہوئی جلوہ نما

لے کے آئی ہے مگر تیشئہ فرہاد بھی ساتھ

            چناں چہ اس وقت اگر باریک بینی سے عصری تعلیم گاہوں اور ان میں رائج تعلیمی نظام، تعلیم اور نصاب تعلیم کا جائزہ لیا جائے یہ بات پوری طرح عیاں ہوکر سامنے آجاتی ہے کہ ایسی تعلیم سے الحاد کی طرف راستہ ہموار ہوتا ہے، جن فلاسفہ اور محققین کے اصولوں کی روشنی میں تعلیم دی جاتی ہے، ان کے افکار و خیالات کا دائرہ اورجو حدود اربعہ ہے وہ دہریت اور الحاد کے ساتھ کافی میل کھاتا ہے۔ مضامین چاہے وہ سائنس سے متعلق ہوں یا جغرافیہ اور ماحولیات سے، ہر ایک میں الحاد کا عنصر غالب ہے، جہاں اس بات کی کوشش کی جاتی ہے کہ کس طرح ایک نوخیز طالب علم کے دل و دماغ جو ابھی تک ہر شے سے ناآشنا اور ہر طرح کی فلسفی اور عقلی موشگافیوں سے آزاد ہے، میں یہ بات پیوست کردی جائے کہ اس دنیا کی ہر شے کا اصل فاعل اور تمام کائنات کا خالق ِحقیقی خود اسباب ہیں، انہیں میں رد وبدل اور تغیر و تبدل کے نتیجے میں کائنات کا سارا نظام جاری و ساری ہے، ہر عمل کا ایک رد عمل ہوتا ہے اور وہ مشاہد و محسوس ہوتا ہے، سائنس کے اسی اصول کے نتیجے میں ملحدین نے سائنسی اصولوں سے ایسے نوخیز طلبہ کے ذہن کو الحاد کے مسموم اثرات سے زہر آلود کردیا ہے، جو ابھی تک بالکل کورے کاغذ کے مانند بے داغ تھے۔ اس حقیقت سے پردہ اس وقت اٹھ جاتا ہے جب ہم عصری تعلیم گاہوں میں رائج کتابوں کا بہت گہرائی سے نہیں بل کہ محض سرسری مطالعہ کرتے ہیں، چناں چہ بطور نمونہ مشہور سائنس داں ڈارون کی تخلیق کے سلسلے میں ارتقائی مراحل کی تھیوری کا مطالعہ کرتے ہیں، اس کا کہنا ہے کہ انسان اپنی اصل کے لحاظ سے ایک بندر تھا پھر اس میں طرح طرح کے تغیرات و تبدلات ہوئے جس کے نتیجے میں صدیوں کے ارتقائی مراحل سے گزر کر ایک کامل انسان وجود میں آیا، یہ اصول جہاں مشاہدے اور سالہا سال کے تجربے کی روشنی میں مردود ہے، وہیں اس وقت کی جدید سائنس نے بھی اس کا شدت کے ساتھ انکار کرتے ہوئے یہ واضح کیا ہے کہ جو انسان اس وقت دنیائے رنگ وبو میں موجود ہے اپنی اصل کے اعتبار سے بندرنہیں تھا، مگر یہ بد قسمتی ہے کہ مغرب محض الحاد کی ترویج اور خالق حقیقی کے اثباتی دلائل کو رد کرنے ،نیز اس کے وجود کے نفی کے طورپر آج بھی اس نظریے سے صرف نظر نہیں کیے ہوئے ہے، دراصل یہ اسلام کے خدا کے وجود اور اس کی وحدت کے اصول کی نفی کی سعی لاطائل ہے جو ان کی گھٹی میں پڑی ہے۔ اسی طرح پودوں کی پیدائش کا تخلیقی عمل بھی الحادی نظرئے کا پوری طرح سے حامل ہے۔

            عصری تعلیم گاہوں میں پڑھائی جانے والی کتابوں میں یہ بات پوری تفصیل کے ساتھ موجود ہے کہ پودوں کی تخلیق محض توافق کی وجہ سے ہے، یعنی جس طرح کے ماحول اور حالات میں جو پودے وجود پذیر ہوتے ہیں وہ خود ماحول کی سازگاری اور ناساگاری کے ساتھ اپنی تخلیق خود کرتے ہیں، موسم، سردی، گرمی، بارش اور ہوا سبھی کا ایک ہمہ گیر امتزاج ان پودوں کی تخلیق کا باعث بنتا ہے، ایک پودا جو میدانی علاقوں میں پایا جاتا ہے، اس کی تخلیق وہاں کے ماحول کے ساتھ مقید ہوتی ہے، جب کہ پہاڑی اور گرم علاقوں اور برفانی وادیوں کے پودے اپنی بقا اور تحفظ میں اپنا ان کا توافقی عمل کارفرما ہوتا ہے، جو صحرائی علاقے ہیں ان میں پودے باوجودیکہ وہاں سخت گرمی ہوتی ہے کہیں نہ کہیں سے ان کو کچھ ایسی نمی مل جاتی ہے جو ان کو ہرا بھر رکھتی ہے۔ بیماریوں کی پیدائش اور ان کے پھیلاؤ میں جس نظرئے کی کارفرمائی ہے وہ یقینا الحاد کی طرف لے جانے کے لیے کافی ہے، سائنس کسی بھی بیماری کی وجہ اس کا سبب صرف اور صرف ظاہری سبب مانتی ہے، مثال کے طور پر کسی کو سردی ہے تو اسے فلیو کا وائرس ہے، اور یہی فلیو کا وائرس اس کا سبب حقیقی ہے، اگر یہ نہ ہو تو سردی نہیں ہوگی۔ اسلام اسی جگہ سائنس کے قدم یہ کہہ کرروک دیتا ہے، کہ وائرس میں بیماری پھیلانے کی طاقت خدا کے حکم کی محتاج ہے، چناں چہ معجزات انبیاء اس بات کے شاہد ہیں کہ مختلف اشیاء نے اپنے خواص سے بغاوت کرتے ہوئے مسبب اصلی یعنی خداوندقدوس کے حکم پر سر نگوں ہوکر جلانے، ڈبانے اور مارنے سے باز رہی ہیں، اسی طرح بسا اوقات انسان گھنے بادل کے باوجود بارش کا نام و نشان نہیں پاتا، یہ سب اس بات کی دلیل ہے کہ اسباب کسی بھی شے کی علت ِفاعلی نہیں ہیں؛ بل کہ اس کے پس پردہ خدا کی قدرت ہے اور یہیں سے اسلام اور سائنس کے درمیان پوری طرح واضح ہوجاتا ہے، کہ سائنس خدا کو ترک کرکے الحاد پھیلانا چاہتی ہے، جب کہ اسلام ہر شے سے الوہیت کا پیغام دیتا ہے، مگر سائنس کا یہ ذاتی پیغام نہیں ہے، بل کہ اسے جن اصولوں پر مرتب اور منتج کیا گیاہے، ان کے الحادی اور انکار خدا پر مبنی ہونے کی وجہ سے الحادی پیغام ملتا ہے، اگر اسے اسلامی نقطہٴ نگاہ سے دیکھا جائے تو ہر شے میں خدا کی قدرت ِکاملہ کا ظہور نظر آئے گا، اسی لیے تو قران ِکریم نے جگہ جگہ اللہ کی تخلیق میں غور کرنے کا حکم دیا ہے، اور ایسا کرنے والوں کو اولی الالباب یعنی اہل دانش و بینش قرار دیا ہے، چناں چہ ارشاد باری تعالی ہے کہ:

            ﴿إنَّ فی خَلقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرضِ وَاختِلَافِ اللَّیلِ وَالنَّہَارِ لآیَاتٍ لأُولی الأَلبَابِ. الَّذِینَ یَذکُرُونَ اللہَ قِیَامًا وَقُعُودًا وَعَلَی جُنُوبِہِم وَیَتَفَکَّرُونَ فی خَلقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرضِ رَبَّنَا مَا خَلَقتَ ہَذَا بَاطِلاً سُبحَانَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّار﴾} (آل عمران:190-191)

            ترجمہ: آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں رات دن کے ہیر پھیر میں یقینا عقل مندوں کے لیے نشانیاں ہیں، جو اللہ تعالی کا ذکر کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر لیٹے کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے ہیں، کہتے ہیں اے ہمارے پروردگار! تونے یہ بے فائدہ نہیں بنایا، تو پاک ہے، پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔

            فلکیاتی سائنس کے تعلق سے جو موہوم تصور سائنس دانوں نے قائم کر رکھا ہے ،وہ تو خود ان کی اپنے مستحکم اصول سے متصادم ہے، مشاہدہ اور تجربہ جو سائنسی علم کے ذرائع ہیں،یہ خود براہِ راست تو مزاحم ہو تے نہیں،اُن سے حاصل ہو نے وا لے عقلی نتائج ہی معارضہ پیدا کرتے ہیں۔اِس کو اِس مثال سے سمجھیے کہ مثلاً نیوٹن نے پتھر کو یا سیب کو اوپر سے گرتے ہوئے دیکھا،اِسی طرح لوہے کو مقناطیس کی طرف کھنچتے ہو ئے دیکھا،تو اِس مشاہدہ کا کسی چیز سے کیا تعارض ہے اور کسے خبط سوار ہوا ہے کہ اِس کا اِنکار کر دے؟لیکن مشاہدہ کی اِس قطعی دلیل سے نیوٹن نے جو نتیجہ اخذ کیا کہ زمین اور مقناطیس کے اندر قوتِ کشش ہے اور یہ قوت ہی پتھر اور لوہے کو اپنی طرف کھینچتی ہے،اِس قوت کا،اُسے مشاہدہ نہیں ہوا ہے،؛بلکہ یہ نیوٹن کا عقلی استنباط ہے،جسے نیوٹن کی تحقیق قانونِ کشش کے تقریباً۵۷۱/ سال بعد حضرت نا نوتوی نے اور سوا دو سوسال کے بعد آئنسٹائن نے چیلنج کر دیا۔ایک نے اپنے طریقہٴ کار سے قوتِ کشش کا ہی انکار کیااور اُسے باطل بتلایا۔دوسرے نے اُس کے قانون اور کلیہ ہو نے کا انکار کیا۔اور غور سے دیکھیے تو قوتِ کشش کے قانون کو تسلیم کرنے میں ایک باریک شرعی مفسدہ بھی ہے،جس پر حضرت نا نوتوی نے شرح و بسط کے ساتھ کلام فرمایا ہے۔ اسی لحاظ سے سمجھنا چا ہیے کہ د ورحاضر کی تمام مزاحمتیں اور گمراہیاں عقل اور فلسفہ سے ہی وابستہ ہیں؛ اسی طرح کائنات کی تخلیق اور اجرام سماوی کے ظہور کی تاریخ جو دنیائے سائنس میں مشہور ہے، وہ یہ ہے کہ یہ کائنات سوائے اس کے کہ یہ ایک غیرمنقسم اورلازاول ایٹم تھا اس میں زبردست گرمی اور تپش کی وجہ سے ایک انفجاری کیفیت پیدا ہوئی اور پھر پوری کائنات وجود میں آگئی، جسے سائنس کی اصطلاح میں Big Bang Theory کے نام سے جانا جاتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایٹم پہلے سے کیوں موجود تھا، اس کے وجود میں آنے کے کیا اسباب ہوئے، کیوں کہ کسی شے کے وجود کے لیے ایک علت ِفاعلی ہونا ضروری ہے، لیکن سائنسی دنیا کا پورا ٹولہ یہاں پوری طرح خاموش ہے، ظاہر ہے کہ یہ ایک ہٹ دھرمی اور زبردستی فکری الحاد تھوپنے کی کوشش ہے، جس کی دنیائے عقل و دانش میں قطعی گنجائش نہیں ہے، اسے تو کسی دیوانے کی ہذیان گوئی کے سوا کچھ اور نہیں کہہ سکتے ہیں۔ اسلام نے ان تمام عقدوں کا یہ حل پیش کیا ہے کہ دنیا کی کوئی شے بھی دائمی نہیں ہے اور ہر شے کا خالق صرف اور صرف خداوند قدوس ہے، ارشاد ربانی ہے:

            ﴿وَلَا تَدْعُ مَعَ اللَّہِ إِلَٰہًا آخَرَ لَا إِلَٰہَ إِلَّا ہُوَ کُلُّ شَیْءٍ ہَالِکٌ إِلَّا وَجْہَہُ لَہُ الْحُکْمُ وَإِلَیْہِ تُرْجَعُونَ﴾ (سورة قصص: 88)

            اور خدا کے ساتھ کسی اور کو معبود سمجھ کر نہ پکارنا اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اس کی ذات پاک کے سوا ہر چیز فنا ہونے والی ہے؛ اسی کا حکم ہے اور اسی کی طرف تم لوٹ کر جاو گے۔

ایک دوسرے مقام پر قران کریم یوں فرماتا ہے کہ:

            ﴿اللہ خالق کل شیء و ہو علی کل شیء وکیل﴾ (39: 62)

            اللہ ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے، اور وہی ہر چیز پر نگہبان ہے۔

            ایک اور جگہ قران کریم خدا کی خالقیت کو اجاگر کرتے ہوئے صاف لفظوں میں یو ں کہتا ہے:

            ﴿ذلکم اللہ ربکم لا الہ الا ہو خالق کل شیء فاعبدوہ و ہو علی کل شیء وکیل.﴾ (6:102)

            یہ ہے اللہ تعالی تمہارا رب! اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے ،تو تم اس کی عبادت کرو اور وہ ہر چیز کا کار ساز ہے۔

             لہٰذا اس ایٹم کا خالق بھی خدائے برترو بالا ہے، اس کے بعد جیسا کہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ اس ایٹم میں ایک دھماکہ ہوا جس سے کائنات وجود میں آئی، ظاہر ہے کہ کائنات کے سلسلے میں جن ماہ و سال کا ہم اندازہ لگاتے ہیں اور اسی طرح سے جن مواد کا ہم تصور کرتے ہیں، وہ خالق ِکائنات کے نزدیک قطعی معیار نہیں ہیں، اللہ پاک نے اس کائنات کو چھ دنوں میں محض اپنی قدرت سے پیدا کیا: ان ربکم اللہ الذی خلق السموات والارض فی ستة ایام (۷: ۴۵) ”بے شک تمہارا رب اللہ ہی ہے، جس نے سب آسمانوں اور زمین کو چھ روز میں پیدا کیا“۔

             اب ان میں جن چیزوں کی ضرورت تھی وہ بھی خدا نے اپنی قدرت سے پیدا کرکے ایک کمپیوٹرائزڈ نظام کے تحت ہر ایک کو پابند ِتخلیق کیا اور اس طرح پوری کائنات وجود میں آگئی، اس میں کہاں سے کسی خالق کا انکار لازم آتا ہے، کیوں کہ جس ایٹم کو سائنس کی دنیا آفرینش کائنات کی اساس سمجھتا ہے، اس کا خالق تو کوئی ہے اور وہی خدا ہے، مگر اس بوالعجبی کو کہیے کہ سائنس ہر جگہ کسی نہ کسی فاعل مشاہد کو خالق مانتا ہے، لیکن جب اور جس جگہ وہ نظر نہیں آتا ہے فوراً انکار کردیتا ہے، یہی وہ اصول ہے جو اسلام اور سائنس کے درمیان باہم متصادم ہے۔ اس طرح ہم پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں سائنس دانوں کا سارا زور الحاد اور تشکیک پر ہے اور اسلام نے ہمیشہ اس کی بیخ کنی کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ کسی نہ کسی منزل پر یہ ماننا لابدی ہوجاتا ہے کہ یہ کائنات از خود وجود میں نہیں آئی ہے؛ بل کہ اس میں کسی خالق ِحقیقی جو تمام کائنات کی تخلیق کی علت ِفاعلی ہے کا مکمل عمل دخل ہے، اس کے بغیر نہ تو کوئی پیدا ہوتا ہے اور نہ کوئی پتہ ہلتا ہے، نہ کوئی ذرہ اپنی جگہ ہٹتا ہے، کائنات کی چھوٹی سے بڑی تمام اشیاء اپنے وجود و بقا اور حرکت و نمو میں خالق ِحقیقی کے حکم کی محتاج ہیں، یہ اور بات ہے بظاہر کسی نہ کسی سبب کی کارفرمائی ہمیں ہر ایک میں نظر آتی ہے، لیکن ان تمام میں سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ جن اسباب کی وجہ سے یہ اشیاء حرکت و نمو کرتی ہیں، ان کا بھی تو کوئی خالق ہے؟ ظاہر ہے کہ بالکل آخر میں یہ ماننا پڑتا ہے کہ سب کے پس پردہ ایک ہستی ہے، جس نے ان کو ایک نظام کے تحت پیدا کرکے رواں و دواں کررکھا ہے اور خدا کا یہ ایسا نظام ہے جس میں نہ تو خلل ہوتا ہے، نہ کمی اور بیشی۔چوں کہ یہ خدائی نظام از ازل تا ابد اسباب و مسببات کے ایک مستحکم اور مرتب نظام کے ساتھ مربوط ہے کہ اس میں کسی خلل و خرابی، تاخیر و تعجیل کی گنجائش نہیں ہے، اس نظام کو کور مغز سائنس ظاہری اسباب کو حقیقی علت ِفاعلی سمجھ کر خالق حقیقی کا انکار کردیتا ہے؛جب کہ یہی خدا کا قانون اور سنت الٰہی ہے، جس میں کسی ترمیم و تنسیخ کی گنجائش نہیں ہے۔ یہ پورا نظام بے پناہ ترتیب کے ساتھ تخلیق کائنات کے روزِ اول سے مسلسل جاری ہے اور اس وقت تک جاری و ساری رہے گا ،جب تک اس کا خالق چاہے گا۔ اللہ کا فرمان ہے:

            ﴿ولن تجد لسنة اللہ تبدیلا﴾(۳۳:۲۶) اور تو اللہ کے دستور میں ہرگز رد وبدل نہ پائے گا۔

            ﴿ولن تجد لسنة اللہ تحویلا﴾ (۵۳:۳۴) سو آپ اللہ کے دستور کو بدلتا ہوا نہ پائیں گے۔

 الحاد کا سدِ باب:

            رہی بات اس اعتقادی اور فکری و عملی الحاد کی بیخ کنی جو ہمارے کالجز، اسکولوں اور عصری دانش گاہوں میں ایمان و اعتقاد کو دیمک کی طرح کھا رہا ہے، تو اس سلسلے میں سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین کرلینا بے حد ضروری ہے کہ الحاد کا منبع اور اس کا ماخذ تلاش کیا جائے اورپھر اس کے بیخ کنی کی کوشش کی جائے۔ الحاد کا منبع اور مآخذ کے سلسلے میں سب سے اہم یہ ہے کہ ہم اپنی اولاد کی تربیت کس انداز پر کرتے ہیں، بچپن ہی میں جب اپنی اولاد کو ایسے اسکولوں کی نذر کردیتے ہیں؛ جہاں تخلیق کا سبب فطرت اور نیچر کو قرار دیا جاتا ہے، جہاں ہر سبب کے لیے اس کا ظاہری مسبب تلاش کیا جاتا ہے، جبھی جاکر اس پر یقین کیا جاتا ہے، جب تک کسی شے کی علت فاعلی نہیں مل جاتی ہے، اس پر یقین کرنا شجرہٴ ممنوعہ سمجھا جاتا ہے اور اس طرح کے تصور یا یقین کو رجعت پسندی سے تعبیر کیا جاتا ہے، جب کہ تمام اشیاء کے وجود کو فاعلی علل کے ساتھ تسلیم کرنے کو ایک طرح جدیدیت اور تعلیم یافتہ ہونے کی دلیل سمجھی جاتی ہے۔ ظاہر ہے جب ہماری نسل اپنے ایام ِطفولیت سے ہی الحاد کی گود میں پرورش پاتی ہے اور خدا کے سوا کسی اور ہستی کے خالق ہونے کا تفصیلی یقین کرتی ہے؛ یہ اور بات ہے کہ اجمالی طورپر ہر بچہ اپنے گھر کے ماحول سے اتنا ضرور متاثر ہوتا ہے کہ وہ یہ کہنے پر مجبور ہوتا ہے کہ ہو نہ ہو ہر کام خدا کا ہی ہے، وہی ہمارا خالق ہے، لیکن عملًا اور تجزیاتی اور تجرباتی طور پر اس کے ذہن و دماغ کے افق پر اگر کسی کے خالق و مالک اور اس شے کے وجود میں آنے کے لیے سبب کے طور پر آتی ہے، تو وہ صرف اور صرف نیچر اور فطرت ہے۔ وہ بچہ جس طر ح سے اپنے گرد و پیش کا مشاہدہ اور تجربہ کرتا ہے اسی طرح اس کے سلسلے میں یقین کرتا ہے، چناں چہ جب وہ ستاروں کو دیکھتا ہے تو اسے اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ ان ستاروں کی روشنی ان کی اپنی ذاتی ہے اور یہ بڑی طاقت اور قوت والے ہیں؛ جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قصے میں یہ مذکور ہے کہ جب انھوں نے ستاروں کو دیکھا تو سمجھا شاید یہی خدا ہوں، لیکن جب ان سے بڑا چاند ظاہر ہوا تو پھر طاقت و قوت اور روشنی کے منبع کی وجہ سے آپ نے چاند کے سلسلے میں یہ سوچنا شروع کردیا کہ شاید یہی خدا ہے، لیکن جوں ہی رات کی تاریکی زائل ہوکر صبح کی سفیدی نمودار ہوئی، تو چاند کی چمک و دمک خاک میں مل گئی اور اس کی ساری آن و بان ختم ہوگئی، جس سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا گمان خاک میں مل گیا، لیکن جوں ہی صبح کی سفیدی زائل ہوئی اور سورج اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہوکر ہر چمکنے والی چیز کی چمک اور دمک کو زائل کردیا، توحضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہ یقین ہوچلا کہ شاید ہونہ ہو یہی ساری کائنات کا رب ہے؛ لیکن جب سورج بھی چند گھنٹوں کے بعد اپنی آب و تاب کو کھو بیٹھا اور بالآخر شام ہوتے ہی تاریکیوں میں ڈوب کر اپنی اوقات بتلاگیا، تو حضرت ابراہیم علیہ السلام یہ کہہ اٹھے کہ یہ سب خدا نہیں ہوسکتے۔ ظاہر ہوکر جو چھپ جائے اس سے دل کو کون لگائے، خدا تووہ ذات ہے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی، جس کی قدرت ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی، اس کے ساتھ کسی کی ادنی سی بھی شرکت نہیں ہے۔ چناں قرآن ِکریم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زبانی اس واقعے کا نقشہ کھینچتے ہوئے یوں فرمایا ہے:

            ﴿فَلَمَّا رَأَی الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ ہَٰذَا رَبِّی ہَٰذَا أَکْبَرُ فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ یَا قَوْمِ إِنِّی بَرِیءٌ مِّمَّا تُشْرِکُونَ.﴾(06:78)

            لیکن جوں ہی بچے اپنے سن شعور کو پہنچتے ہیں انہیں یہ سب سراب لگنے لگتا ہے اور اسکول یا کالج کی فضا میں ان ستاروں کے بارے میں پڑھتے ہیں تو ان کے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ یہ سب خود ہی سالہا سال سے روشن ہیں اور روشن رہیں گے، یہ ایک دو ستارے نہیں؛ بل کہ اربوں ستارے ہیں جو اس پوری فضا میں تیر رہے ہیں ۔اس طرح جو خیال ان کے دل کے نہاں خانوں میں تھا ا ب اسکولوں میں پڑھنے کے بعد اس میں مزید تقویت آجاتی ہے اور ان کے پس ِپردہ خدا کی طاقت کا احساس اور یقین غائب ہوجاتا ہے، جب یہ احساس اور یقین ایک حدسے آگے بڑھ جاتا ہے تو بچہ سرے سے خدا کے وجود کا انکار کر بیٹھتا ہے، ایسا ہوتا ضرورہے، لیکن ذرا کم؛ کیوں کہ تحقیق و جستجو کی اس اعلی منزل پر سارے طلبہ نہیں پہنچ پاتے ہیں، لیکن اپنی درسی کتابوں سے یہ بچے کافی حد تک خدا کی تخلیق کے تصور کی لو کو دھیمی کرلیتے ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ جب دنیا میں ان پر کوئی بھی مصیبت آتی ہے تو اولین توجہ جس شی کی طرف مبذول ہوتی ہے، وہ ہے سبب اور دوا و علاج، ان دوا اور علاج کے خالق کی طرف ذہن مبذول نہیں ہوتا؛ الا یہ کہ جب ہر طرح کے علاج و معالجے سے مجبور ہوجاتے ہیں تو پھر صرف اور صرف خدا ہی نظر آتا ہے۔ یہ سب اسی نصاب تعلیم اور الحادی نظریوں کی مرہون منت ہے ،جس کے سایے میں رہ کر اس بچے نے تعلیم حاصل کی ہے، اس الحادی نظریے اور عقیدے کی بیخ کنی مشکل سے ہوتی ہے، کیوں کہ اس مرحلے تک پہنچنے میں بہت دیر چکی ہوتی ہیاور الحاد اپنی جڑیں بچے کے دل کے نہاں خانوں تک پہنچا چکا ہوتا ہے۔ یہاں یہ بات اچھی طرح واضح ہوگئی کہ الحاد کس طرح کالجوں اور اسکولوں میں پیدا ہوتا ہے، اور بچوں کے دلوں میں کس طرح اپنا آشیانہ بنا کر ہمیشہ کے لیے براجمان ہوجاتا ہے۔

            اعتقا د و یقین کے تعلق سے تو الحاد انسان کو بیگانہٴ قدرت بناتا ہی ہے، خود اخلاقیات کا معیار بھی بدل دیتا ہے، اسکول اور کالجز میں جس نظریاتی اور حقیقی اخلاق کی تعلیم دی جاتی ہے، اور جن راستوں سے یہ اخلاقیات کی تعلیم آتی ہے، وہ سارے کے سارے الحاد کے بڑے مدرسے ہیں، جنہوں نے ہمیشہ اخلاقیات کی ایسی تعریف کی ہے، جن سے اسلام کا نظریہ ٴ اخلاق کا فرسودہ ہ اور ناقابل عمل ہونا، نیز اعلی سماجی قدروں کا ناقابل التفات ہونا بہت زیادہ قرین قیاس ہوجاتا ہے؛ چوں کہ یہی تعلیم اور تعریف پوری دنیا بالخصوص کالجز میں زبان زد خاص و عام ہے، اس لیے نتائج کا الحادی ہونا ضروری ہے۔ ہیگل اور کانٹ کے نظریات جو ایک طرف فرد کی آزادی اور اخلاقیات کے عرضی و نسبتی ہونے کے ساتھ تاریخی اجتماعیت کی وکالت کرتے ہیں، ان کے مان لینے سے اس وقت جتنی چیزیں جیسے کہ باہمی رضامندی سے زنا کی آزادی، کسی شادی شدہ عورت کا اپنی مرضی سے کسی بھی مرد کے ساتھ اپنی خواہش کا پورا کرنا، کسی شادی شدہ مرد کا بھی کسی بھی عورت کے ساتھ مرضی کے ساتھ رنگ رلیاں منانا، عورتوں کا بے حجاب ہونا، ستر کھول کر چلنا، گھر، بازار، آفس اور مسجد ہر جگہ مرد کے مساوی ہونے کی مانگ یہ اور اس طرح کی سماج میں جاری تمام برائیوں کو سند جواز مل چکی ہے؛وہ سب انہیں فلسفیوں کی دَین ہے؛ جنہوں نے خیر و شر کے ایسے پیمانے متعین کیے ہیں، جو قرآن و حدیث کے بیان کردہ خیر و شر یعنی جسے خدا خیر کہے وہی خیر اور جسے خدا شر کہے وہ شر ہے، اور یہ کہ شر اور خیر ایک ازلی حقیقت ہیں۔اور جس کے متعلق الہامی کتابوں میں سب کچھ لکھ دیا گیا ہے، نیز خدا نے ہر دور میں اسی خیر و شر کے متعلق تعلیم دینے کے لیے انبیاء علیہم السلام کو مبعوث کیا۔ چناں چہ اس ضمن میں ہیگل کا مشہور تصور خیر و شر کہ اجتماعیتوں کی تاریخ، طرز حیا ت ہی خیر و شراور اخلاقیات کے واحد پیمانے ہیں۔اور اخلاقیات وہ نہیں ہے جو انجیل اور قرآن میں لکھی ہے؛ بل کہ اخلاقیات سے مراد یہ ہے کہ تاریخی اجتماعیت نے ارتقائی (Development) کے لیے جو معیارات خیر و شر مقرر کیے ہیں، انہی سے اخلاقی معیارات اور پیمانے تشکیل پاتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کسی زمانے میں قرآن اور انجیل اخلاقیات کے پیمانے فراہم کرتے ہوں؛ کیوں کہ وہ اس زمانے کی تاریخی اجتماعیتوں کی اخلاقیات کے اظہارتھے، لیکن اب وہ تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں اور فی الحال اجتماعیتوں نے اخلاقیات کے اظہار کے جو نئے زینے عبو ر کیے ہیں، انہوں نے قرآن اور انجیل کو ازکارِ رفتہ شے بنا کر رکھ دیا ہے۔یہ تصور اور اصول عقلاً ،باطل اور ناقابل ِ عمل ہے، کیوں کہ تاریخ میں اخلاقی پیمانے بدلتے رہتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ تاریخ میں تغیرات کے اظہار کے ساتھ ساتھ اخلاقی پیمانے، خیر و شر کے معیارات بدلتے رہتے ہیں اور ہر آنے والا وقت پہلے سے بہتر ہے اور اس کے پیمانے پہلے دور کے مقابلے میں فوقیت رکھتے ہیں؛ کیوں کہ ہر آنے والے دور میں ذات ِمطلق اپنی تخلیق اور تکمیل کے اگلے اوربر تر مرحلے میں داخل ہو چکی ہوتی ہے۔ اسی کا نام ترقی ہے، لہذا ہیگل کے اصول خیروشر کو ماننے کی صورت میں سراپا خیر سراپا شر ہوجائے گا، اور سراپا شر ایک وقت سراپا خیر بن جائے گا۔ بہر کیف یہی وہ فلسفیانہ اصول ہیں جو کالجز میں پڑھائے جاتے ہیں ،جن کی وجہ سے معاشرہ اور سماج پوری طرح متاثر ہوتا ہے، اور سماج سے خیر و شر کی تمیز اٹھ جاتی ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ ان پیمانوں اور اصولوں کی بیخ کنی کے لیے دلائل کے ساتھ ٹھوس حقائق پر مبنی اسلامی اصولوں کی تعلیم کا انتظام کیا جائے؛ تاکہ ملحدانہ خیالات اور نظریات کا پہلے ہی مرحلے میں قلع قمع ہوجائے۔

            اب ان کے ازالے یا سرے سے ان کے وجود کو ہی روکنے کے کی کیا شکلیں ہیں، تو اس سلسلے میں دو معروضات پیش ِخدمت ہیں، جن میں سے کسی ایک کو بھی اختیار کیا جائے تو اسکول اور کالجز میں اس طرح کی الحادی کیفیت سے طلبہ کو نجات مل سکتی ہے۔ اول یہ کہ اسکول اور کالجز کے طلبہ کی ابتدائی تعلیم دین کے اعتقادی مسائل پر مشتمل ہو اور ان کو بچپن سے ہی اللہ کی وحدانیت اور اس کی تخلیق کے تعلق سے کتابیں نصاب تعلیم میں داخل کی جائیں اور ان کے دل ودماغ میں اللہ تعالی کے خالق ہونے کے عقیدے کو راسخ کرایا جائے، ان میں عقیدہٴ ایمان بالغیب جو اسلام کا سب سے اہم اور بنیادی جز ہے اور جو اسلام اور سائنس کے درمیان حد ِفاصل اور خط ِامتیاز ہے ان کے دل میں راسخ کیا جائے ؛تاکہ اس کے بعد جو بھی نصاب تعلیم پڑھایا جائے اور اس میں کیسی ہی بحث ہو، طالب علم کسی بھی قیمت پر اللہ کی خالقیت اور مغیبات پر یقین کرنے سے کسی بھی طرح سمجھوتہ نہ کرے، اس طرح طالب علم الحاد ی اثرات سے بچ سکتا ہے۔ اگر شروع سے نصاب تعلیم میں اس طرح کی کتابیں میسر نہ ہوں یا پھر نصابِ تعلیم اس کا متحمل نہ ہو، تو دوسرا طریقہٴ کار یہ ہوسکتا ہے کہ طلبہ کو اضافی طور پر عقائد کے مسائل سے روشناس کرایا جائے، خواہ وہ ورک شاپ کے ذریعے سے ہو یا پھر کسی اور ذریعے سے؛ تاکہ نصاب تعلیم کے ذریعے سے آنے والے شکوک و شبہات کا ازالہ ہوتا رہے۔ اگر ان امور کا خیال نہ کیا گیا تو الحادی رنگ جس طرح سے طلبہ کے ذہن و دماغ پر چڑھتا جارہا ہے، وہ بے حد خطرناک اور عقائد کے سلسلے میں ان کے ایمان کا رہزن ثابت ہوسکتا ہے اور مسلمان رہتے ہوئے ایمان کی خو‘ اور بو سے بھی محروم رہ سکتے ہیں۔ اور خدا نخواستہ اگر اصلاح ِعقائد کے بغیر ان کو موت آگئی تو وہ ایمان کے بجائے کفر پر ہوسکتی ہے، اللہ تعالی ایسی کیفیت سے کسی کو بھی دوچار نہ کرے۔ شاعر مشرق علامہ اقبال  نے جب یورپ کا دورہ کیا، وہاں کے نصاب تعلیم کا جائزہ لیا، جس سے خود بھی ایک طویل عرصے تک خوشہ چینی میں مصروف رہے، اور فلسفے کی اعلی تعلیم بھی وہیں سے حاصل کی، تو وطن واپس آکر مغربی افکار و خیالات کی بیخ کنی میں مصروف ہوگئے، اور ایک موقعے پر فرمایا:

یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا

افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی

            اس لیے اس وقت اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ کالج اور عصری اداروں میں توحید کا رنگ بھرا جائے اور اس کے لیے ایک لائحہٴ عمل تیا ر کیا جائے۔ اضافی طور پر کچھ کتابیں، یا الگ سے کسی ورک شاپ کا انتظام کیا جائے،تاکہ ملحد فلاسفہ کے اصولوں کی روشنی میں الحادی تعلیم کے اثرات کو پوری طرح زائل کیا جاسکے۔ اگر ہم ایسا نہ کرسکے تو تعلیم کے نام پر ہم جہالت کے طلب گارہوں گے، کیوں کہ جس تعلیم سے خدا کی معرفت حاصل نہ ہو وہ تعلیم نہیں جہالت ہے۔ جب تک ہم اسلام، قرآن اور سنت کی تعلیم سے آراستہ نہیں کریں گے اس وقت تک ہم الحاد اور بے دینی کا سدباب نہیں کرسکتے۔ الحاد یا تو بغض ونفاق کی وجہ سے آتاہے یا چاہت کی وجہ سے آتا ہے۔ بغض و نفاق کی وجہ سے آنے والے الحاد کا کوئی علاج نہیں، وہ تو اسلام دشمنی پر مبنی ہوتا ہے، رہی بات، اگر الحاد میں خود انسان کی اپنی چاہت کا دخل ہے تو یہ اس لیے ہے کہ انسان کو اصل حقیقت کا پتہ نہیں ہوتا، وہ الحادی نظریوں جو بظاہر عقل و فہم کے موافق دکھتے ہیں، انسان ان کے جال میں پھنس کر اپنی عاقبت تباہ کر لیتا ہے؛ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم بھرپور طریقے سے تحریک چلائیں، صرف مدارس میں ہی نہیں؛ بل کہ مساجد میں دورانِ تعطیلات کالج اوریونیورسٹیوں کے طلبہ کو چھوٹی چھوٹی کتابیں پڑھائیں، کوئی مسجد اور فیکٹری ایسی نہیں ہونی چاہیے ،جس میں کسی مستند عالم کے ذریعے قرآن کا ترجمہ، صحیح بخاری کی ایک حدیث کا ترجمہ نہ پڑھایا جائے۔ اگر چہ اغیار نے اپنے میڈیا اور خود نصاب ِتعلیم کے ذریعہ پوری طرح الحاد پیدا کرنے کی کوشش کرلی ہے؛تاہم، ہم حساسِ کمتری کا شکار نہ ہوں؛ بل کہ یہ دیکھیں کہ ہمارے یہاں مساجد کی صورت میں پلیٹ فارم موجود ہیں؛ اگر خطبہٴ جمعہ کو صحیح تیاری کے ساتھ دیا جائے اس میں فلاسفہ کی الحادی موشگافیوں سے پردہ اٹھایا جائے اور اس کے مقابلے میں درست اسلامی تصور کو عام کیا جائے، اس کا اہتمام خاص طور سے کالج کی مسجد میں کیا جائے اگر کالج میں مسجد نہ ہو تو محلے کی مسجدوں میں حاضرین کی رعایت سے موقعہ بموقعہ اس طرح کے مضامین پر تقریریں کی جائیں، اس طرح ہم ایک دن میں لاکھوں لوگوں کو دین کی دعوت پہنچا سکتے ہیں۔سلف صالحین کے دروس اور حلقات مساجد میں ہی ہوا کرتے تھے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ودعوت کیا ہوا کرتی تھی فرمان باری تعالیٰ ہے:

            ﴿ و یعلمہم الکتاب و الحکمة ﴾(2: 129)

             اور نبی انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتے ہیں۔

            یہی وجہ ہے کہ صحابہ الحاد و بے دینی کی بدعت کے شکنجے میں نہیں آئے؛ کیوں کہ انہیں خالص کتاب اللہ وسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم سے بہرہ ور کیا گیا تھا۔تو ہمیں ایسے اسکول اور مراکزتعمیر کرنے کی ضرورت ہے کہ جس میں عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ قرآن وحدیث وتوحید کے مضامین کی بھی تعلیم دی جائے۔ الحمد للہ کچھ ایسے تعلیمی مراکز ضرور ہیں؛ جہاں عصری تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم اور تربیت کا نظم ہے، خود ہمارے جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا نے جتنے بھی عصری ادارے قائم کیے ہیں، ان سب میں دینی تربیت ، عقیدے اور ایمان کے تحفظ کے وسائل ضرور رکھے ہیں؛ جہاں وقتاً فوقتاً دینی لیکچر وغیرہ ہوا کرتے ہیں اور ان کا نظام تربیت بھی اچھوتا ہے جس سے اس فتنے سے طلبہ محفوظ رہتے ہیں۔اس طرح اگر ملک کے طول و عرض میں ایسے ادارے قائم کیے جائیں یا قائم شدہ اداروں میں عقیدے کے تحفظ کے لیے مناسب اقدامات کیے جائیں، تو یقینا اس طرح کی کوشش رنگ لائے گی اور ہمارے ادارے ایک طرف سائنس کی رصدگاہیں ہوں گی ،تو دوسری طرف انہیں کے ذریعے ان میں ایمان و عقیدے کی جڑیں بھی مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جائیں گی، ان شاء اللہ۔